وہ جناح ہسپتال میں داخل ہوا تو حیران رہ گیا۔ اتنا بڑا ہسپتال اور ایسا ہجوم اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بہن کے ہمراہ اپنے بہنوئی کے علاج کے سلسلے میں آج صبح ہی لاہور پہنچا تھا۔ پتہ نہیں اسے کیا مرض لاحق تھا کہ وہ چند ماہ میں ہی سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ پیٹ میں بار بار ٹیسیں اٹھتیں اور وہ درد سے بلبلا اٹھتا۔ مقامی ڈاکٹروں نے اپنی اپنی ہانکنے کے بعد اسے لاہور جانے کا مشورہ دیا تھا۔
ہسپتال میں ہر طرف مرد، عورتیں، بوڑھے، بچے یوں امڈے پڑے تھے جیسے پورا لاہور بیمار پڑ گیا ہو۔ وہ سب شعبہ فارمیسی کے سامنے مخروطی چھت والے کیفے ٹیریا میں آ کر بیٹھ گئے جو لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ عقبی دیوار سے ملحق قطار میں بنے ہوئے شیشے کے کیبن اشیائے خورد و نوش سے بھرے ہوئے تھے اور آٹھ دس لڑکے نہایت چابکدستی سے گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھے۔ اس نے دو کپ چائے کے ساتھ بہنوئی کے لئے جوس منگوایا، جسے وہ گھونٹ گھونٹ حلق میں اتارنے لگا۔ چائے پینے کے بعد وہ کافی دیر تک کیفے ٹیریا میں بیٹھا سوچتا رہا کہ کہاں سے ابتدا کی جائے۔۔۔؟ نہ اسے یہاں کا کچھ پتہ تھا اور نہ ہی اس کی کسی سے جان پہچان تھی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد اس نے بیگ سے اپنے بہنوئی کی ہسٹری فائل نکالی اور بہن کو تسلی دیتا ہوا کیفے ٹیریا سے باہر آ گیا۔ اس نے ایک لمحے کے لئے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے سامنے بنے شعبہ فارمیسی کی سیڑھیاں چڑھ کر اندر داخل ہو گیا۔ اسے ایک دم سے ٹھنڈک کا احساس ہوا جبکہ باہر کافی گرمی پڑ رہی تھی۔ راہداری میں آنے جانے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ ایک بڑے کاؤنٹر کے ساتھ ہی اس کی نظر OPD کی لٹکتی تختی پر جا پڑی، وہ سیدھا اسی طرف لپکا۔ عورتوں اور مردوں کی الگ الگ قطاریں تھیں۔ وہ قطار میں کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ ایک نوجوان لڑکا کھڑکی کے اس پار بڑا سا رجسٹر کھولے اندراج میں مصروف تھا۔ آدھے گھنٹے بعد اس کا نمبر آ گیا اوراس نے OPD سے چٹ حاصل کر لی۔ اس لڑکے نے اسے مریض کو کمرہ نمبر 27 میں دکھانے کو کہا تھا۔
وہ واپس آیا اور بہنوئی کو ساتھ لے کر کمرہ نمبر 27 کی طرف روانہ ہو گیا۔ OPD کمرے پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ کے بعد ہی شروع ہوتے تھے۔ وہ بہنوئی کی کمر میں ہاتھ ڈالے چیونٹی کی چال چل رہا تھا۔ کمزوری کے باعث اس کے بہنوئی کے لئے ایک قدم بھی اٹھانا محال تھا۔ وہ کافی لمبی راہداری تھی، جہاں مردوں اور عورتوں کا ایک سیلاب آیا ہوا تھا۔ جدید طرز کے ہسپتال کی چھت میں تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد درجنوں برقی قمقمے روشن تھے، جس سے چاروں طرف روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ہسپتال کے فرش پر مختلف رنگوں کے تیروں کے نشان بنے ہوئے تھے جو لوگوں کی رہنمائی کے لئے بنائے گئے تھے۔ نوجوان ڈاکٹروں کی ٹولیاں سفید کوٹ پہنے اور گلے میں سٹیتھوسکوپ لٹکائے آپس میں باتیں کرتے ہوئے آ جا رہے تھے۔ نرسیں بھی بھاگتی پھر رہی تھیں۔ ہسپتال کا عملہ سٹریچر پر مریضوں کو لٹائے ادھر سے ادھر آ جا رہا تھا اور کئی مریض وہیل چیئر پر بھی نظر آ رہے تھے۔ اپنے بہنوئی کی ابتر حالت اور لڑکھڑاتی چال کو دیکھتے ہوئے اس کے جی میں بھی آئی کہ کاش اسے بھی کہیں سے وہیل چیئر مل جاتی مگر اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہیل چیئر کہاں سے ملتی ہے۔ وہ ایسی ہی باتیں سوچتا ہوا دائیں طرف کو مڑ گیا کیونکہ راہداری دائیں طرف کو مڑ رہی تھی۔ موڑ مڑتے ہی سامنے ایک بہت بڑا ہال آ گیا جو لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ ہال کے بائیں جانب قطار میں بنے ہوئے کمرے دور تک چلے گئے تھے اور ہر کمرے کے آگے لوگوں کی اچھی خاصی بھیڑ موجود تھی۔ وہ سیدھا 27 نمبر کمرے کے آگے جا رکا جہاں کافی لوگ جمع تھے۔ کمرے کے ساتھ ہی کرسیوں کی ایک قطار دیوار میں پیوست تھی۔ اس نے بہنوئی کو ایک خالی کرسی پر بٹھا کر اٹینڈنٹ کے پاس چٹ جمع کروا ئی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔ ایک گھنٹے کے تھکا دینے والے انتظار کے بعد اس کے بہنوئی کا نام پکارا گیا۔ وہ بہنوئی کا بازو تھامے کمرے میں داخل ہو گیا۔ اندر ایک نوجوان ڈاکٹر موجود تھا۔ اس نے اس کے بہنوئی کا معائنہ کرتے ہوئے ہسٹری فائل دیکھی اوراس سے مخاطب ہوا۔
’’آپ کے مریض کی حالت کافی خراب لگ رہی ہے اور میرے خیال سے یہ سینئرز کا کیس ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنے مریض کو کمرہ نمبر 30 میں لے جائیں۔ وہاں سینئر ڈاکٹر موجود ہیں وہی ان کو دیکھیں گے۔‘‘
ڈاکٹر کی بات سن کر وہ خالی خالی نظروں سے اسے دیکھنے لگا اور اثبات میں سر ہلاتا ہوا چپ چاپ بہنوئی کو ساتھ لے کر کمرے سے باہر آ گیا اور سیدھا 30 نمبر کمرے کی طرف بڑھ گیا جہاں رش قدرے کم تھا۔ اٹینڈنٹ نے چٹ دیکھ کر انہیں اندر بھیج دیا۔ وہ ایک ہال کمرہ تھا، جہاں ایک طرف بینچ پر مریض بیٹھے تھے۔ سینئر ڈاکٹر کی بڑی سی کرسی خالی پڑی تھی جس کے اطراف میں جونیئر ڈاکٹر آپس میں گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر آ گیا اور مریضوں کو دیکھنے کا عمل شروع ہو گیا۔ جلد ہی اس کی باری آ گئی۔ ہسٹری فائل دیکھنے کے بعد ڈاکٹر نے اس کے بہنوئی کو بیڈ پر لٹایا اور کافی دیر تک اس کا معائنہ کرنے کے بعد اس سے گویا ہوا:
’’colonoscopy کا ٹیسٹ لکھ کر دے رہا ہوں، جب تک یہ ٹیسٹ نہیں ہو جاتا تب تک بیماری کا پتہ نہیں چل سکتا۔ آپ میڈیکل وارڈ کے یونٹ نمبر 3میں جا کر ٹیسٹ کے لئے وقت لے لو۔‘‘
