” خیر! اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔“ انہوں نے پھر سے سلسلہ کلام جوڑا۔ ” یہ بھی برے نہیں ہیں۔ اچھے خاصے کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ گھر بھی زیادہ بھراپرا نہیں ہے اور صفیہ کو میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ بہت ہی صاف اور کھرے دل کی عورت ہے۔ پھر اکلوتی بہو ہونے کی وجہ سے تو تمہیں سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھے گی۔“
” آپ نے ابو سے بات کی؟“ میں نے بےچینی سے پوچھا۔
” کر لوں گی ان سے بات بھی ۔۔۔۔۔۔ مگر وہ یہی کہیں گے کہ پہلے میں تم سے پوچھ لوں۔“
میں ایک گہری سانس بھر کر رہ گئ۔ اگر میں منع کرتی تو ابو کبھی بھی اس رشتے کو اوکے نہ کرتے۔ یوں تو ہر باپ کی طرح وہ بھی اپنے بچوں کیلیٔے ہمہ وقت فکرمند ہی رہا کرتے تھے مگر اس فکرمندی اور محبت میں ان کے ملائیشیا جانے کے بعد اور بھی شدت آئی تھی۔ وطن سے٬ رشتوں سے دور جانے کے بعد ہی ان کی قدر اپنا آپ منواتی ہے اور ہمارے لئے بھی ان کی پدرانہ شفقت اور حساسیت کئ گنا بڑھ گئ تھی۔
” تم نے بتایا نہیں نیلی! تمہاری کیا مرضی ہے؟“
انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا تو میں چونک گئ۔
” آپ کو کس بات کی جلدی ہے امی؟“ میرا دل اس ذکر سے گھبرانے لگا تھا۔
” جلدی مجھے نہیں ۔۔۔۔ جلدی صفیہ کو ہے ۔۔۔۔ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشی جلد منانا چاہتی ہے اور دیکھا جاۓ تو دیر کرنے کی کوئی وجہ بھی تو نہیں ہے ناں۔ جب ہمیں اس رشتے کیلیٔے ہامی بھرنی ہی ہے تو پھر انہیں خوامخواہ کا انتظار کیوں کروائیں۔“ امی شاید زہنی طور پر تیار ہو چکی تھیں اس رشتے کو فائنل کرنے کیلیٔے۔
” امی پلیز کچھ دن ٹھہر جائیں۔ ابھی میں کچھ بھی سوچ نہیں پا رہی ہوں۔“ میں نے بےبسی سے کہتے ہوۓ ان کے ہاتھ تھامے۔
” ٹھیک ہے! میں تم پر کوئیی زور نہیں ڈالنا چاہتی۔ تمہارا جب جی چاہے۔ مجھے جواب دے دینا اور اگر تمہارا دل یہاں راضی نہیں ہے تو بھی مجھے بتاتے ہوۓ جھجھکنا مت۔ میں انہیں انکار کہلوا دونگی۔“ انہوں نے اٹھتے ہوۓ میری ٹینشن کم کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں اثبات میں سر ہلا کر رہ گئ۔
________________________________________
” آج ارمان بھائی بھی پراۓ ہو جائیں گے۔“
میں اس وقت ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھی آنکھوں کے کناروں پر آئی پینسل پھیر رہی تھی ٬ جب صبا نے کمرے میں داخل ہوتے ہی حسب عادت بےسروپا ہانکی۔ میں نے پہلے تو ہاتھ روکا اور پھر اسے دیکھا۔ پیچ اور بلیک کنٹراسٹ کا خوبصورت سوٹ پہنے وہ مجھ سے پہلے تیار ہو چکی تھی۔ اس میں کم ازکم یہ عادت تو اچھی تھی کہ وہ تیار ہونے میں زیادہ وقت نہیں لیتی تھی۔
