او فلک، او ستم ایجاد، جفا جو ظالم
تیری چالوں کے ہیں انداز جدا، ڈھنگ نئے
تیری گردش سے زمانہ بھی ہے غلطاں پیچاں
وہ شہنشاہ لزرتا ہے زمانہ جن سے
پالسی ایسی کہ اب تک نہیں سمجھا کوئی
انھیں کو خاک میں چُن چُن کے ملایا تو نے
بادشاہوں کو بھی آرام سے رہنے نہ دیا
نیند آتی نہیں سونے کے چھپر کھٹ میں بھی
ایک کے سر پر اگر قہر کا آرہ رکّھا
بم کے گولے سے اگر اس کو اُڑا کر مارا
گیدڑوں نے کیا یورپ کے سیہ شیر کو قید
ملک کی بھی وہی حالت ہے جو شاہوں کی ہے
وہ عمارت کہ جو کرتی تھی فلک سے باتیں
وہ مکان قصرِ جنان کی جو دکھاتا تھا بہار
کر نہ سکتی تھی جہاں چشم سخن گو ایما
خندۂ زیر لبی کی نہ جہاں جرات تھی
وہ مکان آنکھیں بچھاتے تھے جہاں رجواڑے
وہ مکان تھا جو سلاطین کے شورے کا مقام
وہ مکان جس کی چھتوں میں تھے طلا کار نقوش
وہ مکان جو صلحا کا تھا عبادت خانہ
وہ مکان جس کا تھا ہر ایک ستون اک راجا
خاص دربار جو ہے ایک مکان با شوکت
جس جگہ دور سے ہوتا تھا سلام اور مجرا
جس جگہ ایک زمانہ میں تھا تخت طاؤس
جس جگہ سر کو قدم کر کے بھی جانا تھا محال
جس جگہ اطلس و دیباج کی مسند تھی بچھی
جس جگہ موتیوں کا پاتے تھے خلعت راجا
شمعِ کافوری کے روشن تھے جہاں بیسوں جھاڑ
وہ مکان شیش محل نام ہے جس کا مشہور
وہ ہی گھر آج نمونہ ہے بنا دوزخ کا
آج انگریزوں کے اس گھر میں ہیں چولہے جلتے
موتی مسجد کی صفا اور وہ خوبی اُس کی
یوں ہیں ویران پڑی ہے نہ اذان ہے نہ نماز
سب مکانوں کو شرف اپنے مکینوں سے ہے
مرثیہ ایک جداگانہ ہے بازاروں کا
چاندنی چوک میں تھا شانہ سے شانہ چھلتا
چاوڑی میں نظر آتا تھا ہر اک ملک کا مال
ایسے صناعِ سبک دست وہاں تھے موجود
عصر کے وقت سے ہوتی تھی وہ بازار میں بھیڑ
چوبداروں کی وہ للکار، نقیبوں کی صدا
نوجوانوں کا وہ گھوڑوں کو جمانا سرِ راہ
وہ کٹوروں کی صدا اور وہ جھنکار اُن کی
برف والوں کی صدا سن کے جگر ٹھنڈا ہو
چٹ پٹا پن وہ کبابوں کا، کچالو کی بہار
جمگھٹے آنکھوں میں احباب کے پھر جاتے ہیں
پھول والوں کی وہ سیر اور وہ شستہ میلہ
سیر اَمریوں کی اور شاہ کا واں خود آنا
خاص بازار میں رونق تھی، دریبہ شاداب
دہلی والوں ہیٖں کے دل سے کوئی اس کو پوچھے
وہ حسین بیبیاں مریم کی صفت تھی جن میں
لڑکیاں کھوئی گئیں جو وہ ابھی تک نہ ملیں
بھائی سے بھائی جو بچھڑا تھا وہ بچھڑا ہی رہا
زخم سے چور ہے دم توڑ رہا ہے فرزند
نوجوانوں کو ہوئیں پھانسیاں بے جرم و قصور
وہی صہبائیؒ جو تھے صاحب قول فیصل
شہر سے بے سر و پا نکلی جو خلقت اک بار
اکبر آباد چلا یہ تو وہ جے پور کی طرف
صبح سے شام تلک ہو گیا خالی سب شہر
گوروں نے شاہ کو ہر ایک طرف سے گھیرا
پھر دکھائی گئیں شہزادوں کے سر کی نذریں
بعد اس کے ہوا رنگون کی جانب کو کونچ
لکھنؤ کی بھی اسی طرح ہوئی بربادی
لکھنؤ چھوڑا تو آباد کیا مٹیا برج
سارے کلکتہ پر اس خاک کے ٹکڑے کو تھا فضل
سیکڑوں خانہ بدوشوں نے یہاں گھر پایا
کوئی محتاج یہاں پر اگر آجاتا تھا
یوں تو ہوتا ہے ہر اک شاہ خدا کا سایہ
عہد میں اپنے کسی کو نہ دیا قتل کا حکم
کیسی آباد تھی اُس شاہ کے دم سے یہ زمین
وہ زمین خلد کو ہم کہتے تھے فوٹو جس کا
باغِ شاہی ہے کہ ہے یہ کوئی ماتم خانہ
ہے روش باغ کی یا مانگ کسی بیوہ کی
یہ رگڑتے نہیں آپس میں ہوا سے پتے
قمریاں بیٹھی ہوئی کرتی ہیں کو کو سرِ سرو
یہ درختوں پہ بسیرا نہیں لیتے طائر
ہاتھ ملتی ہے مگس مطبخ سلطانی کی
رزق جن کا ہوا بند، اون کی کہوں کیا حالت
روتے پھرتے ہیں گلہری کوچوں میں سب پنشن خوار
بیگموں کا وہ تڑپنا، وہ خواصوں کا بیان
یہ قیامت تھی کہ بس ایک جگہ تھے زن و مرد
آن کی آن میں کچھ اور ہی حالت دیکھی
وہ جو خس خانہ میں آرام کیا کرتا تھا
آج اوسی مچھی بھون کی ہے ہوا آتش بار
کوٹھیاں خالی ہوئی جاتی ہیں، سب گھر ویران
اس نے کلکتہ میں بسنے کا ارادہ ٹھانا