چٹ اس کے ہاتھ میں تھما کر ڈاکٹر دوسرے مریضوں کی طرف بڑھ گیا۔ وہ الجھن میں ڈوبا بہنوئی کو لے کر کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس نے اسے ایک خالی کرسی پر بٹھا کر تھوڑی دیر میں واپس آنے کا کہا۔ وہاں ایک بڑا سا کاؤنٹر بھی تھا جہاں ہسپتال کا عملہ موجود تھا۔ اس نے ان سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ میڈیکل یونٹ نمبر 3 ہسپتال کے تیسرے فلور پر ہے۔ وہ راستوں سے انجان تھا، اس لئے پوچھتا پوچھتا وہ بڑی مشکلوں سے میڈیکل وارڈ کے یونٹ نمبر3 تک پہنچ گیا۔ ہسپتال کی عجیب بھول بھلیوں میں اسے کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے اور کس طرف کو جا رہا ہے۔ سیڑھیاں چڑھ چڑھ کر اس کا برا حال ہو گیا تھا۔ یونٹ 3 ہسپتال کے تیسرے فلور پر تھا، جہاں زنانہ اور مردانہ وارڈ میں ہاؤس جاب ڈاکٹرز مریضوں کے چیک اپ میں مصروف تھے۔ کاؤنٹر پر دو نرسیں ڈیوٹی پر موجود تھیں۔ اس نے ایک نرس کو چٹ دکھا کر ٹیسٹ کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا
’’ڈاکٹر صاحب نیچے گئے ہوئے ہیں، آپ انتظار کریں، وہی آپ کو ٹیسٹ کے بارے میں بتائیں گے۔‘‘
نرس کی بات سن کر وہ جھنجھلا اٹھا۔ عجیب ہسپتال ہے جہاں بھی جاؤ، آدمی کو انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جاتا تھا۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کے انتظار کے بعد ڈاکٹر آ گیا۔
’’colonoscopy کے لئے آپ اپنے مریض کو جمعے والے دن لے آئیں۔‘‘
ڈاکٹر نے اپنی فہرست میں اس کے بہنوئی کا نام لکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا۔
’’ڈاکٹر صاحب۔۔۔ جمعہ تو ابھی بہت دور ہے، کیا یہ ٹیسٹ پہلے نہیں ہو سکتا۔۔۔؟‘‘
اس نے ڈاکٹر کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہا
’’نہیں بھئی۔۔۔ جمعے سے پہلے ہم یہ ٹیسٹ نہیں کر سکتے۔ اس ٹیسٹ کے لئے مریض کو تین دن پہلے تیاری کروائی جاتی ہے، تب جا کر یہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر نے اسے دو ٹوک جواب دیتے ہوئے کیا۔
’’تو براہِ مہربانی آپ مریض کو ایڈمٹ کر لیں۔‘‘ اس نے OPD چٹ جیب میں رکھتے ہوئے کہا
’’میں مریضوں کو ایڈمٹ نہیں کر سکتا اور نہ ہی یہ میرے اختیار میں ہے۔ آپ نیچے یونٹ نمبر 2 میں جا کر ڈاکٹر تیمور سے ملیں، وہی مریضوں کو داخل کرتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے بے نیازی سے کہا اور وہاں سے چل دیا۔ اسے ڈاکٹر کی بات زہر لگی۔ مسلسل چلنے اور سیڑھیاں چڑھنے سے اس کی ایڑیاں درد کر رہی تھی اور اس میں چلنے کی مزید سکت نہیں تھی مگر یہاں عجیب گورکھ دھندہ تھا کہ ہر ڈاکٹر کسی دوسرے ڈاکٹر کے پاس بھیج دیتا تھا۔ چار و ناچار وہ سیڑھیاں اتر نے لگا اور سیدھا یونٹ نمبر 2 میں جا پہنچا۔ جب وہ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر تیمور آپریشن تھیٹر میں ہے۔ دو تین لوگ اور بھی اس کے منتظر بیٹھے تھے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد بالآخر آپریشن تھیٹر سے ایک نوجوان ڈاکٹر باہر نکلا، جس نے سبز رنگ کا مخصوس لباس پہن رکھا تھا، پاؤں میں چپل تھی اور سر پر سبز رنگ کی ٹوپی پہنی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ دو نرسیں بھی تھیں جنہیں وہ کچھ ہدایات دیتا ہوا اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ انتظار میں بیٹھے ہوئے لوگ سیدھا اس کی طرف لپک پڑے۔ اس نے ایک نرس سے پوچھا تو پتہ چلا کہ یہی ڈاکٹر تیمور ہے۔ وہ بھی اس کے کمرے میں داخل ہو گیا اور باری کا انتظار کرنے لگا۔ جب اس کی باری آئی تو اس نے ڈاکٹر سے نہایت عاجزی کے ساتھ اپنے بہنوئی کو ایڈمٹ کرنے کی گذارش کی۔