” جانتی ہو ٬ آجکل شادی کے بعد لڑکیوں سے زیادہ لڑکے پراۓ ہو جاتے ہیں؟“ اپنی بات مکمل کرتے ہوۓ وہ سامنے بیڈ پر بیٹھ گئ۔
” ارمان بھائی ایسے نہیں ہیں اور نہ یہ منگنی ان کی پسند پر ہو رہی ہے۔“ میں نے آنکھوں کا کاجل مزید گہرا کیا۔ ” ہاں ۔۔۔۔ یہ بات تم فرخ کیلیٔے کہہ سکتی ہو ۔۔۔۔۔ اگر اس کی شادی اس جگہ ہو گئ ٬ جہاں وہ چاہتا ہے تو ۔۔۔۔۔“
” کیا ۔۔۔۔ کیا چاہتا ہے وہ ۔۔۔۔۔؟“ اس نے میری بات پر غور کیا اور اچھل پڑی۔
” وہ اپنی کسی کولیگ کو پسند کرتا ہے اور مامی اسے انعمتہ کیلیٔے منا رہی ہیں۔“ میں نے ٹیبل پر سے اپنے آویزے اٹھا کر کانوں میں ڈالے۔
” اس کا مطلب ۔۔۔۔۔۔ وہ انعمتہ سے شادی نہیں کرے گا ۔۔۔۔۔۔ مامی بےچاری کا پلان فیل۔“ وہ بےیقینی سے بڑبڑائی۔
” یہ تو نہیں پتا کہ وہ شادی کرے گا یا نہیں کرے گا۔ مگر فلحال وہ راضی نہیں ہے۔“ میں نے آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا۔
” دیکھا ۔۔۔۔۔۔ اور تم نے خوامخواہ انعمتہ بےچاری سے بیر باندھ لیا تھا۔“ میری بات سنتے ہی صبا نے تبصرہ کیا۔ میں نے پلٹ کر اسے گھورا۔
” تمہاری یہ بکواس کرنے کی عادت ختم کیوں نہیں ہو جاتی۔ تمہیں کیا لگتا ہے کہ میں اس ۔۔۔۔۔“ صبا کے تاثرات ایک دم بدلے تھے۔ میں چپ ہوئی اور اس کی نظروں کے تعاقب میں دروازے کی سمت دیکھا۔ معید دروازے سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا۔
” یہ کیا سر! آپ ابھی تک تیار نہیں ہوۓ۔“ صبا نے اسے دیکھ کر حیرانی سے دریافت کیا۔
” میں نہیں جا رہا۔“ سینے پر ہاتھ باندھتے ہوۓ وہ اطمینان بولا۔ وہ اس وقت اپنے اسی رف حلیے میں تھا۔ اڑے رنگ کی جینز پر بلیک چیک کی پرشکن شرٹ پہنے۔ کئ دن کی شیو بڑھاۓ اور آنکھوں میں سرخیاں سمیٹے۔ میں نے بےزار ہو کر رخ پھیرا۔ اسے دیکھ کر اگر زہن میں کوئیی تاثر ابھرتا تو وہ پاگل خانے سے بھاگے کسی پاگل یا پھر عشق میں ہارے کسی ناکام عاشق کا سا تھا۔
” کیوں ۔۔۔۔۔ کیوں نہیں جا رہے؟“
” میرا موڈ نہیں ہے جانے کا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا کچھ ضروری کام بھی کرنا ہے۔“ وہ مجھے دیکھتے ہوۓ عام سے لہجے میں بتا رہا تھا مگر اس کی نظریں ۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنا آپ جلتا محسوس ہوا۔
” کتنے عجیب ہیں آپ ۔۔۔۔۔۔ بھائی کی منگنی بھی اٹینڈ نہیں کریں گے۔“ جب سے وہ صبا کا ٹیچر بنا تھا۔ صبا اس سے کچھ اسی طرح بات کرنے لگی تھی۔
