قطعۂ فقیر محمد اکبر ابو العلائی دانا پوری غفر اللہ ذنوبہ مسمی بہ کشتیِ اسلام
اے تر و خشک کے مالک میرے پیارے اللہ!
ناخدا قوم کی کشتی کے خدایا فریاد
کیسے منجدھار سے نکلے گی یہ ٹوٹی ہوئی ناؤ
نہیں معلوم کدھر اس کو ہوا لے جائے
پاٹ دریا کا وہ چوڑا ہے کہ بس تیری پناہ
دھار کے توڑ سے گُن ٹوٹ گئے ہمت کے
موجیں ہیں سر بفلک کھول رہا ہے پانی
رات اس درجہ سیہ ہے کہ شبِ ہجر سفید
ہر طرف پڑتی ہے کس زور کی چادر ہیہات
پڑ رہے ہیں بھنور ایسے کہ نہ دیکھے نہ سنے
کس بلا کی ہے مروڑ ان میں الہی توبہ
اللہ اللہ رے اے بادِ مخالف! ترا زور
رسیّاں ہو گئیں اس طرح سے ٹکڑے ٹکڑے
ڈانڈ ہاتھوں سے جو نکلا تو نہ آیا پھر ہاتھ
دفعتاً کھا گئی پھرکی کی طرح چکر ناؤ
کشتی کو موجِ تلاطم نے جو الٹا اک بار
شور سا شور ہے دریا میں کہ خالق کی پناہ
کوئی موجوں کے طمانچوں سے ہے بے ہوش کہیں
غوطے کھاتا ہے کوئی ڈوبنے کی حالت ہے
جوڑیاں زانو سے نکلیں، ہوئے بے قابو پاؤں
کون لے کس کی خبر، کس کو سنبھالے کوئی
کوئی تیرے گا تو کیا اس میں اوترنا ہے محال
بھائی خود دیکھتا ہے ڈوب رہا ہے بھائی
نوجوان بیٹا ہے کھاتا ہے پیا پے غوطے
ڈوبنے والوں کی گھبرائی ہوئی آوازیں
نہ مُعلِم ہی کو ہے ہوش نہ ملاحوں کو
ایک کو ایک کی حالت سے نہیں آگاہی
سارے دریا میں اب اک یاس کا سنّاٹا ہے
تختے کشتی کے جدا ہو کے بہے جاتے ہیں
کچھ خبر ہے تجھے اے قوم! یہ کشتی کیا تھی
علما اس کے تھے ملاح، معلم تھا امام
لنگر اوس بیڑے کا تھا علم، تو پردے تھے عمل
صدق کہتے ہیں جسے تھا وہ اُسی کا سُکان
صفتِ عدل تھی کمپاس اسی کشتی کی
گُن جسے کہتے ہیں، تھی حبلِ متین اسلام
بحر کہتے ہیں اسی عالم ہستی کو ہم
یک بیک اوٹھا جو اس بحر میں طوفانِ نفاق
یک دلی کی جو وہ کشتی تھی ہوئی طوفانی
کھا گیا ایک ہی دم میں یہ زمانہ چکر
جوش پر آگیا اس درجہ یہ طوفانِ نفاق
کچھ نہیں سوجھتا کیوں کر نہ ہو یہ ناؤ تباہ
نہ رہی روشنی علم و عمل دنیا میں
صورتیں مسخ ہوئیں قوم کے بگڑے اخلاق
جو فضائل تھے حمیدہ وہ تو باقی نہ رہے
پہلے تھی مثل زمین یہ متواضع سب سے
ہاے اس قوم کا تھا جوہر ذاتی کبھی حلم
آج یہ بخل کی فہرست میں ہے پہلی مد
آج اس میں نہ رہا ضبط کا یارا مطلق
کل قناعت کو تھا اس قوم سے اک فخر عظیم
کلمہ پڑھتے تھے اس قوم کا کل اہل ہمم
حق تو یہ ہے کہ نہ تھا اس سا کوئی شکر گزار
مگر اس عہد میں کچھ اور ہے حالت اس کی
پہلے مشہور تھی مہمان نوازی اس کی
دوسری قوم کے اخلاق جو سیکھے اس نے
دل کو اکبار عبادت سے ہوئی نفرت
اس کے بطلان پہ ہونے لگے دعوے قائم
ان نمازوں سے بھی بڑھ کر ہوئے روزے کڑوے
خمس کیا چیز ہے باقی نہ رہی جبکہ زکات
کسی سید کے لیے خمس جو کہیے تو حرام
ہاے اللہ سے کس منہ سے کریں ہم فریاد
آپ کو آپ ہی ہم چاہیں بگاڑیں کہ بنائیں
ہے یہ ناحق کا بھی الزام خدا پر اکبرؔ
بن کے جو بگڑی ہو اُس قوم کی بگڑی کو بنا
کون ہے تیرے سوا دوسرا سننے والا
نہ تو ڈانڈ اس میں نہ پَتوار نہ کھیون ہارا
اب کنارے سے لگا جلد یہ بہتا بیڑا
سیکڑوں کوس نہیں جس کے کنارے کا پتا
ہیبتِ شورِ تلاطم سے ہے پانی پتا
لڑ رہا ہے اسدِ چرخ سے ٹکر مینڈھا
رنگ پانی کا یہ تیرہ کہ اندھیرا اوجلا
تیرنے والا ذرا بھی کہیں اولجھا کہ گیا
جن کے چکرانے سے چکر میں ہے سارا دریا
تِنکا سو ٹکڑے ہوا کھنچ کر اگر آ پہنچا
ٹوٹا اس طرح سے مستول کہ جیسے تِنکا
توڑ ڈالے کوئی جس طرح سے کچا دھاگا
دھجیاں اوڑ گئیں پردوں کی طمانچہ جو پڑا
پے بہ پے موج کی آمد سے جو لنگر ٹوٹا
ہو گیا کوئی تہِ آب کوئی کچھ تیرا
کوئی سنتا ہی نہیں ڈوبنے والوں کی صدا
شانے شل ہو گئے ہیں پاؤں نہیں ہل سکتا
کوئی تنکے کا سہارا ہی غنیمت سمجھا
کاٹنا پانی کا مشکل ہے کہ بازو ہے تھکا
ہو گیا ہے اسے اوچّھو تو دم اس کا ہے چڑھا
حوصلے پست ہیں استادوں کے شاگرد ہیں کیا
پاؤں دریا میں دھرے کون نہیں ہوش بجا
پدر انگشت بدنداں لبِ ساحل ہے کھڑا
تیرنے والوں کا اوکھڑا ہوا دم ہوش خطا
دوڑتے پھرتے ہیں سب، رنگ ہے چھروں کا اُوڑا
اپنی اپنی ہے پڑی اپنا پرایا کیسا
تیرنے والوں کا غل کیسا کہاں جَیکارا
مال سب ڈوب گیا کوئی بھی باقی نہ رہا
تھا یہ جمعیت قومی کا مبارک بیڑا
تھا جنھیں قوم کی کشتی کا چلانا آتا
اور مستول عَلَم دین محمد کا تھا
ڈانڈ تھے ہمتِ مردانِ مبارک سیما
جس نے گمراہی سے بیڑے کو برابر روکا
اس نے کشتی کو ہر اک طرح سلامت رکھا
خواہشیں نفس کی موجیں ہیں نہیں فرق اصلا
