” یہ کس نرگس کی بات ہو رہی ہے؟“ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے نیچے اترتے ہوۓ معید کے کانوں تک شاید یہ نام پہلے پہنچ گیا تھا۔ وہ بلیو جینز پر بلیک کلر کی ہاف سلیوز کی شرٹ پہنے تھا۔ جس میں اس کے بازوؤں کے مسلز نمایاں تھے۔ اپنے دوسرے بھائیوں کی نسبت وہ کسرتی جسامت رکھتا تھا۔ اب اس نے جم بھی جوائن کر لیا تھا۔
” مجھے سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ نرگس کے نام پر تم بھائیوں کے کان کیوں کھڑے ہو جاتے ہیں؟“ میں نے اٹھتے ہوۓ اس پر طنز کیا تھا۔
” کیا واقعی ۔۔۔۔۔!“ اس نے مسکرا کر اپنے کانوں کو چھوا۔ ” ویسے ان کیلیٔے تم یہ بات نہیں کہہ سکتی کیونکہ ان دونوں کے پیدائشی ایسے ہیں۔“ وہ ہنسا۔
” نیلی ۔۔۔۔۔! تم کہاں جا رہی ہو ۔۔۔۔! ابھی تو میں نے اپنی بات کی بھی نہیں ہے۔“ مجھے جانے کیلیٔے اٹھتا دیکھ کر فرخ نے کہا اور مجھے غصہ آگیا۔
” نہیں ۔۔۔۔ پہلے تم ڈیسائیڈ کر لو کہ تمہیں کہنا کیا ہے۔ اس کے بعد کر لینا اپنی بات بھی ٬ جا رہی ہوں میں۔“
اسی وقت مامی نے مجھے آواز دی اور مامی کے آواز دینے کا مطلب اور کیا ہو سکتا تھا یہ میں اچھی طرح جانتی تھی سو بہ مشکل اپنی ناگواری چھپاتی کچن کی جانب بڑھ آئ۔ مجھے اندازہ تھا کہ فرخ کو کیا بات کرنی تھی یہی کہ میں مامی کو نرگس کے بارے میں بتاؤں اور یہ فرخ صاحب اس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ وہ اس سے شادی کا وعدہ کر چکے ہیں اور یہ ان کے خاندان میں کبھی ہوا نہیں ہے کہ مرد کسی کو زبان دے اور پھر اس سے پھر جاۓ۔ سو وہ فرخ کی خواہش کو مقدم رکھیں اور انعمتہ کو بھول جائیں بلکہ بھولنے کی بھی کیا ضرورت ہے ان کے دو بیٹے اور بھی تو ہیں۔ معید یا آفاق میں سے کسی کا رشتہ اس سے طے کر دیں۔ ویسے بھی مامی کو انعمتہ کو اس گھر میں رکھنے میں دلچسپی ہے نہ کہ فرخ سے اس کی شادی کرانے میں۔
________________________________________
اس شام مامی نے مجھے کھانے پر روک لیا۔ اس لئے نہیں کہ وہ میری مہمان نوازی کرنے کے موڈ میں تھیں ٬ بلکہ اس لئے کہ ان کا قیمہ کریلے کھانے کا موڈ ہو رہا تھا اور چونکہ یہ انعمتہ سے ٹھیک سے بنتا نہیں تھا۔ اس لئے میری شامت آئ اور میں جو بار بار یہ عزم دہرا چکی تھی صبا کے سامنے بھی کہ آئندہ میں ان کے گھر کا کوئی کام نہیں کرونگی ٬ اب اسے یکسر پس پشت ڈالے کچن ٹیبل کی کرسی پر بیٹھی کریلوں کا ڈھیر کاٹ رہی تھی اور سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔
” یہ مروت بھی کیا فضول چیز ہے۔ صرف اور صرف انسان کو خوار کراتی ہے اور کچھ نہیں۔“
” انعمتہ ۔۔۔۔۔۔ تم کیا کرتی ہو؟“ انعمتہ اس وقت چولہے پر دودھ کی پتیلی رکھے اس کے گرم ہونے کے انتظار میں تھی اور میں نے تو چپ ہونا سیکھا ہی نہیں تھا۔
” کچھ خاص نہیں۔“ اس نے نفی میں سر ہلایا۔
” گریجویشن کرنے کے بعد فارغ ہی تھی کہ خالہ نے یہاں بلا لیا۔“ میں نے پہلی بار اس کے منہ سے اتنا لمبا جواب سنا یعنی وہ باتیں کرنے کے موڈ میں تھی۔ ورنہ ہر وقت وہ چہرے پر نو لفٹ کا جو بورڈ لگاۓ رکھتی تھی۔ اس کے بعد تو اسے سلام کرنے کا بھی دل نہیں چاہتا تھا۔
