اہلِ تقلید رحمہم اللہ علیہم اجمعین کا یہ مسئلہ ہے کہ جب مجتہد کسی مسئلہ میں غور کرے تو پہلے کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے، اگر وہاں مشکل کشائی ہوئی تو سبحان بحمدہ، وگرنہ حدیث شریف کی طرف توجہ کرے۔ اگر یہاں بھی پتہ نہ لگے اجماع امت کی طرف جائے، اس کے بعد قیاس کا مرتبہ ہے ؎
مجتہد ہر گہ کہ باشد نص شناس
ہر کہ او اول قیاسکہا نمود
اندرین صورت نیندیشد قیاس
پیش انوار خدا ابلیس بود
حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے کہیں کتاب اللہ یا حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں قیاس نہیں کیا ہے۔ چنانچہ سورہ فاتحہ خلفِ امام کے ہی مسئلہ میں دیکھ لیجیے۔ ہمارے بعض برادران اسلام امام کے پیچھے الحمد پڑھنی مسلم کی اس حدیث کی قوت سے فرض کرتے ہیں۔ حدیث مسلم: ابوہریرۃ مَنْ صلَّى صلاةً لَمْ يقرأ فيها بأمِّ القُرْآن فهي خِداج هي خداج هي خداج۔ ترجمہ: حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس نے نماز پڑھی اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص ہے، ناقص ہے، ناقص ہے۔ اس حدیث سے ہم دو باتوں کا استنباط کرتے ہیں: ایک تو یہ کہ آپ نے ناقص کا لفظ فرمایا ہے اور نقص دلیل وجوب ہے نہ فرضیت۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث کو جب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت کے سامنے بیان کیا تو وہ سب متحیر ہو گئے اور پوچھنے لگے کہ کیا ہم امام کے پیچھے بھی سورہ فاتحہ پڑھیں اور اگر پڑھیں تو اس کا کیا طریقہ ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ وہ پوری جماعت صحابہ کی سورہ فاتحہ امام کے پیچھے نہیں پڑھتی تھی، وگرنہ وہ کبھی اس حیرت سے نہ پوچھتی۔ ان کے استفسار کا جواب حضرت ابوہریرہ نے یہ دیا کہ اپنے دل میں پڑھ لیا کرو۔ مگر ہمارے برادران غیر مقلد تو اس طرح پڑھتے ہیں کہ ان کے پہلو والا خوب اچھی طرح سن لیتا ہے۔ اور دل میں پڑھنے کا یہ طریقہ ہے کہ امام پڑھ رہا ہے اور مقتدی کا دل ان لفظوں کو قبول کرتا جاتا ہے۔ اب حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی دلیل سنیے، وہ فرماتے ہیں کہ جہاں ہم کو صریح نص ملے گی ہم اسی کو مقدم رکھیں گے۔ یہ آیت شریف وہ پیش کرتے ہیں: وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔ ترجمہ: اور جس وقت قرآن پڑھا جائے، سنو اس کو اور چپ رہو شاید کہ تم پر رحم کیا جائے، انتہیٰ۔ دیکھ لیجیے سکوت کے ساتھ رحم کا وعدہ بھی لگا ہوا ہے۔ اب اہلِ انصاف ان دونوں مسئلوں میں خود فیصلہ کر لیں اور مجرد تعصب کی وجہ سے زبان کو سب و شتم کے ساتھ گویا کرنا اہلِ دانش کا کام نہیں ہے۔ اللہ تعالی شانہ ہمارے مسلمان بھائیوں کے دلوں کو انوارِ حقانیت سے منور فرمائے۔ بے فائدہ گمان فاسد کسی کی طرف کرنا شانِ اسلام سے نہیں ہے جیسا کہ اللہ مغفرت کرے نواب صدیق حسن خاں مرحوم نے اپنی تصانیف میں کنایتاً اور صراحتاً حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو اکثر مقام پر نہایت نازیبا طریقہ سے یاد کیا ہے۔ چنانچہ ان کے قطعہ کے دو مصرعے مجھے یاد ہیں، اہلِ علم اسے پڑھ کر متحیر ہوں گے۔نواب صاحب کے قطعہ کے دو مصرعے ؎