دیکھتے دیکھتے بس قوم کا نقشہ بگڑا
اختلافات کے جھوکوں نے جو لنگر توڑا
سیدھا اولٹا ہوا اور ہو گیا اولٹا سیدھا
ابر اِدبار کا ساون کی طرح سے برسا
ہر طرف جہل کا دنیا میں اندھیرا چھایا
کفر والحاد کی تاریکیوں کا دور آیا
آدمی سے ہوئے حیوان کی صورت بخدا
اون کی جا پر متمکن ہیں ذمائم صدہا
لے اوڑی آج فلک پر اسے نخوت کی ہوا
اور اب قہر سے آتش کا بنی پرکالہ
کل اسے کہتے تھے سر دفتر ارباب سخا
انبیا کا سا تحمل کبھی اس قوم میں تھا
حرص اور آز کو اب وِرد ہوا نام اس کا
یا ہے آج اس کی دنائت کا جہاں میں شہرا
شاد غربت میں مصیبت میں اسے خوش پایا
مال بھی پاس ہے اوس پر بھی ہے غربت کا گلا
اوس کی ضد کے لیے ہے آج یہ انگشت نما
اپنے اوصاف جو تھے ہو گئے سب اس سے جدا
جیسے مکتب سے توحش کرے ننہا بچا
سب نے مل کر اسے بے سود عمل ٹھہرایا
نام اب ان کی زبانوں پہ ہے اس کا فاقا
رہ گیا حج حرم، اوس کا ہے مشکل رستا
اور چندوں کے لیے جائے جو سَر بھی تو بجا
حق تو یہ ہے کہ ندامت سے نہیں لب کھلتا
آنکھ بھی عقل بھی سب کچھ تو ہمیں اوس نے دیا
خود ہی بگڑیں تو بگاڑے ہمیں کیونکر نہ خدا
میں کمیت قلم کی منہ زوری اور شوخی سے سخت حیران ہوں۔ میں مرد پیر اور یہ کمال چالاک، اس کی باگ مجھ سے نہیں رک سکتی۔ کیا بیان مجھے کرنا تھا اور کہاں پہنچ گیا۔
الغرض اپنے معمولات سے فرصت کرکے اٹھنے کا تہیہ ہی کیا تھا کہ جناب مولوی صاحب بہادر نے بائیس آدمیوں کی تعداد کا ایک پاس بھیج دیا۔ بس قلعہ معلی کی سیر کی ٹھہر گئی۔ اس قلعہ کی بنیاد 1048 ہجری مطابق 1628ء میں رکھی گئی۔ ایک کرور روپیہ کے صرف سے دس برس میں ایک ہشت پہلو پھول کے نقشے پر سنگ سرخ کا تیار ہوا ہے۔ 1058 ہجری میں بادشاہ ہوادار آبی پر سوار ہو کر دریاے جمن کے کنارے والے دروازے سے اس میں داخل ہوئے۔ یہ وہی قلعہ ہے کہ جہاں اردوے معلیٰ نے اکبر آباد سے آکر شباب کی کیفیت پیدا کی ہے۔ اس سادہ مزاج معشوقہ نے جب اکبر آباد کو دعاے خیر باد دی ہے تو ایک عمدہ سفید و صاف پوشاک میں تھی مگر دہلی کے قلعہ معلیٰ میں پہنچتے ہی فصاحت و بلاغت کے جواہر نگار زیورات میں لد گئی اور اپنے پورے شباب پر آکر ایک عالم کو اپنے شمعِ جمال کا پروانہ بنا لیا۔ جب دہلی کی بہار خزاں ہوئی تو اس کے عمر کا چمن بھی شادابی کی رنگت بدلنے کے قریب ہوا۔ جو اس فن کے اہل کمال تھے وہ دہلی سے نکل کر لکھنؤ پہنچے۔ آخر کو آتش مرحوم کے ساتھ زندہ درگور ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
یہ وہی قلعہ معلیٰ ہے جہاں آج ہم چند آدمی جن کے نام نامی زیب حاشیہ( )سفرنامہ ہیں۔ اس کے در و دیوار کو حسرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب ہم دہلی دروازے سے قلعہ معلیٰ میں داخل ہوتے ہیں۔ دروازہ اہل حسرت و یاس کی آنکھ بن کر ہم کو دیکھ رہا ہے اور ہم حیرت کی نگاہوں سے اسے تک رہے ہیں۔ دیواروں کے سرخ پتھر شہیدوں کی طرح خونیں کفن نظر آتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر چشم نم ہیں اور رومالوں سے آنسو پوچھ رہے ہیں۔ جس سڑک پر ہم چل رہے ہیں، اس سے کچھ ایسی بوے محبت آتی ہے کہ لپٹ لپٹ کر رونے کو دل چاہتا ہے اور وہ کچھ اس طرح سے پیروں سے لپٹی جاتی ہے کہ قدم دشواری سے اٹھتے ہیں، ہوا سے خاک جو اڑتی ہے تو ہم میں سے ایک آدھ آدمی ایسے ہیں جو اپنی آنکھیں بالقصد کھول دیتے ہیں کہ کچھ دیر تک تو یہ کحل الجواہر آنکھوں میں رہے۔ اور جگہ کا غبار آنکھوں کو برا معلوم ہوتا ہے مگر اس غبار سے آنکھوں میں ٹھنڈک پڑتی ہے۔ افسوس ایک وہ زمانہ تھا کہ ہم نے اسے حضرت ابو ظفر رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں دیکھا تھا یا آج اِس کو اس حالت پر دیکھ رہے ہیں ؎
وہ کیا گئے کہ بس اس گھر کی لے گئے رونق
بدل گئے در و دیوار وہ مکان نہ رہا
وہ شاہزادوں کے دیوان خانے، وہ بیگماتوں کی اونچی اونچی پردہ دار حویلیاں کہاں گئیں۔ لمولفہ ؎
لے گیا رضوان یہاں کے قصر زینت کے لیے
کیا انھیں شاہوں نے بنوایا تھا جنت کے لیے
اللہ اللہ اس قلعۂ معلی نے اپنی اجڑی حالت دکھا کر ہمارے مجمع کے مجمع کو صفِ ماتم میں بٹھا دیا۔ کوئی آنکھ ایسی نہیں کہ جو تر نہ ہو گئی ہو اور کوئی دل ایسا نہیں کہ جو بھر نہ آیا ہو ؎
اشک امنڈا ہوا اب ضبط سے کم رکتا ہے
محتسب اوٹھ میرے پہلو سے کہ دم رکتا ہے
چند ساعت کے لیے اپنے مجمع سے جدا ہوئے اور خوب دل کھول کر رو لیے۔ لمولفہ ؎
جب رو لیے تو دھل گئی گردِ ملال سب