” منگنی بھائی کی ہے ۔۔۔۔۔۔ میری نہیں کہ شرکت ضروری ہو۔“ وہ دھیرے سے مسکرایا تھا۔ خود پر جمی اس کی گہری نظریں مجھے بےچین کرنے لگی تھیں۔ باہر نکلنے کا سوچا ٬ مگر اس کے دروازے میں کھڑے ہونے کے باعث یہ بھی نہیں کر پائی۔
ویسے میں آپ لوگوں کو یہ بتانے آیا تھا کہ ذرا جلدی باہر نکلنے کی زحمت کر لیجئے۔ ورنہ ہو سکتا ہے کہ آپ بھی یہ فنکشن اٹینڈ کرنے سے رہ جائیں۔
امی اور دادی کافی دیر پہلے ماموں کے ہاں جا چکی تھیں۔ مگر ہماری تیاری نے کافی وقت لے لیا تھا۔ اب شاید انہوں نے ہی اسے بھیجا تھا۔ صبا تو یہ سنتے ہی تیزی سے باہر کی جانب بڑھی تھی۔ اس کے مڑنے پر میں نے بھی قدم بڑھاۓ ٬ مگر دو قدم بعد ہی وہ اچانک رک کر پلٹا اور میں جو اس کے پیچھے ہی تھی ٬ اس سے ٹکراتے ٹکراتے بچی۔
” کیا ہے۔“ اس یقینی تصادم سے بچتے ہی میں اس کی اس حرکت پر جھلا گئ۔ اس کی آنکھوں میں شوخی اتر آئی۔
” سنا ہے عنقریب تمہاری بھی منگنی ہونے والی ہے۔“
میں نے ٹھٹک کر اس کے تاثرات کا جائزہ لیا۔ اس کا انداز پوچھنے والا نہیں ٬ چھیڑنے والا تھا۔
” ہاں ۔۔۔۔۔۔ بلکل ٹھیک سنا ہے تم نے۔“ میں نے سر ہلایا۔ ” منگنیوں کا سیزن چل ہی رہا ہے تو سوچا میں بھی منگنی کر ہی لوں۔“
” ایسا کیا ۔۔۔۔۔!“ اس نے شریر سے لہجے میں کہتے ہوۓ پیشانی پر بکھرے بال ہٹاۓ۔ ” پھر تو مجھے بھی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوۓ ایک عدد منگنی کر لینی چاہیے۔“ وہ کمرے سے نکل آیا۔
” بلکل کیجئے ۔۔۔۔۔ مگر بھائی صاحب۔“ میں نے پیچھے اس کے شانے کو ہولے سے تھپتھپایا۔ وہ گردن موڑ کر مجھے دیکھنے لگا۔
” اس سے پہلے ایک لڑکی ضرور ڈھونڈ لیجئے ٬ کیونکہ ہواؤں کو یا پھر دیواروں کو آپ انگوٹھی نہیں پہنا سکتے۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا اور اس کے کچھ کہنے سے پہلے ہی باہر نکل گئ۔
” آپ کو یہ جملہ بہت مہنگا پڑنے والا ہے نیلی جی!“
اس نے پیچھے سے کہا تھا۔ مگر میں نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا۔
________________________________________
مجھے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ دن ارمان بھائی کے علاوہ میرے لئے بھی اتنا غیر معمولی ثابت ہو گا۔ ورنہ میں شاید خود کو زہنی طور پر تیار ہی کر لیتی۔ اب جو اچانک اور غیر متوقع جھٹکا میرے اعصاب کو لگا تھا ٬ اس سے میرے دل و دماغ ہل کر رہ گئے تھے۔
