اس نقشبندیہ کی دو شاخیں ہیں اور منبع اس کے حضرت خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ایک شاخ تو بواسطہ حضرت محمد درویش حضرت باقی باللہ تک پہنچی ہے۔ یہ شاخ خلفائیہ ہے اور دوسری شاخ نقشبندیہ ابو العلائیہ، یہ سرسبز شاخ فرزندیہ کہلاتی ہے یعنی حضرت خواجہ محمد یحییٰ فرزند کلاں خواجہ عبید اللہ احرار کے ہیں اور خلیفہ بھی ہیں اور حضرت خواجہ عبد الحق المشتہر بہ محی الدین خواجہ محمد یحییٰ کے بھتیجے ہیں اور حضرت خواجہ امیر عبد اللہ خواجہ عبد الحق کے بھانجے ہیں اور حضرت محبوب رب الارباب سیدنا امیر ابو العلا اکبر آبادی رضی اللہ عنہ حضرت امیر عبد اللہ کے بھتیجے اور داماد ہیں۔ حضرت امیر ابو العلا قدس سرہ نے اس طریقہ عالیہ میں داخل ہو کر وہ اصول ایجاد فرمائے کہ اس طریقہ کو مجموعہ کا عطر بنا دیا۔ اکثر بزرگواروں کا ارشاد ہے کہ طریقہ ابو العلائیہ میں وہ برکتیں مخفی ہیں کہ جو عرفاے محققین کو حیرت میں ڈالنے والے ہیں۔ رابطہ اگرچہ سب طریقوں میں ہے مگر اس میں خصوصیت کے ساتھ ہے۔ حضرت سیدنا رضی اللہ عنہ کو فیض روحی بطور اویسیت چند حضرات کی ارواح مبارک سے تھا جن کے اسماے گرامی یہ ہیں: حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ، حضرات حسنین علیہما السلام، حضرت سیدنا عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری قدس اللہ سرہ، حضرت مخدوم شاہِ دولت منیری قدس سرہ۔ جس کے قلب میں اتنی نسبتیں جمع ہوں گی اُس کی قوت نسبت اور عرفان کا کیا ٹھکانا ہے۔ میرے حضرت پیر و مرشد برحق مولانا سید شاہ محمد قاسم داناپوری ابو العلائی قدس اللہ سرہ العزیز نے آپ کے حالات میں ایک مستقل مفصل رسالہ تحریر فرمایا ہے، اس کا نام نجات قاسم ہے۔ وہ رسالہ مقام اکبر آباد محلہ نئی بستی مطبع شوکتِ شاہجہانی آگرہ میں منشی محمد عبد الغفار خاں صاحب ابو العلائی کے پاس سے مل سکتا ہے۔ جو آپ کے حالات دیکھنے کے شائق ہوں وہ منشی صاحب موصوف سے طلب فرمائیں۔ قیمت اس کی ایک روپیہ چہار آنے مع محصول ڈاک ہیں۔ حضرت سیدنا امیر ابو العلاء رضی اللہ عنہ کی وفات نہم صفر روز سہ شنبہ ۱۰۶۱ ہجری میں واقع ہوئی۔ مزار پاک آپ کا اکبر آباد میں ہے۔ آپ کے دو فرزند تھے، ایک حضرت امیر فیض العلا اور دوسرے حضرت امیر نور العلا۔ حضرت امیر نور العلا قدس اللہ سرہ کی اولاد میں سے صرف ایک صاحبزادہ مسمی سید عابد حسین عرف بنّے میاں الہ آباد محلہ چک میں ہیں۔ بس ان کے سوا اولاد پسری کا آپ کے کہیں نشان نہیں۔ اب آپ کے مزار مبارک پر ایک سنگ سرخ کی بارہ دری ہے، یہ اسی کا نقشہ زینت کتاب کے واسطے داخل کتاب کیا جاتا ہے۔
نقشہ
اب ہم جملہ معترضہ ختم کرتے ہیں۔ حضرت باقی باللہ صاحب کے مزار مبارک سے رخصت ہوئے اور جناب اخوند عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر بھی فاتحہ پڑھی اور فراش خانہ کی کھڑکی سے نکل کر فتحپوری بیگم کی مسجد میں داخل ہوئے۔ یہاں میرے ایک برادرِ طریقت شیخ محمد رمضان ابو العلائی داناپوری سلمہ اللہ تعالیٰ منشی نیاز علی صاحب مہتمم مسجد فتحپوری کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں ان سے ملاقات ہو گئی۔ مغرب تک یہیں ٹھہرے رہے۔ منشی نیاز علی صاحب بڑے خلیق ہیں۔ بعد نماز مغرب فرود گاہ پر پہنچے۔ یہاں ساچق روانہ ہونے کے اہتمام ہو رہے ہیں۔ نواب پاٹودی کی کوٹھی سے جامع مسجد تک فٹنوں اور سیج گاڑیوں کا سلسلہ ہے اور شرفاے دہلی بنفس نفیس اہتمام میں سرگرم ہیں۔ ان میں سے بعض حضرات کے اسماے گرامی یہ ہیں: مولوی خواجہ محمد شفیع احمد صاحب منصف تلہر، حکیم محمد ظہیر الدین خاں صاحب، محمد اکرام اللہ خاں صاحب، محمد نعمت اللہ خاں صاحب رئیس دہلی۔
مولوی خواجہ محمد شفیع احمد صاحب نے مجھے ایک فٹن پر جناب شمس العلما منشی محمد ذکاء اللہ خاں صاحب بہادر کے ساتھ بٹھا دیا۔ ابھی گاڑیاں سلسلہ وار کھڑی ہیں، نوشہ کی فٹن کا انتظار ہے۔ اسی اثنا میں ایک نوجوان نہایت عمدہ عربی گھوڑے پر سوار ہمارے سامنے سے گذرا۔ یہ گھوڑا مجھے نہایت اچھا معلوم ہوا۔ منشی صاحب نے بتایا کہ یہ حکیم محمود خاں صاحب مرحوم کے چھوٹے بیٹے ہیں، مگر یہ گھوڑا اس قدر تیار ہو گیا ہے کہ اس کی عربیت کا حسن کم ہو گیا۔ عربی گھوڑے ہمیشہ متوسط الاندام رکھے جاتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر عربی گھوڑے ٹھوکر لیتے ہیں، زیادہ بھاری بدن والا گھوڑا پھر مشکل سے سنبھلتا ہے۔ لیجیے دولہا کا فٹن آگیا، ان کے ساتھ ان کے بزرگ خاندان مولوی خواجہ محمد فضل احمد خاں صاحب سابق ڈپٹی کلکٹر بیٹھے ہیں۔ اِدھر ادھر فٹنوں اور سیج گاڑیوں کا موزوں سلسلہ ہے، جس پر سب رؤسا عالی شان جن کے اسماء گرامی یہ ہیں باشان وشوکت بیٹھے ہیں۔ دولہا کا فٹن حسب صلاحِ اکثر امرا آگے کیا گیا ہے۔ اب سلسلہ متحرک ہوا اور ساچق چلی۔