کل کے مقابلے آج ذیادہ ہی گرمی تھی خان ویلا کے سب مرد حضرات اپنے اپنے کام سے آفس گئے تھے اور خواتین کچن میں مصروف تھیں
رات کے کھانے کا انتظام کر رہی تھیں خان ویلا کا اصول تھا
بھلے ہی دوپہر کا کھانا سب الگ الگ کھائیں لیکن رات کا ڈنر ساری فیملی ایک ساتھ کرتی تھی ۔۔۔۔
۔دادو ہمیشہ کی طرح دوپہر کے وقت قرآن پاک کی تلاوت کر رہی تھی اور سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے
سوائے نغمہ بیگم کے جو اس وقت آرام فرما رہی تھیں
اور اپنا کام اجالا کے سپرد کر دیا تھا اجالا بھلے ہی منہ پھٹ تھی لیکن بڑوں کا کہنا ماننا اس کی تربیت میں شامل تھا۔۔۔۔
زوجاجہ سامنے صوفے میں برجمان رات کر کھانے کے لیے پیاز کاٹ رہی تھی اور ساتھ ساتھ آنسو بھی بہا رہی تھی ۔۔۔۔
سامنے سے آتا علی زوجاجہ کی آنکھ میں آنسو دیکھ کے تڑپ گیا لیکن اگلے ہی پل پیاز کو دیکھ کے سمجھ گیا۔۔
۔چپ چاپ زوجاجہ کے قریب جا کے اس کے کان میں سوگوشی کی
ہم نے جس کی یاد میں رو رو کر
آنسوؤں کے ٹب بہر دیے
وہ آئے نہائے اور چلے گئے!
زوجاجہ اچھل پڑی سامنے علی کو دیکھ کے بوکھلا گئ
اور پیاز والے ہاتھ اپنے منہ پہ لگا دے جس سے زوجاجہ کے منہ پہ جلن ہونے لگ گئ۔۔۔۔
آآآ میرا منہ مجھے مرچین لگ رہی ہیں۔۔
ایک منٹ تم ادھر بیٹھو ۔۔۔
علی کے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔۔۔۔۔
ڈفر بٹھا کیا رہے ہو پانی لے کے آو۔۔۔زوجاجہ چڑکے بولی۔۔۔
علی بھاگ کے کچن کی جانب گیا جلد بازی میں چائے کے کپ میں ہی پانی لے آیا ۔۔۔۔۔
زوجاجہ ایک آنکھ کھولے جیسے ہی پانی کا کپ پکڑا فورا غصے میں آگئ۔۔۔
واہ ماشاللہ بہت ذیادہ پانی لائے ہو اس پانی میں تو میں ڈوب جاونگی
ایک کام کرو تم اسی پانی میں ڈوب مرو ۔۔۔۔
تم نے پانی پینے کے لیے مانگا تھا سو میں لے آیا۔۔۔علی معصومیت سے بولا۔۔۔
میں نے پانی پینے کے لیے نہی اپنے منہ پہ چھڑکے کے لیے مانگا تھا اب ہٹو آگے سے اس سے پہلے میں اندھی ہو جاو آنکھوں میں مریں لگ رہی ہیں۔۔۔۔پتا نہیں کس بونگے سے نکاح کر لیا ابھی سے یہ حال ہے تو شادی کے بعد کیا ہوگا ۔۔۔زوجاجہ غصے سے بڑبڑا کے کچن کی جانب چلی گئ۔۔۔۔
****************
یار موسم کرنا پیارا ہے۔۔۔۔۔اور دیکھو ہلکی ہلکی بوندہ باندی بھی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔اجالا آسمان کی جانب گردن اٹھا کے بولی۔۔۔۔
ہاں اور اب اسی خوشی میں پکوڑے بناتے ہیں۔۔فاطمہ کرسی سے اٹھ کے بولی۔۔۔
دو منٹ گزرے تھے کہ اجالا کے موبائل کی بپ بجی ۔۔۔
بارش ہوئی تو آفس کی کھڑکی سے لگ کے ہم
چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے۔۔۔
ارمان کا میسج پڑھ کر اجالا مسکرا دی۔۔۔
اچھا سنو آج ہم جلدی گھر آئیں گے تم نے پکوڑے تیار رکھنے ہیں۔۔۔۔ارمان کا حکم نامہ سن کے اجالا مسکرا دی۔۔۔ابھی سے حکم ۔۔۔دل میں سوچا۔۔۔۔
یار پکوڑے ذیادہ بنانا ارمان علی کا حکم ہے کہ وہ دونوں آرہے ہیں تو پکوڑوں کی فرمائش کی ہے۔۔۔
پندرہ منٹ بعد ارمان جنید اور علی کی گاڑی اندر آتی دیکھائ دی۔۔۔۔
تینوں نے گاڑی سے اتر کے لان کی جانب قدم بڑھائے۔۔۔۔
اسلام و علیکم۔۔۔ارمان اجالا کی برابر والی کرسی میں بیٹھ کے سلام کیا۔۔۔
فاطمہ نے ارمان کی جانب پکوڑوں والی پلیٹ بڑھائ۔۔۔
بھائ پکوڑے کھائیں۔۔۔۔
ارمان نے پلیٹ پکڑ لی۔۔۔شکریہ۔۔۔۔
ارمان پکوڑے اور چائے کے مزے لوٹ رہا تھا پاس بیٹھ اجالا نے اپنا ہاتھ بڑھا کے ارمان کی پلیٹ سے پکوڑے اٹھائے۔۔۔