ہوتی ہے خوب آنسؤوں سے شست و شوے دل
ہر گریہ کا یہ دستور ہے کہ رونے سے فی الجملہ تسکینِ قلب ہو جاتی ہے مگر یہاں پر رنج وغم باوجودِ گریہ اپنی حالت پر ہیں۔ واقعی اس عالمِ ایجاد کا یہ پرانا اصول ہے کہ جو چیز یہاں بنتی ہے وہ بگڑنے کے لیے بنتی ہے اور جو شے بگڑتی ہے وہ یقیناً کچھ بننے کے لیے بگڑتی ہے ؎
بنوش بادہ کہ ایامِ غم نخواہد ماند
چنان نماند چنین نیز ہم نخواہد ماند
اب اس قلعہ معلیٰ میں شاہی عمارتوں سے صرف چار پانچ مکان باقی ہیں اور سب کھود کھاد کر میدان کر دیا ہے۔ اب ہماری آنکھوں کے سامنے حضرت شاہجہاں بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا دربارِ عام ہے۔ یہ وہ مکان ہے کہ جہاں بڑے بڑے والیانِ ملک سلام کو حاضر ہوتے تھے اور آج ہم سے کم رتبہ آدمی یہاں جوتیاں پہنے پھرتے ہیں ؏
فھذا عجیب عجیب عجیب
اس مکان کی عظمت کوئی حضرت آصف جاہ میر محبوب علی سلطان دکن خلد اللہ ملکہ و طال اللہ عمرہ و زاد اللہ ایمانہ سے پوچھے کہ وہ اس کو کن آنکھوں سے دیکھتے ہوں گے۔ افسوس ہزار افسوس کہ ہم نے اس لاجواب مکان کو ایک لوہے کے جنگلے سے گھرا ہوا پایا۔ سبحان اللہ! کیسا عمدہ مکان ہے اور اس کی کیا قدر کی گئی ہے۔ اس میں تمام سچے نگینے جڑے ہوئے ہیں۔ افسوس کہ قریب سے دیکھنے کا موقع نہ ملا۔ قطعہ نظیر اکبرآبادی ؎
یہ جواہر خانۂ دنیا جو ہے با آب و تاب
وہ مطلّا شہ نشینیں وہ مذہّب بام و در
اون میں تھے وہ صاحب ثروت جنھیں کہتی تھی خلق
یا تو وہ ہنگامۂ تنشیط تھا یا دفعتاً
جس جگہ وہ مجمعِ عالی تھا وہاں اب ہے تو کیا
ہیں جو دو خشتیں بہم تو دو لب افسوس ہیں
خواب کہیے اس تماشے کو نظیرؔ اب یا خیال
اہلِ صورت کا ہے دریا اہلِ معنی کا سراب
وہ مرصع خواب گاہیں بہرِ عیش وبہرِ خواب
کیقباد و قیصر و کیخسرو و افراسیاب
کر دیا ایسا کچھ اس دورِ فلک نے انقلاب
نقشِ سُمِّ گور یا کہنہ کوئی پر عقاب
اور جو کوئی طاق ہے تو صورتِ چشمِ پر آب
کچھ کہا جاتا نہیں واللہ اعلم بالصواب
اس دربارِ عام کی قطع نہایت دلچسپ ہے۔ اکبر آباد کا دربارِ عام سیدھی سادی قطع کی ایک سہ دری ہے، مگر پچی کاری کا کام بہت عمدہ ہے۔ اس دربار عام میں پرندوں کی شکلیں نہایت عمدہ صنعت سے بنائی ہیں۔ ان کا دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ یہ جانور اب شاخ پر سے اڑ چلا اور بعض پرند ایسے اطمینان سے شاخ پر بیٹھے ہیں کہ حالتِ اطمینان ان کی صورت سے ظاہر ہوتی ہے۔ پھر جو جانور رنگین ہیں ان کے پروں پر رنگ آمیزی نہیں ہے بلکہ عمدہ پتھر کے نگینے جڑے ہیں۔ کچھ پرند ایسے بنائے ہیں کہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہوا سے ابھی اڑتے ہوئے آئے ہیں، ہنوز بازو اچھی طرح سے سمٹنے نہیں پائے ہیں۔ بعض طائر اپنی منقاروں کو کھولے ہوئے چہچہے کر رہے ہیں۔ ان کی تصویر بجنسہ ویسی ہی کھنچی ہے۔ اگرچہ یہ ہم کو مرغ تصویر نظر آتے ہیں مگر ان کی نادر و نازک صنعت ان کی آوازیں اس وقت تک ہمارے کانوں میں پہنچا رہی ہے۔ کسی جگہ انگور کی تاک بنائی ہے وہ صنعت بھی قابل ملاحظہ ہے۔ اگر اس کے خوشے کسی ترکیب سے آدمی کے سامنے رکھ دیے جائیں تو وہ فوراً اس کے لیے ہاتھ بڑھا دے گا۔ یہاں مجھ کو حضرت مولانا نظامی کا ایک شعر یاد آگیا اور اس نے وہ لطف قلب میں پیدا کر دیا کہ یہ ساری صنعتیں بے کار نظر آنے لگیں ؎
ہمہ اندرزِ من بتو این است
کہ تو طفلی و خانہ رنگین است
مگر فوراً ہی کسی نے آکر گوش دل میں یہ کہہ دیا کہ یہ جتنی صنعتیں ہیں سب آئینے ہیں اور وہ آپ اس آئینہ میں اپنا نظارہ کر رہا ہے۔ غزل ؎
دیکھیں خوش ہو کے نہ کیوں آپ تماشا اپنا
کس نے دکھلا دیا وہ چاند سا مکھڑا اپنا
آئینہ سامنے رکھا ہے، وہ ہیں محوِ جمال
ہم کو کس طرح سے دیدار کا موقع ہاتھ آئے
وصل کا اب نہ رہا کوئی سہارا باقی
ہوئی جاتی ہے ابھی مجلس ہستی برخاست
جمع کر رکھے ہیں سب آپ کے پیکان میں نے
آپ نے غیر کو تاکا تھا اِدھر آیا تیر
طور پر آئینہ چمکانے سے یہ مطلب تھا
کہہ دو دنیا سے کہ رندوں سے الگ ہٹ کے مرے
خاکساروں کو غم اس کا نہیں اصلاً اکبرؔ
آئینہ اپنا ہے عکس اپنا ہے جلوا اپنا
اور سے اور نظر آتا ہے نقشا اپنا
کر رہے ہیں مری آنکھوں سے تماشا اپنا
وہ خود آئینہ میں کرتے ہیں تماشا اپنا
زندگی تو نے بھی ساتھ آج سے چھوڑا اپنا
حصہ سب لے کے چلے جائیں گے اپنا اپنا
آپ فرمائیں تو دکھلاؤں کلیجا اپنا
آپ چوکے یہ نشانہ نہیں چوکا اپنا
پہلے منہ دیکھ لیں آئینہ میں موسا اپنا
