اٹالہ والی مسجد
یہ مسجد سنگ سرخ کی ہے۔ اس کی کرسی بہت بلند ہے۔ تعمیر اس کی مضبوط بہت ہے مگر شاہجہانی نزاکت اسے کہاں نصیب۔ اس کا عرض نوے قدم ہے۔ دوسری جامع مسجد یہ بھی اُسی قطع کی ہے، اِس کا عرض ایک سو آٹھ قدم ہے۔
مسجدِ قرطبہ
یہ مسجد سنہ ۹۰ ہجری میں عبد الرحمن اول نے بنائی ہے۔ یہ ملک اُندلس کے بادشاہ تھے۔ اتنی بڑی مسجد اس اہتمام بلیغ سے مساجد ثلاثہ کے بعد تمام دنیا میں اول یہی بنائی گئی ہے۔ ڈیڑھ سو قدم عرض میں ہے جنوباً و شمالاً اور دو سو قدم طول میں ہے شرقاً و غرباً۔ چار ہزار سات سو قندیلیں اس کے آسمانہ میں آویزاں ہوتی ہیں اور اس میں ایک ہزار ترانوے ستون ہیں۔ پچیس لاکھ روپیہ کے صرف سے آٹھ برس کے عرصہ میں بن کر تیار ہوئی۔ یہ اندلس( )وہ مقام ہے کہ تخمیناً سات سو برس تک مسلمانوں کا دار الحکومت رہا ہے اور بڑے بڑے نشانات اسلامی عمارتوں کے آج تک وہاں موجود ہیں۔ اسلام کے بڑے بڑے علما وہاں پیدا ہوئے۔ یحییٰ اندلسی جامع موطا حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ اسی سرزمین میں پیدا ہوئے۔ محی الدین ابن عربی صاحبِ فتوحاتِ مکیہ و فصوص الحکم یہیں سے ظاہر ہوئے۔
قرطبہ یہ وہ شہر ہے کہ جس میں تین ہزار آٹھ سو سینتیس مسجدیں تھیں، نو سو حمام تھے۔ یہاں کی میونسپلٹی کا یہ اہتمام تھا کہ عام صحت کے واسطے ہوا عطر بیز کی جاتی تھی۔ دو لاکھ گھر مسلمانوں کے تھے، چھ سو مساجد جامع، پچاس شفاخانہ، اسّی عام مدارس۔ جو عمدہ محلات اس میں تھے اور ان کی تعمیر میں عجیب وغریب صنعتیں کیں تھیں، ان کے نام یہ ہیں: قصر الزہراء، کامل، مجدد، قصر الحائر، روضہ مبارک، قصر السرور، رشیق، تاج، بدیع۔ اسی اندلس میں اول اول مدرسۂ حربیہ قاہم ہوا ہے، بالکل فنون سپہ گری یہاں تعلیم ہوتے تھے اور فنِ سپہ گری کے ساتھ فنِ جہاز رانی کے بھی تعلیم ہوا کرتی تھی۔ اللہ اللہ ایک وہ زمانہ تھا کہ مسلمانوں کی تعلیم نے تمام یورپ کو شائستہ کردیا اور ایک یہ زمانہ ہے ؎
بہ بیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بکجا
ایک انگریزی مورخ لکھتا ہے کہ مسلمانوں کی کتب اسماء الرجال میں پانچ لاکھ علما کا حال مل سکتا ہے۔ وہاں بعض درس کے حلقے ایسے تھے کہ جن میں دس دس ہزار طلبہ موجود رہتے تھے اور معمولی حلقہ ہاے درس تو ایسے بہت تھے جن میں ہزار بارہ سو طلبہ رہتے تھے۔ اے مسلمانو! خدا کے واسطے اپنی شوکت آئندہ پر نظر کرو اور اپنے سنوارنے کی فکر میں مصروف ہو جاؤ ؎
مشکلے نیست کہ آسان نشود
مرد باید کہ ہراسان نشود
اب وہی اندلس ہے کہ جس کا نام اسپین رکھا گیا ہے اور نصرانیوں کا نشان لہرا رہا ہے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اب ہم شمال کے دروازے کی طرف سے اترتے ہیں اور حکیم سرمد رحمۃ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت کو جاتے ہیں۔ بہت تھوڑا فاصلہ ہے، بات کی بات میں طے ہو گیا۔ یہاں دو مزار ہیں، ایک تو آپ ہی کا مزار ہے اور آپ کے سرہانے حضرت شاہ ہرے بہرے رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے۔ ان کی کوئی تاریخی کیفیت معلوم نہیں، صرف اتنا ہی مشہور ہے کہ یہ سرمد رحمۃ اللہ علیہ کے مرشد ہیں۔ حال حضرت سرمد رحمۃ اللہ علیہ کا اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ یہ جرمن( )قوم کے نصاریٰ تھے اور علوم ادبیہ میں مہارت کامل رکھتے تھے۔ عربی فارسی میں بالغ استعداد تھی۔ سوداگری کے ذریعہ سے ہندوستان میں آئے لیکن ان کمالوں کے ساتھ فن عشق میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔ لاہور میں یہ جب پہنچے تو ایک ہندو جوہری بچہ کے دام گیسو میں الجھ کر رہ گئے۔ عاشق اور غلام کا تو وہی مذہب ہوتا ہے جو اس کے معشوق اور مالک کا ہو۔ انھیں بھی ہندو ہونا ضروریات سے تھا۔ چند سال تک بہت شور و شغب رہا۔ جب وہ لڑکا مر گیا تو وحشت نے اور پاؤں نکالے، اب عشق سے جنون کی نوبت آئی۔ تمام مال لٹا دیا، یہاں تک کہ برہنہ ہو گئے اور شرمگاہ تراش ڈالی۔ چندے اس کے صدمہ میں مبتلا ہو کر ذی فراش رہے، جب تندرست ہوئے تو دہلی کا رخ کیا۔ اس زمانے میں دہلی اپنے پورے شباب پر تھی اور دارا شکوہ کے ہاتھ میں عنانِ حکومت، اس پر وہ فقرا کا نہایت معتقد۔ وہ ایک جوانِ طناز اور یہ ہمہ تن عشق باز۔ بھلا قطع برید سے کیا ہوتا ہے، وہ مادہ کہیں ایسی کانٹ چھانٹ سے کم ہوتا ہے۔ اس مادۂ عشق کے ہیجان کی روک تھام دو چیزوں کے بندوبست سے ہوتی ہے یعنی سماعت و بصارت، یہ دونوں چیزیں ان کی علی حالہ تھیں ؎
نہ تنہا عشق از دیدار خیزد
بساکین دولت از گفتار خیزد
مگر چونکہ یہ فنِ ادب اور علمِ مجلس اور آئینِ عشق و قانونِ تصوف سے علی وجہ الکمال ماہر تھے، داراشکوہ کو ایسی تسخیر کی نگاہوں سے گھورا کہ وہ ان کا پورا مسخر ہو گیا۔ اب یہ حکیم سرمد یا عاشق سرمد سے مجذوب سرمد ہو گئے۔