رکھ کر میرے ہونٹو پر انگلی
بھوکی میرے سارے پکوڑے کھاگئ۔۔۔۔۔
ارمان کے شعر پڑھتے ساتھ ہی اپنی پلیٹ دوسری جانب کر دی۔۔۔
تو جو کہتا تھا
"تیری میری خوب شناسائی ہے ،
پھر بتا مجھے دیکھتے ھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔پکوڑوں کی پلیٹ کیوں چھپائی ہے۔۔۔۔"
اجالا کے شعر سنتے ہی سب ہنس دیے سوائے جنید کے۔۔۔
__________________
آج کی شام بڑی بوجھل ہے
آج کی رات بڑی قاتل ہے
آج کی شام ڈھلے گی کیسے
آج کی رات کٹے گی کیسے
آگ سے آگ بُجھے گی دل کی
************♡**********
یا اللہ ۔۔۔دیکھ ارحم یہ سب کیسے مزے لوٹ رہے ہیں پکوڑوں کے اور ہمیں بتانا بھی گوارہ نہیں کیا
بس آج پتا چل گیا یہ خونی رشتے کچھ نہیں ہوتے اور تو ارمان کی اے بڑے مزے سے پکوڑے کھا رہا ہے ۔۔۔
ہاں تو تم بھی آجاتے کس نے منع کیا تھا۔۔۔
ارمان نے ہنس کے کہا
ہاں جیسے ہمیں الہام آیا تھا نہ کے تم سب یہاں بیٹھ کے موسم کے مزے لوٹ رہے ہو۔۔
ایک کال ہی کر دیتا۔۔۔۔راحم غصے سے تلملا گیا۔۔۔
ذیادہ ایموشنل ہونے کی ضرورت نہیں ہے
تمہارے لیے بھی رکھے ہیں پکوڑے الگ سے ،جاو ثوبیہ دوسری پلیٹ لے کے آو۔۔۔۔اجالا نے ثوبیہ کو حکم دیا۔۔۔
ہائےےے میری پیاری کزن یہ ہوتے ہیں سچے کزن دیکھا کتنا خیال ہے ہم دونوں معصوم بھائیوں کا۔۔۔
ہیں خیال نہیں ہے تمہارا وہ تو بس یہاں سب کا پیٹ بھر گیا پکوڑے یہاں پڑے پڑے باسی ہو رہے تو سو اندر کچن میں رکھوا دیے تھوڑے بہت بچ گئے تھے۔۔۔
اجالااااااا تیری تو رکھ تجھے بتاتا ہوں ہمیں بچے ہوئے پکوڑے کھلائے گی۔۔۔
ارحم اجالا کی جانب لپکا اتنے میں اجالا وہاں سے بھاگ گئ۔۔۔۔
اجالا بھاگ رہی تھی ارحم اجالا کو پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا جو ہاتھ ہی نہیں لگ رہی تھی۔۔۔۔
یہ کمینہ میری ہونے والی بیوی کو لنگڑا ہی نہ کر دے ۔۔۔۔۔
یا اللہ سمبھال لینا۔۔۔ارمان اجالا کو بھگتا دیکھ کے دل ہی دل میں دعا مانگ رہا تھا ۔۔۔۔۔
اوئےےےے بارش ہوگئ سب اندر چلو۔۔۔۔
اجالا بھاگ کے ائ۔۔۔۔۔
سب اندر چلے گئے لیکن ارمان اور علی وہیں بیٹھے بارش کے مزے لوٹ رہے تھے
علی اور ارمان کو دیکھ کے سب واپس وہیں چلے گئے۔۔۔
جنید کب سے ارمان اور اجالا کو تکےجا رہا تھا اور یہ بات اجالا باخوبی نوٹ کر رہی تھی۔۔۔۔۔
سب بارش میں نہانے میں مصروف تھے
جنید وہیں کھڑا
ارمان کو نفرت سے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
نفرتوں کے بازار میں جینے کا الگ ہی مزا ہے ۔۔۔۔
لوگ جلانا نہیں چھوڑتے ھم مسکرانا نہیں چھورتے
اجالا نے ہلکے سے شعر پڑھا تو جنید نے چونک کے پیچھے دیکھا ۔۔۔
اجالا شعر سنا کے ارمان کی جانب بڑھ گئ۔۔۔
بہت لمبی اڑان اڑ رہی ہے
منہ کے بل نہ گھرایا نہ تو میرا نام بھی جنید عمران نہیں ۔۔۔
************♡*************
ارمان کل خرم بھائ کا فون آیا تھا وہ پرسوں واپس آرہے ہیں۔۔
ارمان اور اجالا اس وقت چھت کی سیڑھیوں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔۔
اچھا یوں اچانک ۔۔۔ارمان اجالا کی طرف دیکھ کے پوچھا۔۔۔
ہممم بس ڈیل ہوگی تو واپس آرہے ہیں مجھے بھی اپنے ساتھ لے جائیں گے۔۔۔اجالا اداسی سے بولی۔۔۔
جب خرم یہاں آئے گا تو میں رشتے کی بات کرونگا گھر والوں کو بھیجنے کی تم ٹینشن نہیں لو۔۔۔
ارمان کی اجالا کی اداسی دیکھ کے بولا۔۔۔
ابھی فلحال اچھی اچھی باتیں کرو۔۔۔
اچھا ارمان تم جنید پہ کتنا بھروسہ کرتے ہو۔۔