’’نہیں بھئی۔۔۔۔ ہم اس طرح مریضوں کو داخل نہیں کر سکتے۔ ہسپتال کی پالیسی کے مطابق جب تک مریض کا ٹیسٹ نہیں ہو جاتا، اس کی رپورٹ نہیں آ جاتی، بیماری کا پتہ نہیں چل جاتا تب تک مریض یہاں ایڈمٹ نہیں ہو سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے تیز تیز لہجے میں بولتے ہوئے اسے صاف جواب دے دیا۔
’’مگر ڈاکٹر صاحب۔۔۔ آج تو سوموار ہے اور ٹیسٹ جمعے کو ہونا ہے۔ تب تک مریض کو لے کر ہم کہاں جائیں گے۔۔۔؟ ہم تو بہت دور سے سفر کر کے آئے ہیں۔‘‘
اس نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’بھئی یہ آپ کا مسئلہ ہے کہ آپ مریض کو لے کر کہاں جاتے ہیں۔ ٹیسٹ رپورٹ آنے تک ہم آپ کے مریض کو داخل نہیں کر سکتے۔‘‘
ڈاکٹر نے اسے دو ٹوک جواب دیا اور اٹھ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ وہ عجیب سی نظروں سے اسے گھورتا رہ گیا۔ ڈاکٹر کے کھردرے رویئے پراسے شدید غصہ آ رہا تھا۔ وہ کچھ لمحوں کے لئے مایوسی سے سر جھکائے وہاں کھڑا رہا اور پھر نڈھال قدموں کے ساتھ چلتا ہوا وہاں سے نکل آیا۔ اس کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی۔ اسے آس پاس کا کوئی ہوش نہیں تھا وہ سست روی سے سیڑھیاں اترا اور مردہ چال چلتے ہوئے ہال میں پہنچ گیا۔ اس نے دور سے ہی دیکھ لیا تھا کہ اس کا بہنوئی شکستہ حالت میں بنچ پر آنکھیں موندے لیٹا ہوا تھا۔ سہ پہر کے دو بج رہے تھے۔ ہسپتال کا وقت ختم ہو گیا تھا اور OPD کمروں کو تالے پڑ چکے تھے، گنتی کے چند ایک لوگ ہی وہاں موجود تھے۔ جب وہ بہنوئی کے پاس پہنچا تو وہ غصہ سے بولا۔
’’سارا دن لاوارثوں کی طرح پڑا درد سے کراہتا رہا ہوں اور تم اب آ رہے ہو۔‘‘
جواب میں وہ ہسپتال کے ناکارہ نظام کو کوستا ہوا اسے لے کر چیونٹی کی چال چلتا ہوا کیفے ٹیریا میں آ گیا جہاں اس کی بہن آنکھوں میں فکر کی جوت جگائے ان کی منتظر بیٹھی تھی۔ وہ بہن کے پوچھنے سے پہلے ہی گویا ہوا۔
’’دو تین ڈاکٹروں نے بڑی تسلی کے ساتھ چیک اپ کیا ہے اور بھائی جان کو کل ہسپتال میں داخل کرنے کا کہا ہے۔‘‘
اس نے بہن سے اصل بات چھپا دی تھی۔ کیفے ٹیریا ابھی تک لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کافی دیر تک وہاں چپ چاپ بیٹھا رہا اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہا۔ مایوسی اور بیزاری اس کے چہرے سے عیاں تھی۔ بالآخر وہ بہن اور بہنوئی کو ساتھ لے کر باہر آیا اور ایک آٹو رکشہ میں انہیں اپنے ساتھ بٹھا کر انار کلی کی طرف روانہ ہو گیا جہاں اس نے ہوٹل میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا۔ شام ہونے کو تھی، بستر پر گرتے ہی اسے شدید تھکاوٹ کا احساس ہوا، اس کی کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھ رہی تھیں اور پاؤں بھی درد کر رہے تھے، اس لئے جلد ہی اسے نیند نے گھیر لیا۔