منگنی کی رسم ہونے کے بعد جب مبارک بادیں دی جاری تھیں۔ مٹھائیاں کھلائی جا رہی تھیں ٬ آفاق بھی کیمرا سنبھالے آگیا۔ میں ایک طرف کھڑی نبیلہ کی قسمت پر رشک کر رہی تھی۔ جس کے چہرے پر ایک خوبصورت سی مسکراہٹ بکھری ہوئی تھی۔ وہ خوش تھی اور اپنی خوشی کو چھپانے کی وہ کوئیی خاص کوشش بھی نہیں کر رہی تھی۔ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں۔ ارمان بھائی اور نبیلہ کو دیکھنے کے بعد میرا اس بات پر ایمان پختہ ہو گیا تھا۔ اسی وقت تصویریں کھینچتے ہوۓ آفاق کو میری یاد آئی تو صبا بھی امی کا پیغام لئے میرے پاس آگئ۔
” تمہیں امی بلا رہی ہیں۔“
” امی کیوں بلا رہی ہیں۔“ میں نے چونک کر سامنے دیکھا تو امی ایک باوقار سی خاتون کے ساتھ بیٹھی نظر آئیں۔
” جا کر پوچھ لو تو بتا دیں گی۔“ صبا کچھ تپ کر بولی۔
میں نے ایک نظر اسے دیکھا ٬ پھر ایک گہری سانس لیتے ہوۓ آفاق کی پکار کو نظرانداز کر کے امی کے پاس آگئ۔
” جی امی!“
” یہ میری بیٹی ہے نیلماں ۔۔۔۔۔۔!“ امی میرے پاس آتے ہی ان خاتون سے مخاطب ہوئیں۔ انہوں نے شاید مجھے ان سے متعارف کرنے کیلیٔے ہی بلایا تھا۔
” السلام علیکم!“ میں نے دھیرے سے انہیں سلام کیا۔
” وعلیکم السلام! جیتی رہو۔“ انہوں نے مسکرا کر میرے سلام کا جواب دیتے ہوۓ میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ ” ماشاءاللہ بہت پیاری ہے ۔۔۔۔۔ کہیں رشتہ وشتہ تو طے نہیں ہوا ابھی تک ۔۔۔۔۔؟“ بعض خواتین کی پتا نہیں یہ کونسی عادت ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔ کسی بھی لڑکی کو دیکھ کر پہلا سوال اس کے رشتے کا ہی کرتی ہیں اور انہوں نے بھی جب ایک دم سے یہ سوال کیا تو میں گڑبڑا سی گئ۔ سمجھ ہی نہیں آیا کہ رکوں یا چلی جاؤں۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ ابھی تو ۔۔۔۔۔ “ امی جزبز ہو کر کچھ کہنے ہی لگی تھیں کہ تب ۔۔۔۔۔ مامی نے نجانے کہاں سے آکر ان کا سوال سن لیا اور امی کی بات کاٹ کر بیچ میں ہی بول پڑیں۔
” ارے ہوا کیوں نہیں ہے۔ یہ میری ہونے والی بہو ہے ۔۔۔۔ میں نے بتایا تھا نا آپ کو ایک بیٹے کیلیٔے تو میرا ارادہ اپنی بھانجی کی طرف ہے اور یہ میرے تیسرے بیٹے کی ۔۔۔۔۔۔۔“ وہ بول رہی تھیں اور میں حق دق کھڑی تھی۔ میں نے بےاختیار امی کی طرف دیکھا کہ شاید وہ ہی کچھ بول دیں۔ مگر ان کی کیفیت بھی مجھ سے مختلف نہیں تھی۔ آنکھوں میں تحیر تھا ٬ الجھن تھی اور لب چھونے کو بےتاب ان گنت سوال۔
یہ تو شکر تھا دادی اس وقت آس پاس نہیں تھیں ورنہ تو وہ موقع محل دیکھے بغیر ہنگامہ کھڑا کر دیتیں۔ مامی اب اس خاتون سے اپنے بیٹوں کی شادی کے منصوبوں پر بات کر رہی تھیں۔ میں بہ مشکل اپنا ٹھنڈا وجود سنبھالتی ایک کرسی پر آبیٹھی تھی اور پھر ۔۔۔۔۔۔ آنے کے وقت تک اس سے نہیں اٹھی۔