اجالا کے دماغ پہ اچانک سوال آیا۔۔۔
یہ بھی کوئ پوچھنے کی بات ہے بھئ اپنی جان سے بھی ذیادہ بھروسہ کرتا ہوں۔۔
مطلب مجھ سے بھی ذیادہ۔۔۔
ابھی تو کہاں اپنی جان سے بھی ذیادہ۔۔۔
ارمان نے مذاق میں کہا۔۔۔۔
میرا بھائ میرا دوست میرا جگر میرا کزن سب کچھ ہے وہ ۔۔۔۔ایسے سچے دوست آجکل کہاں ملتے ہیں۔۔
۔ویسے تم نے کیوں پوچھا۔۔۔۔
بس ایسے ہی تمہاری دوستی دیکھ کے ذہن میں سوال آگیا۔۔۔۔اچھا فرض کرو کہ تم اس پہ آنکھ بند کر کے بھروسہ کرو اور وہ تمہیں دھوکہ دے تو۔۔۔
ایسا ہو نہیں سکتا کہ وہ مجھے دھوکا دے اور رہی بھروسے کی بات تو اگر اس نے میرا بھروسہ توڑا تو بھی میں اسے کچھ نہیں کہونگا ۔۔۔۔
اور اگر کوئ شخص خود اپنے منہ سے کہے کے جنید تمہیں دھوکا دے رہا ہے تو تب کیا کرو گے۔۔۔۔
یقین نہیں کرونگا اس شخص کی باتوں پہ ثبوت جب تک نہ ہو اس کے پاس۔۔۔۔بنا ثبوت کے پوری دنیا جنید کے خلاف ہوجائے لیکن میں پھر بھی جنید پہ یقین کرونگا
ارمان تم بہت بھولے ہو تمہیں نہیں پتا وہ آستین کا سانپ ہے وہ تمہیں دھوکا دے رہا ہے وہ تمہارے ساری پراپرٹی پہ قبضہ جمانے کے منصوبے تیار کر رہا ہے میں تمہیں کیسے سمجھاون ۔۔۔۔۔۔اجالا اپنے خیال میں کھوئ ہوئ تھی۔۔۔
ہیلو کہاں کھوگئ ۔۔۔ارمان نے اجالا کے سامنے چٹکی بجائ۔۔۔۔
اچھا مجھے بہت نیند آرہی ہے میں سونے جا رہی ہوں گڈنائٹ۔۔۔۔۔
ارمان آج خرم آرہا ہے سب بچے جانے کی ضد کر رہے ہیں تو تم اور جنید ان سب کے ساتھ چلے جاو ۔۔۔۔
دادی کی بات پہ ارمان چونک گیا۔۔
دادی یوں اچانک اجالا تو بتا رہی تھی کہ وہ دو دن بعد آئے گا۔۔
بس بیٹا کل رات ہی فون آیا کہہ رہا تھا کہ کام ختم ہوگیا اب واپس آرہا ہے۔۔۔
اچھا"۔۔۔۔"
بیٹا تم بھی چلے جانا بچوں کے ساتھ۔۔۔
نہیں دادو آج بہت ضروری میٹنگ ہے میں نہیں جا سکتا باقی سب چلیں جائیں جنید تم بھی چلے جاو ویسے بھی آج آفس میں تمہارا کوئ کام نہیں ہے ۔۔۔۔
ارمان اتنا کہہ کے آفس چلا گیا۔۔۔۔
اجالا تم ابھی تک ایسے ہی بیٹھی وی ہو۔۔۔
جلدی کرو دیر ہو رہی ہے۔۔۔۔خرم کی فلائٹ کا ٹائم ہونے والا ہے۔۔۔خدا کا واسطہ آج کے دن تو موبائل کی جان بخش دو۔۔۔ادھر دو موبائل۔۔۔ثوبیہ اجالا کے ہاتھ سے موبائل لے کے باہر چلی گئ۔۔۔
ارے میرا موبائل واپس دو ۔۔۔اجالا پیچھے سے چلا رہی تھی۔۔۔۔
ارمان کے بچے تم نے اچھا نہیں کیا یار اب میں تمہیں کیسے بتاوں کے میں وہیں سے ہی اپنے گھر چلی جاونگی ۔۔۔۔۔اجالا سوچ میں پڑگئ۔۔۔۔
چلو چلو جلدی گاڑی میں بیٹھو دیر ہو رہی ہے۔۔۔علی چلا رہا تھا بچارا آدھے گھنٹے سے لان میں سب کا ویٹ کر رہا تھا۔۔۔
ہاں بھئ آگئے ہم۔۔۔۔اچھا اجالا تم نے اپنا سارا سامان رکھ لیا۔۔۔۔۔ثوبیہ نے اجالا سے پوچھا۔۔اجالا نے غائب دماغی سے سر ہاں میں ہلا دیا۔۔۔
اچھا میری بچی اپنا اور خرم کا خیال رکھنا ۔۔۔خرم کو کیا جلدی تھی کہ وہیں سے گھر جانے کی ضد کر بیٹھا بھئ ادھر آتا دو چار دن رکھتا بچارا تھکا ہوا ہوگا۔۔۔
دادو آپ ٹینشن نہ لیں بھائ بہت پھرتیلے ہیں دیکھ لینا آج پاکستان آئے اور کل فورا آفس کی ڈور لگا دیں گے۔۔۔۔
اچھا چاچی خدا حافظ ۔۔۔اجالا سب سے مل کے گاڑی میں بیٹھ گئ۔۔۔
میرے بچے اپنا خیال رکھنا اور گھر پہنچ کے کال کر دینا۔۔۔ پھر پتا نہیں اگلی ملاقات کب ہوئئے۔۔۔۔فرحان صاحب نے اجالا کے سر پہ ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔
سب کزنز کی ٹولی گاڑی میں بیٹھ گئ علی نے شکر کا سانس لیا اور گاڑی اسٹارٹ کردی ۔۔۔۔۔