” اچھا ۔۔۔۔۔۔ تو تمہارا دل یہاں لگ گیا؟“ کچھ حوصلہ پاکر میں نے اگلا سوال کیا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔ دل لگانے کی کیا ضرورت۔ میں تو بس اس سنڈے تک ہی یہاں ہوں ۔۔۔۔۔ اور میرا تو آنے کا کوئی ارادہ بھی نہیں تھا۔ یہ تو خالہ نے بلایا تو میں انکار نہیں کر پائ۔“ اس نے نجانے میرے سوال کو کس انداز میں لیا کہ اتنے روکھے لہجے میں بولی تھی۔ میں نے محاورتا“ دل لگانے کی بات کی تھی کوئی سچ مچ کے دل لگ جانے کا تو نہیں کہا تھا جو اسے اتنا برا لگ گیا۔ میں اگلی بات کیلیٔے کوئی محتاط سا سوال سوچنے ہی لگی تھی کہ اس بار اس نے پوچھ لیا۔ ” خالہ نے بتایا تھا تم بی اے کر چکی ہو تو ۔۔۔۔۔ آگے پڑھنے کا نہیں سوچا؟“
” میں نے ابھی تو بی اے کیا ہے اور فی الحال میں ایک سال تک کچھ نہیں کرنا چاہتی۔“ وہ شاید مجھے خود سے کچھ زیادہ ہی سینئر سمجھ رہی تھی۔ حالانکہ میں نے کوئی سالوں پہلے بی اے نہیں کیا تھا ٬ اس لئے کافی جتا کر جواب دیا۔
” مجھے پڑھنے کا کافی شوق ہے ٬ اسی لئے میں نے سوچا ہے۔ میں اپنا سال ضائع نہیں کرونگی۔“ اس بار میرے منہ کھولنے سے پہلے ہی اس نے ازخود جواب دینے کی مہربانی کر لی۔
” اچھی بات ہے۔“ میں نے ٹوکری کا جائزہ لیا۔
اس میں دو کریلے بچے تھے اور باؤل بھر چکا تھا میں نے ذرا دیر کو چھری سائیڈ پر رکھ کر انگلیاں چٹخائیں۔ ” تم حیدرآباد میں پڑھو گی یا یہی کراچی میں کہیں ایڈمیشن لو گی؟“ میں نے کمر سیدھی کرنے کیلیٔے کرسی سے ٹیک لگائ۔
” میری خواہش ہے ۔۔۔۔۔ میں کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کروں اور ۔۔۔۔۔ میں نے معید سے بات بھی کر لی ہے۔“ اس نے کہا تھا اور میں ایک دم سیدھی ہو کر بیٹھ گئ۔
معید سے بات کی ۔۔۔۔۔ مطلب وہ معید سے بات بھی کرتی تھی۔ میں نے بغور اسے دیکھا اور پھر سے چھری اٹھا لی۔
” ہاۓ لیدیز!“ اس نے شاید اپنا نام سن لیا تھا۔ میں نے بےزاری سے دروازے کی سمت دیکھا۔
” ایک کپ چاۓ ملے گی انعم ۔۔۔۔۔۔!“ وہ مخاطب انعمتہ سے تھا۔ ”انعم“ ہر زور دیتے ہوۓ آنکھیں مجھ پر جمی تھیں۔ شرارت سے چمکتی ہوئ اس کی سیاہ پرتاثر آنکھیں ۔۔۔۔۔ شاید وہ سمجھ رہا تھا کہ میں پھر کوئی ری ایکشن دونگی۔ مگر میں نے اسے یکسر نظرانداز کر کے کریلا چھیلنا شروع کر دیا۔
” ہاں! کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ میں ابھی بنا دیتی ہوں۔“ انعمتہ نے جلدی سے برتنوں کے ریک سے چاۓ کی پتیلی نکالی۔
” تھینک یو ۔۔۔۔۔ ورنہ میں نے تو اکثر چاۓ کی فرمائش کے جواب میں جھاڑ پلانے والے ہی دیکھے ہیں۔“ وہ دروازے میں ہی جم کر کھڑا ہو گیا۔
” لیکن ۔۔۔۔۔۔ میں نے تو کبھی آپ کو جھاڑ نہیں پلائ۔“ انعمتہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔
” جانتا ہوں ۔۔۔۔ تم کبھی مجھے جھاڑ پلاؤ گی بھی نہیں ۔۔۔۔!“ مجھے اس کے لہجے میں مسکراہٹ سی محسوس ہوئ۔ ” اس لئے تو تم سے کہا ہے ٬ کسی اور سے نہیں کہا۔“
