” کون انعم؟“ اس نے سوالیہ نگاہوں سے مجھے دیکھا اور میں شاکڈ رہ گئ۔
” تو ایک ہی دن میں وہ تمہارے لئے انعم بھی ہو گئ؟“ میرے منہ سے بےاختیار یہ نکلا۔
” اس کا نام کافی لمبا ہے ٬ مجھ سے نہیں لیا جاتا اور ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں بھی تو میں نیلی ہی بلاتا ہوں ناں۔“ اس نے وضاحت دی۔
” مجھے سب ہی نیلی بلاتے ہیں ٬ اگر صرف تم بلاتے تو میں کب کا تم پر بین لگا چکی ہوتی ۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری بات وہ میری جیسی نہیں ہے۔“ میں تڑخ گئ۔
اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئ تھی۔ جسے اس نے فورا“ ہی چھپا لیا اور دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پھنسا کر وہ قدرے جھکتے ہوۓ میری آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
” وہ واقعی تمہارے جیسی نہیں ہے۔“ دھیمے لہجے میں کہتے ہوۓ انداز ایسا تھا جیسے مجھ سے کوئی راز شئیر کر رہا ہو۔ ” وہ تم سے زیادہ اچھی ہے۔“
مجھے بس چند ہی لمحے لگے تھے غور کرنے میں کہ اس نے کیا کہا تھا۔ اگلے ہی پل میں کھڑی ہوئ۔ مجھے نہیں پتا ٬ اس وقت میرے تاثرات کیسے تھے۔ مگر یقینا“ بہت خوفناک ہی ہونگے ٬ تب ہی تو وہ اس قدر گھبرا گیا تھا۔
” نیلی! میری بات سنو۔“ میں نے جھپٹنے کے انداز میں ٹیبل پر رکھے وہ دونوں کپ اٹھاۓ۔ اس کا کپ تو خالی تھا۔ مگر اپنی چاۓ سے تو میں ایک گھونٹ بھی نہیں لے پائ تھی اور اب میرے غصے سے وہی چاۓ کپ سے اچھل کر پہلے ٹیبل اور پھر فرش کو داغ دار کر گئ۔ میں تیزی سے کمرے سے نکلی تھی اور وہ بوکھلایا ہوا میرے پیچھے۔
” نیلی! کیا ہو گیا ہے یار! میں تو مزاق کر رہا تھا٬ آئم سوری۔“
اسی وقت جانے کیلیٔے مامی اور انعمتہ بھی امی اور صبا کے ہمراہ اس طرف کو آئیں اور یہ صورتحال دیکھ کر ٹھٹھک گئیں۔
” کیا ہوا؟“ مامی نے حیرت سے بیٹھے کی سمت دیکھا۔ وہ شرمندہ سا ٹھہر گیا۔
” کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے چھوٹا سا مزاق کیا اور نیلی ناراض ہو گئ۔“ وہ الجھا ہوا سا میری طرف دیکھ رہا تھا۔
” حد کر دی ہے معید! مزاق بھی موقع اور اگلے کا موڈ دیکھ کر کرتے ہیں۔ نیلی کو نہیں پسند تو کیوں کیا ایسا مزاق۔“ مامی نے اسے گھرک دیا اور امی مجھے گھورنے لگی تھیں ٬ گویا سارا قصور میرا ہو۔
میں نظرانداز کر کے کچن میں آگیٔ اور سنک میں پڑے برتنوں پر نل پوری قوت سے کھول دیا ٬ تاکہ باہر کی کوئی آواز میرے کانوں تک رسائ حاصل نہ کر پاۓ۔ ایک تو مجھے غصہ آتا جلدی تھا اور جب آتا تھا تو اتنا شدید ہوتا تھا کہ پھر میں ہر قسم کا لحاظ بھول جاتی تھی۔
” آئم سوری نیلی ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ تم اتنا ری ایکٹ کرو گی۔“ وہ میرے پیچھے ہی کچن میں چلا آیا۔ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہی تھی۔ ہتھیلی نل کی تیز دھار کے نیچے کیے میں سلگے ہوۓ لہجے میں بول اٹھی۔