” ہر بات کی ایک حد ہوتی ہے۔ غضب خدا کا ۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتی ہوں تم نے اسی وقت زرینہ کا منہ بند کیوں نہیں کر دیا۔جب وہ سب کے سامنے تمہاری بیٹی پر اپنا حق جتا رہی تھی؟“ دادی شدید غصے تھیں۔ گھر آتے ہی امی سے صبر نہیں ہوا اور اب دادی کا طیش کم ہونے میں نہیں آرہا تھا۔ اور میں ایک کونے میں بیٹھی اس ساری صورتحال کو ہضم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ مجھے تو لباس بدلنے کا وقت بھی نہیں ملا تھا اور نہ ہی اب دادی کے اس غصے کو دیکھتے ہوۓ میرا وہاں سے اٹھنے کا دل کر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو ٬ میں کپڑے بدلنے اٹھوں اور دادی مزید کچھ شوشے چھوڑ دیں۔
” مگر تم کیوں کچھ کہتیں ٬ تمہاری تو دلی مراد پوری ہو رہی تھی۔ برا، بھلا، نکما، آوارہ چاہے جیسا بھی ہو۔ بس! تمہارے بھائی کا بیٹا ہو۔ یہ تو اچھا ہوا کہ تم نے اسی وقت اپنی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں نہیں دے دیا۔ کہ لو! اسے بھی اپنے ساتھ ہی لے جاؤ ۔۔۔۔۔ ہم کمی کمین ۔۔۔۔۔ ہماری تو قسمت ہی جاگ اٹھی جو تم نے ہماری بیٹی قبول کر لی۔“ اب ان کی توپوں کا رخ امی کی طرف ہوا تھا۔ امی کا رنگ زرد ہو گیا۔
” خدا کیلیٔے اماں ۔۔۔۔۔ یہ آپ کیسی باتیں کر رہی ہیں۔ میں کیا بھری محفل میں ان سے جھگڑا کرتی ۔۔۔۔۔ تماشا بناتی ۔۔۔۔۔ جو بات آرام سے ہو سکتی ہے وہ ۔۔۔۔۔۔“
” آرام سے ۔۔۔۔۔۔ یہ آرام سے کرنے والی بات تھی؟ ہمیں پوچھے بغیر ۔۔۔۔ ہمیں بتاۓ بنا وہ ہماری بچی اپنے بیٹے سے نتھی کر رہی تھی اور تم کہہ رہی ہو کہ ۔۔۔۔۔۔ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے یا پھر بھائی کی محبت میں اندھی ہو گئ ہو؟ کل کو وہ پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ دے گی اور تم بیٹھی چین کی ہنسی بچاتی رہنا۔ آۓ گا پھر کوئی تمہاری بیٹیوں کو پوچھنے؟ گھر بیٹھی بوڑھی ہو جائینگی۔“ دادی کا غضب شدید تر ہوتا جا رہا تھا۔
” ایسا نہیں ہوگا اماں ۔۔۔۔ بھابھی کہہ رہی تھیں کہ ان کے دل میں تو بہت پہلے سے یہ خواہش تھی اور اب صفیہ کے آنے کے بعد تو انہیں اس ہفتے باقاعدہ رشتہ لے کر آنا تھا۔ مگر اس وقت جب آمنہ کی بہن نے پوچھا تو ان سے صبر نہیں ہوا اور انہوں نے ان کے سامنے پہلے ہی یہ بات ظاہر کر دی۔“ امی گھبرا کر وضاحت دینے لگیں۔