” اور کس سے کہیں گے آپ ۔۔۔۔۔۔ میرے علاوہ؟“
پتا نہیں چھری کی دھار کچھ زیادہ تیز تھی یا میں نے ہی کریلے پر زیادہ طاقت سے کٹ لگانے کی کوشش کی تھی۔ کریلا تو نہیں کٹا ٬ مگر میرا انگوٹھا ضرور کٹ گیا اور میرے منہ سے بےساختہ سسکاری نکل گئ۔
” کیا ہوا؟“ انعمتہ نے چونک کر مجھے دیکھا۔ معید بھی اندر چلا آیا۔
” کچھ نہیں۔“ میں ہاتھ جھٹکتے ہوۓ اٹھ کھڑی ہوئ۔ ” چوٹ لگ گئ ہے زرا سی ۔۔۔۔۔ میں بس ۔۔۔۔۔ ابھی آتی ہوں۔“ میں نے خون روکنے کی کوشش میں انگوٹھے کو دبایا ہوا تھا اور باہر نکلنے ہی لگی تھی کہ معید نے اچانک میرا بازو پکڑ لیا۔
” اب کیا اس چوٹ کی پٹی کیلیٔے بھی گھر جاؤ گی ۔۔۔۔۔ بیٹھو یہاں ۔۔۔۔!“ کچھ سخت سے لہجے میں کہتے ہوۓ وہ مجھے پھر سے بٹھانے لگا۔ میں نے ایک جھٹکے سے اپنا بازو چھڑایا۔
” چاہے گھر جا کر پٹی کروں ۔۔۔۔۔ چاہے ہسپتال جاکر ۔۔۔۔۔ تمہیں اس سے کیا؟“
” بیٹھو نا نیلی ۔۔۔۔۔۔ میں کر دیتی ہوں پٹی۔“ انعمتہ پریشانی سے بول اٹھی۔
” ارے ۔۔۔۔ پہلے مجھے مامی سے پوچھنے تو دو کہ ڈیٹول کی بوتل کہاں رکھی ہے۔“ میں جھلائ۔ خون سے میرے دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی بھی سرخ ہو گئ تھی۔
” میں لے آتا ہوں۔“ وہ سنجیدگی سے کہہ کر باہر نکل گیا۔ مجھے بادل نخواستہ دوبارہ بیٹھنا پڑا۔ کچھ لمحوں بعد انعمتہ نے میرے سامنے برفیلا پانی رکھ دیا۔
” اس میں ہاتھ ڈبو دو تو خون بہہ جاۓ گا۔“
” تھینکس۔“ میں نے ہلکے سے مسکرا کر اس میں ہاتھ رکھا اور دوسرے ہی پل مجھے اپنے انگوٹھے کا درد کم ہوتا لگا۔
” ارے اتنا خون ۔۔۔۔!“ تھوڑی ہی دیر میں جب وہ دوائ لے کر میرے سامنے بیٹھا تو کانچ کے برتن میں خون ملے پانی کو دیکھ کر مصنوعی حیرت کا اظہار کیا اور دوائ کی بوتل کھولتے ہوۓ میرا ہاتھ تھامنا چاہا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ رہنے دو۔“ میں جلدی سے ہاتھ پیچھے کرتے ہوۓ بولی۔ ” اب خون بہنا بند ہو چکا ہے اور مجھے درد بھی نہیں ہو رہا۔“ وہ عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگا۔
” تمہیں چوٹ تو لگی ہے نا۔۔۔۔۔۔۔۔؟“
” ہاں ۔۔۔۔ لگی ہے۔ مگر میں پٹی نہیں کرنا چاہتی۔“ میں نے اکتا کر کہا۔
” کیوں ۔۔۔؟“ وہ میری آنکھوں میں دیکھ رہا تھا اور تب ہی مجھے اس کی آنکھوں کی بےپناہ کشش کا اندازہ ہوا۔ میں نامعلوم سے احساس میں گھر گئ۔ شاید وہ چاہتا بھی یہی تھا۔ مجھے نگاہیں نہیں چرانی چاہیے تھیں مگر پھر بھی ۔۔۔۔ میں اسے اپنی کمزوری کا احساس دلاتے ہوۓ نظریں چرا کر اٹھ کھڑی ہوئ۔
” بس ۔۔۔۔۔ میری مرضی ۔۔۔۔۔!“ مجھے کوئی جواب نہیں سوجھا۔
” مگر ہمیں ۔۔۔۔ ہر وقت اپنی مرضی نہیں چلانی چاہیے۔“ اس نے خود ہی میرا ہاتھ تھام کر دوائ میرے ہاتھ پر انڈیلی اور میں اس کے لمس سے زیادہ اس کی گرفت کی مضبوطی سے ششدر کھڑی رہ گئ تھی۔
________________________________________
میں شاور لے کر نکلی تو میں نے بیڈ کی سمت دیکھا جہاں صبا بیٹھی ہوئ تھی۔
” تم اس طرح کیوں بیٹھی ہو ۔۔۔۔ آج اکیڈمی نہیں جانا۔“ اسے سستی سے پیر پھیلاۓ دیکھ کر میں نے حیرت سے پوچھا۔
