رشید کو صرف اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا کہ اگر اس کے کرتوتوں کا علم بیگم صاحبہ یا اس کے شوہر کو ہو گیا تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا اور اس نے ان کے دلوں میں اعتبار کی جو فصل کاشت کر رکھی تھی وہ پل بھر میں خسارے میں بدل جائے گی۔ اسی ڈر کے سبب اس نے کئی بار عزم کیا کہ وہ سارے دھندے چھوڑ دے گا مگر ہر بار اس کے ارادوں کی کچی دیوار میں دراڑیں پڑ جاتیں جہاں سے اس کی نیت کا گدلا پانی رسنے لگتا، جس میں وہ ڈوب کر گمراہیوں کے تاریک جنگلوں میں جا نکلتا۔
رشید نے تقریباً تین چار سالوں سے شمسہ بیگم کا گھر سنبھال رکھا تھا، جسے وہ بیگم صاحبہ کہہ کر پکارتا۔ اولاد سے محروم گھر میں صرف میاں بیوی ہی رہتے تھے۔ دونوں نوکری پیشہ ہونے کی وجہ سے صبح کے نکلتے تو شام گئے واپس لوٹتے۔ رشید ان کے گھر میں بڑے ٹھاٹھ سے رہتا، جیسے گھر کا اصلی مالک وہی ہو۔ وہ گھٹا ہوا مضبوط جسم اور نکلتا ہوا قد کاٹھ رکھتا تھا۔ اس کی رنگت سانولی مگر چہرے کے نقوش کافی تیکھے تھے۔ سیدھی مانگ کے ساتھ کھڑے ہوئے چمکتے سیاہ بال اوراس کی گھنی مونچھوں نے اس کی شخصیت میں جاذبیت پیدا کر رکھی تھی۔ اس کی چال ڈھال میں کافی ٹھہراؤ اور باتوں میں شگفتہ مزاجی تھی، اس لئے وہ آسانی سے ہر کسی کے دل میں گھر کر لیا کرتا۔ وہ قسمت کا جادوگر واقع ہوا تھا۔ اس سے قبل وہ کپڑے کی ایک مل میں کام کرتا تھا مگر کم اجرت پر مالک سے لڑائی کی پاداش میں اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے تو مقدر نے شمسہ بیگم کے گھر تک اس کے لئے راہیں تراشیں اور وہ سیدھا یہاں پہنچ گیا۔ جہاں اس نے خوب محنت کر کے اپنا سکہ جمایا اور ہمیشہ ایمانداری کی اجلی چادر اوڑھ کر اپنے کام میں جتا رہا۔ میاں بیوی پراس کا اچھا خاصا اعتبار جم گیا اور وہ دونوں رشید سے بہت خوش تھے۔ شمسہ بیگم کو بھی ایسے ہی ملازم کی تلاش تھی، جس پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہو، اس خوبی پر اس نے مطمئن ہو کر پورا گھر رشید کے حوالے کر دیا تھا۔ اس نے بھی ایک ایک چپے کی دیکھ بھال اپنا گھر سمجھ کر کی۔ مگر پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ ایک تاریک لمحے کا ایسا شکار ہوا کہ جس نے اس کے اندر کے تمام اجالوں کو شکار کر کے اسے اندھیری راہوں میں بھٹکا دیا، جن پر چلتے ہوئے وہ ایسے ایسے کام کرنے لگا کہ اگر کوئی سنتا تو کانوں کو ہاتھ لگا لیتا۔ اسے ڈر تھا تو صرف بیگم صاحبہ اور اس کے شوہر کا۔
رشید کو اکثر یہ خیال بھی گھیر لیتا کہ بیگم صاحبہ نے کبھی خوابوں میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ اتنی محنت کے ساتھ بنایا ہوا اس کا گھر عیاشیوں کے اڈے میں بدل جائے گا۔ مگر ایسا ہو چکا تھا، جس سے دونوں میاں بیوی بالکل بے خبر تھے۔ نئے بنے ہوئے مکان کے آس پاس آبادی ابھی اتنی نہیں بڑھی تھی کہ علاقے والوں کی طرف سے کوئی مسئلہ بنتا۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے رشید چپ چاپ اپنے شغل میں مصروف رہتا۔ رشید شروع ہی سے رنگین مزاج تھا مگر صرف فون کی حد تک اس نے کئی دوستیاں پال رکھی تھیں۔ ح د سے باہر جانے کا اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اور شاید وہ ایسا کبھی نہ کرتا اگراس کے ایک پرانے دوست نے اسے مجبور نہ کیا ہوتا۔ جس کے بارے میں رشید اچھی طرح سے جانتا تھا کہ وہ بہت شوقین مزاج ہے اور ہر وقت ان ہی چکروں میں پڑا رہتا ہے۔ اسی نے ہی ایک بار رشید کو فون کر کے کہا تھا