قیاس باطل و اجماع بے اثر آمد
بجز دو نوع نخستین نباشد اصل اصول
الغرض میں بھی اپنے قیاس کی رہبری پر ایک طرف کو چل نکلا۔ یہاں تک کہ محبس کی پشت پر پہنچا اور وہاں سے تھوڑی دور پر ایک چھوٹی سی مسجد اور کچھ قبریں نظر آئیں۔ بس دل نے خبر دی کہ ہو نہ ہو یہی مقابر علماے واصلین ہے۔ جب میں اس خاک کے روشن ٹکڑے پر پہنچا تو مسجد کے دکھن کی طرف چند قبریں چونہ گچی کی نظر آئیں۔ اب یہ فکر ہوئی کہ یہ کیوں کر معلوم ہو کہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کی خواب گاہ یہ ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی خواب گاہ وہ ہے۔ اتفاق وقت سے میں اول جس قبر پر کھڑا ہوا، وہی مزار حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا تھا۔ وہاں میں نے ایک صاحب کو نماز پڑھتے دیکھا، ان کے سلام پھیرنے کا انتظار کیا۔ جب وہ سلام پھیر چکے تو میں نے ان سے پوچھا کہ حضرت شاہ صاحب کا مزار کون سا ہے؟ انھوں نے کہا: یہی ہے جہاں تم کھڑے ہو۔ دیکھ لو قبر کے سرہانے نام اور تاریخ ان کی کھدی ہوئی ہے۔ اس وقت جو کیفیت دل کی ہوئی دل ہی جانتا ہے ؏
دلِ من داند ومن دانم و داند دل من
ہے تو یہ زمین کا بہت چھوٹا سا ٹکڑا مگر فلکِ اقمار ہے۔ آسمانِ دنیا میں ایک چاند اور یہاں اتنی چھوٹی سی زمین میں چار چاند۔ یہ وہی چاند ہیں کہ جن کے سبب سے زمانے کے منہ کو چار چاند لگ گئے، بلکہ یہ زمین آسمان چہارم ہے اور یہ بزرگوار چار آفتاب علوم ہیں۔ اس مسجد کی دکھن کی طرف اندازاً زمین سے آٹھ اُنگل اونچا ایک چونہ گچی کا چبوترہ ہے۔ اس پر مغرب کی طرف احاطہ کی دیوار سے ملا ہوا ایک مزار ہے، اس کا کچھ حال نہیں معلوم ہوا۔ اس کے پہلو میں مشرق کی طرف جو مزار ہے وہ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، اس پر آپ کا نام نامی اور سنہ وفات ۱۲۴۰ ہجری کندہ ہے۔ آپ کے مزار کے پائیں آپ کے برادر خُرد حضرت مولانا شاہ رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس مزار کے سرہانے آپ کا نام نامی اور سنہ وفات ۱۲۳۳ھ کندہ ہے۔ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں مشرق کی طرف حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس پر آپ کا نام عربی خط میں کُھدا ہے اور آپ کے پائیں حضرت مولانا شاہ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور اس مزار کے سرہانے آپ کا نام نامی اور سنہ وفات ۱۲۳۶ھ کندہ ہے اور حضرت مولانا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں مشرق کی طرف آپ کے والد ماجد حضرت شاہ عبد الرحیم صاحب قدس سرہ کا مزار مبارک ہے۔ یہ بزرگ حضرت شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے جد امجد ہیں اور ان کو طریقہ ابو العلائیہ میں واسطہ ہے اور دوسرے طُرق میں بھی فیض یاب ہیں۔ مولوی عبد القیوم صاحب مرحوم جو بھوپال میں تشریف رکھتے تھے ان کے پاس حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلوی قدس سرہ کا ایک بیاض تھا جس میں ان کے دستِ خاص کا لکھا ہوا تھا کہ الحمد للہ کہ مجھ میں بہ نسبت اور طرق کے کیفیت طریقہ ابو العلائیہ غالب ہے۔ ایک صاحب مرزا ولی بیگ دہلی کے رہنے والے مجھے حضرت شاہ عبد العزیز صاحب قدس سرہ کے مزار پر ملے۔ وہ بیان کرتے تھے کہ تاریخیں جو اِن مزاروں پر کندہ ہیں جناب ممتاز علی خاں صاحب رئیس میرٹھ نے کندہ کرائیں ہیں، جزاہ اللہ فی الدارین خیراً۔ واقعی اگر یہ تاریخیں ان پر کندہ نہ ہوتیں تو ان بزرگوں کی قبروں کا بتانے والا آج کوئی موجود نہ تھا۔ افسوس ہماری قوم میں سے اب کوئی شخص ایسا باقی نہ رہا کہ ہمارے والیان ملک کو اس طرف متوجہ کرے کہ اِن کے بقاے نام و نشان کے لیے ان کے مزارات پر گنبد قائم کر دیا جائے تاکہ ان کی زیارت کرنے والوں کو کسی دوسرے راہبر کی ضرورت نہ ہو۔ ہاے صد واے یہ وہ آفتاب علوم ہیں کہ آسمان علم جن کی ذات سے روشن ہے، مگر آج یہ چند مشت خاک کے اندر ایسے روپوش ہیں کہ ہم ڈھونڈتے پھرتے ہیں اور پتا نہیں لگتا ؏
عالم ہمہ افسانہ ما دارد و ما ہیچ
واہ رے تیری بے نیازی! کس عظمت و جلالت کے بزرگوار کس گُم نامی کے ساتھ ہم سے پردہ کیے ہوئے پڑے ہیں کہ جن کی قبروں کا نشان دشواریوں سے ملتا ہے اور پھر لطف یہ ہے کہ دہلی سے شہر میں۔ اور جب ہم مزار پر آکر سلام پڑھتے ہیں تو جواب درکنار سانس لینے کی آواز تک نہیں آتی۔ اللہ اللہ طبقہ خاک بھی کیا با ادب مقام ہے ؎
ادب گاہیست در زیرِ زمین از عرش نازک تر
چُنان مدہوشِ جام آرزوے وصل شد عزت
نفس گرم کردہ می آید جنید وبایزید اینجا
کہ از مستی بدوش دیگران بیخود رسید اینجا
یہ شہر خموشاں بھی کیا آرام کی با لطف وپر رونق بستی ہے کہ تمام بستیاں ویران ہوتی جاتی ہیں مگر یہ روزانہ آباد ہوتی جاتی ہے اور یہاں کچھ ایسی دل چسپی ہے کہ آدمی جب یہاں پہنچا تو اپنے جملہ اعزہ واقربا، دوست احباب سب کو بھول جاتا ہے ؎
شکوہ ہے رفتگانِ مقامِ بعید کا
ایسے گئے کہ خط بھی نہ لکھا رسید کا
مگر خیال کیا تو معلوم ہوا کہ اس عالمِ جمعیت میں انسان کو کچھ ایسا اطمینانِ نفس ہو جاتا ہے کہ ہر قسم کے ترددات سے نجات ہوجاتی ہے۔ پھر وہ کس کی طرف رجوع کرے اور کس کو اپنے حال سے خبر دے۔ فی الحقیقت اصلی گوشۂ عافیت یہی مقام ہے ؎
مسجد میں تو شیخ کو خروشان دیکھا
ایک گوشۂ عافیت جہاں میں اے امیر!