” نہیں! آج میرا موڈ نہیں ہے۔“ اس نے بےزاری سے کہہ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا لی۔
” اچھا ۔۔۔۔۔۔ تو اب پڑھائ بھی تم اپنے موڈ کے حساب سے کرو گی ۔۔۔۔۔ رکو ۔۔۔۔۔ ابھی امی کو بتاتی ہوں وہ ایک فیصل کو رو رہی ہیں اور یہاں تم بھی ۔۔۔۔۔۔“ برش ٹیبل پر پھینک کر میں باہر کو لپکی ہی تھی کہ اس نے جلدی سے اٹھ کر مجھے روکا۔
” میری بات تو سنو ۔۔۔۔۔ اصل میں بات موڈ کی نہیں ہے۔“ وہ پست لہجے میں بتانے لگی۔ ” آج میرا ٹیسٹ ہے انگلش کا اور ۔۔۔۔۔ مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔“
” تو تم نے یاد کیوں نہیں کیا؟“ میں نے کڑے لہجے میں ہوچھا۔
” وقت کہاں ملا مجھے یاد کرنے کا۔“ وہ ایک دم جھنجلائ۔ ” کل تو تم پوری شام وہاں جا کر بیٹھ گئ اور یہاں سارا کام مجھے اکیلے کرنا پڑا ۔۔۔۔۔ اور اب ۔۔۔۔۔۔ تمہیں پتا ہے نا ۔۔۔۔ وہ معید کا بچہ میری بہت بےعزتی کرے گا۔“ اس نے کہا۔ مجھے ایک دم سے پل بھر کیلیٔے اپنے پورے وجود میں لرزش سی محسوس ہوئ اور نظر بےاختیار اپنے ہاتھ پر چلی گئ۔
” اور پتا ہے ۔۔۔۔۔ لڑکیوں میں ٬ میں واحد لڑکی ہوں گی جسے سزا ملے گی۔ ورنہ باقی لڑکیاں تو ہر وقت اسے امپریس کرنے کے چکروں میں لگی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔ بڑا آیا شہزادہ کہیں کا۔“ اس کا انداز کافی جلا کٹا تھا۔ میں چند لمحے اسے دیکھتی رہی۔
” ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔ تم جانو ۔۔۔۔۔۔ اور تمہارا کام ۔۔۔۔۔“ اسے اس کے حال پر چھوڑ کر میں کمرے سے نکلی مگر جیسے ہی میں برآمدے میں آئ۔ مجھے پھر سے نہایت تیزی سے کمرے میں واپس آنا پڑا۔
مجھے پھر سے نہایت تیزی سے کمرے میں واپس آنا پڑا۔ صبا حیرانی سے مجھے دیکھنے لگی۔
” کیا ہوا؟“
” کچھ نہیں۔“ میں نے اپنے بال سمیٹتے ہوۓ بہمشکل اپنی سانسیں ہموار کیں۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ کچھ تو ہے۔“ نہ ماننے والے انداز میں کہہ کر وہ باہر چلی گئ۔ میں نے بیڈ پر بیٹھتے ہوۓ سائیڈ ٹیبل سے ڈائجیسٹ اٹھایا۔ پتا نہیں ۔۔۔۔ میں یہ بےوقوفی کیوں کر رہی تھی اور اس سے کیا ہونے والا تھا۔ صفحات پلٹتے ہوۓ میں خود کو بھی اپنی اس حرکت کی توجیہہ پیش نہیں کر پا رہی تھی جو میں نے معید کو دیکھ کر کی تھی۔ یعنی خود پر اس کی نظر پڑنے سے پہلے ہی واپس کمرے میں بھاگ آئ۔ وہ اس وقت ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑا امی سے کچھ بات کر رہا تھا۔
” نیلی بدتمیز ۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ باہر معید ہے؟“ تھوڑی دیر بعد صبا رونی صورت لئے میرے سامنے کھڑی پوچھ رہی تھی۔
” کیوں ۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟“ میں انجان بنی۔
” ہونا کیا تھا۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگا ارے! تم ابھی تک گھر پر ہی ہو؟“ اور پھر امی سے کہا۔ ”پھپھو! آج صبا کو ضرور بھیجیے گا۔ آج اس کا بہت اہم ٹیسٹ ہے کہیں چھٹی نہ مار لے۔ اور اب امی نے مجھے آرڈر جاری کیا ہے کہ میں فورا“ کوچنگ جاؤں۔“ وہ الماری کھولتے ہوۓ بھراۓ ہوۓ لہجے میں بتا رہی تھی۔
