فہرست اسماے گرامی امراے عالیشان زاد اللہ ایمانہم آمین ثم آمین
راجہ سید باقر علی خاں صاحب رئیس پنڈراول ضلع بلند شہر، کنور عبد الغفور خاں صاحب رئیس دھرم پور ضلع بلند شہر، کنور عبد الشکور خاں صاحب رئیس دھرم پور ضلع بلند شہر، مصطفی خاں صاحب رئیس بوڑھا گاؤں ضلع علی گڑھ، غفور علی خاں صاحب رئیس دانپور ضلع بلند شہر، کنور فیاض علی خاں صاحب رئیس پھاسو ضلع بلند شہر، کنور لطف علی خاں صاحب رئیس طالب نگر ضلع علی گڑھ، کنور یوسف علی خاں صاحب رئیس مینڈھو ضلع علی گڈھ، محمد عثمان خاں صاحب رئیس خورجہ، حافظ عبد الرحیم صاحب وکیل علی گڑھ، مولوی منصور شاہ خاں صاحب وکیل علی گڑھ، مولوی رفیع الدین صاحب وکیل علی گڑھ، محمد نور خاں صاحب وکیل علی گڑھ، نور الدین احمد خاں صاحب وکیل علی گڑھ، مولوی عباس حسین صاحب پروفیسر مدرسۃ العلوم علی گڑھ، نواب محسن الملک نواب مولوی مہدی علی خاں صاحب بہادر، مرزا محمود بیگ صاحب رئیس دہلی ڈپٹی کلکٹر ضلع بستی، سید عبد الرؤوف صاحب بیرسٹر، محمد رؤوف صاحب بیرسٹر، مولوی عبد الرشید صاحب بیرسٹر، محمد فاروق صاحب رئیس محمد آباد ضلع اعظم گڈھ، سید اولاد علی رئیس علی گڑھ، صاحبزادہ محمد احمد صاحب رئیس دہلی، محمد عالم صاحب رئیس، خواجہ یعقوب صاحب رئیس علی گڑھ، سید محمد میر صاحب وکیل میرٹھ رئیس دہلی، محمد عنایت اللہ خاں صاحب رئیس علی گڑھ، میر ثامن علی صاحب رئیس سلون، شاہ محمد ظہور صاحب اسسٹنٹ منیجر کورٹ افواروس راے بریلی ملک اودھ، مولوی ولی اللہ صاحب آنریری مجسٹریٹ راے بریلی، شاہ محمد ثناء الحق صاحب منصرم عدالت دلمو، خضر محمد خاں صاحب ڈپٹی کلکٹر و رئیس خورجہ، خواجہ محمد اسماعیل صاحب وکیل علی گڑھ مع صاحبزادہ کنور لیکھ راج سنگھ رئیس گوہانہ ضلع علی گڑھ، لالہ باس دیو سہاے رئیس سکندرہ ضلع علی گڑھ، کنور اکرام علی خاں صاحب رئیس پھاسو ضلع بلند شہر، کنور سید جعفر علی خاں صاحب پنڈراول ضلع بلند شہر مع صاحبزادگان، حاجی یوسف خاں صاحب رئیس دتاولی ضلع علی گڑھ، یونس خاں صاحب رئیس دتاولی ضلع علی گڑھ، مولوی حبیب الرحمن خاں صاحب رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ، محمد خلیل خاں صاحب رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ، نواب عبد السلام خاں صاحب سب جج اناؤ ملک اودھ، ممتاز علی خاں صاحب رئیس قدیم میرٹھ و حال اٹاوہ، خواجہ محمد یوسف صاحب وکیل علی گڑھ مع صاحبزادگان، خواجہ محمد حسین صاحب رئیس علی گڑھ، سید عاشق علی صاحب رئیس جلالی ضلع علی گڑھ، محمد اکرام علی خاں صاحب رئیس علی گڑھ، میر رضا علی صاحب سابق محافظ دفتر علی گڑھ، سید سرفراز علی صاحب مختار علی گڑھ، محمد سرفراز خاں صاحب وکیل علی گڈھ، شیخ مقبول احمد صاحب رئیس مارہرہ، شیخ امین الدین صاحب سوداگر علی گڈھ، سید اعجاز حسین صاحب وکیل علی گڑھ، خواجہ عبد العلی صاحب وکیل علی گڑھ، شیخ غازی الدین صاحب رئیس ضلع علی گڑھ، شاہ امین الدین صاحب قیصر سجادہ نشین دائرہ شہر الہ آباد، محمد سعید خاں صاحب رئیس مراد آباد مع صاحبزادگان، صاحبزادہ محمد علیم خاں صاحب مدار المہام ٹونک، مولوی محمد اصغر صاحب سیشن جج رامپور، دوست محمد خاں صاحب رئیس خورجہ سابق انسپکٹر، نواب محمد علی خاں صاحب فرزند نواب مصطفی خاں صاحب شیفتہ مرحوم رئیس جہانگیر آباد، چودھری