سلوک کی چار قسمیں ہیں: پہلا سلوک بعد جذب۔ دوسرا جذب بعد سلوک۔ تیسرا جذب غیر سلوک۔ چوتھا سلوک غیر جذب۔
اہلِ تحقیق کے نزدیک پہلے اور دوسرے کے ساتھ اقتدا ہو سکتا ہے اور تیسرے اور چوتھے کے اقتدا میں تامل اور سکوت کیا ہے اور نہایت صحیح و عمدہ عرفاے کاملین کے نزدیک سلوک بعد الجذب ہے۔ الحمد للہ علی احسانہ کہ طریقہ ابو العلائیہ اس دولت سے بطور خصوصیت مالا مال ہے اور بعد اس کے جذب بعد السلوک ہے۔ حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ تیسری قسم میں سے شمار کیے جاتے ہیں یعنی جذب بحت۔( )
مگر میری سمجھ میں اِن کا جذب بحت آتا نہیں۔ اس لیے کہ جذب بحت کی یہ تعریف ہے کہ وہ بالکل از خود رفتہ ہو۔ اور یہ ایسے ہوشیار تھے کہ عمدہ عمدہ مضامین کی رباعیاں اِن کی موجود ہیں اور یہ سب فنِ شعر سے درست۔ اوزان شعر میں رباعی کا وزن بہت نازک ہے، مگر اِن کے قلم نے کہیں لغزش نہیں کی، لیکن برہنہ ضرور رہتے تھے۔ جب حضرت عالمگیر نور اللہ مرقدہ نے اِن کو لباس پہنایا تو انھوں نے تھوڑی دیر کے بعد لباس اتار کر پھینک دیا اور یہ رباعی نظم کی۔ رباعی ؎
آں کس کہ ترا تاجِ جہان بانی داد
پوشاند لباس ہر کرا عیبے دید
ما را ہمہ اسبابِ پریشانی داد
بے عیبان را لباس عریانی داد
جب کسی طرح سے یہ لباس کی قید میں نہ آئے تو آخر کو حسبِ حکمِ شرع شریف علما نے ان کے قتل پر مُہر کی۔ اس میں غریب عالمگیر کا کیا قصور ہے۔ کیا مسلمانوں کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پیارے فرزند ابو شحمہ پر حد شراب کی جاری کی۔ ہر چند صحابہ نے ان کی سفارش کی مگر آپ نے ہرگز خیال نہ کیا اور فرمایا کہ اللہ پاک کے حکم میں سفارش اور شفقت کو دخل نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی حکم ہوتا ہے تو آپ سے زیادہ شفقت کرنے کا اپنے فرزند پر میں مستحق تھا۔ آخر کو حد لگائی گئی اور وہ دس ہی درّوں کے صدمہ سے راہی خلد ہوئے۔ اب اگر کوئی حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرے تو میں اسے بخوشی عالمگیر پر بھی اعتراض کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔ حضرت سیدنا علی اور حضرت سیدنا عقیل رضی اللہ تعالی عنہما دونوں حقیقی بھائی ہیں، سب سے بڑے عقیل جن کے فرزند حضرت مسلم تھے اور عقیل سے چھوٹے جعفر طیار، ان سے چھوٹے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین۔ حضرت علیؓ اور حضرت عقیلؓ سے رنجش تھی، حضرت علی ان پر تلوار لے کر دوڑے، اگر وہ بھاگ نہ جائیں تو قتل ہی ہو جاتے۔ پھر کیا کوئی مسلمان معاذ اللہ منہا ان دونوں حضرات کی طرف سے دل برا کر سکتا ہے۔ حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عقیل سے بڑی محبت تھی اور حضرت علی علیہ السلام سے اور حضرت معاویہؓ سے لڑائیاں ہو رہی تھیں۔ ہم کو اس میں کیا دخل، ہمارے خیال میں ان کی جنگ بھی اللہ کے واسطے تھی اور ان کی صلح بھی اللہ کے واسطے تھی۔ لہذا اہلِ دانش کو ایسے مقام پر سکوت ہی مناسب ہے، حدیث شریف میں وارد ہے: الصمت أفضل من عبادة ستین سنة۔ ترجمہ: یعنی ایک ساعت کا سکوت ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔
میں بے تعصب مسلمانوں سے پوچھتا ہوں کہ اگر آپ سچے اللہ والے مفتی ہوں اور آپ کے سامنے ایسا شخص پیش کیا جائے کہ سمجھ بوجھ تو اس کی حکیمانہ ہو اور اپنے نیک و بد سے بھی خبردار ہو اور باوجود اتنی ہوشیاری کے نہ نماز پڑھے، نہ روزے رکھے اور برہنہ بھی ہو اور شراب خوار بھی تو اس کے نسبت آپ کیا حکم دیں گے۔ ما ھو جوابکم فھو جوابنا۔ حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر یہ تاریخ کندہ ہے۔ قطعہ ؎
شاہِ سرمد در عہدِ عالمگیر
چون سفر ساختہ بخلدِ بریں
گفت تاریخ اکبرِ مسکیں
لحدِ مرقد شہیدِ سرمد ایں
یہ تاریخ میرے کسی ہم نام کی ہے مگر مصرع اول میں جو “در عہد” ہے اس کا عین تقطیع سے گر گیا ہے۔ یا تو کاتب کی غلطی ہے، اگر بعہد ہو تو یہ بات رفع ہو جائے یا واقعی شاعر سے یہ لغزش ہو گئی۔
دوسرا اعتراض حضرت عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ پر دارا شکوہ رحمۃ اللہ علیہ کے قتل کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جب شاہجہاں پادشاہ رحمۃ اللہ علیہ عارضہ حبسِ بول میں مبتلا ہو کر اپنی زندگی سے نا امید ہوئے تو اس وقت ان کے بیٹوں میں سے ان کے پاس صرف دارا شکوہ موجود تھے۔ عنانِ سلطنت ان کے ہاتھ میں دے کر آپ گوشہ نشین ہو گئے۔ جب عالمگیر نے بادشاہ کی علالت کی خبر سنی تو دکن سے عیادت کے لیے روانہ ہوئے۔ جب دارا شکوہ کو عالمگیر کی آمد کی خبر پہنچی تو جا کر اجمیر شریف میں ان کو روکا۔ وہاں محاربہ سخت فریقین میں واقع ہوا، عالمگیر کی فوج چونکہ بہت قلیل تھی، پیچھے کو ہٹی۔ دارا شکوہ ہاتھی پر سوار تھے، فوراً اتر پڑے اور یہ قصد تھا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر عالمگیر کی فوج کا تعاقب کیجیے، مگر مشیت الہی کا بندوبست کون کر سکتا ہے۔ دارا شکوہ کی فوج نے جو اپنے بادشاہ کی عماری خالی دیکھی، خیال کیا کہ بادشاہ مارا گیا۔ دفعتاً ظفریاب فوج کے قدم اٹھ گئے۔ عالمگیر نے جو یہ حالت دیکھی اپنے گھوڑے کو آگے دوڑا کر فوج کو روک رکھا اور کہا کہ اے دلیرو! تم کو شرم نہیں آتی کہ تم بھاگی ہوئی فوج سے بھاگتے ہو۔ بس فوراً عالمگیر کی فوج پھر پڑی اور دارا شکوہ نے راہ فرار اختیار کی، عالمگیر فتح مند ہوا ؎
عروسِ ملک کسے در کنار گیرد تنگ
کہ بوسہ بر لبِ شمشیرِ آبدار زند
