بڑی مامی ہر کام کیلیٔے میرا نام لیتی تھیں ، مجھے ہی پکارتی تھیں اور میں اس بات پر بڑا اتراتی پھرتی تھی کہ مامی جو نہایت کروفر اور ٹھیسے والی خاتون تھیں۔ ایک زمیندار گھرانے کی بہو تھیں۔ چار جوان بیٹوں کی ماں تھیں اور ایسے ویسوں کو تو منہ لگانا بھی پسند نہیں کرتی تھیں۔ ان کا کویٔ کام میرے بغیر نہیں ہوتا تھا۔ مہمانوں کی آمد پر مینیو بنانے سے لے کر سوئ میں دھاگہ ڈالنے تک ہر کام کیلیٔے انہیں میری ضرورت پڑتی تھی۔ ادھر وہ بلاوا بھیجتیں اور ادھر میں چراغ کے جن کی طرح ان کے سامنے حاضر ہو جاتی۔ ان کا گھر ہمارے بلکل پڑوس میں تھا۔ اسی لئے ان کے گھر دن میں میرے زیادہ نہیں تو چار پانچ چکر پکے تھے۔ پھر چاہے امی ڈانٹتیں ، دادی لتاڑتی یا صبا طعنے دے دے کر میرا ناک میں دم کرتی۔ میں کرتی وہی تھی جو میرا دل چاہتا تھا اور میرا دل کیا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاں! یہ تو بلکل سامنے کی بات ہے۔ اگر چار جوان بیٹوں کی ماں دن رات کسی لڑکی کے سگھڑاپے کا امتحان لیتی رہے تو کون لڑکی ہوگی ، جو اس امتحان میں پاس نہ ہونا چاہے گی۔ ظاہر ہے میں بھی بنا کسی مطلب کے ان کی یہ خدمتیں تو کر نہیں رہی تھی۔
مجھے یقین تھا کی ارمان بھیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی تک وہ بھیا ہی تھے۔ سیاں بننے کا فلحال کویٔ امکان نظر نہیں آرہا تھا کہ لڑکی کی تلاش میں ان کی نظر سب سے پہلے مجھ پر ہی پڑے گی۔ ویسے بھی ان کی دور کی نظر کمزور تھی۔ نزدیک کی تو نہیں۔ دیکھنے میں تو ارمان بھیا بلکہ چاروں بھائ اچھے خاصے تھے۔ یعنی مامی پر نہیں پڑے تھے۔ پڑھے لکھے بھی تھے۔ آفاق تو خیر زیر تعلیم تھا اور معید نوکری کی تلاش میں ، مگر ارمان اور فرخ تو برسر روزگار بھی ہو چکے تھے۔ مزاج سب کے ہی ساتویں آسمان کو چھوتے تھے۔ مگر میرے لئے وہ کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ میرے خیال میں لگامیں کس کر پکڑنے کی ضرورت ہے۔ دماغ کے ٹھکانے آنے پر ٹائم نہیں لگتا۔
________________________________________
اس دن بھی میں اپنے چہرے پر انڈے اور شہد کا ماسک لگاۓ پنکھے کے عین نیچے لیٹی اس کے سوکھنے کا انتظار کر رہی تھی جب مجھے باہر سے آفاق کی آواز سنائ دی۔ وہ صبا سے میرے بارے میں دریافت کر رہا تھا۔
” صبا! نیلی کہاں ہے؟“
” کیوں۔۔۔۔۔۔۔؟ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟ تمہارے گھر تیلیاں ختم ہو گیٔ ہیں؟“ صبا یقینا” کانوں میں ائیرفون ٹھونسے بیٹھی تھی۔ اس کے جواب سے آفاق کا تو نہیں پتا ، لیکن اندر میں ضرور سلگ گئ تھی۔
” میں تمہاری بہن کی بات کر رہا ہوں۔ تمہاری اس نیلی پیلی بہن کی۔“ وہ بھنا کر بولا۔ حالانکہ نہ تو میں نیلی تھی اور نہ پیلی۔ مگر یہ آفاق جب تک میرے نام کا حشر نہ بگاڑ لیتا ، اسے چین کہاں آتا تھا۔
” اندر ہو گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔جا کر دیکھ لو۔“ صبا نے بےزاری سے جواب دیا۔