” بات تو پھر وہی آگئ۔ اسے یہ یقین ہی کیوں تھا کہ ہم اپنی بچی کا رشتہ اس کے نالائق بیٹے سے طے کر دیں گے؟ جس کا نہ کوئیی کام ہے ٬ نہ دھندا ۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کہاں کہاں آوارہ گردیاں کرتا پھرتا ہے۔ نہ اسے وقت پر کبھی آتے دیکھا ٬ نہ جاتے ۔۔۔۔۔۔ صورت الگ غنڈوں موالیوں جیسی ۔۔۔۔۔ اپنے لائق فائق بیٹوں کیلیٔے تو دنیا جہاں میں گھوم لیں۔ تب اسے ہم یاد نہیں آۓ؟ اب خیال آیا ہے ہم پر یہ احسان دھرنے کا؟ مگر میں تم سے کہے دے رہی ہوں فاخرہ ۔۔۔۔۔ کل اسے جواب میں دوں گی۔ ہماری بیٹی ہم پر اتنی بھاری نہیں ہے ٬ جو اسے اندھے کنویں میں دھکیل دیں۔“ دادی کا لہجہ ناراضی سے بھرپور تھا۔ امی بےبسی سے انہیں دیکھنے لگیں۔
” مگر اماں! معید میں خرابی ہی کیا ہے؟ اپنا بچہ ہے۔ ہمارے سامنے پلا بڑھا ہے۔ صرف یہ کہ اس کی نوکری نہیں ہے تو ۔۔۔۔۔“
” میں جانتی تھی ٬ تم یہی کہو گی۔“ دادی نے انہیں بات بھی پوری نہیں کرنے دی۔ ” تمہاری نیت سے میں اچھی طرح واقف ہوں ۔۔۔۔۔ تمہارا بس چلے تو دونوں بیٹیوں کو ہاتھ سے پکڑ کر ان کے گھر چھوڑ آؤ۔ مگر میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گی۔ بیٹی سے جان چھڑانے کی اتنی ہی جلدی ہے تو ابھی صفیہ کو فون کر کے”ہاں“ کہہ دو۔ تمہارے بھائی کے خاندان سے تو ہزار گنا بہتر ہے ان کا خاندان ٬ پھر پوری عزت اور مان کے ساتھ آکر رشتہ مانگا ہے۔ تمہاری بھابھی کی طرح ہمیں ہماری اوقات نہیں دکھائی۔ آج ہمیں بنا پوچھے خود ہی رشتہ طے کر دیا۔ کل کو بارات لے کر دروازے پر کھڑی ہوگی۔“ دادی بولے جا رہی تھیں۔ امی کے چہرے پر مایوسی چھا گئ۔ اپنے اعصاب کو جکڑتی بےچینی سے گھبرا کر میں وہاں سے اٹھ آئی۔
” نیلی ۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہوگا۔“ میں جیسے ہی اپنے کمرے میں آئی ٬ صبا نے مجھے دیکھتے ہی ہراساں لہجے میں یہ سوال کیا۔ مجھے لگا تھا وہ سو چکی ہو گی۔ مگر وہ نہ صرف جاگ رہی تھی ٬ بلکہ ساری باتیں بھی سن چکی تھی۔
” کیا ۔۔۔۔۔۔؟“ میں نے خود کو بے نیاز ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوۓ الماری کھولی۔
” دادی تو کل مامی کو صاف منع کر دیں گی۔“ اس کا لہجہ تشویش سے پر تھا۔
” تو کیا نہیں کرنا چاہیے؟“ کپڑے نکالتے ہوۓ میں نے مڑ کر حیرت سے اسے دیکھا۔
” تم چاہتی ہو ٬ وہ انکار کر دیں؟“ اس کا انداز اتنا بےیقین سا تھا ٬ جیسے میں نے پتا نہیں کیا کہہ دیا ہو۔
” میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوگا تو وہی جو دادی چاہتی ہیں۔“ میں کہہ کر واش روم کی طرف بڑھنے لگی تھی کہ صبا نے میرا بازو پکڑ لیا۔
” رکو نیلی! مجھے تمہاری سمجھ نہیں آرہی۔ تم چاہتی تھی ناں کہ تم مامی کی بہو بنو ۔۔۔۔۔ پھر اب اس طرح تم ساری بات دادی کی مرضی پر کیسے ڈال سکتی ہو؟“ وہ ناراض ٬ ناراض سی کہہ رہی تھی۔ میں نے نرمی سے اس سے اپنا بازو چھڑایا۔
