کیا ہی خوش رنگ ہے گلہاے سخن کا سہرا
روے نوشہ سے ہیں انوار سعادت کے عیاں
ماشاء اللہ حسینوں میں جو نوشاہ ہے فرد
ہے نزاکت سے دولہن کی عرق آلودہ جبین
یہ ہے دیوار چمن عارضِ نوشاہ چمن
آفتاب رخ نوشہ کی شعاعیں جو پڑیں
دیکھو جس گل کو، وہی گوش بر آواز ہے آج
فضل خالق کی تجلی ہے رخِ نوشہ پر
کام کرتی نہیں آنکھیں یہ گھنی ہیں لڑیاں
لیں نہ کیوں بی بیاں خوش ہو کے بلائیں اس کی
گوشِ دل سے جو سنے کوئی تو آتی ہے صدا
خود وہاں پہنچی ہے نوشاہ کے عارض کی شعاع
لب پان خوردہ نوشاہ کا جو عکس پڑا
بہر نوشاہ یہ کرتا ہوں دعا میں دل سے
ہاتفِ غیب پکارا کہ مبارک باشد
رخ نوشاہ پہ کرتی ہیں جو گردش لڑیاں
رنگ رخ بھی ہے نزاکت سے دولہن کو اک بار
کیوں ضیاے رخِ نوشہ سے نہ خیرہ ہوں نگاہ
میں نے دیکھا نہیں سنتا ہوں مگر اے اکبرؔ
ہے اسی کی کوئی تصویر دلہن کا سہرا
یہ ہے الطاف خداوند زمن کا سہرا
چشم بد دور ہے ایک اپنی پھبن کا سہرا
ہو گیا ہے اوسے گویا کئی من کا سہرا
بن گیا آج حصار اپنے وطن کا سہرا
ہو گیا اور بھی پُر نور دلہن کا سہرا
سنتے ہیں مُرغِ خوش الحانِ چمن کا سہرا
کیسے یاقوت کہاں دُرِ عدن کا سہرا
ہے محافظ نظرِ بد سے دولہن کا سہرا
سایۂ چادرِ زہرا ہے دولہن کا سہرا
حوریں فردوس میں گاتی ہیں دولہن کا سہرا
یہاں بے قدر ہے سورج کی کرن کا سہرا
ہو گیا موتیوں سے لعلِ یمن کا سہرا
اس کے سر فضل خداوند زمن کا سہرا
رخ سے دولہ نے اوٹھایا جو دولہن کا سہرا
کر رہا ہے یہ طواف اپنے وطن کا سہرا
اوس کے سر پر تو ہو گلہاے سخن کا سہرا
چاند کے منہ پہ ہے سورج کی کرن کا سہرا
ہے اسی بحر میں اک صاحبِ فن کا سہرا
اب شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔ سیر بھر سے زیادہ ہے، ایک چینی کی متوسط رکابی میں ہے۔ برات کا بڑا ہجوم ہے۔ بہت رکابیاں تقسیم ہوئیں۔ مہتمم خوش انتظام ہیں، کسی کو شکایت نہیں۔ مجھے چند حصے شیرینی کے ملتے تھے، میں نے پوچھا کہ یہ زیادہ کیسے ہیں۔ ایک صاحب نے فرمایا کہ آپ نے سہرا بھی پڑھا تھا۔ میں نے کہا: بھئی، میں نے سہرا ہرگز کسی دنیاوی امید سے نہیں پڑھا، حمید اللہ خاں مد اللہ عمرہ کو میں نے صغرِ سنی میں بہت گود میں کھلایا ہے، یہ اسی محبت کا تقاضا ہے۔ ورنہ مجھے امرا کے سلام کا دماغ کہاں۔ میں نے اپنا ایک حصہ لیا اور واپس کردی، مگر ان لوگوں نے نہایت شرافت و اہلیت کے طریقے سے اصرار کیا۔ ماشاء اللہ سب لوگ خلیق تھے۔ مولوی سید مہدی علی خاں محسن الملک میرے قریب بیٹھے تھے، انھوں نے مجھ سے اس سہرے کے اکثر اشعار مکرر پڑھوائے ؎
صائب دو چیز می شکند قدر شعر را
تحسین نا شعور و سکوت سخن شناس
اب ہم مجلس نکاح سے نماز کے واسطے اٹھ کر باہر جو آئے تو سامان جہیز دیکھا۔ واقعی یہ شادی نواب سرور جنگ بہادر نے بڑی دریا دلی سے کی ہے۔ اگر اس کی فہرست ہو تو یہ رسالہ بہت طویل ہو جائے۔ اب میں نماز پڑھ کر فرود گاہ پر آیا اور برات شام کو نہایت شان و شوکت کے ساتھ واپس آئی اور ہم نے شب بہ آرام بسر کی۔