” مجھ پر اپنا ٹائم کیوں ویسٹ کر رہے ہو۔ جا کر اپنی سویٹ کزن کو کمپنی کیوں نہیں دیتے جو مجھ سے زیادہ اچھی ہے۔“ پانی کی دھار میری ہتھیلی سے ٹکڑا کر چھینٹے میرے لباس اور چہرے پر اڑا رہی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑا کر نل بند کر دیا۔
” میری سویٹ کزن تو تم ہو اور تم جیسی کوئی نہیں۔ اس پوری دنیا میں تم جیسی کوئی نہیں۔“ ایک ہاتھ سلیب پر جماۓ وہ میری طرف دیکھتے ہوۓ دھیرے سے کہنے لگا۔
” اچھا۔“ میں نے استہزائیہ انداز میں مسکرا کر اسے دیکھا۔ ” اس میں ایک جملہ اور بھی ایڈ کر لو ٬ مجھ جیسی جل ککڑی ، جھگڑالو اور حاسد لڑکی۔ دل میں تو یہی سوچ رہے ہو گے ناں۔“ وہ ہنس پڑا۔
” میں دل میں آئ سوچ زیادہ دیر دل میں نہیں رکھتا۔ اسی لیے۔۔۔۔۔۔ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں۔ تم صرف تم ہو ٬ تم جیسا دوسرا کوئی نہیں ہو سکتا۔“ اس کا لہجہ عجیب تھا۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور باہر نکل گیا۔ میں ساکت کھڑی رہ گئ۔ رخسار میں جیسے انگارے دہک اٹھے اور میری نم ہتھیلی میرے رخسار پر آکر ٹھہر گئ تھی۔
________________________________________
” تم نے معید سے بات کی؟“
میں اپنے بیڈ پر نیم دراز کچھ غائب دماغی کے عالم میں میگزین کی ورق گردانی کر رہی تھی٬ جب صبا نے میرے قریب بیٹھتے ہوۓ پوچھا۔
” کس بارے میں؟“ میں چونکی۔
” نیلی! تم کتنی گھٹیا ہو ٬ تم نے مجھ سے کہا تھا ٬ تم اسے ٹھیک ٹھاک سںنانے والی ہو۔“ وہ ناراضی سے بولی۔
” ہاں۔۔۔۔۔۔ کہنے والی تھی ٬ لیکن اس نے میرے سامنے جو بکواس کی٬ اس سے میرا دماغ گھوم گیا اور میں نے مزید اس سے کوئی بات نہیں کی۔“ یہ کہتے ہوۓ میرے زہن میں اس کے کچھ دیر پہلے کا طرزعمل سوئیاں چبھو رہا تھا۔
” نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرا وہم تھا اور کچھ نہیں۔“ میں نے یہ سوچ کر اپنی بےچینی کم کرنی چاہی۔ معید کے بارے میں ٬ میں ایسا کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی٬ سوچ ہی نہیں سکتی تھی۔
” اچھا! ہاں۔۔۔۔۔ کیا کہا تھا اس نے؟“ وہ فورا“ اپنا دکھڑا بھول کر متجسس ہوئ۔
” میں نے اس سے انعمتہ کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگا ٬ وہ مجھ سے زیادہ اچھی ہے۔ اس دن مامی نے بھی یہی کہا تھا۔ بس مجھے غصہ آگیا۔“ میں نے میگزین تکیے کے نیچے گھسایا۔ نیند میری آنکھوں میں اترنے لگی تھی۔
” تو اس میں بھڑکنے والی کونسی بات تھی۔ سچ ہی تو کہا اس نے۔ انعمتہ واقعی بہت اچھی ہے٬ تم نے خوامخواہ اس بیچاری سے بیر باندھ لیا ہے۔“ صبا کو اس سے ہمدردی محسوس ہوئ تھی۔ میں اسے گھورنے لگی۔
” اس سے پہلے کہ میں تم پر بھڑکوں ۔۔۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے۔“