میں فورا” بجلی کی سی تیزی سے اٹھ کر ملحقہ واش روم کی طرف بھاگی۔ اگر آفاق مجھے اس شکل میں دیکھ لیتا تو اس کے گھٹیا مزاق کبھی ختم ہونے والے نہیں تھے۔ دروازہ زور دار آواز کے ساتھ بند ہوا۔ یقینا” وہ سمجھ گیا ہوگا کی میں اس سے چھپی ہوں۔ آئینے میں اس گیلے ماسک کا جائزہ لیتے ہوۓ میں نے دل ہی دل میں آفاق کو خوب کوسا۔ اسے بھی یہی وقت ملا تھا آن مرنے کیلیٔے۔ رگڑ رگڑ کر منہ دھوتے ہوۓ میں نے اس کے آنے کی وجہ سوچی پھر سر جھٹک دیا۔ یقینا” مامی نے ہی بھیجا ہو گا۔
” تم آفاق سے چھپیں کیوں؟“ جیسے ہی میں واش روم سے نکلی۔ سامنے بیٹھی کچر کچر چپس کھاتی صبا نے سوال داغا تھا۔ ماہ رمضان کے علاوہ میری یادداشت میں ایسے دن بہت کم تھے جب میں نے اسے ہمہ وقت کچھ نہ کچھ کھاتے نہ دیکھا ہو۔
” چھپی نہیں تھی۔ میں منہ دھونے گیٔ تھی۔ کیا وہ چلا گیا۔“ تولئے سے منہ پونچھتے ہوۓ میں دروازے کے قریب آکر جھانکنے لگی۔ دوپہر ڈھلنے لگی تھی۔ اس سے پہلے کہ دادی کے قیلولے کا ٹائم ختم ہوتا ، مجھے مامی کے گھر کا ایک چکر لگا لینا چاہیے تھا۔
” ویسے مجھے ایک بات تو بتاو نیلی! یہ دن رات مامی کی خدمتیں کر کے تمہیں حاصل کیا ہونے والا ہے؟“ ایسا بے تکا اور بھونڈا سوال صرف صبا ہی کر سکتی تھی۔ میں نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا۔
” وہی جو تمہیں کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔“
” اگر تم ان کے بیٹوں کی بات کر رہی ہو تو مجھے ان میں کویٔ دلچسپی ہی نہیں ہے۔“ بڑی بے نیازی سے چپس کا خالی پیکٹ ایک طرف اچھالا۔ ” یہ رشتہ دار بڑے خودغرض ہوتے ہیں۔ اپنے خوبرو اور کماؤ پوتوں کیلیٔے ان کی نظر خاندان کی لڑکیوں پر کبھی نہیں ٹکتی۔ خود بھلے ہی اپنی کالی ، پیلی ،کانی بھینگی لڑکیاں خاندان میں کھپا دیں۔ بہو ہمیشہ باہر کی ہی لاتے ہیں۔“
” ہو سکتا ہے۔ تم بلکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔۔۔۔۔۔“ میں نے کندھے اچکاۓ۔ ” مگر میں اپنی طرف سے کوشش کر رہی ہوں کیونکہ مجھے انجان لوگوں میں جانے کا کویٔ شوق نہیں ہے۔ ہول اٹھتے ہیں مجھے سوچ کر۔“ میں نے اسے اپنی مجبوری بتائ۔
” اچھا! میں جا رہی ہوں اس سے پہلے کے دادی جاگ جائیں۔“ مجھے اچانک ہی خیال آیا اور اس کے منہ کھولنے سے پہلے ہی میں جلدی سے باہر نکل آئ اس نے بلند آواز میں کچھ کہا بھی تھا ، مگر میں نے پلٹنے کی حماقت نہیں کی۔
________________________________________
مامی کے گھر پہنچنے میں مجھے بہ مشکل دو منٹ لگے تھے۔ نیچے کوئی نہیں تھا۔ لاؤنج میں خلاف توقع سب کچھ بہت سمٹا ہوا اور صاف ستھرا تھا۔ مامی اتنی نفیس طبیعت کی مالک تو ہرگز نہیں تھیں اور نہ ہی بقول ان کے اس عمر میں ان سے اتنی صفائیاں ہوتی تھی۔ ماسی صبح میں صرف ایک بار صفائ کرتی تھیں۔