محمد سمیع الدین خاں صاحب رئیس سکندرہ راؤ، کنور مان سنگھ صاحب رئیس لکھنؤ ضلع علی گڑھ، شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ خان بہادر، محمد اکرام اللہ خاں صاحب سب رجسٹرار و رئیس دہلی، مولوی سلیم الدین خاں صاحب رئیس دہلی، مولوی مراد الدین خاں صاحب رئیس دہلی، حکیم محمد ظہیر الدین خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ و رئیس دہلی، حکیم رضی الدین خاں صاحب رئیس دہلی، ڈپٹی الہی بخش صاحب رئیس دہلی، بہیا شمشیر خاں صاحب برگیڈ میجر فوج رئیس گوالیار، سید محمد شیر خاں صاحب سابق نائب تعلقہ دار گلبرگہ رئیس دہلی، میر سید احمد صاحب عرف ناظر حسین رئیس دہلی، نعمت اللہ خاں صاحب رئیس دہلی، محمد عنایت اللہ خاں صاحب بی اے فرزند شمس العلما مولوی محمد ذکاء اللہ خاں صاحب بہادر رئیس دہلی، مولوی محمد شفیع احمد خاں صاحب ایم اے منصف تلہر ضلع شاہجہانپور رئیس دہلی۔
رات کا سہانا وقت ہے، تاروں کی چھاؤں میں آہستہ آہستہ فٹنوں کا سلسلہ قطار در قطار رواں ہے۔ جامع مسجد کی طرف سے چوڑی والوں کے محلہ میں جناب آغا مرزا صاحب المخاطب بہ سرور جنگ بہادر سکریٹری حضور پر نور سلطان دکن خلد اللہ ملکہ کی دولت سرا کو جاتے ہیں (اللہ شانہ مبارک فرمائے آمین) بازار کے دکان دار اور راہ رو بڑی حیرت کی نگاہوں سے اس مبارک مجمع کو دیکھ رہے ہیں اور آپس میں کہتے جاتے ہیں کہ براتیں تو بہت دیکھنے میں آئی ہیں مگر اس شان کی برات آج تک نہیں دیکھی۔ میرے اندازے میں ایک گھنٹے میں یہ ساچق نواب سرور جنگ بہادر کے مکان تک پہنچی۔ اس مکان کے مہتمم نہایت نیک باطن اور خوش سلیقہ ہیں۔ افسوس کہ میں ان لوگوں کے ناموں سے واقف نہیں۔ شیشے کی خوبصورت تشتریوں میں بُن اور چکنی ڈلی اور الائچی وغیرہ کی تقسیم ہوئی۔ اگرچہ نواب سرور جنگ بہادر بہ نفس نفیس موجود نہیں ہیں، مگر انتظام برات کا نہایت دریا دلی سے ہو رہا ہے۔ جو یہ انتظام دیکھتا ہے وہ اس شادی کا تخمینہ بہت زیادہ کرتا ہے۔ مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب بہادر اور جملہ برادری کے لوگ اس شادی سے بہت خوش ہیں، فریقین میں سے کوئی کسی امر کا شاکی نہیں اور عمدہ نتیجہ شادی کا یہی ہے۔ ہر چند یہ مکان بہت بڑا ہے مگر اس قدر مجمع ہے کہ زانو بدلنے کی جگہ مشکل سے ملتی ہے۔ بہت خوبصورت مجمع ہے، اُمرا اور مہذب لوگ اس کثرت سے واقعی کسی شادی میں کم جمع ہوئے ہوں گے۔ دور دور کے مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں کیا مبارک یہ مجمع ہے کہ جس میں اتنے خوش حال مہمان نظر آرہے ہیں وگرنہ جہاں دیکھیے بیچارے مسلمان افلاس میں مبتلا ہیں۔
جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ بلاے افلاس مسلمانوں کے سر سے کبھی ٹلے گی بھی یا نہیں، تو سانس سینے میں تنگی کرنے لگتی ہے اور باسباب ظاہر کوئی سامان نظر نہیں آتا۔ مگر ہاں ہمارے مسلمان والیان ملک اگر اس طرف توجہ کریں تو یہ مشکل آسان ہو سکتی ہے اور اس کی صورت میرے خیال میں یہ آتی ہے کہ ہر سال چند لڑکے جو ایف اے پاس کر چکے ہوں وہ امریکہ بھیج دیے جائیں تاکہ مکتب فنون میں چند سال رہ کر پاس کریں اور پھر ہندوستان میں آکر مکتبِ فن کھولیں۔ اہل امریکہ کو تعلیم فنون میں ہرگز بخل نہیں ہے، اہل انگلستان اور علوم میں بے شک سخی ہیں مگر تعلیم فنون میں بالکل بخیل۔ اگر ہمارے ہندوستان کے چند نوجوان امریکہ سے علم جرِّ اثقال و دیگر فنون کی تعلیم پاکر آجائیں تو ان شاء اللہ تعالی چند ہی سال میں ہندوستان کی بگڑی تقدیر بن جائے۔