” تم اس سے جیلس کیوں ہو نیلی! ابھی تو مامی نے فرخ سے اس کا رشتہ پکا بھی نہیں کیا۔ تمہارا چانس ابھی بھی ہے۔“ وہ اٹھتے ہوۓ بھی میرا جی جلانے سے باز نہیں آئ۔
” میں لعنت بھیجتی ہوں اس پر بھی اور فرخ پر بھی۔“ میری آواز بلند ہوئ۔ وہ ہنستے ہوۓ اپنے بستر پر گری تھی اور پھر کافی دیر تک ہنستی رہی۔ میں نے تکیے میں منہ چھپا لیا۔
________________________________________
اس دن شام کو میں نے فیصل کو زبردستی پڑھنے بٹھایا تھا۔ میں بھی یہ کام امی کی گھرکیاں اور جھڑکیاں کھانے کے بعد بادل نخواستہ کر رہی تھی اور وہ بھی رسی تڑانے کی فکر میں تھا۔ پڑھائ کے معاملے میں وہ بلکل صبا پر گیا تھا۔ ہر سال وہ بہمشکل پاس ہوتا اور ماہانہ ٹیسٹوں میں تو اس نے فیل ہونے کا ریکارڈ بنا ڈالا تھا۔
اکلوتے بیٹے کی یہ نالائقی جہاں امی کیلیٔے لمحہ فکریہ تھی ٬ وہیں ابو بھی ملیشیا میں بیٹھے دن رات اسی فکر میں گھلتے رہتے۔ فون کرتے تو ان کی آدھی باتیں فیصل اور اس کی پڑھائ کے متعلق ہوتیں۔ پیسے بھیجتے تو علیحدہ سے ایک بڑی رقم اس کے مہنگے سکول اور ٹیوشن سینٹر کی فیسوں کیلیٔے ہوتیں۔ کچھ ماہ پہلے علاقے کے سب سے مہنگے کوچنگ سینٹر میں اس کا ایڈمیشن کروایا تھا۔ مگر جب اس کا ذرا برابر اثر بھی اس کی تعلیمی کارکردگی پر نہیں پڑا تو امی کو تشویش لاحق ہوئ اور انہوں نے آفاق کو اس پر نظر رکھنے کو کہا۔
دوسرے دن ہی وہ اسے ٹیوشن سینٹر کے بجاۓ ویڈیو گیم شاپ سے پکڑ لایا اور اس سے اگلے روز کرکٹ کے گراؤنڈ سے۔ اب امی نے اس کی زمہداری مجھے سونپ دی تھی کہ میں بڑی بہن ہوں اور میرے رعب میں بھی ہے تو شاید مجھ سے پڑھ لے۔ اس وقت میں نے اسے ایک مضمون یاد کرنے کو دیا ہوا تھا۔ اسے یاد کرنے کا کہہ کر میں دادی کیلیٔے چاۓ لے کر ان کے کمرے میں چلی گیٔ۔ امی بھی وہی موجود تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی جیسے انہیں کچھ یاد آیا۔
” نیلی! تم پرسوں بھابھی کے ہاں کیوں نہیں گئ؟ بھابھی کافی ناراض لگ رہی تھیں۔ انہیں لگ رہا تھا کہ میں نے تمہیں منع کیا ہے۔“
” تو اچھا کیا نا٬ نہیں گئ۔ اسے تو مفت کی نوکرانی مل گئ ہے۔ جب جی میں آتا ہے٬ بلاوا بھیج دیتی ہے٬ مگر تم تو کچھ شرم کر لو۔ یہ بیٹیاں کیا تم نے اپنی بھابھی کی خدمت کیلیٔے پیدا کی تھیں؟“
دادی نے برہمی سے امی کو لتاڑ ڈالا۔
” تمہاری وہ چہیتی بھابھی۔۔۔۔۔۔۔ بیٹے کا رشتہ کرتے ہوۓ تو اسے نیلی یاد نہیں آئ۔ کام پڑتا ہے تو سب سے پہلی پکار نیلی کے نام کی پڑتی ہے۔ میرا بیٹا وہاں پردیس میں اپنی جان اس لئے ہلکان کر رہا ہے کہ اس کی بیٹیاں یہاں دوسروں کیلیٔے جھاڑو پونچھا کرتیں پھریں؟“ میں نے کن انکھیوں سے امی کی طرف دیکھا۔ ان کے ماتھے پر بل پڑ چکے تھے ٬ کچھ جزبز سی ہو کر بولیں۔