**********♡********
ہائے میری چپس کا پیکٹ کہاں گیا ادھر ہی تو رکھی تھی۔۔اجالا پریشانی سے بولی۔۔۔۔
اجالا کہیں یہ تو نہیں ہے تمہاری چپس۔۔۔ارحم چپس کا پیکٹ ہاتھ میں لے کے بولا۔۔۔
بھوکے ندیدے تم نے میری چپس چرائ تمہیں تو میں قتل کردونگی۔۔۔۔اجالا نے ارحم کے بال کھینچنے ۔۔
آہ جلاد لڑکی بال چھوڑو ۔۔۔۔۔چڑیل ۔۔۔۔
کیا لڑکی ہے یار ایک چپس کے پیکٹ کے لیے میرا قتل کرنے چلی تھی۔۔۔۔
ہاں وہ میرا چپس تھا اس پہ صرف میرا حق تھا تم نے میرے حق پہ ڈاکا ڈالا ہے ۔۔۔۔
اللہ رحم کرے اس انسان پہ جس سے تمہاری شادی ہوگی۔۔۔پتا نہیں بچارے کا کیا حال ہوگا۔۔۔اجالا تم نہ کسی گنجے انسان سے شادی کرنا ۔۔۔۔راحم نے مشورہ دیا۔۔۔
ہیں کیوں میں کسی گنجے ٹکلے انسان سے کیوں شادی کروں ۔۔۔۔۔اجالا صدمے سے بولی۔۔۔۔
بھئ ویسے بھی تم نے اسے ایک مہینے کے اندر اندر گنجا کر ہی دینا ہے۔۔۔
تم نا ارحم سے بھی دو ہاتھ آگے ہو۔۔۔
علی علی گاڑی روکھو ۔۔۔اجالا چلائ۔۔
یا اللہ خیریت۔۔۔علی نے اچانک سے بریک لگائ۔۔۔
کیا ہوا اجالا گاڑی کیوں رکھوائ ۔۔۔علی نے پیچھے مڑ کے پوچھا۔۔۔
وہ سامنے ڈھابا ہے نہ وہاں سے چائے پینی ہے۔۔۔
واٹ۔۔۔تم نے ایک چائے کے لیے گاڑی رکھوائ ۔۔۔علی نے اجالا کو غصے سے گھورا ۔۔۔۔
اچھا اب چپ چاپ چلو۔۔۔اجالا گاڑی سے اترنے لگی علی نے روکھ دیا۔۔۔
ایک منٹ تم سب ادھر ہی بیٹھو میں یہیں چائے لے آتا ہوں۔۔۔
نہیں ہم سب وہاں چل کے چائے پیئں گے ہے نا گانز ۔۔۔
یس چلو حملہہہہہہ۔۔۔راحم گاڑی سے اتر کے جوش سے بھاگا۔۔۔
اجالا تمہیں ادھر ڈھابے کا کیسے پتا تم تو ادھر کبھی آئ ہی نہیں ۔۔۔۔
جی نہیں میں ادھر بہت بار آچکی ہوں۔۔۔خرم بھائ کے ساتھ۔۔۔
اچھا ادھر تو آ سکتی ہو بس ہمارے گھر آنے میں موت پڑتی ہے۔۔حالانکہ ادھر سے بیس منٹ کا ہی راستہ ہے۔۔۔۔راحم چائے کا کپ اٹھا کے بولا۔۔۔۔
یار میں تو اجاوں لیکن بھائ نہیں لے کے آتے ۔۔۔۔
چلو چلو دیر ہو رہی ہے ۔۔۔۔علی اٹھ کے بولا۔۔۔
اے بوٹکی۔۔۔۔ابیہا نے نہ سمجھی سے ارحم کی طرف دیکھا۔۔۔۔تم نے مجھے بوٹکی کہا۔۔۔
ابیہا نے آنکھیں پھاڑ کے پوچھا۔۔۔
ہاں تمہیں کہا اور کوئ یہاں دیکھ رہا ہے۔۔۔
میں تمہیں بوٹکی لگتی ہوں بوٹکی ہوگے تم کڑوے کریلے ۔۔۔۔
تم بوٹکی ہو کیونکہ تم مجھ سے قد میں چھوٹی ہو اور میں تم سے بڑا ہوں۔۔۔۔
ارحم کے بچے رکھ تجھے بتاتی ہوں کون بوٹکی ہے۔۔۔
ہائے ابھی تو میرے ہونے والے بچوں کی اماں پیدا نہیں ہوئ اور تم میرے نامعلوم بچوں تک پہنچ گئ۔۔۔
ارحم صدمے میں بولا۔۔۔
بیٹا تو رکھ تجھے تیرے نا معلوم بچوں کے پاس بھجواتی ہوں ۔۔۔۔اجالا ارحم کے پیچھے بھاگی ۔۔۔۔۔
یار اب تم دونوں کیوں بھاگ رہے ہو بیٹھو گاڑی میں۔۔علی چڑکے بولا۔۔۔۔
اب بار پھر سب اپنے واستے کی جانب بڑھ گئے۔۔۔
پندرہ منٹ بعد سب ایرپورٹ پہنچے ایرپورٹ کے اندر جاتے ہی سامنے خرم نظر آگیا۔۔۔۔جو غصے سے ان سب کو ہی گھور رہا تھا۔۔۔۔
بھااائئئئ ابھی خرم کو دیکھ کے چلائ۔۔۔۔
بھاااائئئ اجالا خرم کے گلے لگ گئ۔۔۔
میری جان کیسی ہے اور بھائ کو مس کیا کہ نہیں ۔۔۔۔خرم اجالا کو اپنے سے الگ کر کے پوچھا۔۔۔
مت پوچھیں بھائ دن رات آپ کو یاد کیا آپکو پتہ ہے نہ جب تک آپکو یاد نہ کرلوں دن ہی نہیں گزرتا۔۔
اللہ اجالا تم رو رہی ہو ادھر دیکھو۔۔۔میں آگیا ہوں نہ اب کہیں نہیں جاونگا چلو آنسو پہنچو ۔۔۔۔۔
ایکسکیوز میییی ۔۔۔ارحم نے پیچھے سے ابیہا کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے ہلایا۔۔۔۔۔