مے خانے میں جوشِ بادہ نوشان دیکھا
دیکھا تو محلہ خموشاں دیکھا
وہ گوشہ عافیت یہی ہے۔ لیکن اگر طالب مرد ہے اور ہمت بلند رکھتا ہے تو وہ فیاض حقیقی اس کو یہ مقام قبل اس مقام میں پہنچنے کے بھی عطا فرما سکتا ہے، جیسا کہ کسی راہ رفتہ نے ارشاد فرمایا ہے ؎
ہمچون من آن زمان تو پاک شوی
خاک شو پیش ازانکہ خاک شوی
اب ہم حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کو جاتے ہیں۔ یہاں سے وہ جگہ نظر آرہی ہے۔ مرزا ولی بیگ صاحب ہمارے ساتھ ہو گئے ہیں۔ وہ بعض اور مقامات کا بھی نشان دیتے جاتے ہیں۔ فاصلہ بہت کم تھا، ہم جلد پہنچ گئے۔ یہ سب مزارات چونہ گچی کے ہیں جیسے کہ حضرت شاہ عبد العزیز قدس سرہ اور ان کے اجداد کے ہیں۔ لیکن مزارات کے سرہانے بڑی بڑی لوحیں سنگ سرخ کی نصب ہیں اور ان میں بخط نسخ و نستعلیق بہت کچھ لکھا ہوا ہے۔ مگر سب مزارات زیر آسمانِ نیلی ہیں، حتیٰ کہ درختوں کا بھی سایہ نہیں ہے۔ واقعی فقرا اور غربا کے لیے اس سے زیادہ بلند اور خوش نما کوئی گنبد مزار کے لیے موزوں نہیں ؎
خدا دراز کرے عمر چرخ نیلی کی
کہ ہم غریبوں کی تربت کا شامیانہ ہوا
اس مقام پر سب سے پہلے میں افسوس کے ساتھ یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خواجہ ناصر وزیر مرحوم جو حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ کے سجادہ نشین حال تھے، نہایت لائق و متین و سنجیدہ شخص تھے۔ وہ داناپور میں مجھ سے ملنے آئے تھے۔ ان کے انتقال کے بعد اس بقعہ متبرکہ کی یہ حالت ہو گئی۔ اس وقت جو متوسل اس خاندان کے ہیں، وہ اپنے اجداد کی روحوں کو ایذا پہنچا رہے ہیں۔ جو مزارات پر درخت سایہ کیے ہوئے تھے، ان کو بھی کاٹ کر بیچ ڈالا۔ بعض مزار کی لوح بھی اکھاڑ کر فروخت کر ڈالیں۔ واقعتاً حضرت سعدی رحمۃ اللہ علیہ نے بہت درست فرمایا ہے ؎
ززنِ باردار اے مرد ہشیار
ازاں بہتر بہ نزدیک خردمند
اگر وقتِ ولادت مار زایند
کہ فرزندان ناہموار زایند
حضرت خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ مرجع فنون و مجمع علوم تھے۔ شعرا کی صف میں مسلم الثبوت استاد، فقرا کے حلقہ میں شیخ کامل، اہل سیادت کے طبقہ میں صحیح النسب سید۔ علمی سرمایہ بھی اگر بہت نہ تھا تو ایسا کم بھی نہ تھا۔ فن انشا میں ان کی قابلیت رسالہ ہاے نالۂ درد، آہِ سرد، دردِ دل، شمعِ محفل کے مطالعہ سے بخوبی ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ سب رسالے قابل دید ہیں۔ توکل ان کا دہلی میں مشہور ہے، فاقہ ان کے خاندان میں ترکۂ نبوت سمجھا گیا تھا۔ ہزار افسوس کہ ایسے خاندان کی اولاد اور ناہموار۔ خوب غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ بری صحبتوں کا اثر ہے ؎
صحبتِ سفلہ چو انگشت نماید نقصان
گرم سوزد بدن و سرد کند جامہ سیاہ