مگر بہنوئی کی تکلیف نے اسے چین سے سونے نہ دیا جو پوری رات تکلیف کی شدت سے تڑپتا رہا۔ پیٹ کے درد نے اسے ادھ موا کر دیا تھا۔ اس کی بہن بھی ساری رات جاگتی رہی۔ اسے ڈاکٹروں کی بے حسی پر شدید غصہ آ رہا تھا جنہوں نے تکلیف سے تڑپتے ہوئے ایک انسان کو ہوٹل میں لا پھینکا تھا۔ صبح وہ بہن کے جگانے پر جاگا جو بجھا چہرہ لئے اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی سوجی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ اس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹی تھی۔ جلدی سے ناشتہ کرنے کے بعد وہ ان کو ساتھ لے کر ہسپتال روانہ ہو گیا۔
ہسپتال میں کل سے بھی زیادہ رش تھا اور آج اس کے بہنوئی کی حالت بھی کافی خراب تھی، اس لئے وہ انہیں کیفے ٹیریا کے پیچھے بنے ایک چمن میں لے گیا، جہاں اس نے ایک سایہ دار جگہ پر کمبل بچھایا اور اپنے بہنوئی کو لٹا دیا۔ وہاں اور لوگ بھی چادریں چٹائیاں بچھائے سوئے ہوئے تھے۔ بہن کوتسلی دیتا ہوا وہ ہسپتال کے اندر چلا گیا۔ OPD والا ہال لوگوں سے مکمل طور پر بھرا ہوا تھا مگر ابھی تک ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں آئے تھے۔ اس نے 30 نمبر والے کمرے کے اٹینڈنٹ سے بات کر کے اسے اپنا مسئلہ بتایا اور ڈاکٹر سے ملنے کی درخواست کی، اس نے ہامی بھر لی۔ کافی دیر انتظار کے بعد بالآخر ڈاکٹر آ گیا۔ عوام کا ایک ریلا اٹینڈنٹ پر ٹوٹ پڑا۔ ایک دو بار کی منت سماجت کے بعد اٹینڈنٹ نے اسے اندر بھیج دیا۔ اس نے ڈاکٹر صاحب سے اپنے بہنوئی کو ایڈمٹ کرنے کی درخواست کی مگر ڈاکٹر صاحب نے بات کرتے ہوئے صاف صاف کہہ دیا:
’’میں اس معاملے میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میری ذمہ داری مریض کو چیک کرنا ہے اور چیک اپ کے بعد میں نے ٹیسٹ تجویز کر دیا ہے۔ مزید میں کچھ نہیں کر سکتا۔ پھر بھی آپ اوپر میڈیکل یونٹ3 میں جا کر ڈاکٹر لیاقت سے میرے ریفرنس سے مل لیں۔‘‘
ایک امید لے کر وہ وہاں سے اٹھا اور سیدھا یونٹ 3 میں پہنچا۔ مگر ڈاکٹر لیاقت کلاس لینے میڈیکل کالج گئے ہوئے تھے۔ کافی دیر انتظار کے بعد وہ آئے تو اس نے اسے اپنی پریشانی بتائی مگر وہ ایک دم آگ بگولہ ہو گیا۔
’’میں یہ بات ماننے کو تیار ہی نہیں کہ اتنے بڑے لاہور میں تمہارا کوئی جاننے والا نہ ہو۔ یہاں سب کا کوئی نہ کوئی واقف کار ضرور ہوتا ہے۔ میں حیران ہوں کہ تم جیسے جھوٹے لوگ پتہ نہیں کیوں اپنے مریضوں کو ہسپتالوں میں ذلیل کرنے آ جاتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکتا۔‘‘
اس نے آنکھیں نکالتے ہوئے غضبناک انداز میں کہا۔ وہ ڈاکٹر کے غیر انسانی رویئے پر ششدر رہ گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک ڈاکٹر بھی کلرکوں والے انداز میں بات کر سکتا ہے۔