المختصر اہل ساچق قریب بارہ بجے شب کے اپنی فرود گاہ پر نہایت بشاش واپس آئے اور آرام سے استراحت کی۔ صبح ہوئی، وہی معمول کے موافق معتدل گرم پانی وضو کو ملا۔ معمولات سے فرصت کی۔ اب ششم رجب کی صبح ہے۔ آج مہمانوں کو شادی کا کوئی کام نہیں ہے۔ آج تمام دن ہم ہیں اور دہلی شریف۔ اس وقت کچھ لوگ مہمانانِ برات سے اطرافِ لکھنو کے میرے پاس نہایت دردناک لفظوں میں شکایت کرتے ہوئے آئے کہ ہم حضرت مرزا جانِ جاناں رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے روک دیے گئے، ہر چند معذرت کی مگر اصلاً قبول نہ ہوئی۔ میں نے سنا ہے کہ یہ صاحب جو اب مجاورِ درگاہ شریف ہیں کچھ پڑھے لکھے آدمی ہیں اور حافظ بھی ہیں، معلوم نہیں کہ تلاوت کے وقت اس آیت پر بھی ان کی نظر پڑتی ہے یا نہیں: ومن أظلم ممن منع مساجد الله أن یذکر فيها اسمه الخ۔ اللہ اللہ قرآن پاک کیا جامع کتاب ہے لا رطب ولا یابس إلا في کتاب مبین۔ کون علم ہے جو قرآن پاک میں نہیں ہے: نحو، صرف، معانی، بیان، بلاغت، فصاحت، منطق، فلسفہ، طبیعیات، فلکیات، طبقات الارض، علم الابدان، نباتات، اخلاق، تصوف وغیرہم مگر افسوس یہ ہے کہ ہمیں اب تبحرِ علمی نہ رہا اور جو وہ لوگ جن کو تبحرِ علمی ہے وہ بخوبی سمجھتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ قرآن سے زیادہ مجمع علوم کوئی کتاب نہیں اور وہ دن اب قریب آگئے کہ یورپ کے حکما قرآن کی قدر کریں گے مگر ہندوستان میں تو یہ مثل جو ہم پہلے سنتے آتے تھے، ہمارے زمانہ میں اس نے ہمارے سب افراد کو گھیر لیا۔ مثل: مسلمانان در گور مسلمانی در کتاب۔ اگر ہمیں علم ہو اور ہم کلام اللہ شریف کو تدبّر کی نظر سے تلاوت کریں تو ہر جملہ کلام اللہ شریف کا ایک کسی علم کی مستقل کتاب نظر آئے۔ انگریزی کا ایسا دور ہوا کہ ہم اپنے علوم سے بالکل عاری ہو گئے۔ میں ان بعض متعصب لوگوں کی طرح سے زبان انگریزی کا مخالف نہیں ہوں جو اس کے حاصل کرنے کو کفر کہتے ہیں مگر یہ تو ضرور کہوں گا کہ اس زبان کے شیوع نے ہماری قوم کی قوم کو علم دین سے پورا جاہل کر دیا اور یہی جہالت اگر اپنے حال پر رہے گی تو رفتہ رفتہ یہ ایسی ترقی کرے گی کہ ہماری آنی والی نسلیں علمِ توحید اور رسالت سے بالکل بے خبر ہو جائیں گی۔ یہ امر اگر ہم کو نہیں تو ہمارے آنے والے جانشینوں کو ضرور کافر بنا دے گا۔ یہ امر میں اس قیاس سے کہتا ہوں کہ جو اِس وقت انگریزی زبان میں اول درجہ کے تعلیم یافتہ ہیں، ان سے بعض ضروری مسائل وضو یا نماز کے پوچھے گر وہ جواب دے دیں تو میں اپنے دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں۔ پس اِن کے کچھ زمانے کے بعد جو قیدِ مذہب اب براے نام باقی ہے اس سے بھی نکل جائیں گے إنا للہ وإنا إلیہ راجعون ؎
کون ہے بعد فنا ہوگا جسے غم اپنا
ابھی ہم زندہ ہیں کر لیتے ہیں ماتم اپنا
یا اللہ! ہمارے فرمانروایانِ اسلام کے دلوں کو تعلیم مذہب کے نورانی خیال سے روشن کر والا نہ یہ کشتی اسلام جو گرداب حوادث میں پڑ کر چک پھیریاں کھا رہی ہے اب ڈوبی اب ڈوبی اب ڈوبی۔