میں دیگر کاموں کے ساتھ صفائ بھی کر جاتی۔ مگر بہت سگھڑ اور سلیقہ مند تو میں بھی نہیں تھی اور ان کے گھر تو میں اس مقولے پر عمل کرتی تھی۔ ” روم میں وہی کرو جو رومن کرتے ہیں۔“ ظاہر ہے جی جان لگا کر ، کونا کونا چمکا کے مجھے کونسا پرائیڈ آف پرفارمنس ملنے والا تھا ، جو میں خود کو ہلکان کرتی۔ مامی تو سرسری صفائ دیکھ کر ہی خوش ہو جاتی تھیں۔ انہیں پتا ہی نہیں تھا کہ صاف ستھرا ، چمکتا دمکتا اور خوشبوؤں میں بسا گھر کیسا ہوتا ہے۔ اب اگر کچرا ڈسٹ بن میں جانے کی بجاۓ تھری سیٹڑ صوفے کے نیچے پڑا ہے تو ان کی بلا سے۔ کم از کم کسی کو نظر تو نہیں آرہا نا! اگر گندے برتن دھلنے کے بجاۓ ایک بڑے سے پہلے ، جس میں چاولوں کی تہہ جل کر چپک چکی ہو ، کے اندر اوپر ڈھکن رکھ کر چھپاۓ گئے ہیں تو انہیں کیا پرواہ ، ٹی وی کے اوپر ، ٹیبل کے نیچے یا پھر ادھر ادھر لڑھکے ہوۓ تو نظر نہیں آرہے جو وہ فکر کریں۔ یہ بھی ان کیلیٔے شکر کا مقام تھا کہ کوئی تھا ، جو آکر ان کیلیٔے اتنا کام تو کر جاتا تھا ورنہ اتنی مہنگائ کے دور میں کون دو دو ملازمائیں افورڈ کر سکتا ہے۔
اور اب لاؤنج کے بیچوں بیچ کھڑی میں اس حیرانی میں ڈوبی تھی کہ اس خالصتا” زنانہ صفائ کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے کہ سامنے معید کے کمرے کا دروازہ کھلا اور وہ باہر نکل آیا۔ میں چونک گئ۔
” تمہارے گھر میں کویٔ آیا ہے کیا؟“ اس سے مجھے جواب ملنے کی امید تو نہیں تھی کہ اس کا گھر اور گھریلو معاملات سے تعلق اتنا ہی تھا ، جتنا کہ ہمارے حکمرانوں کا ہمارے ملک سے تھا یعنی صرف کھانے کی حد تک۔ پھر بھی تجسس کے ہاتھوں آکر میں نے پوچھ لیا۔
” ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔ تم ہی تو آئ ہو۔“ دونوں ہاتھوں میں پکڑے چاۓ کے چھ کپ سینٹر ٹیبل پر رکھتے ہوۓ وہ سادگی سے بولا۔ میں تپ گئ۔
” میرے علاوہ۔“
” ہو سکتا ہے ، آیا ہو۔ میں تو ناشتے کے بعد اپنے کمرے سے ہی نہیں نکلا۔“
” کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ کوئی چلہ کاٹ رہے تھے؟ “ میں نے طنزیہ انداز میں کہتے ہوۓ اس کا جائزہ لیا۔ جینز پر بنیان پہنے ، بکھرے بالوں کے ساتھ یوں لگ رہا تھا ، جیسے وہ ابھی نیند سے جاگا ہو۔ مامی کے چاروں بیٹوں میں اگر کوئی عجیب ترین تھا تو یہی تھا۔ تھا تو بہت ہینڈسم مگر میں نے کبھی اسے ڈھنگ کے حلیے میں نہیں دیکھا تھا۔ شلوار پر شرٹ پہنتا ، ٹراؤزر پر کرتہ اور جینز پر لمبی سی قمیص ، کالے ، ہلکے گھنگھریالے بال یوں بکھرے ہوۓ ہوتے جیسے ان میں سالہا سال سے برش نہ پھیرا گیا ہو۔ شیو ایسی ہوتی کہ نہ تو اسے داڑھی کہا جا سکتا تھا ، نہ کلین شیو۔ پیروں میں ہمیشہ ہوائ چپل ہوتی۔ اسے دیکھنے کے بعد اگر کوئی ارمان اور فرخ کو دیکھتا تو یقین ہی نہیں کرتا کہ معید ان کا بھائ ہے۔
” نہیں! میں کمپیوٹر پر مصروف تھا۔“ وہ ٹی وی آن کرتے ہوۓ ریموٹ لے کر صوفے پر آبیٹھا۔
” ویسے تم کیوں پوچھ رہی تھیں؟“
” صفائی دیکھ کر حیران ہوئ تھی۔ اس لئے پوچھا تھا۔
” صفائی دیکھ کر حیران ہوئ تھی۔ اس لئے پوچھا تھا۔“
”اوہ ہاں! “ اس نے پہلی بار چونک کر اپنے اطراف کا جائزہ لیا۔ ” شاید آفاق کر گیا ہو۔“ ساتھ ہی اپنی راۓ بھی پیش کر دی۔ میری ہنسی بےساختہ تھی۔ وہ مجھے گھورنے لگا۔