” اتنا ٹینشن لینے کی کیا ضرورت ہے۔ تم کہہ دینا معید سے ٬ تمہیں یاد کرنے کا ٹائم نہیں ملا۔“ اس کے مسئلے کی سنگینی محسوس کر کے میں نے سنجیدگی سے مشورہ دیا۔
” ہاں ۔۔۔۔۔۔ وہ تو جیسے میری بات مان ہی لے گا ناں ۔۔۔۔۔ وہ تو ایک نمبر کا ۔۔۔۔۔“ اس نے کچھ کہتے کہتے بروقت زبان روکی۔ ” کسی دن یہ معید میرے ہی ہاتھوں قتل ہوگا۔ یاد رکھنا۔“ وہ بےحد بھنائ ہوئ تھی۔ میں ہنس پڑی۔
” ہاں ۔۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ ہنس لو۔ تمہاری زندگی میں معید نام کا کوئی دیو نہیں ہے ناں! اس لئے تم ہنس سکتی ہو۔“
چادر اوڑھ کر اپنی کتابیں اٹھاۓ وہ باہر نکل گئ۔ اور میں اس کے جملے پر غور کرنے لگی۔
” میں نہیں چاہتی ٬ میری زندگی میں معید جیسا کوئی آۓ ۔۔۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔ یا پھر معید ہی آۓ۔ وہ تھوڑی دیر رکتی تو میں یہ بات ضرور کہتی۔“
________________________________________
دوسرے دن مامی، انعمتہ کے ساتھ چلی آئیں۔ منگنی میں صرف تین دن تھے اور وہ ہمیں شاپنگ کروانا چاہ رہی تھیں۔ صبا تو اس وقت کالج میں تھی اور میرا بھی جانے کا موڈ نہیں تھا ٬ مگر پھر میں نے سوچا ۔۔۔۔۔ اگر میں نہیں جاؤں گی تو مامی اپنی پسند کا کوئی بھی سستا ، بدرنگ اور ہلکے سے کپڑے کا سوٹ لے آئینگی اور احسان جو ہوگا وہ الگ۔ اسی لئے میں نے اپنی تمام تر سستی پھینکتے ہوۓ اسی وقت ان کے ساتھ بازار جانے کا رخ کیا۔
میں نے سوچ لیا تھا تین چار ہزار سے کم کسی سوٹ پر نہیں ٹھہروں گی۔ نت نئے٬ خوبصورت اور قیمتی ملبوسات میری کمزوری تھے۔ ابو کی طرف سے آنے والا جیب خرچ بھی میں اسی پر لٹاتی تھی اور اب تو مال بھی مفت کا تھا اور مامی کے پلے سے جا رہا تھا تو دل بےرحم کیوں نہ ہوتا۔
شاپنگ ہم نے بہت جلدی کر لی تھی۔ بس جوتوں کی خریداری میں ذرا وقت لگا تھا۔ ہم دو گھنٹوں کے اندر گھر آگئے تھے۔ی لیکن گھر میں داخل ہوتے ہی مجھے جس چہل پہل کا احساس ہوا ٬ وہ مجھے بےحال کرنے کیلیٔے کافی تھا۔ مامی نے الجھی ہوئ نظروں سے مجھے دیکھا اور شاپرز مجھے پکڑا کر ڈرائنگ روم کی سمت بڑھ گئیں۔
” آؤ انعمتہ!“ میں مرے لہجے میں اس سے کہہ کر اپنے کمرے میں چلی آئ اور شاپرز ایک طرف پھینک کر بیڈ پر گری تھی۔
” یہ مہمان کون ہیں ۔۔۔۔۔۔؟“ انعمتہ بیڈ پر میرے قریب ہی بیٹھتے ہوۓ بولی۔
” پتا نہیں ۔۔۔۔۔۔ میں تو سیدھی یہاں آگئ اور ۔۔۔۔۔۔ امی نے صبح کوئی ذکر بھی نہیں کیا تھا کسی کے آنے کا۔“
میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنے پیر دباۓ جو اونچی ہیل کی سینڈل کی وجہ سے کافی تکلیف دے رہے تھے۔
” تو تم جا کر دیکھ لیتی۔“ اس نے بھی اپنے سینڈل اتارے۔
” نہیں ۔۔۔۔۔ خاندان کا تو کوئی نہیں ہے ۔۔۔۔۔۔ اتنا تو مجھے پتا ہے۔“ میں نے آوازیں سن کر اندازہ لگایا تھا۔ اسی وقت صبا بھی واش روم سے نکل آئ۔
