"سنو پوجا تمہارے پاس کوئی اسکارف ہے۔۔۔؟؟
"اگلے دن یونی سے واپسی آکر نینا پوجا کے کمرے میں داخل ہوتی ہوئی بولی۔۔۔۔"
"پتہ نہیں چیک کرتی ہوں۔۔۔"
"پوجا الماری کی طرف بڑھ گئی۔۔۔"
"یہ لو۔۔۔ویسے تم ایک بات تو بتاؤ کہ تم یہ روز روز کہاں چلی جاتی ہو یونی سے واپس آکر۔۔۔۔؟
"پوجا تفتیش سے پوچھنے لگی۔۔۔"
"کہیں نہیں بس۔۔۔۔"
"نینا نے اسکارف اس کے ہاتھ سے لیا اور اپنے کمرے میں آگئی۔۔۔"
"نینا۔۔۔۔
"پوجا اس کے پیچھے اسے آواز دیتی ہوئی اس کے کمرے میں آگئی۔۔۔۔"
"یہ کیا کررہی ہو۔۔۔۔؟
"پوجا نے حیرت سے نینا کو دیکھا جو اسکارف باندھنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔۔"
"اسکارف پہن رہی ہوں۔۔۔"
"نینا نے مصروف انداز میں کہا۔۔۔"
"مگر کیوں۔۔۔؟ اس سے پہلے تو کبھی نہیں پہنا تم نے۔۔۔۔؟
"پوجا حیرت سے پوچھنے لگی۔۔۔"
"اللہ نے عورت کو سات پردوں میں بنایا ہے اسے پردے میں رہنے کا کہا ہے۔۔۔سر پر سے دوپٹے کو سرکنے مت دو یہ تمہاری حفاظت کرتا ہے یہ اللہ کا حکم ہے۔۔"
"نینا کو بے اختیار اسحاق صاحب کی بات آئی۔۔۔"
"نینا۔۔۔۔
"پوجا نے اسے آواز دی۔۔۔"
"بس دل کیا تو پہن لیا گناہ تھوڑی کرلیا ہے جو تم ایسے ری ایکٹ کررہی ہو۔۔۔"
"وہ ہوش میں آتے ہوئے بولی۔۔"
خیر میں جارہی ہو بائے۔۔۔۔"
"نینا نے اسکارف پن اپ کرتے ہوئے کہا اور کمرے سے نکل گئی۔۔۔۔"
"پوجا حیران سی کھڑی اسے جاتا دیکھنے لگی جو کچھ دن سے الگ ہی نظر آرہی تھی۔۔۔"
"آپ مسکرا کیوں رہے ہیں۔۔۔۔؟
"نینا نے اسحاق صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔"
"ماشاءاللہ آج تم بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کو نینا سے اس بات کی توقع نہیں تھی۔۔۔۔"
"شکریہ۔۔۔۔"
"نینا مسکرا دی۔۔۔"
"آپ سے ایک بات پوچھوں۔۔۔؟
"نینا چائے کا کپ نیچے رکھتی ہوئی بولی۔۔۔"
"جی ضرور۔۔۔۔۔"
"آپ کل کچھ بتا رہے تھے میں اس بات کو تفصیل سے سننا چاہوں گی۔۔۔۔کیا آپ مجھے بتائے گیں۔۔۔؟
"نینا نے پوچھا۔۔۔"
"کس بارے میں۔۔۔؟
"اسحاق صاحب نے پوچھا۔۔۔۔"
"یہی کہ للہ نے عورت کو سات پردوں میں بنایا ہے اسے پردے میں رہنے کا کہا۔۔۔۔اسے خیال رکھنا چاہیے کہ اس کے سر سے دوپٹہ نہ سرکے۔۔۔۔"
"نینا ان کی باتوں کو دہرانے لگی۔۔۔۔"
"بیٹا اللہ قرآن پاک کی سورۃ الاحزاب آیت نمبر 59 میں فرماتا ہے کہ!
يَـٰٓأَيُّہَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزۡوَٲجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلۡمُؤۡمِنِينَ يُدۡنِينَ عَلَيۡہِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّۚ ذَٲلِكَ أَدۡنَىٰٓ أَن يُعۡرَفۡنَ فَلَا يُؤۡذَيۡنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
"اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔۔۔۔"
"جانتی ہو جب پردے کا حکم آیا تو دنیا کی سب سے پاک عورتوں نے دنیا کے سب سے پاک مردوں سے بھی پردہ کیا۔۔۔۔"
"اس حکم کے بعد ہی یہ بھی بتا دیا اللہ نے کہ ایسا حکم آیا کیوں؟ تاکہ وہ "پہچان لی جائیں"، مراد یہ ہے کہ ان کے لباس کو دیکھ کر ہر دیکھنے والا جان لے کہ وہ شریف اور باعصمت عورتیں ہیں اور کوئی ان کے متعلق غلط خیال دل میں نہ لائے، نہ ہی کسی غلط مقصد کے استعمال کے لیے اسے سوچے (اور یہ بھی کہ وہ پہچان لی جائیں کہ یہ مسلمان عورتیں ہیں، حجاب کو اللہ نے مسلمان عورتوں کی پیچان سے تشبیہہ دی ہے! کتنی خوبصورت بات ہے نا -) اور پھر اللہ نے کہا "اور نہ ستائی جائیں" یعنی کوئی ان کو ستائے نہ، ان سے تعرض نہ کیا جائے، وہ محفوظ رہیں- اللہ نے ہماری حفاظت کے لیے ہمیں حجاب (پردے) کا حکم دیا ہے-۔۔"
"بیٹا اللہ نے عورت کو سات پردوں میں بنایا ہے۔۔۔۔اسے پردے میں ہی رہنے کا حکم دیا اس کی خوبصورتی پر صرف اس کے شوہر کا حق رکھا۔۔۔۔جانتی ہو عورت یہ حکم کیوں دیا گیا کہ وہ ہمشہ اپنے سر پر دوپٹہ رکھے یہ حکم اس لیے دیا گیا ہے کیونکہ جب عورت کے سر سے دوپٹہ سرکتا ہے تو ساتھ ساتھ رحمت کے فرشتے اس کے پاس سے ہٹ جاتے ہیں۔۔۔۔اللہ فرماتا ہے کہ!
"اے نبیؐ، اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور اہل ایمان کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔۔۔۔"
سوچو اللہ کہہ رہا ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں ستائی نہ جائیں۔۔۔۔"
"نینا جس رب نے عورت کو تخلیق کیا ہے وہ کس طرح اس عورت کے بارے اس بندی کے بارے دوسرے انسانوں کے منہ سے اس کے جسم پر فقرے کستے سن سکتا ہے۔۔۔۔جب ایک باپ یہ بات برداشت نہیں کرسکتا تو پھر جس رب نے اسے بنایا ہے وہ کیسے کریں گا کیا یہ بات تکلیف دہ نہیں ہے۔۔۔؟
"اسحاق صاحب اسے ٹہر ٹہر کر بتا رہے تھے۔۔۔۔"
"نینا یہ چادر ایک ڈھال ہے عورت کے لیے ایک ایسی ڈھال جو اسے محفوظ کرتی ہے شیطانوں سے اس دنیا میں گھومتے درندوں سے بس یہ بات سمجھنے کی ہے۔۔۔جس کو سمجھ آجاتی ہے وہ ان درندوں سے بچ جاتیں ہیں اور جس کو نہیں سمجھ آتی وہ ان درندوں کی حواس کا نشانہ بن جاتیں ہیں۔۔۔۔"
"جس طرح عورت خود کو سنوارنا خود کو نکھارنا اپنا فرض سمجھتی ہے اپنا حق سمجھتی ہے اسی طرح اس کی حفاظت کرنا بھی اس کا فرض ہے۔۔۔۔اگر وہ اپنی مدد نہیں کریں گی تو پھر کوئی بھی نہیں کرسکے گا۔۔۔۔"