” تم ہنس کیوں رہی ہو؟“
” جو لطیفہ تم نے سنایا ہے۔ اس پر میں ہنسنے کے سوا اور کیا کر سکتی ہوں؟ “ میں نے اسی سے پوچھ لیا۔ وہ کندھے جھٹکتے ہوۓ بولا۔
” آفاق کبھی کبھار کام کر لیتا ہے۔“
” ایسا کام نہیں کرتا ہوگا۔“ میں نے جتاتے ہوۓ سیڑھیوں کی جانب قدم بڑھاۓ۔ تب ہی اس نے دوبارہ پکارا۔
” رکو نیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بات سنو۔“
” کیا ہے؟“ میں تپ کر پلٹی۔
” ایک کپ چاۓ تو بنا دو پلیز۔“ وہ ملتجی لہجے میں درخواست کر رہا تھا۔
” ابھی جو یہ چھ خالی کپ اس کمرے سے لاۓ ہو۔ اس کی چاۓ کس نے پی؟“ مجھے غصہ آنا لازمی تھا اگر میں اس گھر کے کسی فرد کے کام کو ” نہ“ کہنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھی تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ یہ لوگ مجھے ملازمہ ہی سمجھنے لگیں۔
” ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سے آخری کپ بھی میں نے کوئی آدھے گھنٹے پہلے پیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ اور تمہیں اندازہ ہے کہ آدھے گھنٹے میں کتنے سیکنڈ ہوتے ہیں۔ تمہارے لیے تو یہ صرف دو منٹ کا کام ہے۔“ چاۓ کے پیچھے معید اتنا ہی پاگل تھا کہ اگر اس کا مقابلہ کسی عادی نشے باز سے کروایا جاتا تو وہ نشے سے توبہ کر لیتا ، مگر معید چاۓ پینا نہ چھوڑتا۔
” اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے۔“ میں بےزار ہویٔ۔ ” ابھی میں مامی کی بات سن لوں۔ انہوں نے ہی مجھے بلایا ہے۔ پھر آکر بنا دیتی ہوں۔“
” پلیز! جلدی آنا۔“ اس نے پیچھے سے کہا تھا اور میں سر ہلاتے ہوۓ اوپر چلی آئ۔
________________________________________
اوپر بھی نیچے کی طرح تین کمرے تھے۔ ایک ماموں مامی کا اور ایک آفاق اور فرخ کا۔ مگر مجھے کسی کمرے میں جھانکنے کے ضرورت ہی پیش نہیں آئ۔ کیونکہ کمروں کے آگے بڑے سے ہال میں مجھے مامی بیٹھی نظر آگئیں۔ اور۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ وہ اکیلی نہیں تھیں۔ ان کے ساتھ کوئی اور بھی تھا۔
” السلام علیکم مامی! “ میں نے دانستہ اونچی آواز رکھی تاکہ وہ خود ہی میری جانب متوجہ ہو جائیں۔
” اے لو نیلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں اب خیال آیا ہے آنے کا۔ میں نے آفاق کو گھنٹہ بھر پہلے بھیجا تھا۔“ انہیں میری شکل دیکھتے ہی یہ شکوہ یاد آیا۔ ان کے ساتھ بیٹھی گلابی کاٹن کے لباس میں ملبوس وہ لڑکی بھی چونک کر مجھے دیکھنے لگی۔
” اچھا! آفاق مجھے بلانے آیا تھا؟“ میں مصنوعی حیرانی سے بولی۔ ” مگر اس نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کہا۔ یہ میرا ہی آنے کا دل ہوا تو میں چلی آئ۔“ میں فراٹے سے جھوٹ بولتی ان کے پاس والے صوفے پر آبیٹھی۔ آفاق کو اتنی سزا تو ملنی ہی چاہیے تھی میرا ماسک وقت سے پہلے دھلوانے کی۔