’’یار! میرے پاس ایک بہت ہی اعلیٰ قسم کا پیس ہے، دیکھو گے تو حیران رہ جاؤ گے، مگر جگہ کا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اگر تم مہربانی کرو تو میں اُسے لے کر تمہارے پاس آتا ہوں۔ میرے ساتھ تم بھی شغل مستی کر لینا۔‘‘
رشید اس کی بات سن کر سخت گھبرا گیا۔ مگر دوست کے بار بار کے اصرار پر ڈرتے ڈرتے اس نے حامی بھر لی تھی۔ ’’اعلیٰ پیس‘‘ دیکھنے کے شوق میں وہ ایسا ڈگمگایا کہ آج تک نہیں سنبھل پایا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اِس پیس کے پیچھے ایسا لامتناہی سلسلہ چھپا ہو گا، جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے گا۔ وہ غیر محسوس طریقے سے اس اندھی دلدل میں دھنستا چلا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بیگم صاحبہ کے گھر رنگین محفلیں سجنا شروع ہو گئی تھیں اور نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ اس کی شہرت اس کے دوستوں کے دوستوں میں بھی گردش کرنے لگی۔ ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی دوست اپنے ساتھ ایک پیس لے کر وہاں آ دھمکتا اوراس کے ساتھ رشید بھی خوب مزے لوٹتا تھا۔ پہلے پہل تو وہ صرف شغل سے ہی دل بہلا لیا کرتا مگر بعد میں اس نے اپنے انداز بدل دیئے۔ وہ بہت چالو دماغ رکھتا تھا اور شغل کے ساتھ ساتھ اب وہ باقاعدہ پیسے بھی بٹورنے لگا تھا۔ بس ایک فون آتا، معاملہ طے ہوتا اورمستی کے ساتھ رشید کی جیب بھی گرم ہو چکی ہوتی۔ دونوں سلسلے بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھے۔ اسے بس صرف اسی بات کا دھڑکا لگا رہتا کہ اگر اس کے کرتوتوں کا علم بیگم صاحبہ یا اس کے شوہر کوہو گیا تو وہ کہیں کا نہیں رہے گا۔
رشید کو نئے نئے ذائقوں کا ا تنی بری طرح سے چسکا پڑ چکا تھا کہ اب ہر آتی جاتی عورت کے خد و خال کی وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں تلاشی لے کر اسے خوب تول لیا کرتا۔ ان ہی چکروں میں پڑ کر وہ اپنی بیوی اور چار بیٹیوں کو یکسر بھلا چکا تھا۔ سچ تو یہ تھا کہ اسے اب اپنی بیوی بہت پھیکی لگنے لگی تھی، اس لئے وہ اس کی طرف آنکھ بھر کے بھی نہیں دیکھتا تھا اور یہی بات اس کی بیوی کوسانپ کی طرح ڈسنے لگی تھی۔ جب رات کو وہ اپنا کام ختم کر کے گھر لوٹتا تو اس کی بیوی گلے شکووں کی پٹاری کھول کر بیٹھ جاتی اور نتیجتاً تو تو میں میں شروع ہو جاتی۔ یہاں تک کہ نوبت لڑائی تک جا پہنچتی اوراس تو تکار میں کبھی کبھار رشید کا ہاتھ بھی اٹھ جاتا، جس پر اس کی بیوی کی سسکیوں کے ساتھ اس کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے۔ اپنی ماں کو روتا دھوتا دیکھ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی اس کی بیٹیاں بھی اس کے ساتھ لپٹ کر رونے لگ پڑتیں مگر رشید نے خود کو لاپرواہی کے خول میں قید کر رکھا تھا۔ وہ سب کو روتا دھوتا چھوڑ کر کروٹ بدل کر ایسا سوتا کہ پھر صبح کو ہی اٹھتا اور گھر والوں کی کوئی پرواہ کئے بغیر کام کے لئے نکلتا تو پھر سے مستی کی رنگین دنیا میں کھو جاتا۔