کیا تکلیف ہے۔۔۔۔
ہم یہاں آپ کا ایموشنل سین دیکھنے نہیں آئے ہم بھی یہاں خرم سے ملنے آئے ہیں مہربانی کر کے سائڈ میں ہوں تاکہ ہم سب آرام سے مل سکیں ۔۔۔۔
اجالا سائڈ میں ہوگئ خرم باری باری سب سے ملا۔۔۔
یار یہ لیلا بکریاں ساتھ کیوں لائے ہو ۔۔۔۔خرم چڑکے بولا۔۔۔
بھئ ہم تو منع کر رہے تھے لیکن یہ شیطانوں کی ٹولی سنتی ہی نہیں ہے۔۔۔۔۔یار ویسے اچھا ہوا تم آگئے ورنہ ایک دن اور یہ بوٹکی کو جھیلنہ بہت مشکل تھا افففف کیا آفت ہے یہ بھی تم ماہان ہو جو اس بوٹکی کو جھیل رہے ہو۔۔۔۔
بھائئئ یہ بوٹکا مجھے بوٹکی کہہ رہا ہے کب سے آپ اسے ڈانٹیں۔۔۔۔
ارحم ۔۔۔خرم نے ارحم کو آنکھیں دیکھائ جسے دیکھ کے ارحم چپ ہوگیا اجالا نے ارحم کو منہ چڑایا ۔۔۔۔
چلو یار اب کیا ساری رات ادھر ہی رکھنا ہے۔۔۔
سب ایک بار پھر اپنی منزل کی جانب بڑھ گئے۔۔۔۔
***********♡********
سو مسٹر ارمان آپکے ساتھ ڈیل کر کے خوشی ہوئ۔۔اب ہمیں اجازت دیں باقی ملاقات کل ہوگی۔۔خدا حافظ۔۔۔
خدا حافظ۔۔۔۔۔ارمان ہاتھ ملا کے بلڈنگ سے نیچے اتر گیا۔۔۔۔
میٹنگ کے دوران ارمان کا سیل بہت بار بج رہا تھا جسے ارمان اگنور کر رہا تھا۔۔۔۔
گاڑی میں بیٹھ کے موبائل آن کیا تو اجالا کی دس مسڈکال پانج میسیجز تھے۔۔۔ارمان انباکس کھول کے اجالا کا میسج پڑھنے لگ گیا۔۔۔
"ارمان میں آج جا رہی ہوں خرم بھائی مجھے ایرپورٹ سے ہی گھر لے جائیں گے" ہاں اگر تمہارے پاس وقت ہو تو یہاں (اجالا نے ایک خاص جگہ کا نام بتایا جو سب کزنز سے ڈیسائڈ کیا تھا کہ وہاں گھومنے جائیں گے )۔۔۔
آجانا ۔۔۔۔۔ارمان پریشان ہوگیا کہ اجالا نے بتایا کیوں نہیں کہ وہیں سے وہ گھر چلی جائے گی ارمان کو رہ رہ کر اجالا پہ غصہ آرہا تھا۔۔۔۔لیکن اگلے ہی پل دوسرا میسج پڑھ کے موڈ خوشگوار ہوگیا۔۔۔اجالا نے جو جگہ بتائ تھی ارمان اس جگہ سے پندرہ منٹ کی دوری پہ تھا۔۔۔ارمان نے موبائل ڈیش بورڈ پہ رکھا گاڑی اسٹارٹ کر کے اپنی منزل کی جانب لے گیا ۔۔۔۔
************♡*********
بھائ کی چمچی خرم کے پہلو میں کیا چپک کے بیٹھی ہوئ ہے اٹھ ہمیں بھی خرم سے بات کرنے دے جا یہاں سے شو۔۔۔۔اجالا جو کب سے خرم کے ساتھ چپک کے بیٹی ہوئ تھی ارحم سے دیکھا نہ گیا تو بول اٹھا۔۔۔
تم جلو مت جب تم اپنے بھائ کے ساتھ بیٹھتے ہو تب کیا میں کچھ بولتی ہوں۔۔۔
اجالا بری بات تم ثوبیہ فاظمہ کے پاس جاو۔۔خرم سے اجالا کو سمجھایا۔۔۔
اوکے بھائ میں جا رہی ہوں لیکن یہ کوجا آپ سے جو بھی بات کرے آپ نے مجھے بتانا ہے۔۔۔
اوکے اب تم جاو۔۔۔۔
اجالا خرم کے پاس سے اٹھ کے فاطمہ کی جانب بڑھ گئ ۔۔۔خرم علی اور ارحم تینوں آپس میں باتیں کرنے میں مصروف تھے جبکہ اجالا فاطمہ زوجاجہ اور راحم جگہ جگہ جا کے پکچرز لے رہے تھے۔۔۔۔
جنید کا کچھ اتہ پتہ نہیں تھا ۔۔۔۔
اجالا فاطمہ کے پاس سے اٹھ کےپل کے دوسری جانب آگئ ۔۔۔۔۔
علی ارحم اور خرم آپس میں باتیں کر رہے تھے۔۔علی کا موبائل بج اٹھا۔۔۔۔۔۔ارمان کالنک۔۔۔۔۔
علی نے ارمان کا نمبر دیکھ کے کال رسیو کی۔۔
ہیلو علی(ارمان سے جگہ بتائ ) میں یہاں کھڑا ہو مجھے تم لوگ دکھ نہیں رہے ہو تو ادھر آجا ۔۔۔۔
اوکے تو وہیں رکھ میں آتا ہوں۔۔۔
ارحم خرم آپس میں باتیں کرنے لگ گئے۔۔۔
بھائئئئ بچاوووو۔۔۔۔
یہ آواز یہ تو اجالا کی آواز ہے ۔۔خرم اجالا کی آواز سن کے بولا۔۔
ہاں وہاں سے آرہی ہے۔۔۔
دونوں اٹھ کے آواز کی سمت مڑ گئے۔۔۔