وہ ذلیل ہو کر اس کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ اس کے پاؤں من من کے ہو رہے تھے۔ ڈاکٹر کے الفاظ ہتھوڑا بن کر اس کے حواس پر برس رہے تھے۔ ہسپتال میں ہر طرف مایوسی ہی مایوسی اگی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں میں بہنوئی کا مرجھایا چہرہ اور بہن کی امید بھری نگاہیں گھوم گئیں۔ اس نے سوچا کہ یونٹ 2 کے ڈاکٹر تیمور سے دوبارہ مل کر اس کے پاؤں پکڑ لے گا اور بہنوئی کو داخل کروا کر ہی دم لے گا مگر جب وہ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر آج چھٹی پر ہے۔ اس کی آنکھوں میں جلتے دیئے ایک دم سے بجھ گئے، اسے یوں لگا جیسے وہ ہسپتال میں نہیں کسی تہہ خانے میں موجود ہے اور دیواروں سے سر پھوڑتا پھر رہا ہے۔ دوپہر کے 12 بج رہے تھے، دو گھنٹے بعد ڈاکٹروں نے چلے جانا تھا۔ اسے کافی دیر ہو چکی تھی اور اُدھر بہن کی فکر بھی اسے کھائے جا رہی تھی۔ ایک دو باراس نے اپنی بہن کا نمبر ملانے کی کوشش کی مگر اوپر سگنل کا مسئلہ تھا۔ جب اس سے صبر نہ ہوا تو وہ خیریت دریافت کرنے کے لئے سیدھا اپنی بہن کے پاس جا پہنچا جو خاوند کی ٹانگیں دبا رہی تھی۔ بہن نے نڈھال چہرہ لئے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’بڑے ڈاکٹر صاحب راؤنڈ پر نکلے ہوئے ہیں۔ ان کے واپس آتے ہی بھائی جان کا داخلہ ہو جائے گا، فکر مت کرو۔‘‘ اس نے بہن سے جھوٹ بول دیا۔
’’جیسے بھی کرو، آج داخلہ ضرور کروا دو۔ صبح سے ان کی طبیعت سنبھلنے میں نہیں آ رہی۔‘‘ اس کی بہن نے روہانسی آواز میں کہا اور اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ بہن کی حالت دیکھ کر وہ تڑپ اٹھا اور اس کے لئے وہاں مزید بیٹھنا مشکل ہو گیا۔
وہ مردہ چہرہ لئے کیفے ٹیریا میں آ کر بیٹھ گیا۔ ہسپتال کی بلند و بالا عمارت کو انتہائی مایوسی سے دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ اتنا بڑا ہسپتال، اتنے سارے ڈاکٹر، بے شمار کمرے مگر ایک تڑپتے ہوئے مریض کے لئے وہاں کوئی جگہ نہیں تھی۔ جناح کے نام کو کھلے عام بدنام کیا جا رہا تھا اور کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں تھا۔ وہ ان ہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک اس کی نظر سامنے ایک شناسا چہرے پر پڑ گئی جو گاڑی سے اتر رہا تھا۔ اس کا مرجھایا چہرہ ایک دم سے کھل اٹھا۔ وہ جوش کے ساتھ اٹھا اور تیز تیز چلتا ہوا سیدھا ان کے پاس جا رکا۔
’’ڈاکٹر خلیل صاحب۔۔۔؟‘‘ اس نے نہایت ادب سے کہا۔
’’ارے نوجوان تم۔۔۔؟ یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ ڈاکٹر خلیل نے اسے دیکھتے ہوئے چونک کر پوچھا اور پر تپاک انداز میں اسے گلے لگا لیا۔
’’چلو آؤ میرے ساتھ۔۔۔ فکر مت کرو، ابھی داخلہ ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے اس کی پوری بات سنتے ہوئے کہا اور اسے ساتھ لے کر چل پڑے۔
ڈاکٹر خلیل اس کے فیس بک کے دوست اور ایک بہت اچھے کالم نگار تھے۔ وہ ان کے کالم بہت شوق سے پڑھتا تھا اور کالموں کی وجہ سے ہی ڈاکٹر صاحب سے اس کی دوستی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر خلیل سیڑھیاں عبور کرتے ہوئے میڈیکل وارڈ کے یونٹ 3 کے ہیڈ کے پاس جا پہنچے مگر وہ کمرے میں نہیں تھے۔ پتہ چلا کہ ایک ضروری کام کے سلسلے میں وہ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ وہ وہاں بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگے۔ تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ آ گئے اور ڈاکٹر خلیل کو بیٹھا دیکھ کر حیران رہ گئے۔