ان آوارہ راہوں پر چلتے ہوئے اس کے اندر کافی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ وہ پہلے والا سیدھا سادہ رشید نہیں رہا تھا۔ جب سے اُس کی آنکھوں کے تیور بدلے تھے وہ بیگم صاحبہ کے سامنے بھی خوب بن ٹھن کر جانے لگا۔ اب وہ اتنی حد کو آ گیا تھا کہ جب تنومند جسم والی بیگم صاحبہ اس کے سامنے آتی تو اسے دیکھ کر رشید کی رال ٹپکنے لگتی۔ وہ اس کے بدن کے زاویوں کو بڑے غور سے دیکھتا رہتا، خاص طور سے اس وقت جب وہ نہا دھو کر نئے کپڑوں میں اس کے سامنے آتی تو وہ اس کے لمبے گیلے سیاہ بالوں اور تر و تازہ چہرے کو دیکھ کر دل تھام کے رہ جاتا۔ وہ مختلف حیلوں بہانوں سے اس کے آگے پیچھے پھرنے لگتا۔ بیگم صاحبہ کے ابھاروں نے اسے بے چین کر رکھا تھا، جو چھپائے نہیں چھپتے تھے۔ اس کے بس میں ہوتا تو وہ کب کا اسے اپنی باہوں میں لے کراس کا مزہ چکھ چکا ہوتا مگر وہ ایسا صرف اپنے خیالوں کی دنیا میں ہی کر سکتا تھا، جہاں اس پر کوئی پابندی لگانے والا نہیں تھا۔ مگر کمال کی بات یہ تھی کہ بیگم صاحبہ نے کبھی بھی اس پر شک نہیں کیا، وہ بے فکری کے ہالے میں رہ کر اپنے معمول کے کاموں میں مصروف رہتی۔ اس بات سے یکسر بے خبر کہ اس کے ارد گرد گھومتا ہوا رشید اس پر اپنی غلیظ سوچوں کے کیسے کیسے جال پھینکتا رہتا ہے۔
رشید ایک مدت سے ان کے گھر میں نوکر تھا اور دونوں میاں بیوی کے مزاج کو وہ اچھی طرح سمجھ چکا تھا۔ یہاں تک کہ ان کی خاموشی کو بھی وہ سمجھنے لگا تھا۔ اس لئے وہ کچھ دنوں سے محسوس کر رہا تھا کہ بیگم صاحبہ اپنے شوہر سے کھچی کھچی سی رہنے لگی ہے۔ ان کی آپس کی بات چیت بھی کم ہو گئی تھی۔ بظاہر وہ دونوں اس کے سامنے نارمل رہنے کی کوشش کرتے مگر رشید نے صاف محسوس کر لیا تھا کہ کوئی بات ایسی ضرور ہے، جس نے ان کے درمیان میں دوریاں کھینچ دی ہیں۔ وہ اسی ٹوہ میں لگا ہوا تھا کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ اور پھر ایک دن اسے اس بات کا جواب بھی مل گیا۔ جب وہ دونوں بند کمرے میں الجھ رہے تھے تو رشید نے ان کی باتیں سن لی تھیں۔ بیگم صاحبہ بضد تھی اور ہر صورت میں اولاد چاہتی تھی مگر اس کا شوہر مسلسل اپنی بے بسی کے قصے سنا کر اسے مطمئن کرنے کی کوشش کرتا رہا، جس پر بیگم صاحبہ اور بھی بگڑتی رہی۔ اِس وقت رشید کو بیگم صاحبہ کی حالت پر بہت ترس آ رہا تھا جو ایک ایسے شخص کے آگے کشکول لئے کھڑی تھی، جس کی اپنی جیب میں کچھ نہیں تھا۔ رشید کے دل میں خیال لہرایا کہ کاش بیگم صاحبہ کو میری کرامات کا پتہ چل جائے تو وہ اپنی خواہش لئے سیدھی میرے پاس دوڑی چلی آئے اور مالا مال ہو جائے۔ مگر یہ اُس کی ایک ناکام حسرت تھی، جس کی تکمیل کے دروازے چاروں طرف سے بند تھے۔
آج صبح بیگم صاحبہ نے جاتے وقت اسے سودوں کی ایک لمبی فہرست تھما دی تھی۔ دو دن بعد اس کے ہاں کچھ مہمان آ رہے تھے، جس کے لئے اسے کئی قسم کے کھانے تیار کرنے تھے اوراس وقت رشید بازار آیا ہوا تھا۔ ابھی اس نے آدھا سودا ہی لیا تھا کہ اس کا موبائل فون بج اٹھا۔ وہ ایک ٹھیلے والے کے پاس کھڑا تھا، جہاں کچھ خواتین بھی سبزیاں اور ترکاریاں لینے میں مصروف تھیں۔ وہ جلدی سے ایک طرف ہو گیا اور جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو کوئی انجان سا نمبر حرکت کر رہا تھا۔ اس نے فوراً یس کا بٹن دبا کر فون کان سے لگا لیا۔