” اور وہ کہہ رہا تھا کہ نیلی اس سے چھپی ہے ۔ آنے دو اسے۔ آج تو میں اس کی اچھی خبر لیتی ہوں۔“ مامی بیچاری غصے سے بھڑک اٹھیں۔ میں نے مسکراہٹ چھپاتے ہوۓ اس لڑکی کو دیکھا ، جس کے نقوش مجھے کچھ جانے پہچانے سے لگ رہے تھے۔ مگر جب زہن پر زور دینے کے باوجود مجھے کچھ یاد نہیں آیا تو میں نے اس سے پوچھ ہی لیا
” کون ہیں آپ؟ “ یہ ایک ایسا سوال ہی جو کسی اجنبی سے کرتے ہوۓ لہجہ کتنا بھی مہزب اور شائستہ کیوں نہ ہو ، اسے کسی پتھر کی طرح لگے گا۔ میرا یہ سوال سن کر اس کی آنکھوں میں بھی واضح ناگواری اتر آئ تھی مگر تڑپنے کا مظاہرہ ، اس نے نہیں ، مامی نے کیا۔
” باؤلی ہوئ ہو نیلی۔۔۔۔۔۔۔ تم انعمتہ کو نہیں جانتیں ٬ جو یہ سوال کر رہی ہو؟“
” کون انعمتہ؟ “ میں نے ہکا بکا ہو کر دونوں کے باری باری چہرے دیکھے۔
” میری بھانجی۔“ مامی نے ماتھا پیٹا۔
” آپ کی بھانجی۔“ میں نے الجھ کر دہرایا۔ ” مگر مامی۔۔۔۔ میں نے تو آپکی اکلوتی بہن کی دونوں بیٹیوں کو دیکھ رکھا ہے اور کچھ عرصہ پہلے تک تو وہ بلکل ایسی نہیں تھیں۔“
” تم کیا آج گھاس کھا کر آئ ہو نیلی؟“ مامی زچ ہوئیں۔ " میں نے کب کہا کہ یہ فاطمہ کی بیٹی ہے۔ یہ میری خالہ زاد بہن نرگس کی بیٹی ہے۔“ پہلے یہ لوگ یہیں رہا کرتے تھے اور بچپن میں تو تم اس کے ساتھ کھیلتی بھی رہی ہو۔ کیا اتنی جلدی بھول گئیں؟
انہوں نے وضاحت کی اور مجھے ان کی اس وضاحت میں دو لفظ بےحد پسند آۓ تھے۔اور وہ الفاظ تھے ” اتنی جلدی۔ “ یعنی وہ مانتی تھیں کہ میرا بچپن گزرے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا! خیر اب میری سمجھ میں آگیا تھا کہ اس کی صورت مجھے اتنی جانی پہچانی کیوں لگ رہی تھی۔ میں نے چہرے پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ سجا کر اسے دیکھا۔
” مجھے اپنی بچپن کی دوست سے مل کر اچھا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔“
یہ صرف ایک رسمی جملہ تھا ورنہ مجھے اپنے اور اس کے بیچ کھیل کود کا وہ عرصہ بلکل یاد نہیں تھا ، جو مامی یاد دلا رہی تھیں۔
” مجھے بھی اچھا لگا۔“ وہ ہولے سے مسکرائ۔ کافی خاموش طبع لگتی تھی۔
” اچھا مامی! آپ بتائیے ٬ آپ کیوں بلا رہی تھیں؟ “ میں ان کی جانب متوجہ ہوئ۔ ” اور زرا جلدی کہیے میں امی سے پانچ منٹ میں آنے کا کہہ کر آئ ہوں۔“ میں نے ایک اور جھوٹ بولا ، اس لئے نہیں کہ مجھے جھوٹ بولنا پسند ہے بلکہ اس لئے کہ اگر میں ان سے یہ بات نہ کہتی تو وہ شام تک مجھے یہیں بٹھاۓ رکھتیں۔
” کیا ضرورت تھی اپنی ماں سے یہ بات کرنے کی؟ اب بھلا میری بات پانچ منٹ میں ہو سکتی ہے؟ “ ان کی تیوریاں چڑھیں اور لہجہ معترض ہوا۔
” خالہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ برتن لے جاؤں؟ “ انعمتہ بول اٹھی۔
” ہاں۔۔۔۔۔ لے جاؤ اور نیلی کیلیٔے ایک کپ چاۓ بھی لے آنا۔“ مامی مہمان داری کی بلکل قائل نہ تھیں۔ ان کے گھر اگر وینا ملک بھی آجاتی تو وہ اسے بھی اپنے گٹے گوڈوں اور جگر پھیپھڑوں کی نجانے کونسی بیماریاں گنوا کر کچن میں برتن اور مانجھنے اور روٹیاں بیلنے پر لگا دیتیں۔