"ایسا نہیں کہ عورت کو ہی سارے حکم دیے گئے ہیں مرد کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کی حفاظت کریں اگر عورت پردے میں رہ کر اپنی حفاظت کریں اور مرد اپنی نگاہوں کو قابو میں رکھے تو آج بھی دنیا کا نظام بدل سکتا ہے کیونکہ میرے رب کو انسان کی ایک ادا بھا گئی نا تو وہ اسے بخش دیتا ہے وہ انسانوں کی طرح نہیں کرتا ہے کہ ننانوے اچھے کام کرو لیکن ایک نہ کرو تو انسان ناراض ہوجاتا ہے لیکن اللہ کے کام نرالے ہیں اگر انسان ننانوے گناہ کریں اور صرف ایک اچھا کام کریں تو میرا رب اس سے راضی ہوجاتا ہے اس کا معاف کردیتا ہے میرے رب کی شان بڑی نرالی ہے۔۔۔۔"
"نینا انسان کا سفر اللہ سے شروع ہے اور اللہ پر ہی ختم ہے انسان اسی کی طرف سے آیا ہے اور واپس بھی اسی کی طرف جائے گا۔۔۔۔"
"اللہ اور انسان کا رشتہ بڑا ہی خوبصورت ہے۔۔۔اگر وہ سچے دل سے نبھایا جائے تو انسان عرش کی سیر کرتا ہے۔۔۔ اسے اللہ کے دوست ہونے کا اعزاز ملتا ہے اور یہ اعزاز بہت ہی نایاب ہوتا ہے۔۔یہ اعزاز لاکھوں کروڑوں لوگوں میں سے کسی ایک کو ملتا ہے۔۔۔"
"اور تم جانتی ہو اللہ اپنی عبادت کے لیے بندے خود چنتا ہے جو اسے پسند آجاتا ہے پھر وہ اسے سب کا پسندیدہ بنا دیتا ہے۔۔۔"
"وہ جیسے چاہے عزت دیتا ہے اور جیسے چاہے ذلت دیتا ہے کیونکہ میرا رب ہر چیز پر اختیار رکھتا ہے۔۔۔"
"وہ ہر شئے پر قادر ہے اس کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔۔۔وہ لازوال ہے۔۔۔وہ اپنے بندوں سے بہت محبت کرتا ہے۔۔ تم جانتی ہو کہ اگر کسی گناہگار کا ایک آنسو اللہ کے خوف سے کیا اللہ کی محبت میں بہہ جائے نا تو وہ اس کا بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف کردیتا ہے وہ اپنے بندے کے آنکھ سے نکلے ایک آنسو کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیتا تو پھر سوچوں کہ وہ ہم سے کس قدر محبت کرتا ہے۔۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب کے لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے اور آنکھوں سے اشک ٹوٹ ٹوٹ کر رخسار پر بہہ رہے تھے۔۔۔۔"
"نینا ساکت سی انہیں سننے میں اتنی مصروف تھی کہ اسے وقت کی خبر ہی نہ ہوسکی۔۔۔۔"
""تم جانتی ہو حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں مدینے ایک گانے گانے والا رہا کرتا تھا۔۔۔اسی سے اس کی روزی روٹی چلتی تھی۔۔۔لیکن جب اس کی عمر زیادہ ہوگئی تو اس کی آواز میں بھی تبدیلی آگئی پھر کسی کو اس کےگانے اچھے نہیں لگتے تھے۔۔۔کوئی بھی اسے نہیں سنتا تھا۔۔۔پھر ایک وقت آیا کہ اس کے گھر میں فاقے پڑنے لگے اور گھر کا سارا سامان بھی بک گیا تھا۔۔۔پھر ایک دن تنگ آکر وہ ﺟﻨﺖ ﺍﻟﺒﻘﯿﻊ میں گیا۔۔اور اللہ پاک کو پکارنے لگا۔۔۔"
"ﯾﺎ اللہ ! ﺍﺏ ﺗﻮ ﺗﺠﮭﮯ ﭘﮑﺎﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔۔۔ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﻮﮎ ہے۔۔۔"
"ﻣﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ہیں۔۔۔"
"ﯾﺎ اللہ ! ﺍﺏ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻨﺘﺎ۔۔۔"
"ﺗﻮ ﺗﻮ میری ﺳﻦ..!