غول کا غول چلا جاتا ہے مغرب کی طرف
قافلہ ایک نجف جاتا با نالہ و آہ
کربلا جانے کو اب ہوتا ہے تیار کوئی
دم کی دم میں ہوئی تاراج یہ ساری بستی
سایہ کیا شاہ کا سر پر سے رعیت کے اوٹھا
جب نہ ہو شاہ تو ویران نہ ہو اکبرؔ کیوں ملک
کینہ کش تفرقہ انداز کمینہ پرور
کج روی ہے جو بلا کی تو غضب کی ٹھوکر
اُسے بھی ہاتھوں سے تیرے نہیں دنیا میں مفر
تیری چالوں سے مگر کانپ رہے ہیں تھرتھر
تو نے کی صلح بھی جس سے نکل آیا کوئی شر
آپ پہنائے تھے خلعت میں جنھیں تاج و کمر
یہ پریشاں ہے تو دل سینہ میں اُس کا مضطر
سلطنت کا اِسے دھڑکا تو اُسے جان کا ڈر
حلق پر دوسرے کے ظلم کا ریتا خنجر
اس کی شریانوں میں اک تیز چبایا نشتر
کیا اولٹ پھیر ہے، سمجھے اسے کس طرح بشر
کیسا آباد تھا جو شہر وہ ہے آج کھنڈر
مٹ مٹا کر ہوئی اب تحت ثریٰ کی ہم سر
اب نہ چھت ہے کہیں اُس میں نہ جھروکے ہیں نہ در
اب وہاں شورِ اراذل سے ہے سر میں چکر
اب وہاں رہتی ہے دیوانوں کی سی بڑ دن بھر
اب وہاں جھاڑو بھی دینے نہیں آتا مہتر
وہیں اوباشوں کا اب رہتا ہے مجمع اکثر
اب اوسی قصر میں اِدبار نے چھایا چھپّر
مے گلرنگ کے چلتے ہیں وہیں اب ساغر
ہاے کیا ہو گیا وہ گھر، وہ عمائد ہیں کدھر
دوڑتے پھرتے ہیں دیواروں پر اُس کی بندر
وہ مقام اب کس و ناکس کی بنا راہ گذر
اب وہاں بیٹ ہے کووں کی، ابابیل کے پر
جوتے پہنے ہوئے پھرتے ہیں وہاں برہنہ سر
ٹاٹ کا فرش بھی اب واں نہیں آتا ہے نظر
اب منوں ہیں اوسی دربار میں پتھر کنکر
اب وہاں آہِ جگر سوز کے اوڑتے ہیں شرر
اُس کی دیواروں پر اب خاک کا دیکھا استر
جہاں آتی تھی ہوا باغ جناں کی فرفر
جس میں کل عود قماری کی تھی روشن مجمر
دیکھ لے اُس کو تو پڑھنے لگے کلمہ کافر
خشک ہے حوض وضو کا تو شکستہ منبر
اٹھ گیا صاحبِ خانہ تو ہے ویران وہ گھر
جس کے سننے سے ہو پانی ابھی پتھر کا جگر
تھالی پھینکو تو سروں ہیٖں پہ رہے سر تا سر
ہفت اقلیم کے موجود تھے واں سوداگر
جن سے شرمندہ ہو یورپ کا ہر اک اہلِ ہنر
آج بھی جس کے تصور سے ہے دل زیر و زبر
شاہزادوں کا نکلنا وہ ہوا داروں پر
اور گھوڑوں کا جھمکنا وہ پہن کر زیور
پانی میں ایسی حلاوت کہ خجل ہو کوثر
قفلیاں دیکھ ہی لینے سے کلیجا رہے تر
اور کھانا اوسے یاروں کا مزے لے لے کر
یاد آجاتی ہے جس وقت ہمیں عید کی ٹر
اُس کی شفافی کے آگے کہیں میلا ہے چھتر( )
لطف برسات کا وہ پانی کا بہنا شر شر
دہلی آباد تھی جب تک رہے دہلی میں ظفرؒ
لٹی کس طرح، بپا کیسا ہوا واں محشر
مر گئیں خوف سے عزت کے کنوؤں میں گر کر
گریۂ نیم شبی سے ہوئی اندھی مادر
بعض احباب کی اب تک نہیں کچھ ہم کو خبر
ہو گیا باپ دوتا جھک گئی صدمے سے کمر
مار دیں گولیاں پایا جسے کچھ زور آور
ایک ہی ساتھ ہوئے قتل پدر اور پسر
بس زن و مرد نظر آتے تھے نیچے اوپر
حیدر آباد کوئی، کوئی سدھارا الور
گھس پڑی لوٹنے کو فوج گھروں کے اندر
اور پہنا دیا اک گیروا موٹا بستر
بولے مقبول ہوئی الفتِ آلِ حیدر
قلعہ تاریک ہوا، بجھ گئی شمعِ اکبر
لکھنؤ جسم تھا، اس جسم کی جان تھا اختر
اسی منزل میں رہا تھوڑے دنوں دورِ قمر
اس میں کیا پانی برستا تھا، برستے تھے گہر
خوانِ نعمت کا بٹا کرتا تھا ہر دم لنگر
ملتے تھے مٹھیاں بھر بھر کر اوسے سکّۂ زر
شاہِ مظلوم حقیقت میں تھا ظلِ داور
کسی مجرم پہ نہ ڈالی کبھی غصہ کی نظر
وہ تہِ خاک ہوا، اوڑنے لگے خاک اِدھر
خوش سواد آج ہے اس سے کہیں بڑھ کر بنجر
بلبلیں نوحہ سرا، غنچہ و گل خاک بسر
حوض پانی سے لبالب ہے کہ ہے دیدۂ تر
مَل رہے ہیں کفِ افسوس گلستان کے شجر
ہاے کیا ہو گیا وہ لکھنؤ کا اسکندر
پڑھتے ہیں نوحۂ سلطانِ اودھ شام و سحر
اب شکر خوروں کو پہنچے گی کہاں سے شَکر
ہاتھ کو سر پہ دھرے بیٹھے ہوئے ہیں ششدر
دیکھیے کٹتا ہے اب ان کا بڑھاپا کیوں کر
وہ یتیموں کے بلکنے کا جگر سوز اثر
اور ناموس کو بھی پہنچا کسی کے نہ ضرر