کسی زاہد سے یہ اوٹھوائے جنازا اپنا
رنگ بدلا نہ کرے روز زمانا اپنا
فقیروں کی دھن ہی تو ہے، ابھی کیا الاپ رہے تھے ابھی غزل پڑھنے لگے۔ باز آمدم بر سر مطلب؛ اس دربارِ عام کی صنعت اور نقاشیوں نے ایسا محو کر دیا کہ آنکھیں صانع کے جمال پر جا پڑیں۔ اللہ اللہ یہ آنکھیں بھی کیا نعمت ہیں کہ ہم کو کیسے کیسے خوبصورت اور دلچسپ ذریعوں سے ہمارے مالک کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ مشاہدۂ قدرت کے لیے آنکھوں سے بڑھ کر کوئی حس نہیں ؎
گوش دلّال است و چشم اہلِ وصال
چشم صاحب حال و گوش اصحابِ قال
حق تو یہ ہے کہ اِن حالتوں کے جاننے والے اہلِ حالت ہی ہوتے ہیں۔ اصحابِ قیل وقال کی آنکھیں یہاں رمد آگیں ہیں۔ اس مذاق کے بطلان میں وہ ہزار معقولی دلیلیں پیش کریں مگر اہلِ حال کب سنتے ہیں ؎
علمِ معقول است علم اشقیا
فلسفہ کو منکر حَنّانہ اند
گر بہ استدلال کارِ دین بُدے
پاے استدلالیان چوبین بود
علمِ نامعقول علمِ انبیا
از علوم انبیا بیگانہ اند
فخر رازی راز دارِ دین بُدے
پاے چوبین سخت بے تمکین بود
المختصر اس دربار کے دیکھنے سے ہستی و نیستی دونوں کا اندازہ ہو گیا۔ مجھے یہ حیرت ہے کہ اِن عمارات کے دیکھنے کے بعد آدمی کیوں کر اس دنیاے دنی سے رشتۂ اتحاد قائم رکھ سکتا ہے۔ کہاں ہے آج شاہجہاں بادشاہ جس نے یہ بے مثل عمارت بنائی ہے۔ روح تو ان کی اپنے مقام میں ہوگی مگر استخوان و شرائین و عصبات وغیرہ کا تو نام بھی نہ ہوگا، بلکہ ان کی اولاد میں سے بھی شاید ہی کوئی موجود ہو، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب ہم دربارِ خاص کی باشوکت و شان عمارت دیکھ رہے ہیں۔ ایک بوڑھا گورا سینے پر چند تمغے لگائے کرسی پر بیٹھا ہوا پہرا دے رہا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے کہ بڑے بڑے والیان ملک آنکھوں سے آتے تھے، اب وہیں یہ ذات شریف اس شوکت و شان سے براج رہے ہیں۔ انقلاب اسی کا نام ہے۔ یہ دربارِ خاص سنگِ مرمر کی بہت وسیع بارہ دری ہے اور آب زر سے نقش و نگار بنے ہوئے ہیں۔ جب پشت بقبلہ تخت کے سامنے کھڑے ہو جاؤ تو اس بارہ دری کے بائیں طرف اتّر کی سمت کو بعد ایک سنگِ مرمر کے صحن کے حمام ہے اور داہنے جانب یعنی دکھن کی سمت مثمن برج ہے اور اِس سنگِ مرمر کی بارہ دری کے وسط میں دریا کی طرف سنگِ مرمر کی خوش قطع ہشت پہلو چوکی رکھی ہے جس پر تختِ طاؤس رکھا ہوا تھا۔ اہلِ تاریخ نے لکھا ہے کہ تختِ طاؤس کا طول ۶ فٹ اور عرض ۴ فٹ کا تھا۔ اس میں ۱۰۸ قیمتی یاقوت ۱۳۵ رتی سے ۱۵۰ رتی تک کے وزن کے جڑے تھے اور سولہ زمرد ۳۶ رتی سے ۷۲ رتی تک کے تعبیہ تھے اور بہت سے درّ شہوار جڑے تھے اور موتیوں کی خوش نما جھالر تھی۔ تمام تخت پر طاؤس کی طلائی دم نہایت موزونی کے ساتھ مرصع بجواہرات سایہ افگن تھی اور عمدہ نیلموں سے مزین تھی۔ سینہ پر ایک یاقوت بہت بڑا جڑا ہوا تھا جس کی گردن میں ۳۶ رتی وزن کا ایک موتی لٹکتا تھا اور ایک سو سترہ رتی وزن کا موتیوں کا لچھا آویزاں تھا۔ چتر کے بارہ چوبوں میں گول اور خوش آب موتی جڑے تھے جن کا وزن ۶ سے ۱۲ رتی کا تھا۔ ان چوبوں کا طول آٹھ فٹ کا تھا۔ اس میں ۷ کرور دس لاکھ روپیہ صرف ہوا تھا۔ اس کی تاریخ محمد جان قدسی نے جو شاہجہاں کے پایۂ تخت کا شاعر تھا یہ کہی ہے، شعر ؎
چو تاریخش زبان پرسید از دل
بگفت: اورنگ شاہنشاہِ عادل
اہلِ تاریخ لکھتے ہیں کہ جب یہ تخت تیار ہوا اور خدا شناس شاہجہاں بادشاہ نے اس پر جلوس کیا تو پہلے دو رکعت نماز نفل شکرانہ پڑھی پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ اے پروردگار! اس ملعون فرعون کا تخت جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا آبنوس کی لکڑی کا تھا اور فیل دندان اس پر جا بجا جڑا تھا۔ اس کمبخت نے اس پر بیٹھ کر دعواے خدائی کیا اور میں اس تخت پر جو اس سے قیمت اور صنعت میں بدرجہا بڑھا ہوا ہے بیٹھ کر اپنے سچے دل سے اپنی بندگی اور عبودیت کا اظہار کرتا ہوں۔ اے پروردگار! تو بادشاہ حقیقی اور قادر علی الاطلاق ہے اور تیرے بندوں میں سے ایک ضعیف اور بے حقیقت بندہ ہوں۔ ہر وقت تیرے فضل وکرم کا امیدوار ہوں اور تیری بخشش کا طلب گار۔ مجھ پر رحم فرما۔ اس وقت جس قدر حاضرین دربار تھے، سب اللہ کی جناب میں سر افگندہ اور چشم پر آب تھے۔