اللہ کا آسمان، اللہ کی زمین، اللہ کے بندے، مستقل مالک وہ خود ہے، جس کو چاہے دے۔ کسی دوسرے کو اس میں کیا دخل۔ أعوذ باللہ من الشیطان الرجیم قل اللهم مالك الملك تؤتی الملك من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء وتعز من تشاء وتذل من تشاء بیدك الخیر إنك علی کل شیء قدیر۔ اللہ پاک ملک کا مالک ہے، وہ جس کو چاہتا ہے بادشاہ کرتا ہے اور جس سے چاہتا ہے بادشاہی چھین لیتا ہے۔ جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ہر طرح کی خیر ہے۔ ہم دخل در معقولات کرنے والے کون، فی الحقیقت وہ ہر شے پر قادر ہے اور حکیم مطلق وہی ہے۔
قانونِ قدرت
آدمی کی طبیعت آسانی اور آزادی پسند ہے۔ جہاں اس کی ڈور ذرا بھی ڈھیلی ہوئی اور یہ کسی طرف کو بھاگ نکلا۔ اسی لیے اللہ تعالی شانہ پیغمبروں میں سے بھی ایک نرم ایک گرم بھیجتا رہا۔ حضرت موسی علیہ السلام کا مزاج سخت تھا، ان کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام نہایت ہی بردبار مزاج کے نبی بھیجے گئے۔ اوپر کے پیغمبروں کا سلسلہ بھی یوں ہی ہے۔ بادشاہوں میں بھی یہی قانون قدرت نے جاری رکھا ہے۔ بابر ہمایون ذرا سخت تھے، اکبر بادشاہ نہایت ہی نرم مزاج تھا۔ جہانگیر ذرا تند مزاج تھا، شاہجہاں اس کے بعد نہایت ہی حلیم آئے۔ اسی قانون کے جاری کرنے والے نے عالمگیر کو شاہجہاں کے بعد بھیجا ہے۔ طریقہ ہندوستان میں گورنروں کے بھیجنے کا ہے، گورنروں کی تاریخ دیکھنے سے معلوم ہو جاتا ہے جو کچھ ہے اسی کی طرف سے ہے ؏
ہرچہ ہست از یار ہست اغیار نیست
روزانہ ہم ایسے ایسے بہت حیرت ناک واقعات دیکھتے ہیں، مگر اس طرف نگاہِ غور نہیں کرتے۔ وگرنہ تمھاری آنکھیں اور دل بہت کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ طریقہ ابو العلائیہ میں یہ نظر اور فکر اذکار پر مقدم ہے، اسی وجہ سے اس طریقہ عالیہ کا سالک بہت جلد ترقی کرتا ہے۔
تیسرا اعتراض عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ پر یہ ہے کہ اپنے باپ کو قید کیا، ھذا بھتان عظیم۔ جس وقت شاہجہاں گوشہ نشین ہوئے ہیں تو ان کے پاس دارا شکوہ موجود تھے، نہ عالمگیر۔ پس یہ اعتراض دارا شکوہ پر قائم ہوسکتا ہے نہ عالمگیر پر۔ جب عالمگیر فتح مند ہو کر باپ کی خدمت میں سلام کو حاضری ہوئی تو اپنی تلوار کمر سے کھول کر باپ کے سامنے رکھ دی اور آپ کھڑے ہو کر مورچھل سے مگس رانی کرنے لگے۔ شاہجہاں نے تھوڑی دیر کے بعد وہ تلوار اپنے ہاتھ سے عالمگیر کی کمر میں باندھ دی۔ اصل سخن اسی قدر ہے اور تاریخیں بھی اسی کے قریب قریب ہیں لیکن متعصب لوگوں نے رنگ آمیزیاں بہت کیں ہیں۔ اللہ تعالی شانہ ان کو جزاے خیر دے۔ مجھ کو نہ عالمگیر سے قرابت نہ دارا شکوہ سے رشتہ، میری نظر سے جو باتیں گذری ہیں وہ بے تعصب ہو کر لکھ دیں۔ نعمت خاں عالی نے عالمگیر کو بہت زیادہ بدنام کیا اور اس کا سبب اہل تاریخ اور اہل علم پر مخفی نہیں ہے۔ مجھ سے چاہے کوئی بیزار ہو یا خوش اس کی مجھے پروا نہیں۔ میں جہاں اور بادشاہان اسلام کا فاتحہ پڑھتا ہوں، وہاں عالمگیر کا بھی میرے صفحۂ دل پر لکھا ہوا ہے۔ اللہ تعالی شانہ قبول فرماوے۔ آمین ثم آمین!