” ارے! تم لوگ آگئے ۔۔۔۔۔ کیا کیا شاپنگ کی تم لوگوں نے؟“ وہ جوش سے آکر کہتے شاپرز کھولنے لگی۔
” صبا ندیدی۔“ میں غصے سے کھول گئ۔ ” پہلے یہ بتاؤ! یہ مہمان کون ہیں؟“ اس نے میری طرف دیکھا۔
” صفیہ آنٹی ہیں۔ اپنی ساس اور بیٹی کے ساتھ آئیں ہیں۔ تم گئ نہیں انہیں سلام کرنے؟“ اس نے کچھ حیرت سے پوچھا۔
” نہیں۔“ تھکن سے میرا برا حال تھا اور ابھی مزید متوقع تھکن کا سوچ کر ہی میرا جسم ٹوٹنے لگا۔
” یہ لوگ فون کر کے نہیں آسکتے تھے؟“ مجھے ابو کی ان کزن صاحبہ پر غصہ آیا۔ ان سے ہمارے نزدیکی روابط نہیں تھے۔ بس کبھی کبھار کا آنا جانا ہوتا تھا۔
منہ ہاتھ دھونے کے بعد میں صرف تولیے سے منہ پونچھ کر ہی ڈرائنگ روم چلی آئ۔ کوئی اور وقت ہوتا تو میں خود پر پرفیوم تو اسپرے کر ہی دیتی۔ مگر اس وقت میرا کچھ بھی کرنے کا دل نہیں چاہ رہا تھا اور تو اور میں نے اپنے سبز رنگ کے لباس پر دوپٹا بھی صبا کے کالج یونیفارم کا اوڑھ رکھا تھا۔
صفیہ آنٹی اور ان کی بارعب دادی جیسی ساس نے مجھے کافی لگاوٹ سے اپنے ساتھ لپٹایا تھا اور مجھے ان کے وجود سے پھوٹتی خوشبو نے یکایک پچھتانے پر مجبور کر دیا کہ میں نے پرفیوم کیوں نہیں لگایا۔ کچھ دیر ان کی بیٹی فاریہ سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد میں نے امی کی آنکھوں کے اشارے بھانپتے ہی باہر آنا مناسب سمجھا۔
” کیا بنانا ہے اب؟“ ان کے باہر آتے ہی میں نے جل کر دریافت کیا تھا۔
” زیادہ کچھ مت بنانا ۔۔۔۔۔۔۔ بریانی کا مسالا میں بنا چکی ہوں۔ چاول بھی ابالنے کو رکھ دیے ہیں۔ تم بس ہانڈی چڑھا لو۔ باقی میں آفاق کو بھیج کر بازار سے منگوا لوں گی۔ اب ہر چیز باہر سے آۓ۔ یہ بھی تو اچھا نہیں لگتا ناں۔“ میرے چہرے پر چھائ تھکن دیکھ کر ان کا دل پسیج گیا۔ اسی لئے نرمی سے اپنی مجبوری سمجھائ۔ ” میں صبا سے کہہ دیتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ آکر تمہاری مدد کر دے۔“
مامی تو کچھ ہی دیر میں تھکن کا بہانہ بنا کر گھر چلی گئ تھیں۔ انعمتہ کو میں نے کھانے پر روک لیا۔ اس کیلیٔے کولڈرنک بھجوا کر میں نے کچن میں کام شروع کر دیا۔
” میں کچھ مدد کروں نیلی؟“ انعمتہ ٹرے میں خالی گلاس رکھے باہر آئ تو مجھے مدد کی آفر کر دی۔
” ارے نہیں ۔۔۔۔۔۔ زیادہ کچھ نہیں کرنا ۔۔۔۔۔۔ میں کر لوں گی۔“ میں مسکرائ۔
انعمتہ اچھی لڑکی تھی۔ اب مجھے خود بھی دل میں اس بات کا اعتراف کرنا پڑ رہا تھا۔ پھر میرے ” نہ٬ نہ“ کرنے کے باوجود اسی نے بریانی کی تہیں لگائیں۔ کباب تلے رائتہ اور سلاد بھی بنا ڈالا۔ اور صبا بےفکری سے اندر بیٹھی فاریہ کے ساتھ گپے لڑا رہی تھی۔ بےشرمی میں اس کی کوئی مثال نہیں تھی۔ ہمارے گھر روٹیاں کبھی بازار سے نہیں آتی تھیں۔ اور اس وقت میں روٹیاں ہی بنا رہی تھی کہ تب بھی آفاق ہی آگیا۔ کچھ دیر میں مہمانوں کیلیٔے کھانا لگانے کے بعد میں نے انعمتہ سے کہا تو اس نے منع کر دیا۔
” مجھ سے اجنبی لوگوں کے سامنے کھانا نہیں کھایا جاتا۔“
” ٹھیک ہے۔ مجھ سے بھی نہیں کھایا جاتا۔ ہم بعد میں کھا لیں گے۔“ میں نے اس کی تائید کی۔