” اماں! بات وہ نہیں ہے۔ بھابھی کہہ رہی تھیں، نیلی نے ہامی بھری تھی آنے کیلیٔے۔ مگر پھر نامعلوم کس وجہ سے نہیں آئ۔ انہیں تو یہی تاثر ملا نا کہ میں نے اسے منع کیا ہوگا۔ صبح و شام تو ان کے گھر پائ جاتی ہے٬ اس دن بھی چلی جاتی تو کیا ہو جاتا۔“
” میرے سر میں درد تھا امی! اسی لیے نہیں گئ اور آفاق کو میں نے بتا دیا تھا۔“ میں دھیرے سے کہہ کر باہر آگیٔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے وجہ پوچھتیں پچھلے دو دن سے وہاں نہ جانے کی۔ ویسے حیرت تھی کہ مامی کے ہاں سے بھی ان دو دنوں میں کوئی بلاوا نہیں آیا تھا۔ حالانکہ اب تک ارمان بھیا کی منگنی کی تاریخ بھی پکی ہو گئ تھی یا شاید اب ان کے پاس انعمتہ تھی ٬ اس لئے انہیں میری ضرورت نہ رہی تھی۔ خیر! جو بھی تھا میں تو بہت خوش تھی۔ جب میں باہر آئ تو فیصل کو سیل فون پر گیم کھیلتے دیکھ کر میری جان جل گئ۔
” فیصل۔۔۔۔۔۔۔۔“ میں نے چلا کر اس کے ہاتھ سے سیل چھینا اور ایک زوردار ہاتھ اس کی گدی پر جما دیا۔
” استغفار۔۔۔۔“ اندر داخل ہوتے آفاق نے یہ منظر دیکھ لیا اور اب تاسف سے سر ہلانے لگا۔ ” مجھے نہیں پتا تھا ٬ تم اتنی ظالم بھی ہو سکتی ہو۔ اس معصوم پھول جیسے بچے کو ایسی بےرحمانہ مار۔“
اس کی بکواس پر مجھے غصہ تو بہت آیا۔ مگر میں نظرانداز کر کے فیصل کی جانب متوجہ ہوئ جو گھٹنوں میں سر چھپا کر رونے کا ڈرامہ کرنے لگا تھا۔ ” فیصل! یاد کرو۔۔۔۔۔۔ فیصل۔“ اسے سر نہ اٹھاتے دیکھ کر میں نے جھلاتے ہوۓ اس کی کمر پر مزید ایک دھپ لگائ۔
” تھینک گاڈ! میں تمہارا بھائ نہیں ہوں٬ ورنہ تم نے تو میری چمڑی ادھیڑ دینی تھی۔ فیصل! مجھے تم سے ہمدردی ہے۔“
” تم یہاں میرے بھائ کو ورغلانے آۓ ہو۔“ میں لب بھینچے اسے گھورنے لگی۔
” توبہ کرو بھئ۔۔۔۔ میں پاگل ہوں جو اسے تمہارے خلاف ورغلاؤں گا۔ مجھے اپنی جان بہت عزیز ہے۔“ اس نے ڈرنے کی ایکٹنگ کی۔ میرا جی چاہا فیصل کا بھاری بھرکم بیگ اسے دے ماروں۔
” مجھے تو یہاں امی نے تمہاری خیریت دریافت کرنے بھیجا تھا کہ پچھلے دو دن سے نیلی پیلی نہیں آئ۔ دیکھ کر آؤں کہیں پاؤں میں موچ ووچ تو نہیں آگئ ٬ جو لڑکی بخار کی حالت میں ناغہ نہیں کرتی تھی ٬ اس کے پاؤں میں زنجیر صرف موچ ہی ڈال سکتی ہے۔“ اس نے نہایت سنجیدہ انداز میں اپنے گھٹیا خیالات مجھ تک پہنچاۓ۔
اس نے نہایت سنجیدہ انداز میں اپنے گھٹیا خیالات مجھ تک پہنچاۓ۔ میرا بھڑک اٹھنا لازمی تھا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے ٬ میں مری جا رہی ہوں تمہارے گھر کیلیٔے؟ میرا اپنا کوئی کام نہیں ہے؟ اگر میں مامی کے اکیلے پن کا سوچ کر ان کی مدد کیلیٔے وہاں آجاتی تھی تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ تم اسے میرے لئے طعنہ بنا دو۔ ایک تو نیکی کروں۔ اس پر تم لوگوں کی باتیں بھی سنوں۔ ٹھیک ہے! نہیں آؤں گی اب میں تمہارے گھر۔ جا کر کہہ دینا مامی سے۔“ غصے سے کہتے ہوۓ میں نے انگلش کی کتاب کافی زور سے فیصل کو رسید کی۔ وہ بلبلا اتھا۔ جھوٹ موٹ رونے کا ڈرامہ کر کے اب وہ سچ مچ روپڑا تھا۔