"ﺗﻮ ﺗﻮ میری ﺳﻦ..!
"ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮓ ﺩﺳﺖ ﮨﻮﮞ ﺗﯿﺮﮮ ﺳﻮﺍ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﺎﻝ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻭﺍﻗﻒ ﻧﮩﯿﮟ۔۔۔۔"
"وہ وہاں جنت البقیع میں اللہ کو پکار رہا تھا اور یہاں ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻣﺴﺠﺪ ﻣﯿﮟ ﺳﻮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﮧ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﻭﺍﺯ ﺁﺋﯽ اے ﻋﻤﺮ ! ﺍﭨﮭﻮ۔۔! ﻣﯿﺮﺍ ﺍﯾﮏ ﺑﻨﺪﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﺑﻘﯿﻊ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﺎﺭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔۔اس کی مدد کو پہنچو۔۔۔"
"ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ اللہ ﻋﻨﮧ نے جب یہ سنا تو ﻧﻨﮕﮯ ﺳﺮ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﯿﺮ ﺟﻨﺖ ﺍﻟﺒﻘﯿﻊ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺩﻭﮌﮮ۔۔۔"
"وہاں پہنچ کر ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺟﮭﺎﮌﯾﻮﮞ ﮐﮯ پیچھے ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺩﮬﺎﮌﯾﮟ ﻣﺎﺭ ﻣﺎﺭ ﮐﺮ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ۔۔۔٫
"ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺐ حضرت ﻋﻤﺮ ﮐﻮ ﺁﺗﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻟﮕﺎ ﺳﻤﺠﮭﺎ کہ شاید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوڑا لے کر آ رہے ہیں۔۔۔"
"ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺭﮐﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟؟ ﻣﯿﮟ تمہارﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ۔۔۔۔"
"ﻭﮦ حیرت س ﺑﻮﻻ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮐﺲ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ﮨﮯ؟
"ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻟﻮ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺗﻤﮭﺎﺭﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﮭﯿﺠﺎ ہے۔۔۔۔"
"ﯾﮧ ﺳﻨﻨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﮔﭩﮭﻨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﻞ ﮔِﺮﺍ ﺍﻭﺭ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا اور کہنے لگا۔۔۔"
ﯾﺎ اللہ !
"ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﺎ ﻓﺮﻣﺎﻧﯽ ﮐﯽ۔۔۔"
"ﺗﺠﮭﮯ ﺑﮭﻼﺋﮯ ﺭﮐﮭﺎ۔۔۔"
"ﯾﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺗﻮ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮯ لیے۔۔۔"
"ﺍﻭﺭ ﺗﻮ ﻧﮯ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﮭﯽ " ﻟﺒﯿﮏ " ﮐﮩﺎ۔۔۔"
"ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺪﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺗﻨﮯ ﻋﻈﯿﻢ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﺎ۔۔۔"
"ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﺠﺮﻡ ﮨﻮﮞ۔۔۔"
"ﯾﺎ اللہ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ۔۔۔"
"ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ۔۔۔"
"ﯾﮧ ﮐﮩﺘﮯ ﮐﮩﺘﮯ ﻭﮦ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ۔۔۔"
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﺭﺿﯽ اللہ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﺎﺋﯽ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺑﯿﺖ ﺍﻟﻤﺎﻝ ﺳﮯ ﻭﻇﯿﻔﮧ ﻣﻘﺮﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ۔۔۔۔٫
ﺑﮯ ﺷﮏ اللہ ﺑﮍﺍ ﻏﻔﻮﺭ ﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﮬﮯ...!!!