یہ اور بات کہ پھر ہمارا لنچ کافی لیٹ ہو گیا تھا۔ کیونکہ مہمانوں کے جانے تک مجھے ایک پل کی بھی فرصت نہیں ملی تھی اور جس وقت وہ جا رہے تھے میں انعمتہ کے ساتھ باہر ہی کھڑی تھی۔ صفیہ آنٹی نے مجھے مسکراہتے ہوۓ گلے لگایا اور پھر ۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ میں کئ کڑکڑاتے نوٹ رکھ دیے۔ میں ہکا بکا رہ گئ۔
” آنٹی یہ ۔۔۔۔۔۔“ میں نے انہیں پیسے واپس کرنے چاہے۔
” ارے رکھ لو ۔۔۔۔۔ اس کیلیٔے ”نہ“ نہیں کرتے۔“ وہ ہنسی تھیں اور امی سے مخاطب ہوئیں۔
” فاخرہ! آپ بھائ صاحب سے جلد ہی بات کر کے ہمیں جواب دے دیجئیے گا مگر یاد رکھئیے ۔۔۔۔۔ ہم انکار نہیں سنیں گے۔“ ان کے لہجے میں مان بھری دھونس تھی۔ مجھے اپنا چہرہ پھیکا پڑتا محسوس ہوا۔ دوسرے ہی لمحے میں سرعت سے اندر چلی آئ تھی۔
” نیلی! کیا کر رہی ہو ۔۔۔۔؟ اٹھو! کھانا لگا دیا ہے میں نے ۔۔۔۔۔۔ وہ بےچاری بچی کب سے بھوکی بیٹھی ہے۔ اسے کھانے پر روک ہی لیا تھا تو کم ازکم وقت پر کھلا تو دیتی۔“
مجھے اپنی پشت پر امی کی ناراض سی آواز سنائ دی تو میں اٹھ بیٹھی۔ کچھ دیر پہلے تک مجھے جتنی بھوک لگ رہی تھی ٬ اب کھانے کا محض سوچ کر ہی میرا کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ مگر انعمتہ نے بھی تو کھانا نہیں کھایا تھا اور میں اتنی بداخلاق تو بلکل نہیں تھی کہ اسے کھانے پر روکنے کے بعد اس کا ساتھ بھی نہ دیتی۔ اسی لئے نہ چاہتے ہوۓ بھی اٹھ کر باہر آنا پڑا۔ آفاق بھی موجود تھا اور ایک کرسی سنبھالے بریانی کے مزے لے رہا تھا۔
” نیلی! یہ مہمان کون تھے؟“ آفاق کا انداز چھیڑنے والا تھا۔ میں سمجھ گئ تھی اس لئے اسے گھورنے لگی۔
” تم جانتے ہو ٬ یہ لوگ پہلے بھی آچکے ہیں۔ پھر کیوں پوچھ رہے ہو؟“
” میں تو یہ پوچھ رہا ہوں کہ یہ لوگ آۓ کیوں تھے؟“
” تم یہاں اس لئے آۓ تھے کہ یہ بکواس کر سکو؟“ میرے لئے ضبط کرنا مشکل ہونے لگا۔
” نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں تو یہاں اس لئے آیا تھا تاکہ بریانی کھا سکوں۔“ وہ مسکراہتے ہوۓ لاپرواہی سے بولا۔
” تو اب تم بتاؤ گی کہ ۔۔۔۔۔“
” چپ رہو ۔۔۔۔۔ آگے کچھ نہیں کہو گے تم ۔۔۔۔۔ سمجھے۔“ میں نے آفاق کو کچھ کہنے کیلئے منہ کھولتے دیکھ کر جلدی سے کہا تو وہ ہنسنے لگا۔
” ٹھیک ہے! نہیں کہتا ۔۔۔۔۔ مگر میں حیران ضرور ہوں۔ کیا ان کی نظر کمزور تھی یا پھر وہ کسی مینٹل ہسپٹل سے سیدھا یہیں آرہے تھے۔“ مصنوعی حیرانی سے کہتے ہوۓ وہ مجھے جلانے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔ انعمتہ کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئ۔ مگر میں اس وقت ناگواری یا برہمی کا اظہار بھی نہیں کر پا رہی تھی۔ اسی لئے سن ہوتے دماغ کے ساتھ اس کی بات بھی ان سنی کر دی اور وہ جو میری جانب سے کسی تلخ و تیکھے جواب کا منتظر تھا۔ حیران سا مجھے دیکھتا رہ گیا۔
________________________________________
” نیلی! کیا کر رہی ہو؟“
میں اس وقت اپنی نئ قمیص کی فٹنگ کر رہی تھی جب امی کمرے میں داخل ہوئیں۔