” اب پتا چلا ٬ رونا کیسے آتا ہے۔“ طنزیہ لہجے میں کہتے ہوۓ اس کی کتابیں سمیٹنے لگی۔ ایک گھنٹہ دماغ کھپا کر بھی میں اسے کچھ یاد نہیں کروا پائ تھی۔ وہ ڈھیٹ ہی ایسا تھا۔
” نیلی! تمہاری یہ عادت بہت خراب ہے۔ کسی اور کا غصہ کسی اور پر اتارتی ہو۔“ ستون سے ٹیک لگاتے ہوۓ آفاق نے جیب سے چاکلیٹ نکال کر میری طرف اچھالی۔
” تم پر اتارنا چاہ رہی تھی ٬ مگر تم دور تھے۔“ چاکلیٹ اٹھاتے ہوۓ میں نے اس کی کتابیں بیگ میں رکھ کر زپ بند کی اور فیصل کو جھنجوڑا۔
” اٹھو پڑھ چکے تم ۔۔۔۔۔ دفع ہو جاؤ یہاں سے اور میری جان چھوڑو۔“ اور تب ہی مجھے اندازہ ہوا کہ اس کا دوسری بار رونا بھی ایک ڈرامہ ہی تھا۔ میری بات سنتے ہی اس میں جیسے بجلی بھر گئ وہ اچھلا تو میں دنگ رہ گئ۔
” فیصل!“ میں نے اسے آواز دی۔ مگر اب اسے میری بات کہاں سننی تھی۔ وہ قلانچیں بھرتا ہوا باہر نکل گیا۔ آفاق میری کیفیت دیکھ کر ہنسنے لگا۔
” بن گئ نہ بیوقوف۔ ویسے میں تمہارے لئے یہ بات کیوں کر رہا ہوں۔ بنایا تو وہاں جاتا ہے جہاں کوئی گنجائش ہو۔“ اس نے خود ہی اپنی کہی بات رد کی۔
” تمہاری یہ کزن کب تک یہاں رہے گی؟“ میں نے اس کی بات ان سنی کر کے اپنی بات کہی۔
” کون ۔۔۔۔۔۔۔ انعمتہ؟“ وہ چونکا۔
” شکر ہے! تم نے انعم نہیں کہا۔“ میں دھیرے سے بڑبڑائ۔ اس نے سن لیا۔
” کیوں ۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں کوئی مسئلہ ہے کیا؟“ ویسے مجھے معید نے بتایا تھا کہ تم اس کے انعمتہ کو انعم کہنے پر کتنا چڑی تھی۔“ وہ مسکرا رہا تھا اور شاید مجھے چڑانا چاہ رہا تھا۔
” یہ معید کی خوش فہمی ہے کہ میں اس کے انعمتہ کو انعم کہنے پر چڑی تھی۔“ میں نے ”اس کے“ پر کافی زور دیا۔ ” میں صرف حیران ہوئ تھی ایک ہی دن میں ان کی بےتکلفی پر۔“
” بات تو وہی آگئ نا کہ تم جل گئ تھی۔“ اس کا لہجہ اکسانے والا تھا۔
” ہاں ۔۔۔۔۔۔ جلی تھی تو ۔۔۔۔“ میں تنک گئ۔ وہ مسکرایا۔
” تو یہ کہ ابھی وہ ارمان بھائ کی منگنی تک یہیں ہے۔ اس ایک ہفتے میں تم مزید جلنے ٬ کڑھنے کے بجاۓ اس سے دوستی کر لو۔ فائدے میں رہو گی ٬ وہ بہت اچھی لڑکی ہے۔“
” تمہیں امی بلا رہی ہیں۔“ چند لمحے اسے دیکھتے رہنے کے بعد میں بولی۔ دراصل وہ مجھے تپانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ وہ مشکوک نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔
” تمہارے کان بج رہے ہیں یا پھر تم مجھے یہاں سے دفع کرنا چاہ رہی ہو؟“ مجھے ہنسی تو بہت آئ ٬ مگر میں ضبط کرتے ہوۓ سنجیدگی سے بولی۔
” نہیں! تھوڑی دیر پہلے وہ تمہارا پوچھ رہی تھیں۔ شاید انہیں کوئی کام ہے تم سے۔ اب تم جا کر ان سے پوچھو تو وہ تمہیں بتا دیں گی۔“