سامنے کا منظر۔۔۔ایک لڑکا اجالا کے ساتھ زبردستی کر رہا تھا خرم بھاگ کے اس آدمی کے پاس گیا ایک مکا رسید کیا۔۔۔۔ارحم بھی آگے بڑھ کے اس آدمی کو مارا اجالا ڈر کے خرم کے پیچھے چھپ گئ۔۔۔
انجان آدمی نے ارحم کے منہ پہ مکہ رسید کیا۔۔۔ارحم اس
حملے کے لیے تیار نہیں تھا نیچے گر پڑا ۔۔۔۔انجان آدمی نے پسٹل نکال کے ارحم کے سر پہ تان دی۔۔۔
خرم نے بھی فورا اپنی پسٹل نکال لی۔۔۔۔
چونکہ خرم ایک بزنس مین تھا ایسے واقعے خرم سے ساتھ بہت مرتبہ ہوئے تھے تب سے خرم اپنے ساتھ پسٹل رکھتا تھا۔۔۔۔
خبردار پسٹل نیچے پھینکو ورنہ اس لڑکے کی کھوپڑی اڑا دونگا۔۔۔۔
خرم پسٹل سامنے کیے کھڑا تھا۔۔۔۔
ارحم اور اس انجان آدمی کے پیچھے ہی پانی تھا۔۔۔
اس آدمی نے آہستے سے ارحم پہ اپنی گرفت ڈھیلی کی پیچھے کی جانب بڑھ کے پانی کی طرف چھلانگ لگا دی۔۔۔۔خرم اجالا اور ارحم اس آدمی کو دیکھ رہے تھے کہ اچانک پسٹل چلی ہوا میں دھماکہ ہوا پسٹل کی آواز سن کے تینوں ساکت تھے۔۔۔۔خرم ابھی تک اپنی پسٹل کا نشانہ ارحم کی جانب کیا ہوا تھا ۔۔۔۔
ارمان علی دونوں خرم کی طرف آرہے تھے کہ فائر کی آواز چلی۔۔۔
************♡******
ارمان علی دونوں خرم کی طرف آرہے تھے کہ فائر کی آواز چلی۔۔۔
ارمان اور علی اپنی جگہ ساکت تھے۔۔۔۔۔گولی ارحم کو لگی تھی۔۔۔۔
ارحم کا وجود ڈھیلا ہوگیاارحم آنکھیں پھاڑے خرم کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔۔۔ارحم نے ارمان کی طرف ہاتھ اوپر کیا کہ پاوں پھسلا ارحم پانی میں گر گیا۔۔۔
سب سے پہلے ارمان ہوش میں آیا جی جان لگا کہ چلایا۔۔۔۔۔ارحممممممممم۔۔۔۔ارمان چلا کے ارحم کی جانب بھاگا لیکن دیر ہوگی تھی ارحم پانی میں گر گیا تھا۔۔۔۔۔
گولی کی اور ارمان کے چیخنے کی آواز سن کے زوجاجہ فاطمہ اور ثوبیہ اور راحم بھاگ کے ان کی جانب آئے۔۔۔۔
اجالا ابھی تک شاک کی کیفیت میں تھی۔۔۔۔
کیا ہوا ۔۔۔فاطمہ نے آگے بڑھ کے علی سے پوچھا جو ساکت تھا۔۔۔
علی کیا ہوا۔۔۔فاطمہ نے علی کو پکارا ۔۔۔۔۔
ہوں۔۔علی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔سب کے دماغ ماوف ہوگئے تھے۔۔فاطمہ نے خرم کی جانب دیکھا جو ابھی تک پسٹل ہاتھ میں لیے اسی پوزیشن میں کھڑا تھا۔۔۔
علی کیا ہوا ہے ارمان بھائی ایسے رو کیوں رہے ہیں اور یہ خرم نے پسٹل کیوں پکڑی ہوئ ہے۔۔۔کوئ مجھے بتائے گا کہ ہوا کیا ہے۔۔۔۔اور ارحم کہاں ہے۔۔۔
ارحمممم۔۔۔علی ارمان کی جانب بھاگا سب بھی ارمان کی جانب چلے گئے۔۔۔ارمان ادھر بیٹھے رورہا تھا۔۔۔
اجالا آہستہ آہستہ سمندر کی جانب جا رہی تھی۔۔
اجالا کیا ہوا ہے یار یہ ارمان ایسے کیوں رو رہا ہے اور کھائ میں کون گرا ہے۔۔۔ثوبیہ پریشانی میں اجالا کے پاس آئ۔ ۔
ار۔۔۔ارحم ارحم کو گو گولی لگی ہے وہ وہ۔۔۔پانی۔۔۔می میں گر گیا۔۔۔اجالا سے بولا نہیں جا رہا تھا۔۔۔
فاطمہ نے سنا تو وہیں ارمان کے پاس ڈھےگئے۔۔۔زوجاجہ بھاگ کے فاطمہ کی جانب آئ۔۔۔
فاطمہ چلا رہی تھی ارحمممممم۔۔۔۔زوجاجہ فاطمہ ثوبیہ اجالا کو اور علی ارمان اور راحم کو سمبھالنے کی کوشش کر رہا تھا جو بار بار پانی کی طرف دیکھ رہا تھا اگر علی ارمان کو نہ پکڑے رکھتا تو ارمان بھی پانی میں گر جاتا ۔۔۔۔جنید راحم کے پاس تھا۔۔۔
جنید علی کے پاس آیا۔۔۔۔علی میرے خیال سے ہمیں گھر چلنا چائ ہے رات کے باہر بج رہے ہیں گھر والوں کی کال بھی آرہی ہے ہم یہاں تو کچھ کر نہیں سکتے ۔۔۔