” کچھ خاص نہیں۔“ میں نے انہیں دیکھا۔ ” کوئی کام ہو تو بتائیں۔“ میں نے قمیض اپنے سامنے پھیلاتے ہوۓ اس کی فٹنگ کا جائزہ لیا۔ آدھی آستینوں کی یہ قمیص دامن پر سے جگمگاتے نیلے نگوں کے کام سے مزین تھی۔ گلے پر کچھ نہیں تھا مگر دونوں آستینیں بھی کام سے بھری ہوئی تھیں۔ اس کے ساتھ پاجامہ اور بڑا سا دوپٹا تھا۔ میں کبھی بھی جدید فیشن کے مطابق ڈریسنگ نہیں کرتی تھی ٬ وہی کرتی تھی جو مجھے اچھا لگتا تھا یا مجھ پر اچھا لگتا تھا۔
” نہیں! کام نہیں ہے ۔۔۔۔ میں تم سے بات کرنے آئی تھی۔“ وہ پاس رکھی کرسی پر بیٹھ گئیں۔
” تم جانتی تو ہو آج صفیہ آئی تھی اور کیوں آئی تھی ٬ یہ پتا بھی چل چکاا ہوگا۔“ انہوں نے تمہید باندھی۔ آستین سے لٹکتے دھاگے کو دانتوں سے توڑتے ہوۓ میں رک سی گئ اور نظریں اٹھا کر انہیں دیکھا۔
ویسے تو بہت دن پہلے فون پر اس نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا اور پچھلے اتوار کو تو آنا بھی چاہ رہی تھی ٬ مگر پھر کسی وجہ سے نہیں آ پائی اور آج صبح جب فون کر کے اپنے آنے کا بتایا تو تب تک تم بھابھی کے ساتھ بازار کیلیٔے نکل چکی تھی۔“ امی بتا رہی تھیں۔
” اس کا مطلب ٬ انہوں نے فون کیا تھا مگر ۔۔۔۔۔ میرے جانے کے بعد۔“ میں نے سوچا۔
” صفیہ بھلی عورت ہے۔ ساس مزاج کی تھوڑی سخت ہیں ٬ مگر خیر ۔۔۔۔۔ تمہاری دادی بھی تو ایسی ہی ہیں۔ بڑھاپا انسان پر اتنا اثر تو ڈالتا ہی ہے۔ میری تو خواہش تھی ٬ تم میری نظروں کے سامنے ہی رہتی ٬ مگر بھابھی نے ارمان کا رشتہ کرتے ہوۓ ایک بار بھی تمہارے بارے میں نہیں سوچا اور نہ ہی اب فرخ کیلیٔے ان کی ایسی کوئیی خواہش نظر آتی ہے۔“ امی کافی بجھی ہوئی سی تھیں۔ میرا دل گھبرا گیا۔ قمیص گول مول کر کے بیڈ پر پھینکتے ہوۓ میں ان کے پاس ہی بیٹھ گئ۔
” اماں تو کہہ رہی تھیں کہ میں خود بھائی جان سے بات کروں ۔۔۔۔۔ مگر میں نے منع کر دیا۔ بھائی اپنا ہے تو کیا۔ بھابھی تو پرائی ہیں ناں! کیا سوچیں گی وہ ٬ بیٹیاں اتنی ہلکی ہیں کہ میں اپنے منہ سے ان کے رشتوں کی بات کر رہی ہوں؟ تمہارے تو اس سے پہلے بھی کئ اچھے رشتے آچکے ہیں۔ مگر میں ہی ہچکچا رہی تھی۔ نئی رشتہ داریاں بنانا اور نبھانا آسان کام نہیں ہوتا۔ سو مسئلے اور سو بکھیرے ہوتے ہیں۔ سوچا تھا ٬ تم اپنے ماموں کے گھر سے اچھی طرح واقف ہو۔ سب کے مزاج سمجھتی ہو۔ ان کا ماحول ٬ رہن سہن سب ہمارے گھر جیسا ہی ہے۔ اسی لئے تمہیں وہاں کوئیی پریشانی نہیں ہو گی۔ لیکن مجھے کیا پتا تھا کہ بھائی جان اپنی سگی بہن کو چھوڑ کر غیروں سے رشتہ داریاں گانٹھنے چل پڑیں گے۔“ ان کے لہجے میں تلخی تھی۔ میں نے سر اٹھا کر ان کے چہرے پر نگاہ ڈالی۔ میں ان سے کیا کہتی یہ سب تو میرے زہن میں بھی تھا۔ ان کے گھر کی طرف میرا یہ جھکاؤ ٬ میرا یہ لگاؤ اسی سبب سے تو تھا کہ مجھے وہ گھر بلکل اپنے گھر کی طرح لگتا تھا۔ ورنہ مجھے ارمان یا فرخ کی ذات میں کوئیی دلچسپی نہیں تھی۔ میں وہاں جانا چاہتی تھی ٬ کیونکہ اجنبی لوگوں ٬ اجنبی ماحول کو سوچ کر میرا دل ہولنے لگتا تھا۔