مفسرین نے آیت إِنَّ اللهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا ترجمہ: تحقیق خدا نگاہ رکھتا ہے آسمانوں اور زمینوں کو اس سے کہ ٹل جاویں اپنی جگہ سے اور اگر بفرض محال وہ اپنی جگہ سے ٹل جاویں تو نگاہ رکھ سکتا ہے ان دونوں کو کوئی سواے خدا کے۔ تحقیق کہ وہ بردبار اور بخشنے والا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سنا میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے منبر پر کہ فرمایا: واقع ہوا حضرت موسی علیہ السلام کے دل میں یہ خدشہ کہ کبھی پروردگار تعالیٰ شانہ سوتا بھی ہے۔ اسی وقت ایک فرشتے کو حکم ہوا کہ وہ جگاتا رہا موسی علیہ السلام کو تین شبانہ روز اور حضرت موسی علیہ السلام کے ہاتھوں میں دو شیشے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت موسی علیہ السلام اونگھے اور وہ دونوں شیشے آپس میں ٹکرائے اور چور چور ہوگئے۔ پس فرمایا پروردگار تعالیٰ شانہ نے کہ اگر میں سو جاؤں تو اسی طرح یہ زمین اور آسمان آپس میں ٹکڑا کر چور چور ہو جائیں۔ اللہ اللہ سوتا سنسار جاگتا پاک پروردگار، لا تأخذہ سنة ولا نوم۔ ترجمہ: نہ اسے اونگھ پکڑتی ہے نہ نیند۔ یہی صفت ہمارے بادشاہوں کو اختیار کرنی چاہیے یعنی بقدر ضرورت کہ جس سے ان کا نفس ہلاکت میں نہ پڑے۔ رستہ ضروریہ کو رفع کرنا چاہیے اور باقی اپنے کاروبار سے باخبر رہیں۔
اب ہم زیارت کا شرف حاصل کر کے اپنی فرود گاہ کوٹھی نمبر ۴ واقعہ محلہ دریا گنج کی طرف پلٹے اور بعافیت تمام پہنچ گئے۔
اب ۲۲؍ تاریخ رجب المرجب ۱۳۱۱ ہجری سہ شنبہ کے دن کی صبح ہے۔ پرانے قلعہ اور ہمایوں کے مقبرے کی دھن بندھ گئی اور سواری کوٹھی کی برساتی میں حاضر ہے ؏
دل افگندیم بسم اللہ مجریھا ومرساھا
پانی برس چکا ہے، غضب کی سردی ہے۔ اول پرانا قلعہ معروف بہ دین پناہ ملا۔ ہم اور محمود عزیز مولوی محمد حمید اللہ خاں مد عمرہ کا خدمت گار صدر دروازے سے داخل ہوئے۔ اس کی محراب پر بخط نسخ لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے اور اسی قلعہ کے دو دروازے اور ہیں۔ ان کی محرابوں پر گھوڑے کی تصویریں بنی ہوئی ہیں۔ اس قلعہ کے اندر کی شاہی عمارتیں بالکل مسمار ہو گئی ہیں۔ دیہاتی طریقہ سے اس میں کچھ لوگ ہندو مسلمان آباد ہیں۔ چہار دیواری جا بجا مسمار ہو گئی ہے۔ مگر ایک مسجد اس میں ہے، اس کی مرمت انگریزوں نے کرادی ہے۔ یہ عمارت پرانی قطعہ کی ہے، مگر بہت مستحکم۔ ۶۵ قدم جنوباً و شمالاً ہے اور غرباً و شرقاً ۳۸ قدم معلوم ہوتا ہے کہ پہلے صحن اس کا بہت وسیع تھا، اب جو انگریزوں نے مرمت کرائی ہے تو صحن کو کچھ کم کر دیا ہے۔ امام کی محراب میں دہنی طرف نیچے سے اوپر کو ہوتی ہوئی بہاری خط نسخ میں سورہ الحمد سنگ مرمر کی تختیوں میں منبت ہے اور اسی محراب کے اور بازوں میں آمنے سامنے سبحان اللہ اور حسبی اللہ لکھا ہوا ہے۔ اور اسی محراب کے اوپر جو سنگ مرمر کی بڑی محراب ہے اس میں آیت لِلہ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ تا عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لکھا ہوا ہے۔ اور اس محراب کے اوپر جو اس سے بڑی تیسری محراب ہے اس میں سورہ یسین شریف لکھی ہوئی ہے۔ اس مسجد کے پانچ گنبد ہیں، چار ادھر ادھر کے چھوٹے اور بیچ کا گنبد بہت بڑا ہے۔ جنوب کی طرف کے اخیر گنبد کے اندر وار کی محراب میں سورہ ألم تر کیف اور پورا رکوع لو أنزلنا ھذا القرآن لکھا ہوا ہے۔ اسی محراب کے بیچ میں سنگ مرمر کی تختی پر اوپر لا إلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا ہے اور اسی کے نیچے لا إلہ إلا اللہ إبراھیم خلیل اللہ تحریر ہے اور اس محراب سے ملی ہوئی ہے۔ جو شمال کی طرف دوسری محراب ہے اس پر بھی تمام آیات قرآنی کندہ ہیں اور یہ سب خط بہاری میں ہیں جو کوفی شان سے ملا ہوا ہے۔ نہایت مشکل سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کے لیے بہت وقت چاہیے اور یہاں ضیق فرصت۔ شمال کی طرف کے پہلے محراب میں سورہ بقرہ کا پہلا رکوع تحریر ہے، یہ تو پڑھا گیا اور باقی نہ پڑھا گیا۔ اسی طرح تمام مسجد کے اندر اور باہر کی محرابوں میں کلام اللہ شریف کی سورتیں تحریر ہیں۔ اب دس بج گئے، دو رکعتیں نفل کی مسجد میں پڑھیں اور بانیِ مسجد کی روح پر فاتحہ پڑھی اور باہر آئے۔ اس قلعہ کا حال اہل تاریخ نے یہ لکھا ہے کہ راجا اننگپال نے یہ قلعہ سمّت چار سو انتیس میں بنایا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ سمّت چار سو چالیس میں، واللہ اعلم بالصواب۔
اب ہمایون کے مقبرے کو جاتے ہیں۔ اس کا سنگِ مرمر کا گول گنبد ہے جو نیم دائرے سے کچھ زیادہ ہے نظر آرہا ہے۔ ہم چند منٹوں میں یہاں پہنچ گئے۔ اس مقبرے کا باغ اب تو ویران پڑا ہوا ہے، جب کبھی آباد ہوگا تو واقعی سیر کے قابل ہوگا۔ اس مقبرے اور باغ کو ہمایوں بادشاہ کی زوجہ حاجّہ بیگم نے سولہ برس میں پندرہ لاکھ روپیہ کے صرف سے بنوایا ہے۔ حمیدہ بانو بیگم اس کا نام تھا اور مریم مکانی لقب تھا۔ یہ بیگم اکبر بادشاہ کی ماں تھی۔ اب ہم اس چونہ کچ کے چبوترے پر ہیں جو باغ کے وسط میں ہے۔ اس کو ناپا تو ایک سو پچاس قدم عرض میں اور اتنا ہی طول میں ٹھہرا اس چبوترے پر ایک اور چبوترا ہے، اندازاً تین قد آدم بلند ہوگا، یہ سنگ سرخ کا ہے۔ اس کے نیچے جو حجرے بنے ہوئے ہیں اس میں عالمگیر ثانی فرخ سیر دارا شکوہ اور سواے ان کے اور بہت سے شہزادے اور شاہزادیوں کی قبریں ہیں۔ یہاں کا پہلا چبوترہ تاج گنج کے اس پہلے سنگ سرخ کے چبوترے کے مقابل سمجھنا چاہیے جس پر مسجد اور تسبیح خانہ ہے۔ وہ چبوترہ اس سے دونا بڑا ہے اور یہاں کے سنگ سرخ کے چبوترے کے جواب میں تاج گنج کا سنگ مرمر والا بڑا چبوترہ ہے۔ وہ بھی اس سے بڑا ہے یعنی یہ ایک سو پندرہ قدم ہے اور وہ ایک سو ستائیس قدم ہے اور پھر وہ سنگ مرمر کا ہے اور یہ سنگ سرخ کا۔ اب بارہ دری اور دونوں گنبدوں کا مقابلہ ہے، اس مقبرے کے گنبد کے نیچے کی بارہ دری ۲۰ قدم عرض اور بیس قدم طول میں ہے اور تاج گنج کے گنبد کی نیچے والی بارہ دری ۳۰ قدم عرض و طول میں کچھ زیادہ ہے۔ یورپ کے سیاح جو فن تعمیر میں دستگاہ کامل رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ گنبد دنیا میں اول درجہ کا شمار کیا گیا ہے۔ روما جسے عرب رومۃ الکبری کہتے ہیں اور اب وہ اٹلی کے نام سے مشہور ہے، اس کا بڑا گرجا جو سینٹ پٹر کے نام سے مسمّٰی ہے، وہ اپنے گنبد کی بلندی کے واسطے تمام یورپ میں مشہور ہے۔ مگر اہل انصاف یورپین اس گنبد کو اس پر ترجیح دیتے ہیں۔ تاج گنج کا گنبد مخروطی نما ہے۔ ایسی اونچی اور شاندار عمارت کے واسطے ایسا ہی گنبد موزوں تھا۔ ہمایوں کے مقبرے کا گنبد دور سے اندر کو دبا ہوا معلوم ہوتا ہے اور تاج گنج کا گنبد ابھرا ہوا نظر آتا ہے۔ ہر چند تاج گنج کی عمارت ہمایوں کے مقبرے کا اصلاح شدہ نقشہ ہے، لیکن شاہجہاں نے جا بجا ایسی خوبصورت اصلاح دی ہے کہ جدت کا لطف آگیا ہے۔ مگر اس بات کا ہم کو اقرار ہے کہ جو گنبد نیم دائرے سے بہت زیادہ ترشا ہوا ہو، اس کا لداؤ بہت مشکل ہے اور مخروطی گنبد کا بوجھ آڑے پتھروں پر بہت بَٹ جاتا ہے۔ مگر تاج گنج کی مجموعی عمارت اور صنعت میں اور ہمایوں کے مقبرے میں ایسا فرق ہے جیسے شہر کا ایک طرح دار جوانِ طناز اور گاؤں کا ایک قوی القوی شخص۔ شاہجہاں کی عمارت کا یہ اصول تھا کہ بیلداروں سے شروع ہوتی تھی اور جوہریوں پر ختم ہوتی تھی۔ تاج گنج کی تعمیر کی بعض صنعتیں مجھے عزیزی شیخ انعام اللہ ابو العلائی مد عمرہ نقشہ نویس نے بتائیں (انھیں کے جد اعلیٰ عیسیٰ خاں نقاش تاج گنج کے میر عمارت تھے)۔
اب دوپہر ہو گئی۔ ہم فرود گاہ کی طرف پلٹتے ہیں۔ راستہ میں شیخ محمد صاحب کی بائیں ملی، یہاں کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت شیخ محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہاں مزار مبارک ہے۔ آپ کی وفات ۱۱۱۵ ہجری میں ہے۔ آپ کے پوتے حضرت شاہ صابر بخش رحمۃ اللہ علیہ تھے، جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اور ایک پوتے آپ کے جن کا نام حافظ نور محمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہوا، تھے اور وہ حضرت مولانا فخر الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ ہیں۔ اکبر آباد محلہ کچہری گھاٹ میں آسودہ ہیں۔ ان کی اولاد سے ہمارے بھائی منشی شیخ محمد فخر الدین صاحب ابو العلائی اور برادران محمد مصطفیٰ اور ابو الحسن و فضل الدین و وجیہ الدین سلمہم اللہ تعالیٰ ہیں۔ الحمد للہ علی احسانہ کہ ہم بخیریت تمام اپنی فرود گاہ پر پہنچ گئے۔ کھانا کھایا، استراحت کی۔ بعد ظہر بھجلا پہاڑی قریب درگاہ شاہ ترکمان مکرمی سید میر حسن صاحب رضوی مالک اخبار خیر خواہ عالم کی ملاقات کو روانہ ہوئے۔ یہ بزرگ نہایت خلیق اور متواضع ہیں، کیوں نہ ہوں، سیادت کا اثر کہاں جائے اور آپ کے برادر بزرگ محبی و مشفقی سید محمد نواب میر قادری اور رنگ کے آدمی ہیں۔ ان کو قلب سے بھی تعلق ہے۔ میں ان سے مل کر بہت خوش ہوا، نہ میں ان سے واقف تھا اور نہ یہ مجھ سے۔ برادرم مولوی محمد حمید اللہ خاں مد عمرہ کی ساچق کے روز نواب سرور جنگ بہادر کے مکان پر ملاقات ہو گئی اور باخودہا معرفت بھی ہو گئی۔ یہاں سے جو اٹھے تو محلہ ٹوکری والان میں مولوی محمد عبد الرحمن راسخ مالک اخبار بے مثال پنچ سے ملے۔ یہ نوجوان خوش فکر اور ذہین آدمی ہیں۔ معلومات شاعری بہت اچھی ہے، زبان تو دہلی ہی کی ہے، میرے خیال میں اب یہ دہلی کے منتخب شعرا میں سے ہیں۔ یہ مجھ سے مل کر خوش ہوئے اور میں ان سے مل کر محظوظ ہوا۔
آج ۲۳؍ رجب المرجب ۱۳۱۱ھ روز چہار شنبہ ہے۔ ہم حضرت شاہ محمد فرہاد ابو العلائی قدس سرہ کے مزار مبارک کی زیارت کو جاتے ہیں۔ محبی و مکرمی شاہ امیر حسین صاحب صابری کی گاڑی ہے اور وہ خود بھی میرے ساتھ ہیں۔ پہلے فتحپوری مسجد میں پہنچے اور عزیزی شاہ محمد رمضان ابو العلائی دانا پوری سلمہ اللہ تعالیٰ کو ہمراہ لیا اور کھاری باؤلی کی سڑک سے لاہوری دروازے سے گذرے۔ صدر بازار کو بہت آباد دیکھا، بساطیوں کی بہت دکانیں ہیں۔ یہ بازار کلکتہ کے کولوٹولہ سے مشابہ ہے۔ اس بازار سے گذر کر ہندوراؤ کے باڑے کے نیچے نیچے ریل کے پل پر سے گذرے اور نہر کے داہنی طرف کی پٹری پر ہو لیے اور مغرب کی طرف بڑھے۔ تھوڑی دور آگے چل کر چھنا مل کا باغ داہنے ہاتھ کی طرف نہر کی پٹری سے ملا ہوا نظر آیا۔ نہایت آراستہ وپیراستہ ہے، اس میں پھولوں کے درختوں کے گَملے ایسے خوش اسلوبی سے سجے ہوئے دیکھے جیسے حیدر آباد دکن کے باغ عامہ میں۔ اسی باغ سے ملا ہوا حضرت قطب الارشاد مولانا شاہ محمد فرہاد ابو العلائی قدس رہ کا باغ جنت نشان ہے۔ ہر چند یہ باغ نامکمل اور بہت مختصر ہے، مگر اس کی شادابی اور وسعت کا حال اہل قلب سے پوچھنا چاہیے یا اس طریقہ عالیہ ابو العلائیہ کے غلاموں سے۔ میری آنکھوں میں تو اس باغ کی فضا ایسی معلوم ہوئی جیسے جنت کی ایک کیاری۔ جنت کے معنی بہشت کے ہیں اور اصل میں ایسے بستان کو کہتے ہیں کہ جس کے درختوں نے اس کی زمین کو چھپا لیا ہو یعنی درخت اس کے شاداب اور گھنے ہوئے ہوں۔ اور عربی کے جس لفظ میں جیم و نون ہو اس میں خِفَا اور پوشیدگی کے معنی کا لحاظ رہتا ہے۔ الغرض میں نے اس متبرک باغ کو ایسا سبز اور گھنا ہوا پایا کہ بے تکلف زبانِ دل پر یہ بات آگئی کہ ھذا جنت العشاق۔ اس فقیر بے بضاعت کا طریقہ آپ ہی کی ذات مبارک تک منتہی ہوتا ہے۔ مجھ کو جو یہ لطف یہاں آیا تو وہ تعجب خیز امر نہ تھا، اس لیے کہ اپنے باپ دادا سب کو اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر حیرت انگیز امر یہ تھا کہ بعض وہ لوگ کہ جن کو کسی طریقہ سے کوئی واسطہ نہیں وہ بھی یہی کہہ اٹھے کہ ہم کو تو یہ باغ باغ جنت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ یہ بقعہ نور ایک ہندو کے قبضے میں ہے۔ بہت سے مزارات تو نا معلوم ہو چکے ہیں اور اکثر معدوم ہوتے جاتے ہیں۔ اور میں فقیر متوکل کیوں کر اس باغ کو ان سے خرید لوں، اللہ تعالیٰ شانہ اس مزار مبارک کا حافظ ہے۔ حضرت قطب الارشاد شاہ محمد فرہاد قدس سرہ کو حضرت سیدنا امیر ابو العلا اکبر آبادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک واسطہ درمیان میں ہے، چونکہ میرے حضرت پیر و مرشد برحق مولانا سید شاہ محمد قاسم ابو العلائی دانا پوری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کا مفصل حال کتاب نجات قاسم میں تحریر فرمایا جو مطبع شوکت شاہجہانی آگرہ میں مل سکتی ہے اور قیمت ۱ روپیہ ۴ آنے مع محصول ہے۔ لہذا میں نے آپ کے حالات تحریر کرنے کی جرات نہیں کی۔ جو شائق ہوں وہ اس مبارک کتاب میں ملاحظہ فرمائیں۔ آپ نے ۲۵؍ جمادی الثانی ۱۰۳۵ ہجری میں رحلت فرمائی۔ بہت دیر تک ہم یہاں حاضر رہے۔ چونکہ یہاں ٹھہرنے کا کوئی مقام نہیں ہے، لہذا بعد نماز ظہر یہاں سے فرود گاہ کی طرف پلٹے۔ یہاں بعد نماز عصر کچھ احباب آگئے، دیر تک اولیاء اللہ کا تذکرہ رہا۔ میری ایک کتاب جس کا نام تاریخی “تلقین طریقت” ہے، یہ رسالہ بیان سلوک میں ہے اور چوبیس تلقینوں پر منقسم ہے۔ اس کا مسودہ میرے ساتھ تھا پڑھا گیا، سب نے بالاتفاق پسند کیا اور اس کے طبع کرانے کے بارہ میں بہت بڑا اصرار ہوا۔ لہذا میں نے اس کتاب کو عزیزی منشی محمد عبد الغفار خاں ابو العلائی اکبر آبادی سلمہ اللہ تعالیٰ مالک مطبع شوکت شاہجہانی آگرہ کو دے دی۔ عزیز موصوف نے اسے اپنے خرچ سے طبع کرا لیا ہے اور قیمت صرف دس آنہ ہیں۔ محصول ڈاک ذمہ خریدار ہے۔ میرے اکثر احباب نے پسند فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ شانہ اس کو اثر قبولیت عطا فرمائے، آمین ثم آمین۔
اب کل کی تاریخ کو میں اکبر آباد شریف واپس جاتا ہوں۔ سفر میرا تمام ہوا۔ بعض احباب نے مجھ سے فرمائش کی ہے کہ حضور پر نور ہز ہائنس آصف جاہ نظام دکن خلد اللہ ملکہ کی شادی عنقریب ہونے والی ہے۔ تم کو ایک سہرا کہنا ضرور ہے۔ میں نے بخوشی خاطر قبول کی اور قلم برداشتہ چند شعر لکھے ہیں، وہ زینت کتاب کے خیال سے رونق افروز خاتمۂ کتاب ہوتے ہیں۔ وھو ھذا۔