اب آٹھویں رجب روز سہ شنبہ ہے اور ولیمہ کی دعوت ہے۔ اس وقت مولوی صاحب کے معزز مہمان نویدِ شادی کی رسم ادا کیا چاہتے ہیں اور ہر ایک دس دس پانچ پانچ اشرفیاں نذر کر رہا ہے، مگر ہمارے سیر چشم مخدوم و مکرم مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب بہادر نے نہایت پاکیزہ لفظوں میں سب کا شکریہ ادا کیا اور ایسی خوبصورتی سے ان کو واپس کیا کہ کسی کو ناگوار نہ گذرا۔ إن من البیان لسحرا۔ حقیقت میں بعض بیان تو جادو ہی ہوتا ہے۔ مولوی صاحب کی یہ تقریر تو اسی حدیث کے مصداق تھی۔ اب چونکہ وقت دعوت ولیمہ کا آگیا ہے، لہذا خیموں میں اور فرود گاہوں میں دستر خوانوں پر عمدہ عمدہ کھانے چنے ہیں، مہمان کھاتے ہیں اور رخصت ہوتے جاتے ہیں ؎
کرے جس قدر شکر نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے زبان کیسے کیسے
ہم نے بھی کھانا کھایا اور زینت المساجد کی طرف روانہ ہوئے۔ اب ہم تنہا ہیں، رفقا بچھڑتے جاتے ہیں، کسی کی گٹھری بندھی ہوئی ہے، کوئی پا برکاب ہے، کوئی روانہ ہو چکا ہے ؎
جہاں کے بحر میں مثل حباب گھر رکھنا
سفر عدم کا لگا ہے بند ہی کمر رکھنا
ہم تنہا زینت المساجد میں پہنچ گئے۔ یہ مسجد جامع مسجد کی نصف ہے، یعنی جنوباً و شمالاً ۷۵ قدم ہے۔ بالکل ویران ہے۔ اس میں سات در ہیں، بیچ کا در بڑا ہے، تین گنبد سنگ مرمر کے جن پر سنگ سیاہ کی تحریریں ہیں اور دو پتلے اور خوبصورت مینار ہیں۔ یہاں نہ کوئی نمازی آتا ہے، نہ اس کی مرمت ہوتی ہے۔ لبِ دریا یہ مسجد واقع ہے اور پریٹ کی زمین میں یہ مسجد ہے۔ ادھر اُدھر انگریزوں کی کوٹھیاں ہیں۔ میں نے عصر کی نماز یہیں پڑھی۔ اس کے دریا کی طرف کے حجروں میں جو پورب کی سمت واقع ہیں، بیوا بے کس شاہزادیاں رہتی ہیں اور فاقے کرتی ہیں۔ کہاں جائیں، کس سے اپنی مصیبت کا بیان کریں ؎
کرتے ہیں جو کچھ بتان بے وفا کس سے کہیں
کون سنتا ہے ہماری، خدایا کس سے کہیں
اِن کی زبان اور محاورے سننے اور یاد کر لینے کے قابل ہیں۔ عمریں اِن کی آخر ہو گئیں ہیں۔ ان میں سے اکثر شمع سحری ہیں جو بہت قریب زمانہ میں بجھ جائیں گی۔ یہ مسجد عالمگیر بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ و نور اللہ مرقدہ کی بیٹی کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا نام فاطمہ المخاطب بہ زینت النسا بیگم ہے، اس کی قبر پر یہ شعر کندہ ہے ؎
مونس ما در لحد فضل خدا تنہا بس است
سایہ از ابر رحمت قبر پوش ما بس است
وفات ۱۱۲۲ھ اور یہ آیت بھی بالین قبر لوح پر کندہ ہے: قل یا عبادي الذین الخ۔ اب ہم اپنی فرود گاہ پر جو آئے تو وحشت ہونے لگی۔ یا تو ابھی یہ مکان بھرا پُرا چھوڑ گئے تھے یا ہو کا میدان ہو گیا۔ مکان اسی طرح سے آراستہ ہے، مکین ایک بھی نہیں۔ اسی طرح ہم سے ایک روز یہ دنیا خالی ہو جائے گی، ہم نہیں جہاں نہیں۔ رباعی ؎
دنیا بنگاہ چشم بینا نفسے
ہیہات کہ ہر کسے براے نفسے
رفعت بخدا قسم کہ آن ہم قفسے
ہم در قفسے و ہم بدام ہوسے