’’خلیل آپ اور یہاں۔۔۔؟ ایسا بھی کیا کام تھا کہ آپ کو چل کے آنا پڑا؟ ایک فون کر لیا ہوتا۔۔۔‘‘
انہوں نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے انداز میں کہا اور نہایت گرمجوشی کے ساتھ انہیں ملے۔
’’یار! میری چھوڑو۔ پہلے میرے اس دوست کا کام کر دو۔ بیچارہ بہت دور سے اپنے بہنوئی کے علاج کے لئے آیا ہے۔ دو دنوں سے ہسپتال میں دھکے کھا رہا ہے مگر اس کے بہنوئی کا ایڈمشن نہیں ہو رہا۔ یار۔۔۔! خدا کے لئے اس کی حالت پر رحم کرو۔‘‘
ڈاکٹر خلیل نے دردمندانہ لہجے میں استدعا کرتے ہوئے کہا۔
’’مسئلہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ ڈاکٹر نے پوچھا اور اس نے ہسٹری فائل سامنے رکھ دی۔
’’فکر مت کریں۔۔۔ ابھی داخلہ ہو جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے ہسٹری فائل دیکھتے ہوئے بڑے اطمینان سے کہا اور فون کر کے کسی کو اپنے کمرے میں آنے کو کہا۔
اگلے ہی لمحے ایک نوجوان ڈاکٹر ان کے کمرے میں داخل ہوا۔
’’ان صاحب کو اپنے ساتھ لے جاؤ۔۔۔ اور ان کے مریض کو میڈیکل یونٹ 2 میں داخل کرو ابھی۔ مجھے 20 منٹ میں رپورٹ چاہئے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب نے با رعب لہجے میں کہا۔ اس نے مؤدبانہ انداز میں یس سر کہا اور اسے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
’’آپ جلدی سے اپنے مریض کو نیچے ایمرجنسی میں لے آئیں، میں اتنی دیر میں وہاں ضروری انتظامات کرتا ہوں۔‘‘
جونیئر ڈاکٹر نے کمرے سے باہر نکلتے ہی اس سے کہا اور وہ سر ہلاتا ہوا اس سے رخصت ہو گیا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ جس کام کے لئے وہ دو دنوں سے ایک ایک کی منتیں کرتا پھر رہا تھا وہ اتنی آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ ڈاکٹر خلیل تو حبس میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا بن کر آئے تھے۔ یہی سوچتا ہوا وہ ہسپتال سے باہر آیا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا کیفے ٹیریا کی طرف بڑھ گیا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ جلد از جلد اپنی مرجھائی بہن کو خوشخبری سنانا چاہتا تھا کہ بھائی جان کا داخلہ ہو گیا ہے۔ وہ کھلتے چہرے اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ جیسے ہی وہاں پہنچا تو اچانک زمین نے اس کے پاؤں جکڑ لیے، وہ جہاں تھا وہیں کھڑا رہ گیا اور OPD چٹ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے جا گری۔ اس کے بہنوئی کا منہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا اور اس کی بہن کی فلک شگاف چیخ و پکار سے فضا کانپ رہی تھی، جسے دو تین عورتوں نے سنبھال رکھا تھا۔ وہ بجھی آنکھوں اور شل قدموں کے ساتھ آگے بڑھا۔ آہستہ سے بہنوئی کے ڈھکے چہرے سے چادر ہٹائی تو اس پر سکتہ طاری ہو گیا۔ اس کے سامنے اس کی اپنی لاش رکھی تھی۔
٭٭٭