اے مسلمانو! تمھاری قوم کے بادشاہوں کے یہ خیالات تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بادشاہ کی نیک نیتی کا رعیت پر بڑا اثر پڑتا ہے۔ روایت: جب حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ بادشاہ ہوئے تو بعض بکریوں کے چرواہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ کونسا نیک بخت بادشاہ تخت پر بیٹھا ہے کہ جس کی نیکی کا اثر ہم تک پہنچا ہے۔ لوگوں نے پوچھا کہ وہ کیا اثر ہے جو تم تک پہنچا ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہماری بکریوں میں بھیڑیا آجاتا ہے تو نہ اس سے بکریاں ڈرتی ہیں، نہ وہ بکریوں کو پکڑتا ہے۔ اللہ تعالی شانہ اپنے جس بندے کو کسی ملک کا بادشاہ کرے تو اس کو لازم کہ وہ اپنی عادتوں کو سنوارے کیوں کہ اس کی عادات اور اوضاع کا رعیت نقشہ اُتارے گی۔ اگر بادشاہ عابد اور متقی اور خدا ترس ہے تو تمام رعایا میں یہ صفت آجائے گی اور اگر خدا نخواستہ باشد بادشاہ بے نماز و روزہ خوار و نشہ باز ہے تو تمام رعایا اس بلا میں مبتلا ہو جائے گی۔ یہ مسئلہ مسلمۂ اہل دین ہے کہ جملہ بندگان سے قیامت میں پہلے سوال نماز کا ہوگا اور بادشاہوں سے عدل کا۔ یا اللہ میں خاک عجز پر اپنی پیشانی کو رکھ کر تیرے حضور میں التجا کرتا ہوں کہ جہاں جہاں ہماری قوم کے مسلمان بادشاہ ہیں ان سب کو صلاح و تقوی کے لباس سے آراستہ فرما اور سب کے دلوں کو اپنے اور اپنے حبیب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی بے ریا محبت سے بھر دے آمین ثم آمین۔ روسا و اُمرا کی خدمت میں بغیر کسی امیدِ دنیاوی کے التماس ہے کہ ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان سے اللہ کے واسطے محبت رکھنے کا بہت بڑا ثواب ہے۔ بعض اہلِ قلوب نے اپنی تصنیفات میں ظاہر کیا ہے کہ ابدالانِ شام کو یہ مرتبہ جو اللہ تعالیٰ شانہ نے عطا فرمایا ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ مسلمانوں کے بے غرض دوست ہیں۔ چنانچہ اسی معنی کی موید یہ حدیث شریف ہے۔ حدیث شریف: المتحابون فی جلالي لهم منابر من نور یغبطهم النبیون والشهداء۔ ترجمہ: یعنی جو لوگ اللہ کے واسطے آپس میں محبت رکھتے ہیں قیامت میں ان کے واسطے نور کے منبر ہوں گے جن کو دیکھ کر انبیا اور شہدا غبطہ کریں گے۔ لہذا ہر مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے ہر مسلمان بھائی کا خیر خواہ ہو۔ اسی اصول کے موافق میری عرض جملہ طبقہ مسلمین کی خدمت میں ہے، خصوصاً امرا کی جناب میں اس لیے کہ ان کے افعال عام لوگوں کے دلوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ ہر امیر کو عوام الناس کی نسبت اللہ تعالے شانہ سے زیادہ ڈرنا چاہیے اور شکر گزار بھی زیادہ ہونا چاہیے کیونکہ ان کے مالک نے اِن کو نوازا ہے۔ ایسی حالت میں بھی شکر گزار نہ ہوں تو تعجب ہے اور ہر نعمت کا شکر جداگانہ ہے۔ اس کی شرح کے واسطے بہت وقت اور بڑی کتاب درکار ہے، العاقل تکفیہ الإشارۃ۔ مگر ان کے واسطے سب سے زیادہ یہ امر مقدم ہے کہ اپنی اولاد کی تعلیم عمدہ طریقہ سے کریں اور اولاد پر بڑا اثر ان کے ماں باپ کے افعال کا ہوتا ہے۔ جس کا باپ نشہ باز ہوگا اُس کی اولاد کے دل میں کبھی شراب کی برائی پیدا نہ ہوگی کیونکہ وہ تو اپنے قبلہ و کعبہ کو ایسے فعل میں مبتلا دیکھ رہا ہے، اس کے واسطے تو اس کی حلت کی دلیلِ قطعی موجود ہے۔ اور جس کا باپ عورات فاحشہ سے اختلاط رکھتا ہوگا، اس کا بیٹا بھی ضرور اس فعل میں مبتلا ہوگا، اس لیے کہ گھر ہی میں اس کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے وَقِس علی ھذا۔ پس جس شخص کو اللہ تعالیٰ شانہ کسی قوم کا مقتدا یا کسی خاندان کا بزرگ کرے اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے اطوار درست کرے۔ میرے حضرت پیر و مرشد برحق و والد ماجد قدس سرہ نہ پان نوش فرماتے تھے، نہ حقّہ سے شوق تھا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ جس قدر لڑکے اس وقت خاندان میں موجود ہیں شاید ان میں سے دو ایک لڑکے حقہ و پان سے شوق رکھتے ہوں ورنہ اکثر اس بلا سے بچے ہوئے ہیں۔ دل تو بہت کچھ لکھنے کو چاہتا ہے مگر نہ اتنا وقت مجھے مل سکتا ہے، نہ اب ہاتھوں میں قوت ہی رہی۔ لہذا مدعاے اصلی کی طرف پھرتا ہوں۔
اس دربارِ خاص کی اس سے زیادہ کیا تعریف ہو سکتی ہے جو اس کا میرِ عمارت آب زر سے خود اس پر لکھ گیا ہے ؎
اگر فردوس بر روے زمین است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