” مامی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کب آئ اور کہاں سے۔۔۔۔۔۔۔اچانک؟ “ اس کے جاتے ہی میں رازدارانہ انداز میں ان سے دریافت کرنے لگی۔
” اچانک نہیں آئ۔ میں نے ہی اسے بلایا ہے۔ یہ بھی مہربانی ہے اس کی ماں کی کہ میرے ایک بار کہنے پر ہی اسے اتنی دور کراچی بھیج دیا۔“
” اتنی دور سے مطلب کیا ہے مامی؟ “ حیدرآباد سے آئ ہے ٬ ناروے سے نہیں۔“ میں بدمزا ہوئ۔ ” خیر! یہ بتائیے آپ نے اسے بلایا کیوں؟ “
” تم تو یوں پوچھ رہی ہو جیسے تمہیں میری حالات پتا نہ ہو۔ جوڑوں کے درد نے اٹھنا بیٹھنا محال کر دیا ہے۔ ہائ بلڈ پریشر الگ جان نہیں چھوڑتا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ وہ پھر سے اپنی بیماریوں کی فہرست گنوانے لگیں تھیں ، میں زچ ہو گئ۔
” مامی پلیز۔۔۔۔۔۔ جانتی ہوں میں آپکی تمام بیماریاں۔۔۔۔۔۔ آپ یہ بتائیے آپ نے اسے کیوں بلایا۔“
” بہت بولتی ہو تم نیلی۔۔۔۔۔۔۔ دوسروں کو تو بولنے ہی نہیں دیتیں۔“ وہ میرے بیچ میں بات کاٹ دینے سے خفا ہوئیں۔
” تم سے تو اچھی وہ انعمتہ ہے۔ مجال ہے جو بڑوں کے آگے منہ بھاپ بھی نکالے۔“
” مامی۔۔۔۔۔۔۔“ میں تاسف اور تحیر سے انہیں دیکھتی رہ گئ۔ ” ابھی اسے آۓ دو گھنٹے بھی نہیں ہوۓ اور آپ کیلیٔے وہ مجھ سے زیادہ اچھی بھی ہو گئ۔“
” ارے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔“ وہ یکایک گڑبڑا سی گئیں۔ ” ایک تو آج صبح سے میرا دماغ الٹا ہوا ہے۔ تم چھوڑو یہ سب۔ میں تم سے کچھ اور کہنے والی تھی۔ وہ میں نے تمہاری ماں کو کہلوایا تو تھا ، لیکن اگر وہ بھول گئ ہو تو تم اسے یاد دلا دینا۔ “
سٹپٹا کر بات بدلنے کی کوشش میں انہوں نے جو اوٹ پٹانگ سا کہا ٬ وہ میرے سر پر سے گزر گیا اور میں مزید چڑ گئ۔
” ویسے آپ نے امی کو کیا کہلوایا تھا؟ “ میں نروٹھے لہجے میں پوچھنے لگی۔
” یہی کہ وقت سے تیار ہو جاۓ۔ مانا کہ آمنہ میری سہیلی ہے ٬ مگر عین کھانے کے وقت ان کے گھر پہنچنا بلکل مناسب نہیں۔ اس کی تو عادت ہے ٬ پہلے سے اطلاع کرو تو ہر دو منٹ بعد فون کر کے آنے کا وقت پوچھتی ہے۔“
” انہوں نے آپ کو دعوت پر بلایا ہے؟“ میں کافی حیران ہوئ۔ امی نے تو مجھ سے ایسا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔
” نہیں بھئ!“ انہوں نے بےزاری سے ہاتھ ہلایا۔ ” رشتہ پکا کرنے جا رہے ہیں۔“ میں ہونق بنی منہ کھولے انہیں دیکھتی رہی۔
” کس کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رشتہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟“ کافی دیر بعد میرے لبوں سے آواز نکلی ، بےحد ہلکی سی۔
” ارمان کا ، اور کس کا۔۔۔۔ اور انعمتہ کو بھی میں نے اسی لئے بلایا ہے۔ رشتہ پکا ہو جاۓ تو منگنی کے سو جھمیلے ، سو کام اور میں تو کچھ کرنے جوگی نہیں۔ اب تم اور انعمتہ مل کر سارے کام کر لینا۔“ وہ بڑے اطمینان سے بولیں اور اشتعال کے باعث مجھے اپنے کانوں سے دھواں نکلتا محسوس ہوا۔