اس نے بےاختیار ایک سرد آہ بھری تھی۔ ہمارے گھر کے سودا سلف لانے سے بل جمع کروانے تک ہر کام وہی کیا کرتا تھا۔ اسی لئے اس وقت اس کے چہرے پر یہ سنتے ہی تھکن سی بکھر گئ تھی۔
________________________________________
” جوڑا کیسا لگا نیلی؟“
میں ماموں کے ہاں آئ تو مامی اور انعمتہ لاؤنج میں اپنی شاپنگ بکھراۓ بیٹھی تھیں۔ انہیں بازار سے آۓ کچھ ہی دیر ہوئ تھی۔ ارمان بھائ بھی وہیں موجود تھے اور فرخ اور آفاق بھی۔ انعمتہ فورا“ ہی اٹھ کر کچن میں ٹھنڈا لانے کیلیٔے چلی گئ۔
ریڈ کلر کے شیفون کے اس خوبصورت جوڑے کو میں اپنی گود میں پھیلاۓ بیٹھی تھی۔ قمیص کے گلے پر ہلکا سا کام تھا۔ دوپٹا پورا بھرا ہوا تھا۔ ”اچھا ہے۔“ میں بےساختہ تعریف کر گئ۔
” یہ انعمتہ نے پسند کیا ہے۔“ مامی نے میری تعریف کے جواب میں بتایا۔ جوڑے کے ساتھ کا دیگر سامان دیکھتے ہوۓ میں سوٹ کے ہم رنگ موتیوں والے پراندے کو دیکھ کر حیران ہوئ۔
” مامی! یہ پراندہ لینے کی کیا ضرورت تھی۔ اول تو آجکل پراندے کا فیشن نہیں ہے اور پھر نبیلہ کے بال ہی کتنے ہیں جو آپ نے پراندے کا تردود کر ڈالا۔“ (یہ تو گنجے کو کنگھی دینے والی بات ہوئ) آخری جملہ میں صرف سوچنے کی ہمت کر سکتی تھی ٬ کہنے کی نہیں۔
” ہائیں ۔۔۔۔۔ کیا؟ اس کے بال نہیں ہیں۔“ ارمان بھائ جو انعمتہ سے شربت کا گلاس لے رہے تھے۔ ایک دم سے چونک گئے۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ آف وائٹ پینٹ پر بلیو کلر کی شرٹ پہنے ٬ لائٹ براؤن بالوں کو سلیقے سے جماۓ ٬ چہرے پر ہلکی ہلکی سنہری داڑھی تھی اور لائٹ براؤن بڑی بڑی روشن زہین آنکھوں پر سنہرے فریم کی نفیس سی عینک ۔۔۔۔۔۔ میں نے سرد آہوں کو اپنے دل میں ہی دبا لیا۔
” نہیں ۔۔۔۔ بال تو ہیں۔ بس لمبے نہیں ہیں۔“ میں نے ان کے ہراساں چہرے کو دیکھ کر تسلی دی۔
” ہو جائیں گے لمبے بھی ۔۔۔۔ بالوں کا کیا ہے ٬ گھر کی کھیتی ہے۔“ مامی نے اچھا جواز ڈھونڈا بیٹے کا دل بڑھانے کیلیٔے۔ یہ الگ بات ہے کہ ارمان بھائ بےدل سے ہو گئے۔
” مجھے تو پراندے بہت پسند ہیں۔“ فرخ نے مسکرا کر پراندوں کی طرف دیکھا۔ ” اگر ایسا ہے تو اس سے پہلے میں تمہارے لئے ڈھونڈوں گی کوئی نرگس اور صائمہ ۔۔۔۔ ویسے بھی مامی ان کی بڑی فین ہیں۔ انہیں من چاہی بہوؤیں مل جائیں گی اور ان کے زرق برق پراندوں کی قدردان بھی۔“ میں نے پراندہ مامی کی جانب پھینکا جو بےزار سی شاپر سمیٹنے میں مصروف تھیں۔ انعمتہ آکر ان کی مدد کرنے لگی۔
” امی! میں دوست سے ملنے جا رہا ہوں۔ آتے ہوۓ لیٹ ہو جاؤں گا۔ فکر مت کیجئے گا۔“ ارمان بھائ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے۔ مامی نے اثبات میں سر ہلایا۔
” اچھا ۔۔۔۔ نیلی تو تم کیا کہہ رہی تھی صائمہ اور نرگس کے بارے میں؟“ ارمان بھائ کے جاتے ہی فرخ پوری توجہ سے میری جانب متوجہ ہوا۔ وہ شاید ان کے جانے کے ہی انتظار میں تھا۔ کچھ پوچھنے کو بےتاب سا۔