میں اس سنگِ مرمر کی چوکی کے پاس گیا جس پر تختِ طاؤس رکھا ہوا تھا۔ میں نے بزبانِ دل اس سے ہوں کہا کہ اے شفاف سنگ مرمر کی چوکی! تو نے اپنا ایسا بیش بہا تختِ طِلا جس میں سات کرور کے جواہرات جڑے ہوئے تھے کیا مفت ضائع کر دیا اور تجھے افسوس نہ آیا۔ اس چوکی سے ایک ایسی دل آویز صدا آئی کہ جو میرے دل ہی نے سنی اور مجھ کو از خود رفتہ کر دیا: اے بے خبر نادان! میں تو ایک جَماد ہوں جو متحرک بالارادہ نہیں۔ میری حرکت و سکون تو تیرے ہی جنس کے ہاتھ میں ہے۔ تیری جنس میں سے ایک شخص نے مجھے یہاں بچھا دیا ہے، کئی سو برس سے بچھی ہوئی ہوں، نہ کوئی اضافت تحسین کی مجھ تک آتی ہے اور نہ کوئی ضمیر نفرین کی میری طرف پھرتی ہے۔ میں تو اپنے وطنِ اصلی میں جسے تم پہاڑ کی کان کہتے ہو آرام سے پڑی تھی، تیرے جنس کے آدمی نے مجھ پر یہ ستم کیا کہ وطن اصلی سے جدا کرکے غریب الوطن بنا دیا اور اس ظلم پر دوسرا ظلم یہ کیا کہ ہزاروں تیشے بے جرم و قصور مجھ پر لگائے اور نہایت فصاحت و بلاغت سے بیان یہ کیا کہ ہم نے اس کو کیسا ہموار اور خوبصورت کر دیا ؏
ہماری جان گئی آپ کی ادا ٹھہری
اپنی زینت و آرائش کے واسطے مجھے اس صورت میں تراش کر یہاں لا بچھایا اور اس پر بھی صبر نہ آیا۔ ظلم بالاے ظلم یہ کیا کہ اس پر سیکڑوں من کا بوجھ رکھ دیا اور خود جلوس کیا اور نام اس کا تختِ طاؤس رکھا۔ پس جو طاؤس کہ حقیقی اور اصلی بہشت میں رہنا نہ پسند کرے وہ دنیا کی بے حقیقت بہشت میں کب رہ سکتا تھا۔ یہاں سے بھی اس کو ایک افعی دیو سیرت اڑا لے گیا اور الحمد للہ کہ مجھ کو بارِ گراں سے سبک دوش کر گیا۔ مگر اے غافل و بے خبر! میں تجھ سے پوچھتی کہ تیرے دعوے تو زمین و آسمان سے زیادہ عریض و طویل ہیں اور کرتوت کچھ بھی نہیں۔ تو بھی تو ایک مٹّی کی چوکی ہے جس پر اخلاق انبیا علیہم السلام اور اوصاف اولیا رحم اللہ علیہم اجمعین کا تختِ جواہر نگار رکھا ہوا تھا، تو وہ کہاں پھینک آیا ؎
تو بخویشتن چہ کردی کہ بما کنی نظیریؔ
بخدا کہ واجب آمد زتو احتراز کردن
ارے نادان سخن ساز! اہل قلب کے واسطے یہ باد فروشیاں روا نہیں۔ سن میرے تخت میں تو جواہر سفلی جڑے تھے جو اہل استغنا کے نزدیک کنکر پتھر سے زیادہ قیمت کے نہ تھے وہ خاک ہوگئے ہوں گے یا صباح چند کے بعد خاک ہو جائیں گے۔ تیرے تخت میں تو جواہر علوی تھے اور تو متحرک بالارادہ بھی ہے ان کے محفوظ رکھنے پر قادر تھا۔ تو نے کیوں انھیں ضائع ہونے دیا۔ کیا یہ مثل تجھے یاد نہیں کہ خود را فضیحت و دیگراں را نصیحت۔ تیرا اعتراض تو مجھ پر جب درست ہوتا کہ تیری حالت درست ہوتی۔ تو تو مجھ سے خود بدرجہا بدتر ہے ؎
عیب است بزرگ برکشیدن خود را
از مردمکِ دیدہ بباید آموخت
و زجملۂ خلق برگزیدن خود را
دیدن ہمہ کس را و ندیدن خود را
اللہ اللہ ؎
گویم بہر زبان و بہر گوش بشنوم
وین طرفہ تر کہ گوش و زبانم پدید نیست
اس جواب باصواب نے وہ اثر پیدا کیا کہ نقش دیوار بنا دیا۔ بہت دیر کے بعد جو میں نے اپنی حالت کی طرف بازگشت کی تو میرے ہمراہی مجھے تنہا چھوڑ کر مثمن برج میں جا چکے تھے، جہاں میزانِ عدل ہے۔ میں بھی وہاں پہنچا۔ اس مقام کو دیکھ کر اس باخدا بادشاہ کے نیک خیال اور شان و شوکت کی تصویر آنکھوں کے سامنے آگئی جو آج سے تقریباً تین سو برس پہلے فنا ہو چکی تھی اور آنکھوں نے پیہم آنسوؤں کا تار باندھ دیا۔ ادھر میرے خیال کے وسیع اور نورانی صحن میں ایک بزرگ صورت اور ولی سیرت پیر مرد جسے شاہجہاں کہنا نازیبا نہ ہوگا میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا اور زبان بے زبانی سے کہنے لگا کہ اے رونے والے! اللہ تجھ پر رحم کرے کیوں رو رہا ہے۔ یہ کارخانے قدرت کے ہیں، یوں ہیں بگڑتے بنتے چلے آئے ہیں۔ ہر موجود جو دائرۂ امکان میں ہے، معدوم ہونے والا ہے اور بعض معدوم جو عالم وجود میں آنے والے ہیں یہ انھیں کا تقاضا ہے کہ موجود معدوم ہوتے ہیں۔ اگر زوال و فنا سے بری ہے تو وہی ایک ذات واجب الوجود۔ ابھی تو تُو اس قلعہ ہی کے بگڑنے بننے پر رو رہا ہے۔ ایک وہ زمانہ عنقریب آنے والا ہے کہ صفحہ آسمان و زمین کاغذ کی طرح لپیٹ لیے جائیں گے، دیکھ میری طرف اور گوش حق نیوش سے یہ حدیث شریف سن: ابو ھریرۃ: یقبض الله الارض یوم القیامة ویطوی السماء بیمینه ثم یقول أنا الملك أین ملوك الأرض۔ یہ خیالات جو اس وقت تیرے دل میں ہیں دنیا سے متعلق ہیں دین سے نہیں ہیں ؎
غمِ دین خور کہ غم غمِ دین است
ہمہ غمہا فروتر از ایں است