دوسری طرف سے اس کے ایک قریبی دوست کا کوئی دوست بول رہا تھا اوراسے جگہ درکار تھی۔ رشید کی تو جیسے باچھیں کھل اٹھیں، چند دنوں سے اسے کچھ میسر نہیں ہوا تھا اور وہ اپنے آپ کو ادھورا محسوس کر رہا تھا۔ اس نے گھڑی پر وقت دیکھتے ہوئے اسے ایک گھنٹے کے اندر پہنچنے کا کہہ دیا۔ اس کا اندازہ تھا کہ وہ اتنی ہی دیر میں تمام سامان وغیرہ لے کر گھر پہنچ جائے گا۔ اس نے جھٹ سے بقایا سودا لیا اور گھر کے لئے روانہ ہو گیا۔ وہ وقت سے آدھا گھنٹہ پہلے ہی پہنچ گیا۔ اس نے جلدی سے ادھورے پڑے ہوئے کچھ کام نمٹائے اور کیف و سرور کی حالت میں لاؤنج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھتے ہوئے بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔ ابھی اسے بیٹھے پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھی۔ وہ تو جیسے تیار بیٹھا تھا، فوراً دروازے کی طرف لپکا۔ اس نے دروازہ کھولا تو اگلے ہی لمحے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ سامنے بیگم صاحبہ کا شوہر افضال کھڑا تھا۔ رشید کے تو جیسے پسینے چھوٹ گئے اور وہ سٹپٹا گیا کہ اس وقت یہ کہاں سے آ ٹپکا؟ افضال نے گھر میں داخل ہوتے ہوئے قدرے روکھے لہجے میں کہا۔
’’رشید! میرے کچھ مہمان آنے والے ہیں، انہیں میں خودسنبھال لوں گا۔ بس تم آج چھٹی کرو۔‘‘
رشید نے یہ سنا تواس کی جان میں جان آئی۔ اس نے دل ہی دل میں خدا کا شکر پڑھا، جس نے آج اسے بچا لیا۔ وہ جلدی سے گھر سے باہر نکلا اور فوراً وہی نمبر ملایا، جہاں سے اسے فون آیا تھا، پتہ چلا کہ اسے کچھ دیر ہو گئی تھی اور وہ ابھی تک روانہ نہیں ہوا تھا۔ رشید نے سکھ کی سانس لی، اسے مزید تسلی ہو گئی۔ اُس نے اسے یہاں آنے سے سختی کے ساتھ منع کیا اور اپنے گھر کا پتہ اسے اچھی طرح سے سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب وہ سیدھا میرے گھر پہنچے۔ رشید کی بیوی پچھلے تین چار دنوں سے اس کے ساتھ لڑ جھگڑ کر اپنی بیٹیوں کے ساتھ میکے چلی گئی تھی۔ اس نے یہ موقع غنیمت جان کر اسے اپنے گھر کا پتہ دے دیا کہ تسلی کے ساتھ شغل مستی ہو جائے گی۔ اس کا گھر زیادہ دور نہیں تھا، ٹیکسی پر وہ بیس منٹ میں ہی پہنچ گیا۔ اس نے آتے ہی پھرتی سے ہاتھ چلاتے ہوئے کمرے کا حلیہ درست کیا، جو صبح کو وہ بے ترتیب چھوڑ کر گیا تھا۔ صفائی نہ ہونے کی وجہ سے کمرے میں عجیب سی بدبو پھیلی ہوئی تھی، اس نے کمرے کی فضاؤں میں خوشبو دار سپرے چھڑک کر ماحول کو اچھا خاصا معطر بنا دیا۔ وہ ان کاموں سے فارغ ہو کر بس بیٹھا ہی تھا کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں چمک ابھر آئی اور انگ انگ میں مستی کی کئی لہریں دوڑ گئیں، وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا ڈیوڑھی میں پہنچا اور جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔ چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اس نے جونہی پردہ اٹھا کے دیکھا تو ششدر رہ گیا، اس کے سامنے ایک وجیہہ نوجوان کے ساتھ چشمہ لگائے بیگم صاحبہ کھڑی تھی۔
٭٭٭