نہ وہ سلطان نظر آیا نہ وہ اوس کا لشکر
آج ہے قبر میں اور قبر پہ ہے اک چادر
جس میں چلتی تھی نسیم سحری کل سر سر
سروں پر گٹھریاں گاڑی پہ لدے ہیں گٹھر
لکھنؤ جانے کو ہے اس نے لپیٹا بستر
اور دس بیس نے مشرق کا کیا عزمِ سفر
کچھ مدینے کو چلے ساتھ لیا اک رہبر
کوئی مشہد کے لیے نکلا ہے گھر سے باہر
دیکھتے دیکھتے سب ہو گئے تِتّر بِتّر
بھاگتے پھرتے ہیں سب جیسے سپہ بے افسر
گنجفے میں بھی ہے بے شاہ کی بازی ابتر
باز آمدم بر سر مطلب، المختصر اس سفر کی تحریک مجھے برادر عزیز سراپا سعادت مولوی محمد حمید اللہ خاں مد اللہ عمرہ کی شادی نے کی۔ رقعہ پہنچا اور میں چل نکلا۔ دانا پور کے اسٹیشن پر جو پہنچا تو یہاں پر ماگھ کے میلے کا وہ ہجوم تھا کہ العیاذ باللہ، گاڑی میں بیٹھنا تو کیسا کھڑے ہونے کو جگہ نہ تھی۔ منجھولے درجہ کے ٹکٹ کا جادو وہاں کیا چلتا، اول اور دوسرے درجہ والوں کی عافیت تنگ تھی لیکن یہ حضرت چمیلی کے تر و تازہ شگفتہ پھول یعنی سکہ ہاے رائج الوقت وہ بلا کے چلتے پرزے ہیں کہ نہ پوچھیے، ملازمان ریلوے کی جیب گرمی کردی پھر تو جگہ ہی جگہ تھی۔ الغرض ہم الہ آباد پہنچے اور وہ بھیڑ وہیں رہ گئی اور ملازمان ریلوے کے ناز و غمزے سے بے نیاز ہو گئے۔ اب تو ہم نے رضائی تان اور دراز ہو گئے۔ اور گاڑیوں کا تو حال ہمیں کیا معلوم مگر ہماری گاڑی تو خلوتِ معشوق ہو گئی، کسی غیر کا اندیشہ تک نہ رہا۔
الحمد للہ علی احسانہ کہ ۳؍ رجب المرجب ۱۳۱۱ھ بروز پنج شنبہ پانچ بجے دن کو دہلی کے اسٹیشن پر ہماری گاڑی پہنچ گئی۔ گاڑی کرایہ کی اور فیض بازار جناب مولوی محمد سمیع اللہ خاں صاحب بہادر کے مکان پر پہنچے۔ مولوی صاحب سوار ہو گئے تھے، ایک گھنٹے کے بعد واپس تشریف لائے، ہر چند مجھے پندرہ برس بعد دیکھا تھا مگر فوراً پہچان لیا۔ مجھے بھی پہچاننے میں کچھ دقت نہ ہوئی۔ میں نے مولوی صاحب کے اخلاق و عادات میں سر مو فرق نہ پایا، نماز کے اوقات ویسے ہی ہیں بلکہ مذہبی خیالات پہلے سے بہت زیادہ۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ کتب درسیہ کا استحضار علی حالہ ہے۔ جناب مولوی صاحب کی عظمت میرے دل میں یوں ہے کہ فقہ اور حدیث اور تفسیر میں پورا تبحر حاصل ہے اور ابھی تک اکثر کتابیں یاد ہیں اور تقوی کا اثر تو بشرے سے ظاہر ہے، سیماهم فی وجوههم من أثر السجود۔ جناب مولوی صاحب نے مجھے اپنے ہی کمرے میں جگہ دی۔ شاہ امین الدین قیصر سے بھی یہاں ملاقات ہوئی، وہ بھی الہ آباد سے اسی شادی کی تقریب میں آئے ہوئے ہیں، ان کو دیکھ کر بہت دل خوش ہوا۔ مہمانوں کی آمد شروع ہے، ساعت بہ ساعت ازدحام بڑھتا جاتا ہے۔ مہمانوں کا تار بندھا ہوا ہے۔ اچھے اچھے لوگ نظر آتے ہیں، خوبصورت مجمع ہے۔ کئی بڑے بڑے مکان مہمانوں کے واسطے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ اگرچہ ہم امرا سے بہت کم ملتے ہیں، لیکن اس بارات کی سیر اور امرا کے اخلاق کا ملاحظہ مقصود ہے۔ اب ہم اور شاہ امین الدین قیصر اسی مکان میں جو نواب پاٹودی کے نام سے مشہور ہے، جاتے ہیں۔ وہاں ایک دالان اور ایک کوٹھری ضرورت کی چیزوں سے آراستہ ہے اور ہم اُس کو دیکھ کر پسند کر آئے ہیں۔ یہ مکان نہایت وسیع ہے، اس کا کمرہ کمرہ اور دالان دالان آراستہ و پیراستہ ہے۔ پھاٹک کے سامنے ایک دو منزلہ رفیع الشان کوٹھی ہے جو انگریزی اور ہندوستانی قطع سے ملی جلی ہے۔ اس میں متعدد کمرے ہیں اور اس کوٹھی کے یمین و یسار چند محل سرائیں ہیں، وہ سب ہندوستانی شاہی قطع کی خوبصورت عمارتیں ہیں۔ ایک محل سرا کو طے کیجیے اور اس کے آگے ویسی ہی دوسری موجود ہے، دوسری کو طے کیجیے اس کا جواب تیسری محل سرا موجود، بلکہ پہلی دوسری سے زیادہ دلچسپ اور سب میں کل ضرورتوں کے مکان و اسباب موجود۔ کسی مکان کی قطع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جاڑوں کے لیے بنایا گیا ہے اور کوئی خاص گرمیوں کے موسم کے واسطے تعمیر کیا گیا ہے اور کوئی ایام برشکال کے واسطے معلوم ہوتا ہے۔ میں ان مکانوں کو نہایت حسرت کی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا اور ان کے بنانے والوں کی حالت موجودہ پر افسوس کر رہا تھا کہ ایک بوڑھے آدمی جو دہلی کے رہنے والے ہیں، مجھ سے کہنے لگے کہ یہ مکان تو یہاں متوسط درجے کا ہے۔ عمدہ مکان تو اس شہر کے اُس حصہ میں تھے جو کھد گیا۔ واقعی دہلی عجیب جگہ ہے، شاہی عمارتیں جس کثرت سے اکبر آباد یا دہلی میں ہیں اور کسی شہر میں نہیں، مگر آدمی دہلی سے اکبر آباد کے زیادہ خلیق ہیں۔ اب ہم اپنے دالان میں آکر بیٹھے ہیں اور دو خدمت گار دہلی کے باشندے ہمارے سامنے دست بستہ حاضر ہیں، نیک بخت اور مؤدب معلوم ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے دو دو خدمت گار مولوی صاحب کی طرف سے ہر مہمان کے واسطے مقرر ہیں۔ ہم نے اپنے مکان میں صاف ستھرا فرش بچھا پایا اور دو نواڑ کی پلنگڑیاں توشک اور تکیوں سمیت بچھی پائیں۔ دیواری اور فرشی لیمپ خوب صورت روشن ہیں اور کوٹھی کے صحن میں متعدد خیمے کھڑے ہیں۔ ان خیموں اور مکانوں کے واسطے فروش وغیرہ خواجہ محمد یوسف صاحب اور خواجہ محمد اسماعیل صاحب نے علی گڑھ سے بھیجے ہیں۔ یہ دونوں صاحب اس برات کے منتظم ہیں، ہر خیمے میں اِس قدر روشنی ہے کہ جگمگا رہا ہے، ابھی بہت مہمان نہیں آئے ہیں۔ آتے جاتے ہیں اور بہت سے مہمان جو انگریزی وضع ہیں وہ محلہ دریا گنج کی کوٹھی نمبر ۴ میں فروکش ہیں، ان کے واسطے ویسا ہی سامان کیا گیا ہے اور وہ کوٹھی بھی بالکل بھری ہوئی ہے۔
اب عشا کا وقت ہے۔ ہم دونوں آدمی اپنی فرود گاہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ ہمارے دالان میں نہایت خوب صورت نقش و نگار کے سرخ پمبئی پردے پڑے ہیں اور دونوں خدمت گار مؤدب دو زانو دالان میں بیٹھے ہیں۔ ہم کو دیکھ کر اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ہم نے جا نماز بچھائی اور خدمت گار فوراً باورچی خانے کو روانہ ہو گئے اور بات کی بات میں خاصے کے خوان لے آئے۔ چونکہ میں عشا کے بعد بہت دیر تک سورہ مزمل شریف اور وظیفہ پڑھتا ہوں، وہ خاصہ جو آیا تھا ٹھنڈا ہو گیا۔ اِدھر میں نے وظیفہ تمام کیا اور اُن شایستہ خدمت گاروں نے جھٹ پٹ دوسرا گرم خاصہ لاکر حاضر کیا اور وہ خاصہ باورچی خانہ میں واپس کر دیا۔ ہم نے کھانا کھایا اور استراحت کی۔ ان خدمت گاروں میں سے ایک شخص جس کا نام امیر بیگ ہے وہ تہجد گزار بھی ہے الحمد للہ علی نعمائہ۔ صبح ہوگئی، نماز کے واسطے جو اٹھے تو گرم پانی وضو کے لیے تیار پایا۔ نماز سے فرصت کی، وظیفہ تمام ہوا، اشراق پڑھی، اب کسل سفر کا کچھ اثر باقی نہیں ہے۔
آج ۴؍ رجب روزِ جمعہ ۱۳۱۱ھ ہے۔ ہم دونوں آدمی جناب شمس العلما منشی محمد ذکاء اللہ خاں بہادر کی ملاقات کو جاتے ہیں، مجھ سے اور منشی صاحب سے دیرینہ رابطہ ہے، اس مکان سے منشی صاحب کا مکان بہت قریب ہے۔ منشی صاحب ہم کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور فوراً اپنی قدیمی عادت کے موافق منیر خاں خدمت گار کو چاے کا حکم دیا، وہ نیک بخت خدمت گار بات کی بات میں چاے تیار کرکے لایا اور ایک دوسرے خوان میں چند تشتریاں حلوا اور میوہ جات اور دال موٹ وغیرہ کی رکھ کر لایا اور ہمارے سامنے رکھ دیں۔ بھلا دو آدمی کس قدر کھا سکتے تھے، دو دو پیالیاں چاے کی پیں اور کچھ تنقل کیا اور اسی نیک بخت منیر خاں کو ہمراہ لیا اور حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کو روانہ ہوئے۔ راستے میں چتلی قبر ملی، یہاں بھی فاتحہ پڑھا اور ساعت چند توقف کیا، لیکن قلب کو اس طرف ربط نہ پیدا ہوا۔ یہاں سے قریب حضرت مرزا صاحب کی خانقاہ ہے، دروازے پر چو پہنچے تو اسے بند پایا۔ ہر چند کوشش کی مگر دروازہ نہ کھلا، معلوم ہوا کہ اب اس خانقاہ کی مجاورت جن کے متعلق ہے ان کا نام ابو الخیر ہے، مزاج ان کا جادۂ اعتدال سے گذرا ہوا ہے، نمازیوں کو بھی مسجد میں نہیں آنے دیتے۔ ہم نے دروازے ہی پر سے فاتحہ پڑھ لی۔ حضرت مرزا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی لوح تربت پر یہ شعر کندہ ہے ؎