"سوچو پھر وہ رب کس قدر اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے وہ کس قدر انہیں چاہتا ہے اور کس قدر ان سے رحم سے پیش آتا ہے۔۔۔"
"ایک گناہگار جس نے کبھی اسے یاد تک نہ کیا لیکن جب ایک بار بھی کیا تو اسے اچھا لگا اور معاف کردیا اسے۔۔۔جہاں پر ہماری سوچ ختم ہوتی ہے نا وہاں سے میرے رب کی شروع ہوتی ہے۔۔۔"
"نینا جس طرح میرا اللہ بہت رحیم و غفور ہے نا اسی طرح اس کا رسول بھی بہت رحم دل تھے۔۔۔ان کے جیسا اخلاق والا آج تک کوئی نہیں آیا دنیا میں۔۔ اللہ نے انہیں بےمثال بنایا تھا وہ جیسے کہتے ہیں نا پرفیکٹ۔۔۔میں تمہیں ان کی زندگی کا ایک قصہ سناتا ہے ویسے تو ان کے تمام معجزات اور تمام باتیں بےمثال تھیں لیکن مجھے ایک قصہ بہت پسند ہے جب میں نے وہ قصہ پڑھا تھا نا تو ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی تھی مجھ پر میں سوچ رہا تھا کہ اس وقت کے لوگ کتنے خوش نصیب تھے نا جنہیں کلمہ میرے نبی نے پڑھایا تھا۔۔۔"
"نینا کے آنکھوں میں نمی تیر رہی تھی۔۔۔۔"
"ایک بار کا ذکر ہے ایک کفار عورت مکے میں رہتی تھی۔۔۔اور وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں بہت سی باتیں سنا کرتی تھی۔۔۔کہ وہ جادوگر ہیں اور اپنی باتوں سے اپنے جادو سے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلیتے ہیں۔۔۔وہ کہتا ہے خدا ایک ہے اس کی عبادت کرو۔۔۔اور ایسی کئی باتیں وہ سنا کرتی تھی۔۔۔لیکن اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔۔۔۔پہلے کے وقت میں کعبہ شریف میں کفاروں نے اپنے بت رکھے ہوتے تھے۔۔۔تو وہ بوڑھی عورت کعبہ شریف میں جاتی ہے اور اپنے بت کے پیروں میں سر رکھ کر دعا کرتی ہے کہ میں نے ہمیشہ تیری عبادت کی ہے اور اب میں نہیں چاہتی ہوں کہ عمر کے اس آخری حصے میں میں تجھ سے غافل ہو جاؤں غم یہ ہے مجھے کہ کوئی محمد ہے ہاشم گھرانے میں وہ کہتا ہے کہ خدا بس ایک ہے سارے زمانے میں میں چاہتی ہوں تو اس کی ہستی کو مٹا دے تاکہ پھر کوئی اس کا نام نہ لے۔۔۔۔"
"یہ دعا کرکے وہ اپنے گھر آجاتی ہے۔۔۔کافی دن گزر جاتے ہیں کچھ نہیں ہوتا تو پھر وہ سوچتی ہے کہ وہ یہ شہر ہی چھوڑ دے۔۔۔یہ ارادہ کرکے وہ اپنا سامان ایک گٹھر میں باندھ لیتی ہے اور دروزے پر بیٹھ کر کسی کا انتظار کرنے لگتی کہ کوئی معذدور ملے تو اس سے یہ گٹھر اٹھوا کر میں یہاں سے چلی جاؤں۔۔۔۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وقت کعبہ شریف جاتے تھے۔۔۔جب ان کا اس بوڑھی عورت کے گھر کے پاس سے گزر ہوتا ہے تو وہ بوڑھی عورت انہیں دیکھ اپنے پاس بلاتی ہے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی آواز سن کر ان کے پاس جاتے ہیں وہ پوچھتی کون ہو۔۔۔؟
"تو آپ کہتے ہیں معذدور ہوں اماں۔۔۔۔۔۔"