ھمّ الدنیا ظلمة في القلب وھمّ الآخرة نور في القلب۔ مجھے بادشاہی کی حالت میں بھی اکثر دنیا فانی ہی نظر آتی تھی۔ چنانچہ اس نہر کے محراب پر دیکھ جو میرے وضو کرنے کی جگہ ہے، کون سی رباعی لکھی ہے۔ بس میں نے جو اس طرف نگاہ کی تو واقعی وہ لاجواب رباعی آب زر سے لکھی دیکھی کہ دل بے تاب ہو گیا اور فوراً اس کی نقل بیاضِ دل پر اتار لی۔ رباعی ؎
اے بند بپاے و قفل بر دل ہوشدار
عزمِ سفرِ مغرب و رو در مشرق
وے دوختہ چشم و پاے در گل ہوشدار
اے راہ روِ پشت بمنزل ہوشدار
اس تقریر اور اس رباعی نے دل کو ایک ایسی تسکین بخشی کہ وہ فشار قلب تمام تر رفع ہو گیا۔ اسی رباعی کے اوپر میزان عدل آب زر سے بنی ہوئی ہے۔ میزان عدل کے دیکھنے سے یہ بات پایۂ تحقیق کو پہنچ گئی کہ مسلمان بادشاہوں کے خیالات پورے پورے عدل کی طرف متوجہ تھے۔ یہ نہر ماہتاب باغ سے حمام میں آئی اور حمام سے مثمّن برج میں آئی ہے۔ نواب علی مردان خاں حصار سے اس نہر کو دہلی میں لایا تھا۔ اس مثمّن برج کے نقش و نگار و حسن عمارت دیکھنے ہی کے قابل ہیں، دائرۂ تحریر میں نہیں آسکتے۔ یہ عمارت دوازدہم ذی حجہ ۱۰۴۸ ہجری نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں پچاس لاکھ روپیہ کے صرف سے تیار ہوئی ہے اور اسی مثمن برج کا ایک بہت چھوٹا سا ٹکڑا دریا کی طرف کا ٹوٹ گیا تھا۔ اس کی ترمیم ۱۲۲۳ ہجری میں ہوئی ہے۔ یہ زمانہ اکبر ثانی کا تھا۔
اب ہماری پوری جماعت حمام کا رخ کرتی ہے۔ دربارِ خاص و صحن کا فاصلہ طے کیا اور پہنچ گئے۔ یہ مکان اپنی خوب صورتی میں مثمّن برج کا پہلو دبائے ہوئے ہے۔ نہروں کا ایر پھیر لطف دکھا رہا ہے۔ کپڑے اتارنے کے کمرے اور غسل کا کمرہ اور بعد غسل کے استراحت کا کمرہ علاحدہ علاحدہ بنا ہوا ہے۔ یہاں جو سنگ مرمر پر نقش و نگار ہیں تو پتھروں کی پچی کاری کی جگہ رنگ بھرا ہے۔ یہ اور نادر صنعت ہے، رنگ پر ایسی جِلا ہے کہ بے تکلف عقیق یمنی معلوم ہو رہا ہے۔ اس رنگ کی تحقیق مجھے یوں ہوئی کہ جہاں پر کوئی بوٹا اکھڑ گیا تھا اس کا ذرا ریزہ لے کر دیکھا اور بہت غور کرنے کے بعد آخر کو وہ رنگ ہی نکلا۔ اب حمام سے باہر آئے اور موتی مسجد کا احرامِ ارادت باندھا۔ عصر کی نماز جماعت سے یہیں پڑھی۔ چونکہ میں مسافرِ مقصر تھا اور عزیزی محمد رمضان ابو العلائی داناپوری مقیم تھے، وہی امام ہوئے۔ اس مسجد میں نماز پڑھنے سے ایک عجیب حالت طاری ہوئی کہ بیان سے باہر ہے ؎
در نمازم خمِ ابروے تو با یاد آمد
حالتے رفت کہ محراب بہ فریاد آمد
یہ مسجد اکبر آباد کی نگینہ مسجد سے شاید کچھ بڑی ہو یا برابر، حسن عمارت میں میرے خیال میں نگینہ مسجد اس سے بہتر ہے۔ سنگِ مرمر دونوں کے ایک ہی سے ہیں اور موتی مسجد اکبر آباد کی اس سے بہت بڑی ہے اور مینا مسجد اکبر آباد کی وہ اس سے بہت چھوٹی ہے۔ اب رہا اکبر آباد کا شیش محل، اس رنگ ڈھنگ کی اس قلعہ میں کوئی عمارت نہیں ہے۔ اکبر آباد کا قلعہ اس سے بڑا بھی ہے اور اس میں عمارتیں بھی زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں صرف شاہجہاں کی عمارتیں ہیں اور وہاں اکبر اور جہانگیر اور شاہجہاں تینوں بادشاہوں کے مکانات ہیں اور دہلی میں جو عمارتیں خوش قطع ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ پہلی مشق اکبر آباد میں ہوئی اور جو اصلاحیں اس میں رہ گئیں وہ یہاں ہوئیں۔ یہی حال بجنسہ زبان اردو کا ہے۔ بنیاد اس کی اکبر آباد میں پڑی اور صاف ہوئی دہلی میں اور لطف یہ ہے کہ قسمت کا زور آور لکھنؤ رہا کہ تمام شعرا اکبر آباد اور دہلی کے وہاں موجود اور نام لکھنؤ کا۔ میر، سودا، مصحفی، انشا، آتش وغیرہم سب دہلی ہی کا کلمہ پڑھتے تھے مگر خاکِ لکھنؤ نے اِن کو ایسا جواہر گراں بہا سمجھا کہ اپنے دل ہی میں رکھ چھوڑا۔ فقط ایک شیخ ناسخ البتہ ؏
لکھنؤ مجھ پر فدا اور میں فداے لکھنؤ
کہا کہیے مگر وہ بھی میر ہی کا دم بھرتے رہے ؎
شبہ ناسخ نہیں کچھ میر کی استادی میں
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں
اور میر دہلی کے ضرور تھے، خواجہ آتش فرماتے ہیں ؎
اک تختہ ہفت کشور دہلی کا ہے ہمارے
نو آسمان ہیں اپنے اکبر کے نو رتن میں