بلوحِ تربتِ من یافتند از غیب تحریرے
کہ ایں مقتول را جز بے گناہی نیست تقصیرے
آپ کی تاریخِ وصال ۱۱۹۵ ہجری اس مصرع سے نکلتی ہے ؏
عاش حمیداً مات شہیداً
روایت یوں بیان کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب نے جناب حضرت امام حسین علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ تم میرے پاس چلے آؤ۔ آپ صبح کو جب بیدار ہوئے تو قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ سے یہ خواب بیان کیا اور خود ہی ارشاد کیا کہ تعبیر اس خواب کی شہادت ہے اور اس کا کوئی سامان نہیں ہے۔ چند ماہ کے بعد شبِ عاشورۂ محرم شریف کو نجف خاں کے دو غلام حبشی سہراب اور ہمدانی آدھی رات کو خانقاہ میں گھس آئے۔ اُس وقت آپ پر ایک حالت رفیع طاری تھی، آپ مسجد کے صحن میں ٹہل رہے تھے۔ سہراب نے آپ سے پوچھا کہ در حق معاویہ چہ می گوئی؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ من در حقِ خلف ہیچ نمی گویم چہ جائے کہ سلف۔ بس اس نے قرابین کا فیر آپ پر کیا، آپ مجروح ہو کر گر پڑے اور وہ لوگ بھاگ گئے۔ خانقاہ کے لوگوں کو خبر ہوئی، انھوں نے آکر آپ کو اٹھایا۔ آپ ہر بار کروٹ بدلتے تھے اور یہ شعر پڑھتے تھے ؎
بپا کردند خوش رسمے بخون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
آپ کے مزار مبارک کے پہلو میں پورب کی طرف جناب حضرت شاہ غلام علی قدس سرہ آپ کے خلیفہ آسودہ ہیں ان کی تاریخ وفات یہ ہے۔ قطعہ ؎
چون جنابِ شاہِ عبد اللہ قیومِ زمان
سالِ او با حال خوبش جستم ای راحت زدل
زین جہان فرمود رحلت سوے درگاہ کریم
گفت “فی روح و ریحان و جنات النعیم”
اور آپ کے پہلو میں حضرت ابو سعید آپ کے خلیفہ کا مزار ہے، ان کے لوح مرقد پر یہ تاریخ کندہ۔ قطعہ ؎
امام و مرشدِ ما شاہِ بو سعیدِ سعید
دلِ شکستۂ مغموم گفت تاریخش
بروزِ عید چو شد داخل جنابِ خدا
ستونِ محکم دینِ نبی فتاد زپا
اور چوتھی قبر حضرت مولوی رحیم بخش سجادہ خانقاہ مرزا صاحب کی ہے۔ اس قبر پر یہ تاریخ ہے، قطعہ ؎
بروزِ شنبہ دہم از جمادیِ ثانی
بسالِ رحلتِ آن نیک خو ولیِ خدا
گذشت حضرتِ عبد الرحیم حق آگاہ
قلم نوشت کہ الان اولیاء اللہ
اس تاریخ کے نیچے ۱۲۸۳ لکھے ہیں، مگر کسی مصرع سے یہ عدد نہیں نکلتے واللہ اعلم بالصواب۔ ہر چند دروازہ خانقاہ نہ کھلا مگر فیض ارواح طیبات کے لیے در و دیوار حجاب نہیں ہو سکتے اور اس کے سوا ہم پہلے بھی حاضر ہو چکے ہیں ؎
در راہِ عشق مرحلۂ قرب و بعد نیست
می بینمت عیان و دعا می فرستمت
اب یہاں سے حضرت شمس العارفین شاہ ترکمان بیابانی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی زیارت کو جاتے ہیں۔ فاصلہ بہت کم تھا، دو تین منٹوں میں پہنچ گئے۔ سبحان اللہ بحمدہ کیا خوب فیض بار مزار ہے۔ یہاں بہت دیر تک حاضر رہے رہے اور بہت لطف آیا ؎
بزرگان مسافر بجان پرورند
کہ نامِ نکو شان بعالم برند