” میں مامی کے گھر جانا ضرور چاہتی تھی ٬ مگر معید کے حوالے سے بلکل نہیں۔“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر دھیرے سے کہا۔
” کیا خرابی ہے معید میں؟“ اس نے پوچھا۔ میں نے بےاختیار ایک گہری سانس لی۔ میں جانتی تھی وہ مجھ سے یہ سوال ضرور کرے گی۔
” اس کی بےترتیب شخصیت ٬ اس کی لاابالی فطرت ٬ اس کی غیر سنجیدگی۔ وہ زندگی میں کسی چیز کیلیٔے سنجیدہ نہیں ہے۔ اس کیلیٔے وقت صرف ضائع کرنے کی چیز ہے۔ اسے ماسٹرز کیے بھی سال بھر ہونے کو ہے ، مگر اس نے ایک بار بھی ڈھنگ کی نوکری کیلیٔے کوئیی کوشش نہیں کی۔ یہ چند ٹیوشنز پڑھا کر وہ سمجھتا ہے ٬ اس نے بہت بڑا تیر مار لیا ہے۔ لڑکیاں ٬ لڑکیاں ہوتی ہیں صبا! مگر مردوں کو یہ لاپرواہی زیب نہیں دیتی۔ مردوں کو مضبوط شخصیت کا ٬ مستقل مزاج اور ذمہ دار ہونا چاہیے ۔۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔۔ ارمان بھائی ہیں۔“ دو ٹوک لہجے میں اس پر اپنا موقف واضح کرتے میرا لہجہ آخر میں ذرا دھیما پڑا اور وہ چونک گئ۔
” تم ۔۔۔۔۔ تم ۔۔۔۔۔ ارمان بھائی کو پسند کرتی ہو؟“
” جیسے تم سوچ رہی ہو ٬ ویسے بلکل نہیں۔“ میں نے بھرپور انداز میں اس کی نفی کی۔ ” میں صرف ان کی شخصیت سے متاثر ہوں اور میں چاہتی ہوں جس سے میری شادی ہو ٬ وہ بھی ایسی ہی خوبیوں کا مالک ہو۔“
” معید تمہیں پسند کرتا ہے۔“ اس نے اچانک ہی اتنے اعتماد سے یہ بات کی کہ میرے وجود کے ساتھ ساتھ ایک پل کیلیٔے میرا دل بھی ساکت ہو گیا۔
جس غیر واضح اور مبہم سے احساس نے ابھی میرے دل کے نہاں خانوں میں ابھرنا شروع ہی کیا تھا۔ جس کے ہونے کو ابھی میں بھی ٹھیک سے محسوس نہیں کر پا رہی تھی ٬ وہ اس نے کیسے پا لیا۔
” اور تم جانتی ہو یہ بات ۔۔۔۔۔۔ ہے ناں؟“ اس نے شاید میرے چہرے سے بہت کچھ بھانپ لیا تھا۔ میرا شانہ ہلاتے ہوۓ اس کا لہجہ تیز ہوا۔
” ایسی کوئیی بات نہیں ہے۔“ میں نے اس کا ہاتھ جھٹکا۔ ” یہ فضول باتیں اپنے زہن سے نکال پھینکو ٬ سمجھیں۔ آئندہ میں تمہارے منہ سے ایسی کوئیی بکواس نہ سنوں۔“ سختی سے کہتے ہوۓ مجھے اسے اپنے بڑے پن کا رعب دکھانا ہی پڑا۔ میں نہیں چاہتی تھی آئندہ وہ کوئیی ایسی بات کر کے مجھے مزید ڈسٹرب کرے۔ اس کی رنگت پھیکی پڑ گئ۔ میں نظرانداز کر کے واش روم کی طرف بڑھ آئی۔
________________________________________
صبح میری آنکھ امی کی آواز سے نہیں ٬ بلکہ ندا یاسر کی آواز سے کھلی تھی۔ چند لمحے خوابیدہ اعصاب کو بیدار کرنے میں گزر گئے۔ حواسوں کے جاگتے ہی میں نے حسب عادت کل رات کی آخری بات یاد کرنے کیلیٔے زہن پر زور ڈالا اور دوسرے ہی پل میں اٹھ بیٹھی۔