” میں ۔۔۔۔۔۔ میں تو ان کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ رہی تھی۔“ میں نے حیران ہو کر نفی میں سر ہلایا۔ ” اگر تم سیریس ہو اور اگر واقعی تمہیں نرگس جیسی کوئی لڑکی چاہیے تو تمہیں خود ہی کوشش کرنی پڑے گی۔ میں ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔“ میں نے کہا۔ آفاق ہنس پڑا۔
” تھینک یو سو مچ اس مشورے کیلیٔے۔“ فرخ کے چہرے پر خفت چھائ۔ ” مگر مجھے نرگس جیسی لڑکی نہیں چاہیے ۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے تو ۔۔۔۔“ وہ کہتے کہتے رکا ٬ شاید اسے اپنی بات کیلیٔے مناسب الفاظ نہیں سوجھ رہے تھے۔ آفاق بھی اسے حیران نظروں سے دیکھ رہا تھا اور میں بھی۔
” مجھے نرگس ہی چاہیے۔“
آفاق کی آنکھیں حیرت سے پھیلی تھیں اور میں ۔۔۔۔۔ میں چلا اٹھی۔ ” کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔“
” آرام سے ۔۔۔۔“ وہ گھبرایا۔ مامی کچھ دیر پہلے ہی کچن میں گئ تھیں اور انعمتہ شاپنگ کے شاپرز لے کر اوپر۔
” امی چاہتی ہیں کہ میں انعمتہ کے بارے میں سوچوں۔ اس پر غور کروں لیکن ۔۔۔۔۔ لیکن میں نرگس کو پسند کرتا ہوں اور اس سے کمٹمنٹ کر چکا ہوں۔“
” خدا کیلیٔے فرخ ۔۔۔۔۔ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“
میرا بےچین لہجہ لرز اٹھا۔ اس نے بات ہی ایسی کر دی تھی۔ میں حیران تھی۔ اسے نرگس ملی کہاں۔ شاید وہ بھی اس کا فین ہو اور اس کا کوئی شو دیکھنے چلا گیا ہو۔
” تم ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہو؟ وہ عمر میں تم سے کتنی بڑی ہے ٬ پھر اس کا پروفیشن ۔۔۔۔۔ مامی بھلے ہی اس کی کتنی بڑی فین ہوں ٬ مگر وہ اسے بہو بنانے پر کبھی رضامند نہیں ہونگی۔“
” عمر میں وہ میرے جتنی ہی ہے اور پروفیشن ۔۔۔۔ وہ تو میرا بھی وہی ہے جو ۔۔۔۔“ کہتے کہتے اسے اچانک ہی جیسے کچھ خیال آیا تھا۔ وہ رک کر مجھے گھورنے لگا۔ ” تم کس کی بات کر رہی ہو؟“
” تم کس کی بات کر رہے ہو؟“ میں نے بجاۓ جواب دینے کے الٹا سوال کر لیا۔
” اپنی آفس کولیگ کی۔“ اس نے چبا چبا کر بتایا۔ میرا ہاتھ بےاختیار اپنے ماتھے پر گیا تھا اور آفاق کا قہقہہ بےقابو ہو گیا۔
” قصور نیلی کا نہیں ہے۔ ایک لمحے کیلیٔے میں بھی کنفیوز ہو گیا تھا۔“ وہ ہنستے ہوۓ بول رہا تھا۔ مجھے خجالت سے اپنا چہرہ تپتا ہوا محسوس ہونے لگا۔
” تم لوگوں میں کامن سینس نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔“ فرخ نے مایوسی سے سر ہلایا۔
” تم میں ہے کیا؟ صاف صاف نہیں بتا سکتے تھے کہ اپنی کولیگ کی بات کر رہے ہو۔ نرگس کے نام پر اس دوسری نرگس کا ذکر چھیڑنا ضروری تھا۔“ میں خجالت مٹانے کو اس پر چڑھ دوڑی۔
” یہ کس نرگس کی بات ہو رہی ہے؟“ دو دو سیڑھیاں پھلانگتے نیچے اترتے ہوۓ معید کے کانوں تک شاید یہ نام پہلے پہنچ گیا تھا۔