آج کی شب تو اسی اپنے کمرے میں آرام کیا۔
اب نویں رجب روز چہارشنبہ کی صبح ہے۔ آج شاہ امین الدین قیصر بھی الہ آباد جاتے ہیں اور ہم کو جناب مولوی صاحب اجازتِ وطن نہیں دیتے۔ کچھ روزوں اور بھی آب و دانہ دہلی شریف کا کھانا پینا ہے۔ اب ہم اپنی پہلی فرود گاہ سے اٹھ کر ۴ نمبر کی کوٹھی میں آگئے۔ یہ انگریزی قطع کی نہایت خوش نما کوٹھی ہے۔ سب کمرے آراستہ، آب و ہوا اچھی، منظر اچھا۔ الحمد للہ کہ مولوی محمد حمید اللہ خاں صاحب کی شادی نہایت حسن و خوبی سے انجام کو پہنچی، لیکن اب چالوں کا ہجوم ہے۔ ہر روز ایک برادری کے آدمی کے ہاں چالا ہوتا ہے اور دعوتیں ہوتی ہیں۔ بریانی اور قورمہ سے نفرت ہو گئی ہے۔ اب ہماری سات تاریخیں بالکل بے کار گذریں۔ پانی جو برس گیا تو اس غضب کی سردی پڑی کہ برف جمنے لگا۔ کوٹھی سے باہر نہیں نکلا جاتا۔
۱۷؍ رجب روز پنجشنبہ کو جناب شاہ امیر حسین صاحب صابری نے جو سجادہ نشین حضرت شاہ صابر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے ہیں، اپنی خانقاہ میں میری دعوتِ سماع و طعام دونوں کی کر گئے تھے۔ یہ خانقاہ اس کوٹھی سے بہت قریب ہے۔ میں عصر کے بعد وہاں پہنچا۔ سماع ہو رہا تھا، بہت محبت سے میری مشایعت کی۔ دو لڑکے گا رہے تھے، آوازیں سریلی، قوالی کی قطع بہت اچھی، غزلیں اساتذہ کی صحیح یاد ہیں، بہت ٹھہرے ہوئے سلجھے ہوئے گا رہے تھے۔ درمیان میں مغرب کی نماز پڑھی اور پھر سماع شروع ہوا۔ عشا تک یہ صحبت رہی اور یہ صحبت بہت با لطف رہی۔ خانقاہ بھی بہت خوبصورت ہے۔ صاحب سجادہ کے اخلاق بھی پاکیزہ ہیں۔ یہ شاہ صابر بخش علیہ الرحمۃ کے پوتے ہیں، اِن کے والدِ ماجد حضرت سید شاہ عبد اللہ صاحب کا مزار بھی اسی خانقاہ میں حضرت شاہ صابر بخش رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں ہے۔ حضرت شاہ صابر بخش قدس سرہ کی تاریخ وفات یازدہم ربیع الاول ۱۲۲۸ھ ہے اور حضرت شاہ عبد اللہ صابری قدس سرہ کی تاریخ وفات ۲۲؍ ماہ شعبان ۱۳۰۴ھ ہے۔ جناب شاہ امیر حسین صاحب واقعی نہایت خلیق درویش ہیں۔ عصر کے بعد فقیر کی فرود گاہ پر تشریف لاتے تھے اور دیر تک یہ باکیفیت صحبت قائم رہتی تھی ؎
مرد را ہر چند تنہائی کند کامل عیار
صحبتِ یارانِ یک دل کیمیاے دیگر است
آج اٹھارویں رجب ۱۳۱۱ھ کی صبح اور جمعہ کا روز ہے۔ نماز جمعہ کے بعد ہم حضرت شیخ المحدثین خاتم العلما حضرت مولانا شاہ عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ میر درد قدس سرہ کے مزارات کی زیارت کو روانہ ہوئے۔ دہلی دروازے سے نکل کر حضرت نظام الدین صاحب کی سیدھی سڑک تھام لی۔ راستہ معلوم نہ تھا اور کوئی واقفِ راہ بھی ہمراہ نہ تھا۔ مقصود اصلی سے بہت دور آگے بڑھ گئے۔ جس سے پوچھتے ہیں وہ پتا نہیں بتلاتا۔ کیا خوب فرمایا ہے حضرت مولانا روم قدس سرہ نے ؎
ہر کہ در رہ بے قلاوزی رود
ہر دو روزہ راہِ صد سالہ شود
کبھی آگے بڑھتے ہیں اور کبھی پیچھے پلٹتے ہیں۔ آخر کو قیاس کے اثر پر چلے اور یہاں ضرورت قیاس کی تھی۔