"تو وہ کہتی کہ معذدور ہو تو میری یہ گٹھری اٹھا کر مجھے میری منزل تک پہنچا دو میں تمہیں خوش کر دونگی معذدوری تمہاری دے کر۔۔۔۔"
"آپ گٹھری اٹھا لیتے ہیں اور چلنے لگتے ہیں سارے راستے وہ عورت اللہ کے نبی کے بارے ناجانے کیا کیا کہتی ہے لیکن آپ خاموشی سے سنتے جارہے ہوتے ہیں منزل پر پہنچ کر بوڑھی عورت خوش ہوتے ہوئے کہتی ہے کہ دل میں جو تمنا تھی اب وہ پوری ہوگئی محمد تو محمد اس کے ساتھیوں سے بھی دور ہوگئی۔۔۔"
"پھر اس کے بعد وہ آپ کو معذدوری دینے لگتی ہے تو آپ لینے سے انکار کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کوئی کام تھوڑی تھا جس کی میں معذوری لوں اگر کوئی اور خدمت ہیں تو بتائے میں وہ بھی کروں پوری۔۔۔۔"
"پھر اس کے بعد آپ جانے کے لیے اجازت مانگتے ہیں تو وہ بوڑھی عورت آپ کو روک لیتی ہے اور کہتی ہے کہ چلے جانا پہلے میری بات تو سنتے جاؤ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سن کر روک جاتے ہیں۔۔۔وہ بوڑھی عورت ان سے کہتی ہے کہ تم بہت معصوم ہو میں تمہیں ایک بات سے آگاہ کررہی ہوں کہ مکے میں کوئی لڑکا ہے ہاشم گھرانے کا جس کا نام محمد ہے وہ اپنے باتوں سے لوگوں کو اپنا بنا لیتا ہے اس لیے تم اس سے بچ کر چلنا اس کی باتیں مت سننا بوڑھی عورت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصحیت کررہی ہوتی ہے۔۔۔۔میں وہ منظر سوچتا ہوں کہ جو سب نصحیت کیا کرتے تھے آج انہیں ایک بوڑھی عورت نصحیت کررہی تھی انہیں کے بارے میں اور خاموش تھے پورے راستے خاموش ایک لفظ نہیں کہا۔۔۔۔پھر اس کے وہ عورت پوچھتی ہے تم نے مجھے اپنے بارے میں نہیں بتایا کیا نام ہے تمہارا۔۔۔کون ہو تم۔۔۔کیا کرتے ہو۔۔۔؟
"اور ایسے کئی سوال وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھتی ہے۔۔۔"
"آپ سر ہو جھکا کر کہتے ہیں کہ میں کیا نام بتاؤں اور کیا کام بتاؤں میں بندہ ہوں خدا کا اور میں ہی محمد ہوں۔۔۔اور میرا کام دنیا والوں کو یہ بتانا ہے کہ خدا واحد ہے اور صرف وہی عبادت کے لائق ہے۔۔۔۔بوڑھی عورت جب یہ سنتی ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہوجاتے ہیں۔۔۔۔اور وہ اسی وقت آپ پر ایمان لے آتی ہے اور کلمہ پڑھ لیتی ہے۔۔۔۔"
"اسحاق صاحب ٹہر ٹہر کر بتا رہے تھے آج بھی یہ واقع بتاتے ہوئے ان پر عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔۔۔انکھوں سے آنسوں تیزی سے بہہ رہے تھے۔۔۔۔"
"نینا ساکت سی انہیں سن رہی تھی۔۔۔اس کا دل یکدم دھڑکنا بھول گیا تھا اس کو اپنا وجود محسوس نہیں ہورہا تھا اشک بہہ بہہ کر رخسار کو بھگو رہے تھے۔۔۔۔اسے اس کی روح کہیں اور ہی محسوس ہورہی تھی۔۔۔۔کافی دیر تک دونوں یونہی خاموش بیٹھے رہے کمرے میں صرف دونوں کے رونے کی آواز گونج تھی۔۔۔۔کچھ دیر نینا وہاں بیٹھی اور اس کے بعد وہ اٹھ کر رسمی علیک سلیک کے بعد وہاں سے چلی گئی۔۔۔"