آپ کی تاریخ وفات ۲۴؍ رجب ۶۳۷ ہجری ہے۔ ہر برس عرس ہوتا ہے۔ اب تک آپ کی وفات کو چھ سو چوہتر برس ہوئے۔ میرے خیال میں یہ بات ہے کہ آپ سہروردی تھے اس لیے کہ ہندوستان میں پہلا دور سہروردیوں کا تھا۔ یہ بات میں اس قیاس سے کہتا ہوں کہ ہمارے پورب میں بھی اس عصر کے جو بزرگ ہیں وہ سب سہروردی ہیں۔ یعنی حضرت احمد یحیٰ منیری، حضرت شہاب الدین جگجوت، حضرت شاہ آدم صوفی رحمہم اللہ علیہم اجمعین۔ یہ سب بزرگوار پٹنہ میں اور اطراف پٹنہ میں آسودہ ہیں اور سب سہروردی ہیں، اور یہ سب حضرات حضرت خواجہ غریب نواز سیدنا و مولانا خواجہ معین الدین اجمیری قدس سرہ کے ہم زمانہ ہیں اور یہ حضرت شاہ ترکمان قدس سرہ بھی انھیں کے ہم عصر ہیں۔ ان حضرات کے بعد دور چشتیوں کا ہے مگر حضرات چشت کا دور ایسا محیط ہوا کہ سب ہندوستان انھیں حضرات کا دار السلطنت ہو گیا اور وہ دار السلطنت دار الخیر اجمیر شریف ہے اور دیوان خانہ یعنی دار الوزارت دہلی شریف ہے۔ مگر جب سے ہمارے محبوب رب الارباب مولانا سیدنا امیر ابو العلا اکبر آبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت خواجہ غریب نواز کی روح مبارک سے بطور اویسیت فیض یاب ہوئے تو یہ پورے جانشین آپ کے ہو گئے۔ اب اکبر آباد دیوان خانۂ اعظم ہو گیا الحمد لله علی احسانه ذالك فضل الله يوتيه من يشاء والله ذو االفضل العظیم۔ ملک اللہ کا، مخلوق اللہ کی، بندے اللہ کے؛ وہ خود فیّاضِ حقیقی جس کو جو کچھ چاہے عطا فرمائے، الامر للہ والحکم للہ۔ المختصر اب ہم حضرت شاہ ترکمان رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مبارک سے باہر آئے اور لطف و کیفیت کے ساتھ باہر آئے ؎
جو بندہ نوازی کرے، دل اس پہ فدا ہے
بے فیض اگر یوسفِ ثانی ہے تو کیا ہے
اب ہماری آنکھوں کے سامنے کلان مسجد ہے۔ یہ مسجد جونا شہ المخاطب بخان جہاں ابن خاں جہاں وزیر نے فیروز شاہ کے عہد میں ۷۸۹ ہجری میں بنائی ہے۔ یہ مسجد ایک بلند ٹیکرے پر واقع ہے اور بتیس سیڑھیاں چڑھ کر داخل مسجد ہوتے ہیں۔ تمام شہر یہاں سے معلوم ہوتا ہے۔ اِس کی پیشانی پر یہ کتبہ ہے:
“بسم اللہ الرحمن الرحیم بفضل و عنایتِ آفریدگار در عہدِ دولتِ بادشاہِ دیندار الواثق بتائید الرحمن ابو المظفر فیروز شاہ السطان خلد ملکہ ایں مسجد بنا کردہ بندہ زادہ درگاہ جونا شہ مقبول المخاطب خانِ جہاں خدا بر ایں بندہ رحمت کند۔ ہر کہ دریں مسجد بیاید بدعاے خیر بادشاہِ مسلمانان وایں بندہ را بفاتحہ واخلاص یاد کند۔ حق تعالی ایں بندہ را بیامرزد بحرمۃ النبی وآلہ۔ مسجد مرتب شد بتاریخ دہم ماہ جمادی الآخر سنہ 789 تسع وثمانین وسبع مأۃ ہجری۔”
اب تو یہ کالی مسجد مشہور ہے۔ یہاں ہم نے داخل ہو کر دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھی اور بانیِ مسجد اور اس کے بادشاہ کے واسطے اس کی وصیت کے موافق فاتحہ پڑھی اور ایک تسبیح درود شریف کی حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی روحِ مبارک کو نذر کی اور فرود گاہ کی طرف روانہ ہوئے۔ جنابِ شمس العلما منشی ذکاء اللہ خاں صاحب بہادر کا نیک بخت خدمت گار منیر خاں ہمراہ ہے۔ اس نے بہت قریب کے راستہ سے نواب پاٹودی کی کوٹھی پر پہنچا دیا۔ جب ہم فرووگاہ پر پہنچے تو وہی دونوں شائستہ خدمت گار حاضر تھے۔ ہماری صورت دیکھتے ہی باورچی خانہ کی طرف روانہ ہوئے، خاصہ کے ساتھ ایک صاحب پر تکلف لباس زیبِ جسم کیے اور ایک ننّھی سی بچی کو ساتھ لیے ہوئے تشریف لائے اور انھوں نے اپنے ہاتھ سے دستر خوان بچھایا۔ عند التحقیق معلوم ہوا کہ یہ صاحب شمشیر خاں بھیا رئیس گوالیار کی فوج کے برگیڈ میجر ہیں۔ نہایت خلیق اور منکسر آدمی ہیں۔ میں اکثر امرا سے کم ملتا ہوں اس لیے کہ گزی گا پیوند کمخواب میں نہیں لگتا مگر یہ مجھ سے خود ملے اور مجھے اپنے اخلاق سے محظوظ کردیا ؎
تواضع زگردن فرازان نکوست
گداگر تواضع کند خوے اوست
چونکہ پھرتے پھرتے آج ہم بہت تھک گئے، اس لیے آخر وقت سیر کا حوصلہ نہ ہوا، صرف کوٹھی کے احاطہ کے چکر کیے۔ شب کا کھانا کھایا اور معمولات سے فرصت کی اور استراحت کی۔