میر انیس کی نسبت جو کہا جاتا ہے کہ یہ لکھنؤ کے ہیں، یہ ایسے لکھنؤ کے باشندے ہیں جیسے کلکتہ کے کولو ٹولے میں تمام اہل دہلی آباد ہیں اور ان کے بال بچے وہاں ہوں اور کلکتہ کے بنگالی ان کی پیاری پیاری زبان سن کر جوش میں آکر کہنے لگیں کہ یہ بچے کلکتہ کے ہیں۔ میر انیس کے باپ خلیق، ان کے باپ میر حسن، ان کے باپ غلام حسین ضاحک یہ سب دہلی کے ہی تھے۔ فقط مرزا دبیر لکھنؤ کے ہو سکتے ہیں تو ان کی زبان مخفی نہیں۔ یا اللہ بات کیا تھی، جھگڑا کیا چھڑ گیا۔ اب ہم پھرتے پھرتے تھک گئے، چلنے پھرنے کی تھکن تو جسمی تھکن ہوتی ہے اور عبرت کی تھکن روحی تھکن ہے۔ طبیعت بہت کسل مند ہے۔ اب تو فرود گاہ کی طرف منہ اٹھ گیا، بڑی مشکلوں سے اللہ اللہ کر کے اتنا راستہ طے ہوا کہ گھر پہنچے۔ اب بیٹھنا دشوار ہے، خیر کسی طرح سے پلنگ پر بیٹھے اور بے تکلف ہو گئے۔ ہنوز کروٹ بھی نہ بدلی تھی کہ کھانا کھانے اور چاے پینے کے تقاضے ہونے لگے۔ جناب مولوی صاحب بہادر بالقابہ بھی تشریف لائے اور اسی وسیع اخلاق سے پیش آئے۔ الحمد للہ کہ اس سے زیادہ شکر کا مقام یہ ہے کہ اس زمانۂ پر شور کے اثر نے عزیزی مولوی محمد حمید اللہ خاں صاحب مد اللہ عمرہ پر کچھ تاثیر نہ کی۔ ویسے ہی اخلاق، ویسا ہی تقوی ہے۔ کبھی ہم نے عزیز موصوف کو چرٹ بھی پیتے نہیں دیکھا۔ حق تو یہ ہے کہ بیٹا وہی ہے جو اپنے باپ اور دادا کے اخلاق کی تصویر ہو، الولد سر لأبیه ؏
نہفتہ ہاے پدر از پسر شود پیدا
اب کھانا آگیا اور بھیا شمشیر خاں صاحب دستر خوان پر کھانا چن رہے ہیں اور ان کی ایک بہت خُرد سال بچی میرے پاس بیٹھی ہوئی اچھی اچھی باتیں کر رہی ہے۔ ہم نے کھانا خوب آسودہ ہو کر کھایا۔ ہاتھ دھونے کے وقت معلوم ہوا کہ ہمارے سامنے دالان میں جس میں ایک خوب صورت پھول دار لمپ روشن ہے جناب محمد ممتاز علی خاں صاحب رئیس قدیم میرٹھ ٹھہرے ہوئے ہیں۔ یہ میرے والد ماجد مرحوم مغفور کے بڑے دوست ہیں۔ اگرچہ میں روسا و امرا کی خدمت میں حاضری کی قابلیت نہیں رکھتا لیکن ان سے حضرتِ والد ماجد قدس سرہ کی خصوصیت کے سبب سے ملاقات ضروری سمجھتا ہوں۔ کامل دو گھنٹے ان کی خدمت میں حاضر رہا۔ اب یہ تمام تر نور ہو گئے ہیں۔ سفید ریش، گورا رنگ، اس پر پیری کا انحنا( )عجب نور کا عالم دکھا رہا ہے۔ بیاسی برس کی عمر ہے، تہجد ناغہ نہیں ہوتی، آنکھیں ہر وقت پرنم، زندگی اس کا نام ہے۔ گو یہاں سے اٹھنے کو دل نہیں چاہتا، مگر کل کے لیے آج آرام کر لینا ضرور ہے۔
اب ساتویں رجب روز دو شنبہ ۱۳۱۱ھ مطابق ۱۵؍ جنوری ۱۸۹۴ء کی صبح ہے اور یہی دن نکاح کا قرار پایا ہے۔ بڑے بڑے اراکینِ شہر اہتمام میں مصروف ہیں۔ جن کو میں پہچانتا ہوں، یہ ان کے اسماے گرامی ہیں: محمد اکرام اللہ خاں صاحب رجسٹرار و رئیس دہلی، حکیم ظہیر الدین احمد خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی، حکیم رضی الدین احمد خاں صاحب رئیس دہلی و نعمت اللہ خاں صاحب رئیس دہلی، مولوی خواجہ محمد شفیع احمد خاں صاحب ایم اے منصف تلہر رئیس دہلی، مولوی خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل ہائی کورٹ رئیس علی گڑھ، خواجہ محمد اسماعیل صاحب رئیس علی گڑھ، مولوی محمد مراد الدین خاں صاحب رئیس دہلی، سید محمد میر صاحب وکیل میرٹھ رئیس دہلی، اور لوگوں کے نام نہیں معلوم۔ ایک بہت بڑا سلسلہ فٹنوں اور سیج گاڑیوں کا کھڑا ہوا نظر آتا ہے۔ مہتمم مہمانوں کو سوار کرا رہے ہیں، تھوڑی دیر کے بعد نوشاہ محمد حمید اللہ خاں خلعت نوشاہی سے یوں آراستہ ہو کر مکان سے باہر آئے کہ ایک عربی مدنی وضع کی عبا جو خاص مکہ معظمہ کی بنی ہوئی تھی، ایک سفید شامی کپڑے کا عمامہ زیب سر، عمدہ سبزے گھوڑے پر سوار اور چاروں طرف خاندان کے بزرگ پیدل۔ بس جس قدر امرا اور روسا تھے جناب مولوی صاحب کو پیدل دیکھ کر سبھوں نے اپنی اپنی سواریاں چھوڑ دیں، ہر چند مولوی صاحب نے معذرت کی مگر کسی نے قبول نہ کی اور بیرم خاں کے تراہے سے با شان و شوکت جامع مسجد ہوتے ہوئے برات چوڑی والوں کے محلہ میں نواب آغا مرزا المخاطب بہ سرور جنگ بہادر کے مکان کی طرف روانہ ہوئی۔ یہ فاصلہ ایک میل سے زیادہ ہے، مگر سب کے سب نہایت مسرور تھے۔ ساچق کے روز سے اس میں زیادہ لطف تھا۔ تھوڑی دیر میں برات مقام مقصود پر پہنچ گئی اور الحمد للہ کہ نکاح ہو گیا۔ خطبہ خود جناب مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب بہادر نے پڑھا اور ایجاب و قبول کرایا۔ مبارک سلامت کا شور ہوا۔ شاہ امین الدین قیصر نے ایک عمدہ سہرا کہا تھا وہ پڑھا، ایک سہرا میں نے کہا تھا وہ پڑھا گیا۔ کچھ اور لوگوں نے سہرے کہے تھے وہ پڑھے گئے۔ نواب محسن الملک اور مولوی صاحب اور دوسرے قابل لوگوں نے میرے اور شاہ امین الدین صاحب کے سہرے کو بہت پسند کیا۔ میرا سہرا میرے پاس موجود ہے، میں اسے یہاں لکھے دیتا ہوں۔