ہاں صحیح کہہ رہے ہو تم۔۔ ۔۔علی ارمان کی جانب آیا جو نیچے پانی کے پاس بیٹھا نیچے ہی دیکھ رہا تھا۔۔۔کوئ اور ہوتا تو سمندر کی طرف دیکھ کے ڈر جاتا لیکن ارمان اسی جگہ دیکھ رہا تھا جہاں ارحم گرا تھا۔۔۔
فاطمہ نے رو رو کے اپنا بڑا حال کر دیا تھا۔۔۔راحم بلکل چپ خالی نظروں سے نیچے زمین کو گھور رہا تھا۔۔
اجالا خرم کے ساتھ چپکی بیٹھی تھی۔۔۔۔
ارمان یار اٹھو گھر چلو رات بہت ہوگئ ہے اب پولیس ہی کچھ کر سکتی ہے۔۔۔
اجالا پولیس کا نام سن کے کانپ گئ ۔۔۔۔
ارمان نے غصے سے علی کو گھورا۔۔۔
گھر چلوں میں اپنے بھائ کو یہاں اس حالت میں چھوڑ کے گھر چلا جاوں۔۔۔
پاگل ہوگئے ہو تم اس اس پانی م می میرا بھائ ہے اسے چھوڑ کے گھر چلا جاوں۔۔۔۔۔۔
اسے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے اسے پانی سے ڈر لگتا ہے اگر میں اسے یہاں اکیلے چھوڑ کے گھر چلا گیا تو وہ کیا سوچے گا کہ میں کیسا بھائ ہوں
اپنے بھائ اپنے ارحم کو یہاں اندھیرے میں چھوڑ کے چلا گیا۔۔۔۔
جب وہ وہ اتنا سا تھا نہ تو میں نے اس سے وعدہ کیا تھا کہ کبھی زندگی میں اسے اکیلے نہیں چھوڑونگا۔۔۔۔
ارمان پلیز خود کو سمبھال وہ دیکھ فاطمہ اور راحم کی حالت ٹھیک نہیں ہے گھر والے بھی پریشان ہو رہے ہیں۔۔۔۔
تم لوگ جاو اور کسی کو لے کے آو مجھے میرا بھائ چائیے ۔۔۔ارمان غصے سے بولا۔۔۔
علی سب کو لے کے گھر چلا گیا۔۔۔
ایک گھنٹے بعد گھر پہنچے ۔۔۔سامنے صوفے میں بیٹھے سب بڑے بچوں کا انتظار کر رہے تھے۔۔۔
فرحان صاحب غصے میں علی کی جانب آئے ۔۔۔
اتنی رات ہوگئ ہے
تم لوگ اتنی دیر سے کیوں آئے کہا بھی تھا کہ شام تک آجانا پھر اتنی دیر کیوں لگی
۔رات کا ایک بج رہا ہے کچھ خ۔۔۔فرحان صاحب غصے میں بول رہے تھے کہ پیچھے سب بچوں کی حالت دیکھ کے چپ ہو گئے۔۔۔۔
یہ تم لوگوں نے کیا حالت بنا رکھی ہے یہ ارمان تم لوگوں کے ساتھ تھا کیا ابھی نظر کیوں نہیں آرہا صبح سے گھر پہ نہیں ہے اور یہ ارحم کہاں ہے وہ تو تم لوگوں کے ساتھ تھا نہ۔۔۔
راحم صدمے کی حالت میں کھڑا تھا کہ اچانک زمین میں گر گیا۔۔۔علی راحم کی طرف بھاگا۔۔۔
راحم میرے بچے۔۔۔آمنہ بیگم راحم کی جانب بھاگی ۔۔۔
امی سب ختم ہوگیا ارحم مر گیا وہ پانی میں گر گیا۔۔۔امیی ۔۔۔
کیاآااا آمنہ بیگم وہیں ڈھےگئیں۔۔دادو نغمہ بیگم فرحان صاحب نجمہ بیگم سب ساکت ہوگئیں۔۔۔۔
گھر میں کہرام مچ گیا تھا۔۔۔
علی جنید فرحان صاحب تیراکو کو لے کے اس جگہ پہنچے جہاں ارحم ڈوبا تھا۔۔۔
ارمان شام سے ایک ہی پوزیشن میں بیٹھا پانی کو گھور رہا تھا جیسے سب قصور اس پانی کا ہی ہو۔۔۔
دو تین گھنٹے بیت گئے لیکن ارحم کا کچھ پتا نہیں چلا۔۔۔
فرحان صاحب معزرت کے ساتھ ہم سے جتنی کوشش ہو سکی ہم نے کی آپ کے بچے کو پانی بہا کے لے گیا دیکھیں پانی کا بہاو بہت ذیادہ ہے۔۔۔
اب اس سے آگے ہم کچھ نہیں کر سکتے ۔۔۔۔
علی ارمان کو پکڑے گھر لا رہا تھا آمنہ بیگم ارمان کی جانب بھاگیں ۔۔۔
ارمان میرے ارحم کو ساتھ لائے کے نہیں ۔۔۔۔
ارمان بغیر جواب دیے ایک کونے میں بیٹھ گیا ۔۔
آج کی رات خان ویلا میں قیامت کی رات تھی۔۔۔
صبح ایک ایک کر کے سب آرہے تھے
جن جن کو ارحم کی خبر مل رہی تھی۔۔۔
ایک بار پھر ارحم کو ڈھونڈنے کی کوشش کی گئ لیکن ناکام۔۔۔۔
علی نے گھر والوں کو سارا واقعہ بتادیا جو جو وہاں ہوا تھا
سب خرم کر دیکھ رہے تھے اجالا خرم کے ساتھ ابھی تک چپک کے کھڑی تھی
جیسے اگر الگ ہوئ تو خرم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجائے گا۔۔۔۔۔