اب پنجم رجب ۱۳۱۱ھ کی صبح ہے اور سنیچر کا دن ہے۔ خبر گرم ہے کہ بعد مغرب ساچق عروس کے گھر جائے گی۔ ہم نے بھی قصد کر لیا کہ دن بھر کی مہلت ہے، دہلی کی سیر تو کر لو۔ اب جامع مسجد کا ارادہ ہے، کوٹھی کے پھاٹک سے نکل کر میدان میں آگئے۔ مسجد شریف یہاں سے سامنے نظر آتی ہے۔ آنکھوں کے راستے سے کعبۂ دل میں اتر گئی۔ حق تو یہ ہے کہ ہندوستان میں تو اس کا جواب نہیں ہے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کو کسی سانچے میں ڈھالا ہے۔ برجوں کا گٹھاؤ، میناروں کی راستی کچھ عجب عالم دکھا رہی ہے۔ لیجیے اب ہم داخل مسجد شریف ہو گئے، اللھم صل علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم۔ صحن کی وسعت حضرت بایزید بسطامی قدس سرہ کے قلب شریف سے کم نہیں ہے۔ بیچ کے در کی محراب کی رفعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بلند حوصلہ کی شان دکھا رہی ہے۔ یہ محراب اس قدر بلند ہے کہ آدھا گنبد چھپا ہوا ہے۔ سنگ مرمر کے گنبدوں پر سنگِ سیاہ کی تحریریں ہیں یا اوراق نور پر مشک کی جدولیں کھچی ہوئی ہیں یا حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں میں زلفِ سیاہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی تصویر ہے۔
دہم شوال ۱۰۶۰ ہجری مطابق سنہ ۲۴ جلوس شاہجہانی موافق ۱۶۵۰ عیسوی میں سعد اللہ خاں دیوان اعلی اور فاصل خاں خانساماں کے اہتمام سے بنیاد شروع ہوئی اور پانچ ہزار راج مزدور سنگ تراش روزانہ کام کرتے تھے۔ باوجود اس اہتمام بلیغ کے چھ برس میں بیس لاکھ روپیہ کے صرف سے تیار ہوئی ہے اور اس میں پانچ پانچ در اِدھر اُدھر ہیں، بیچ کے بڑے گیارھویں در کی محراب پر یَا ھَادِیْ کا طغرا لکھا ہوا ہے، باقی اور دروں پر کتبہ شاہجہاں بادشاہ کا اور زرِ تعمیر و تاریخ وغیرہ لکھا ہوا ہے۔ اس مسجد کے شمال کی طرف کے شرقی دالان میں تبرکات جناب پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے رکھے ہوئے ہیں۔ اور صحنِ مسجد میں ایک خوبصورت حوض ہے ایک سو چھتیس گز کے عرض و طول میں اور اس کے بیچ میں ایک نہایت دلربا فرحت بخش و روح افزا سنگِ مرمر کا دوسرا حوض ہے، پندرہ گز سے بارہ گز کا۔ اس کے بیچ میں فوارہ ہے۔ اس حوض کے غربی گوشہ پر ایک چھوٹا سا کٹہرا سنگ مرمر کا محمد حسین خاں محلی نے بنوا دیا ہے، اس واسطے کہ اس مقام پر بعض اولیاے اہل مشاہدہ نے حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بیٹھے ہوئے دیکھا ہے، اس کٹہرہ پر یہ اشعار کندہ ہیں: کوثر محمد رسول اللہ ۱۱۸۰ ہجری، نظم ؎
رسول دیدہ اند اینجا ولی و اہل اللہ
بجا است گر شود ایں سنگ ہم زیارت گاہ
بناے سال بہ تحسین و آفرین ہاتف
بگفت احاطہ جاے نشست رسول اللہ
بہیئت یہ مسجد اکبر آباد کی جامع مسجد سے چھوٹی معلوم ہوئی مگر ناپا تو بڑی نکلی، یعنی جنوباً و شمالاً یہ مسجد ایک سو چون قدم ہے اور اکبر آباد کی مسجد سو قدم ہے۔ ہم نے مسجد میں داخل ہو کر پہلے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا کی، پھر حضرت شاہ جہاں بادشاہ نور اللہ مرقدہ کے نام سے فاتحہ پڑھی، پھر نظرِ غور سے اس کی عمارت کے حسن پر دوبارہ نظر کی۔ میں نے اور جتنی مسجدیں دیکھیں تھیں عالمِ خیال میں سب سے اس کا مقابلہ کیا، مگر یہی اول درجہ کی ٹھہری۔ حیدرآباد کی مکہ مسجد بھی اپنی قطع کی ایک ہی ہے اور حسن تعمیر میں وہ بھی ایک خاص ادا رکھتی ہے مگر یہ مسجد حقیقت میں اپنا جواب آپ ہی ہے۔ مکہ مسجد چوراسی قدم عرض میں ہے اور ایک سو چودہ قدم طول میں۔ صحن مسجد کے جنوب کی طرف فرماں روایانِ حیدر آباد کے مزارات نہایت خوشنما سنگ مرمر کی جالیوں سے گھرے ہوئے ہیں، یہ دنیا میں بھی خوش نصیب تھے اور مرنے کے بعد بھی خوش نصیب ہیں کہ ان کی روحیں پنچگانہ نماز میں شریک ہوتی ہوں گی۔ نواب میر نظام علی آصف جاہ کا سن وفات جو ان کی قبر پر کندہ ہے ۱۲۱۸ ہجری ہے۔ نواب سکندر جاہ کا سنہِ وفات ۱۲۴۴ھ ہے۔ نواب ناصر الدولہ کا سنہِ وفات 1273ھ ہے۔ نواب افضل الدولہ بہادر جنت آرام گاہ کا سالِ وفات ۱۲۸۵ھ ہے۔ یہ نیک مزاج باخدا بادشاہ فقرا و علما کا محبوب تھا، اس کا اثر یہ ہوا کہ اُس کی نمازِ جنازہ غائبانہ حرمین شریفین میں پڑھی گئی اور آج تک اکثر اہلِ طریقت فاتحہ پڑھتے ہیں اور اس کے جانشینِ حال کی بقاے سلطنت اور درازیِ عمر کی دعا کرتے ہیں۔ چونکہ اس اسلامی ریاست کا ذکر آگیا ہے لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ کچھ مختصر حال اس کا یہاں پر تحریر کر دیا جائے یا اللہ تو اپنے حبیب سیدنا محمد مصطفی ﷺ کی روحِ مبارک کے طفیل اس اسلامی ریاست کو ہمیشہ چشم زخم سے بچائیو۔ آمین یا رب العالمین آمین ثم آمین۔
