محبوب ہے سلطان دکن، خوب ہے سہرا
خوش خلق ہے نوشاہ، خوش اسلوب ہے سہرا
ہے عارض سلطان دکن سورۂ والشمس
نوشاہ کو ہم کیوں نہ کہیں یوسفِ ثانی
نواب( ) وقار الامرا کو ہو مبارک
کیوں دیکھوں نہ اکبر اسے الفت کی نظر سے
محبوب ہے محبوب ہے محبوب ہے سہرا
کیا خوب ہے، کیا خوب ہے، کیا خوب ہے سہرا
والشمس کی تفسیر ہے، کیا خوب ہے سہرا
نورِ نظر حضرت یعقوب ہے سہرا
سلطان دکن حضرت محبوب ہے سہرا
محبوب کا ہم راز ہے، محبوب ہے سہرا
سہرا دیگر
رخِ نوشہ پہ فضل حق سے ہے ایمان کا سہرا
حضور اور اس پہ رخ پر نور، پھر اس پر یہ سہرا ہے
نظر ہوتی ہے خیرہ جب جواہر جگمگاتے ہیں
شہنشاہِ دکن کے روے روشن پر جگہ پائی
دکن میں شادیانہ گانے کو حورانِ خلد آئیں
سر شاہ دکن پر ہے رسول اللہؐ کا دامن
مرا نوشاہ نقادِ سخن ہے آپ اے اکبرؔ
نہ کیوں سرتاج سہروں کا ہو یہ سلطان کا سہرا
تجلی پر تجلی ہے یہ عرفان کا سہرا
بنا ہے آفتاب اس خسروی ایوان کا سہرا
غلاف اب بے تکلف بن گیا قرآن کا سہرا
مبارک ہو الہی ہے بڑے ارمان کا سہرا
درود اس پر پڑھیں ہم ہے یہ ایسی شان کا سہرا
کہوں کیا اپنے منہ سے میں یہ ہے کس شان کا سہرا
دیگر
ہے سر پہ باندھنے کو شاہِ مہربان سہرا
ضرور ہے کہ یہ شاہِ دکن کے سر پر ہو
ستارے موتی ہیں شاہِ دکن کا منہ ہے چاند
ہم اپنی آنکھوں میں اس کو چھپا کے رکھیں گے
زمین پہ دھوم ہے اس کی فلک پہ شور اِس کا
سر حضور دکن پر ہوئی اسے معراج
یہ مثل دامن محبوب بڑھ کے پہنچا ہے
چمک جو پہنچی ہے اس موتیوں کے سہرے کی
برس رہا ہے یہ ابر بہار کی صورت
جمال عارض نوشہ نے کر دیا اسے ماند
یہ نور ہے کہ کسی کو نظر نہیں آتا
بندھا ہے سر پہ جو صاحب جمال کے اکبرؔ
خدا کے فضل سے اب ہوگا دُرفشاں سہرا
بنا ہے سایۂ سلطانِ انس و جاںؐ سہرا
بنا ہے آج کی شب رشکِ آسماں سہرا
کہیں چرا کے نہ لے جائے کہکشاں سہرا
یہ فیضِ شاہ سے پہنچا کہاں کہاں سہرا
لگا کے موتیوں کی پہنچا نردبان سہرا
ہے داناپور کہاں اور ہے کہاں سہرا
نہ لائی اپنا خجالت سے کہکشاں سہرا
عجیب شان سے ہے رخ پہ گلفشاں سہرا
ہوا تجلی رخسار میں نہاں سہرا
نظر کے سامنے ہے اور ہے نہاں سہرا
دکھا رہا ہے جمالی تجلیاں سہرا
قطعہ تاریخ کتاب سیر دہلی تصنیف جناب منشی فقیر محمد خاں صاحب اکبر آبادی
ہیں مؤلف اس کتابِ خاص کے
مہبطِ انوارِ ارشاد و ہُدا
صحت و تحقیق سے لکھا ہے خوب
لکھ یہ انورؔ سالِ تاریخِ کتاب
مرشدِ آفاق و عالی جاہِ دہر
نجمِ گیتی مہر عالم ماہِ دہر
حال مردانِ خدا آگاہِ دہر
سیرِ دہلی ہے تماشا گاہِ دہر
غزل من تصنیف جناب حاجی الحرمین شریفین حضرت سید شاہ محمد اکبر مدظلہ شاہ صاحب سجاد نشین خانقاہ داناپور شریف
وہ کریں پھر ادھر الفت کی نگاہیں کیوں کر
بڑھ گیا ضعف بہت کھینچیے آہیں کیوں کر
چھید ڈالا مرے سینے کو برنگِ غربال
کوچۂ عاشق کی ہے بھول بھلیاں کچھ اور
ہو گئی ہم کو بھی الفت سی کچھ اپنے دل سے
جب یہ اوٹھتی ہیں تو بس ضعف بٹھا دیتا ہے
کیا سبب ہے کہ تمھیں پاسِ مروت نہ رہا
عاشقوں کی تو نظر میں بھی ہے ہوتی تاثیر
چشمِ بد دور مجھے خود نظر بد کا ہے ڈر
آئینہ سامنے ہے دیکھ نہ لو اپنا جمال
اے زلیخا! مری آنکھیں تری آنکھیں تو نہیں
کچھ سبب ہے جو مرے طائر دل پر ہو گریں
کیا کہیں پڑ گیا ہے اک بتِ خود کام سے کام
جانِ جاں! رشتہ محبت کا بہت نازک ہے
آئینہ میں نے بھی اس دل کو بنا ہی ڈالا
دونوں ہاتھوں سے بجا کرتی ہے تالی اکبر
آنے جانے کی کہیں دیکھیے راہیں کیوں کر
ناتوانی کا نہیں حکم، کراہیں کیوں کر
جینے دیں گی مجھے ظالم یہ نگاہیں کیوں کر
آپ کو یاد ہوں اے خضر یہ راہیں کیوں کر
آپ چاہیں جسے، ہم اس کو نہ چاہیں کیوں کر
آئیں سینے سے لبوں تک مری آہیں کیوں کر
جانِ جاں پھر گئیں مجھ سے یہ نگاہیں کیوں کر
بے اثر رہ گئیں بلبل تری آہیں کیوں کر
ڈالوں اس عارض رنگین پہ نگاہیں کیوں کر
اب یہ فرماؤ کہ ہم تم کو نہ چاہیں کیوں کر
کوئی یوسف ہو تو ہو، ہم اوسے چاہیں کیوں کر
بن گئیں باز تری چور نگاہیں کیوں کر
سخت تشویش ہے الفت کو نباہیں کیوں کر
آپ توڑیں جسے، ہم اس کو نباہیں کیوں کر
دیکھوں اب پھرتی ہیں مجھ سے وہ نگاہیں کیوں کر
ہم اکیلے ہی محبت کو نباہیں کیوں کر
ختم شد