اجالا نے پولیس کو دیکھ کے ڈر کے مارے خرم کی جیکٹ پکڑ لی۔۔۔
جیسا کے ہمیں بتایا گیا کہ ارحم کو گولی لگی تھی
اور یہ پسٹل اس جگہ سے ملی ہے جہاں یہ واقعہ ہوا تھا۔۔۔۔۔
۔اور جوکہ ارحم صاحب کی باڈی بھی نہیں ملی کہ ہم پوسٹ مارٹم کر کے سچ کا پتا لگوائیں ۔۔۔
اور یہ پسٹل بھی خرم صاحب کی ہے تو سیدھا سیدھا شک خرم صاحب پہ جاتا ہے انہی کی پسٹل سے گولی چلی تھی تو ہمیں خرم کو اریسٹ کرنا پڑےگا ۔۔۔
وہیں ہوا جسکا اجالا کو ڈر تھا۔۔۔۔
فرحان صاحب آگے آئے۔۔۔
انسپکٹرصاحب ہمیں کوئ کیس درج نہیں کروانا
آپ جا سکتے ہیں۔۔۔
اوکے جیسے آپ کی مرضی۔۔۔پولیس واپس جا رہی تھی۔۔۔
لیکن مجھے اپنے بھائ کے قاتل کی رپورٹ درج کروانی ہے۔۔۔۔ارمان نے پیچھے سے کہا۔۔۔۔
بیٹا یہ گھر کی بات ہے جانے دو انسپیکٹر صاحب آپ جائیں۔۔۔۔
امی پلیز آپ بخش سکتی ہیں اپنے بیٹے کے قاتل کو لیکن میں نہیں۔۔۔
ارمان خرم کو دیکھ کے بولا ۔۔۔
مجھے اپنے قاتل کو سزا دلوانی ہے اور میرے بھائ کا قاتل خرم ہے
انسپیکٹر صاحب آپ خرم کو اریسٹ کیجیے
اجالا نے خرم کو مضبوطی سے پکڑا۔۔۔
بی بی آپ سائڈ میں ہوں ہمیں انہیں اریسٹ کرنا ہے۔۔۔
میرا بھائ قاتل نہیں ہے
میرے بھائ نے کسی کو بھی نہیں مارا۔۔۔۔
بی بی آپ سائڈ میں ہو
مجبورا ہمیں آپ کے خلاف بھی ایکشن لینا پڑے گا۔۔۔۔
میرے بھائ نے کسی کو بھی نہیں مارا یہ سب جھوٹ ہے آپ پلیز سچ کا پتا لگوائیں ۔۔۔۔۔
اجالا اب بھی خرم کو مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھی۔۔خرم نے اجالا کو الگ کرنا چاہا لیکن اجالا ارمان کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
انسپکٹر نے علی کو اشارہ کیا علی اشارہ سمجھ کے اجالا کے پاس آیا۔۔۔
اجالا پلیز سمبھالو خود کو علی اجالا کو خرم سے الگ کر کے بولا۔۔۔
اجالا کو خرم سے ذبردستی الگ گیا۔۔۔۔خرم اجالا کے پاس آیا۔۔۔
پریشان مت ہو میں مجھے کچھ نہیں ہوگا ۔۔۔۔
خرم کے پاس پولیس آئ۔۔
وہاں ہر کوئ کھڑا تماشہ دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔
چھوڑو میرے بھائ کو میرے بھائ نے کچھ نہیں کیا چھوڑو ۔۔۔۔۔
پولیس خرم کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگا کے باہر لے کے جا رہی تھی۔۔۔
اجلا بھاگ کے ارمان کے پاس آئ۔۔۔
ارمان پلیز ایسا نا کرو میرے بھائ نے کسی کو نہیں مارا پلیز تم سمجھاو نہ پولیس کو۔۔۔
میرا بھائ قاتل نہیں ہے ہم ہم سب مل کے اس قاتل کا پتا لگوائیں گے
پلیز میرے بھائ کو چھڑوا دو۔۔ارمان رخ موڑے کھڑا تھا جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔۔۔
ارمان خرم کا کیس واپس لو۔۔اجالا سخت الفاظ میں بولی۔۔۔
تمہیں سمجھ نہیں آتا میں کیا کہہ رہی ہوں
میرے بھائ کا کیس واپس لو۔۔اس بار اجالا چلا کے بولی۔۔۔۔
ارمان مڑا۔۔۔
۔نہیں لونگا اسکو تو میں سزا دلوا کے رہونگا۔۔۔۔تمہارا بھائ میرے بھائ کا قاتل ہے
اور قتل کا انجام پھانسی ہوتی ہے۔۔۔
ارماااان۔۔۔۔۔اجالا پوری جان لگا کے چلائ۔۔۔
مجھے میرا بھائ چاھیۓ گولی خرم کی پسٹل سے نہیں چلی تھی ارمان گولی ہمارے پیچھے سے چلی تھی۔۔۔۔۔
تمہیں کیسے پتا کیا تم اس گولی پہ نظر رکھی وی تھی۔۔۔
ارمان اجالا کا بازو پکڑ کے چلایا۔۔۔
فائر کی آواز پیچھے سے آئ تھی ارمان تم سمجھ کیوں نہیں رہے۔۔۔۔
۔دادی آپ سمجھائیں نہ ارمان کو کہ بھائ کو چھوڑ دے میرا ان کے سوا کوئ نہیں ہے۔۔۔۔
سب ارمان کو سمجھا رہے تھے لیکن وہ بلکل چپ بیٹھا تھا ۔۔۔۔
**************♡************