آدھی رات تک اسے سوچ سوچ کر جاگتے رہنے کے بعد اب اس کی یاد آتے ہی مجھے اپنی صبح کا لطف غارت ہوتا محسوس ہوا۔ صبا ٹی وی کے سامنے براجمان مارننگ شو لگاۓ بیٹھی تھی۔
” تم آج کالج نہیں گئ؟“ کیچر کی تلاش میں تکیے کے پاس ہاتھ مارتے ہوۓ میں نے اس سے پوچھا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ گئ ہوں ۔۔۔۔۔ یہ تو میرا ہمزاد بیٹھا ہے۔“ وہ اگر کسی سوال کا سیدھا جواب دے دیتی تو وہ تاریخ ڈائری میں لکھنے کے قابل ہوتی تھی۔
” تم کالج کیوں نہیں گئ؟“ صبح ہی صبح میں بحث سے گریز کرنا چاہ رہی تھی ٬ سو بہمشکل موڈ نارمل رکھا۔
” آج مامی آرہی ہیں اور میں دیکھنا چاہتی ہوں کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔“ چاۓ کی چسکیاں لیتے ہوۓ اس نے بتایا۔
” یہ اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھے گا ٬ یہ کھڑا ہی رہے گا۔“ میں کیچر میں بال سمیٹتی بستر سے اتر آئی۔
” میں چاہتی ہوں نیلی! تم دادی کو منع کر دو۔“
” کس بات سے؟“ میں نے ٹھہر کر اسے دیکھا۔
” کہ وہ مامی کو انکار نہ کریں۔“ اس کا لہجہ التجائیہ تھا۔ میں الجھ گئ۔
” تم نے تو معید کو کبھی پسند نہیں کیا ٬ پھر تم اس کی اتنی حمایت کیوں کر رہی ہو؟“ دوبارہ بیڈ کے کنارے ٹکتے میں نے اس سے ہوچھا۔
” تم تو پاگلوں جیسی باتیں کر رہی ہو نیلی ۔۔۔۔۔ میرا وہ بچکانہ سا غصہ تھا۔ کوئیی ذاتی پرکاش یا نفرت تو نہیں تھی ، بلکہ مجھے تو ان چاروں بھائیوں میں ارمان بھائی کے بعد صرف معید ہی اچھا لگتا ہے۔ اگر تمہارا اعتراض اس کے جاب لیس ہونے پر ہے تو اسے جلد ہی جاب بھی مل جاۓ گی۔ اگر تمہاری نا پسندیدگی اس کے لاپرواہ اسٹائل یا اس کے رف حلیے پر ہے تو میں تمہیں بتاؤں کہ لڑکیاں اس کے اسی لک پر مرتی ہیں۔“
” میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں۔“ میں نے اٹھ کر آئینے میں اپنا جائزہ لیا۔ کیا میں واقعی اس کی ظاہری شخصیت کی وجہ سے اسے ریجیکٹ کر رہی ہوں۔ اپنے سوجے پپوٹوں کو دیکھتے ہوۓ میں نے خود سے سوال کیا۔
” ہاں ۔۔۔۔۔ تم ان سے کئ زیادہ سطحی اور چھچھوری ہو۔“ وہ میری بات کے جواب میں جل کر بولی۔ میں نے اسے دیکھا ٬ مگر کچھ کہنے کی زحمت نہیں کی۔ میں اس بحث کو طول دینا نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو میں سوچنے پر مجبور ہو جاتی۔ میرے من میں سوالات اٹھتے۔ زہن و دل میں کشمکش چلتی اور دل و دماغ کی اس جنگ میں فتح اگر دماغ کی ہوتی تو ہاتھ مجھے اپنے دل سے دھونے پڑتے اور میں خود کو اس آزمائش میں نہیں ڈالنا چاہتی تھی۔