فائدہ
یہ سلطنت طبقۂ سیادت میں شمار کی گئی ہے۔ رئیسِ اول میر قمر الدین فتح جنگ آصف جاہ نظام الملک نور اللہ مرقدہ تھے۔ یہ ۱۰۸۲ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۱۳۷ ہجری میں جب چھپن برس کی عمر تھی تو رئیس ہوئے۔ ان کے بعد میر احمد نظام الدولہ ناصر جنگ فرزندِ دوم آصف جاہ ۱۱۶۱ ہجری میں رئیس ہوئے۔ میر غلام علی آزاد بلگرامی اِن کے استاد تھے، یہ فرانسیسیوں کے معرکہ میں شہید ہوئے۔ ان کے بعد ان کے بڑے فرزند فیروز جنگ اسی سال مسند نشین رہاست ہوئے۔ ان کی سوتیلی ماؤں نے انھیں زہر دیا، یہ بھی شہید ہوئے۔ ان کے بعد ۱۸ محرم ۱۱۶۴ ہجری کو محی الدین خانِ آصف جاہ کے نواسے تخت نشین ہوئے۔ انھوں نے بھی فرانسیسیوں کے ہاتھ سے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کے بعد امیر الممالک میر محمد خاں صلابت جنگ آصف جاہ کے فرزندِ سوم تخت نشین ہوئے، اِن کو اِن کے چھوٹے بھائی نظام علی خاں نے ۱۱۷۵ ہجری میں قید کر لیا، یہ بستم ربیع الاول ۱۱۷۷ ہجری میں واصل بحق ہوئے۔ ان کی جگہ نظام علی خاں ۱۱۷۵ ہجری میں سریر آراے دکن ہوئے، اِن کی ولادت ۱۱۴۶ ہجری اور وفات ۱۲۱۸ ہجری میں ہے۔ ان کی جگہ میر اکبر علی خاں سکندر جاہ ۱۲۱۸ ہجری میں تخت نشین ہوئے۔ ان کی ولادت ۱۱۸۷ ہجری میں ہوئی اور وفات ۱۷؍ ذیقعدہ ۱۲۴۴ ہجری میں۔ اِن کے بعد فرخند علی خاں ناصر الدولہ آصف جاہ چہارم فرزند سکندر جاہ مسند نشین ہوئے۔ ۱۱؍ جمادی الاول ۱۲۰۸ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۲۴۴ ہجری میں ریاست پائی۔ ۲۳ رمضان المبارک ۱۲۷۳ ہجری میں وفات کی۔ ان کے بعد میر تہنیت علی خاں افضل الدولہ آصف جاہِ پنجم ۱۲۴۲ ہجری میں پیدا ہوئے اور ۱۲۷۳ ہجری میں رئیس ہوئے اور ۱۲؍ ذیقعدہ ۱۲۸۵ ہجری میں اللہ سے ملے۔ چنانچہ ان کی نیک نہادی کا ذکر ہو چکا ہے، اور اب جو رئیس حال ہیں وہ سلطان ابن سلطان امیر المسلمین میر محبوب علی آصف جاہ خلد اللہ ملکہ افضل الدولہ خلد مکان کے فرزند ہیں۔ یہ ۷؍ ربیع الثانی روز سہ شنبہ ۱۳۰۱ھ مطابق پنجم فروری ۱۸۸۴ء عہدِ گورنر جنرل لارڈ رِپن میں رئیس ہوئے اور عنانِ حکومت دست مبارک میں لی۔ اس فقیر نے ان کا سکّہ اور تاریخ کہی ہے۔
سکّۂ حضور پر نور حضرت سلطانِ دکن خلد اللہ ملکہ
سکہ زد بر زر وبر سیم شہِ ظلّ اللہ
میر محبوب علی شاہِ دکن آصف جاہ
تاریخِ تخت نشینی حضور پر نور حضرت سلطانِ دکن خلد اللہ ملکہ
خدیو عادل و عالم پناہ شاہِ دکن
حسین چو یوسف کنعان وجیہ چون عیسی
سکندر است باقبال و خسرو است بفوج
سہ شنبہ بود کہ در ہفتم ربیعِ دوم
سنہ جلوسِ سریرِ جواہرین اکبرؔ
رئیس ابنِ رئیس و امیر ابنِ امیر
بملک داری و صولت قبادِ کشور گیر
بنظمِ مملکت او ہست چون فریدون پیر
جلوس کرد بہ تختی کہ ہست عرش نظیر
سریرِ دولتِ منصورہ شد طرازِ سریر
قطعہ دیگر
شہِ داد گر بادشاہِ دکن
بروزِ ہمایون و سالِ سعید
دُرِ آبدارِ دعا می کنم
الہی! زفیضِ عنایاتِ تو
دلم سالِ مسند نشینی بگفت
بود دولتش تا ابد برقرار
شد آن شہر یارِ دکن تاجدار
بفرقِ امیرِ دلاور نثار
بود ملک او پاک ز آسیبِ خار
مبارک سریر ہمیشہ بہار
آمین یا رب العالمین آمین ثم آمین ۔
اب ہم شہر جونپور کی ان دونوں سنگین اور پرانی مسجدوں کا ذکر کرتے ہیں جو لودی پٹھانوں کی سلطنت سے بھی پہلے کی ہیں۔