اب ہم حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے فاتحہ پڑھ کر رخصت ہوئے اور حضرت شاہ کلیم اللہ جہان آبادی قدس اللہ سرہ العزیز کی زیارت کو جاتے ہیں اور وہ بقعۂ نور یہاں سے نظر آرہا ہے۔ دل بے ساختہ اس طرف کھینچا جاتا ہے۔ الحمد للہ کہ مزار مبارک پر پہنچ گئے۔ مزار ہے یا منبعِ فیض۔ یہ مزار مبارک ایک چونہ گچی کے چبوترے پر ہے جو زیرِ آسمان ہے، ۱۳ قدم عرض میں شرقاً وغرباً ہے اور ۲۲ قدم طول میں جنوباً وشمالاً ہے۔ چار درخت مولسری کے ابھی تازہ لگائے گئے ہیں۔ سرہانے کی طرف لوح پر کسی قطعہ کے یہ دو شعر کندہ ہیں ؎
فضل و کمالِ خویش بود
مرہمِ قلبِ ریش بود
سالِ وصالش بگفتہ ہاتف
قطبِ زمانۂ خویش بود
آپ حضرت مولانا محمد فخر الدین دہلوی قدس سرہ کے دادا پیر ہیں۔ چشتی تو اس مزار سے فیض یاب ہوتے ہی ہوں گے اس لیے کہ ان کا مرجع اور ماویٰ یہ بقعۂ نور ہے۔ مگر اور طریقہ کے سالک بھی محروم نہیں رہتے۔ لکڑی کے سبز کٹہرے سے یہ مزار گھرا ہوا ہے۔ اس مقام سے ایک چھوٹی سے دلچسپ مسجد بہت قریب میدان میں نظر آرہی ہے۔ معلوم ہوا کہ اس کا نام سنہری مسجد ہے، اس کی بھی زیارت کر لیا چاہیے۔ سبحان اللہ کیا پاکیزہ مسجد ہے۔ اندر سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ تمام پھول بیل پتیاں سنہری ہیں اور ایسا عمدہ کام ہے جیسے نہایت سبک دست سادہ کار مینا کار زیور بناتے ہیں۔ اس کے تینوں برج سونے کے پتروں سے منڈھے ہوئے تھے، مگر اب وہ پتّرے کسی خزانے میں جمع ہوں گے ؏
کہ زر زر کشد در جہان گنج گنج
اس مسجد کو دیکھ کر بڑی حسرت ہوئی، ایسی پڑی ہے کہ دو رکعت نفل پڑھنے کا بھی موقع نہ ملا۔ بیچ کے در کے محراب میں یہ تاریخ کندہ ہے۔ قطعہ ؎
شکرِ حق در عہدِ احمد شاہ غازی بادشاہ
مسجدے کردہ بنا نوابِ قدسی منزلت
سعی نواب بہادر صاحبِ لطف و کرم
چاہ و حوضے ساخت صحنش آبروے زمزم است
سال تاریخش چہ خرّم یافت از الہامِ غیب
خلق پرورداگر شاہانِ عالم را پناہ
بادوایم فیضِ عام آن ملایک سجدہ گاہ
ساخت تعمیرے چنین جاوید عالی دست گاہ
ہر کہ از آبش طہارت ساخت شد پاک از گناہ
مسجدِ بیتِ مقدس مطلعِ نورِ الہ
اس مسجد کے معاینہ کے وقت میرے ساتھ اتنے آدمی تھے: سید نصیر الدین دہلوی، سید اعجاز حسین دہلوی، شاہ امین الدین قیصر الہ آبادی، شاہ محمد ظہور رئیس مانک پور، مولوی محمد ولی اللہ رئیس راے بریلی، شاہ ثامن علی رئیس سلون۔ اور سب کے سب آبدیدہ تھے اور ایک عجب حالت یاس و حسرت کی تھی۔ بعض آنکھیں کثرت بُکا سے چشمِ عاشق بن گئی تھیں۔ بعد افاقہ مسجد شریف سے باہر آئے اور حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے سلام کو چلے۔ چاندنی چوک میں وہ دوسری سنہری مسجد ملی جس پر نادر شاہ سفاک نے بیٹھ کر قتلِ عام کیا تھا۔ اسی مسجد کے پاس کوتوالی بھی ہے۔ اس مسجد کو بھی سلام کر لینا ضروریات سے تھا، کیونکہ اس صاحب جلال کا ایک مظہر یہاں اپنی شان دکھا گیا ہے۔ مسجد میں حاضر ہوئے اور بہت ادب سے فرشی سلام کیا اور دو رکعت نماز تحیۃ المسجد ادا کی اور حضرت شاہ بھیکہ صابری قدس سرہ کے حضور میں فاتحہ پڑھی۔ یہ مسجد آپ ہی کے کسی معتقد نے آپ کے نام پر بنائی ہے۔ مسجد کی پیشانی پر یہ تاریخ کندہ ہے، قطعہ ؎
بعہدِ بادشاہ ہفت کشور
بہ نذر شاہِ بھیکہ آن قطب آفاق
خدایا نیست لیک از روے احسان
بتاریخش ز ہجرت در شمار است
سلیمان فر محمد شاہ داور
شد این مسجد بزینت در جہان طاق
بنام روشن الدولہ ظفر خان
ہزار و یک صد و سی و چہار است
ڈرتے ہی ڈرتے اس مسجد میں آئے، پھر انھیں قدموں باہر آئے۔ پہلے قدم رسول میں حاضر ہوئے، حافظ رحمۃ اللہ علیہ کا یہ شعر زبان پر تھا، اس شعر کا لطف جیسا یہاں آیا کبھی نہ آیا تھا ؎
بر زمینے کہ نشان کفِ پاے تو بود
سالہا سجدہ صاحبِ نظران خواہد بود
جب افاقہ ہوا تو چند تسبیحیں درود شریف کی پڑھیں اور ظہر کی نماز مسجد میں پڑھی اور حضرت باقی باللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دربار کی طرف روانہ ہوئے۔ اس مزار مبارک پر خالص نقشبندی نسبت کی بارش ہو رہی ہے۔
نقشبندیہ طریقہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ اس کا لطف اس کے برتنے والے ہی جانتے ہیں۔ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند قدس اللہ تعالی سرہ العزیز ارشاد فرماتے ہیں ؎
اوّلِ ما آخر ہر منتہی
آخرِ ما جیبِ تمنا تہی
شرح: جملہ طرق کا اصول یہ ہے کہ پہلے مرید کی ابجد اذکار وغیرہ سے شروع کرتے ہیں اور بعد عرصۂ دراز کے اشغال کی طرف لے جاتے ہیں۔ انتہاے کار اس کا مراقبہ پر ہوتا ہے اور اس طریقہ عالیہ میں مراقبہ ہی ابجدِ اہل سلوک ہے اور آخر اس طریقہ کا تمام خواہشات اور تمناؤں سے بے نیاز ہو جانا ہے۔ کیا خوب کہا ہے جس نے کہا ہے ؎
سراپا آرزو ہونے نے بندہ کر دیا ہم کو
وگر نہ ہم خدا تھے گر دلِ بے مدعا ہوتا
مَنْ فَهمَ فَهمَ وَمَنْ ذَاقَ ذَاقَ۔ حضرت جامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎
نقشبندیہ عجب قافلہ سالار انند
ہمہ شیران جہاں بستۂ ایں سلسلہ اند
کہ برند از رہِ پنہاں بحرم قافلہ را
روبہ از حیلہ چساں بگسلد ایں سلسلہ را