﷽
اللهم إیاك نعبد وإیاك نستعین والحمد لك یا رب العالمین والرحمن علینا یا أرحم الراحمین والصلوۃ علی رسولك الأمین والسلام علی آله الطاهرین وأصحابه المهتدین رضي الله تعالى عنهم أجمعین۔
رباعی ؎
گر در سفرم توئی رفیقِ سفرم
القصہ بہر کجا کہ باشد گزرم
ور در حضرم توئی امینِ حضرم
جُز تو نبود ہیچ پناہِ دگرم
اما بعد فقیر حقیر خادمِ درویشاں محمد اکبر ابو العلائی داناپوری غفر اللہ ذنوبہ ابن حضرت مرشدی ومولائی حاجی الحرمین الشرفین سید شاہ محمد سجاد ابو العلائی ابن حضرت مولانا سید شاہ تراب الحق ابن حضرت مولانا سید شاہ طیب اللہ نقاب پوش قطبِ وقت ابن حضرت قطب العہد مولانا امین اللہ شہید ابن حضرت مرشدِ آفاق مولانا منور اللہ قدس اللہ اسرارہم ناظرین رسالۂ ہذا کی خدمات بابرکات میں التماس کرتا ہے کہ دنیا جیسی بے ثبات ہے سب کو معلوم ہے، حق تو یہ ہے کہ یہاں نفس راست کرنے کی بھی مہلت نہیں ہے۔ لمولفہ ؎
بزمِ ہستی میں ابھی آکے تو ہم بیٹھے تھے
یوں اجل آئی کہ زانو بھی بدلنے نہ دیا
حضرت رسول کریم سیدنا و مولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و اصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے: حدیث شریف: قال رسول الله صلی اللہ علیه وسلم:ما لی وللدنیا؟ ما أنا والدنیا إلا کراکب استظل تحت شجرۃ ثم راح وترکها۔ترجمہ: حضرت ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ حال ہے دنیا کا میں اور دنیا نہیں ہوں مگر مثل ایک سوار کے کہ کہیں سے وہ تھکا ہوا آیا اور کسی درخت کے سایہ میں اس نے آرام کیا اور اس درخت کو چھوڑ چھاڑ کر چل دیا۔ اللہ اللہ یہ تنگ دنیا حالت دنیا کی اُس زمانہ میں تھی کہ جو زمانہ سراسر سعادت و خیریت کا تھا اور اب تو اس زمانہ سے تیرہ سو برس کا بُعد ہے۔ رباعی ؎
دنیا مطلوبِ طالبِ دین نشود
بارِ دل عارف نشود جلوۂ دہر
شیداے آن شیفتۂ این نشود
آئینہ ز عکس کوہ سنگین نشود
اللہ تعالی شانہ نے اپنے کلامِ پاک میں دنیا کی بے ثباتی کی اور اپنے قدرت و اختیار کی کیسی خوبصورت مثال بیان فرمائی ہے کہ اس کو پڑھنے اور سمجھنے سے ایک نشہ سا آجاتا ہے اور کیوں نہ آئے جب بادشاہوں کے کلام کو کلام الملوک ملکوک الکلام کہا جاتا ہے تو پھر یہ تو اس کا کلام پاک ہے جس نے بادشاہوں کو پیدا کیا اور ان کو تختِ سلطنت پر بٹھایا۔ الحمد للہ علی احسانہ اور وہ کلام پاک یہ ہے: قال الله تبارك وتعالی:إنما مثل الحیوۃ الدنیا کماء أنزلناه من السماء فاختلط به نبات الأرض مما یأکل الناس والأنعام حتی إذا أخذت الأرض زخرفها وازینت وظن أهلها أنهم قادرون علیها أتاها أمرنا لیلا أو نهارا فجعلناها حصیدا کأن لم تغن بالأمس کذلك نفصل الآیات لقوم یتفکرون۔ ترجمہ: یعنی مثال دنیا کی زندگی کے جلد تمام ہو جانے اور جھٹ پٹ امیر سے فقیر ہو جانے میں مثل پانی کے ہے کہ برسایا ہم نے اسے آسمان سے، پھر مل کر نکلا اس پانی سے سبزہ زمین کا جسے آدمی اور چار پائے کھاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جب زمین نے پکڑی رونق اور سنگار پر آئی اور گمان کیا زمین کے مالکوں نے کہ اب وہ اس پر قادر ہیں جو چاہیں سو کریں، پہنچا اس پر ہمارا عذاب خراب کرنے کے واسطے رات کو یا دن کو پھر کر ڈالا اسے کٹے ہوئے کھیت کے مانند۔ گویا کہیں نام ونشان آبادی کا نہ تھا کل۔ اِسی طرح سے ہم بیان کرتے ہیں مثالوں سے دلیلیں اپنی قدرت کی ان لوگوں کے لیے جو سوچتے ہیں اور ان میں نفع اٹھاتے ہیں، انتہیٰ۔ یہی حالت بجنسہ اس دنیا کی ہے جسے کائناتِ انسانی کہتے ہیں یعنی بچہ پیدا ہوا اور اس کے نرم نرم ہاتھ پاؤں اور بھولی بھولی صورت کیسی پیاری معلوم ہوتی ہے کہ ایک دم آنکھوں سے جدا کرنے کو دل نہیں چاہتا۔ جب ماں باپ نے اس کو پالا، پرورش کیا اور وہ بچہ بڑا ہوا اور اپنے پاؤں سے پھرنے لگا اور توتلی زبان سے میٹھی میٹھی باتیں کرنے لگا تو وہ ماں باپ اور کنبے کے لوگ اسے دیکھ دیکھ کے خوش ہونے لگے۔ یہاں تک کہ وہی لڑکا جوان اور قوی و توانا ہوا۔ کوئی اس میں سے ولی ہوا، کوئی عالم ہوا، کوئی بادشاہ ہوا، کوئی حکیم ہوا، کوئی ہنر مند ہوا، کوئی شاعر ہوا اور تھوڑے زمانے کے بعد سب فنا ہوگئے۔ اگر ولی صاحب ارشاد ہوا تو اس کا سلسلہ ہمیشہ کے واسطے قائم رہا اور اگر عالم صاحبِ تصنیف ہوا تو اس نے اپنی زندگیِ دوام کا بندوبست کر لیا اور اگر بادشاہ با انصاف ہوا تو نوشیرواں کی طرح عمر ابد حاصل کر لی اور حکیم اگر درس دے گیا تو افلاطون کی طرح باوجود خم نشینی نام اُس کا سر دفتر فہرستِ کائنات رہا؛ وقِس علی ہذا۔ واِلّا بے نام ونشان ہو گئے، یہ بھی نہیں معلوم ہوا کہ کوئی شخص کبھی اس دنیا میں آیا بھی تھا۔ پس جب یہ دنیا ایسی بے ثبات ہے تو اس سے تعلق ہی نہ پیدا کرے اور اس کا تماشا دیدۂ عبرت بیں سے کرے اور اس عالم کو سیر گاہ سمجھے اور اس کی سیاحت کرے اور اس کی برکتوں سے روحانی نفع اٹھائے اور جب تک ہاتھ پاؤں میں قوت ہے دنیا کو چل پھر کر دیکھے اور جب قواے ظاہری جواب دینے لگیں پھر گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر روحانی منزلیں طے کرنے لگے۔ لمولفہ ؎
سالک وہ ہے ہمیشہ ہے جس کو مسافرت
آب رواں ہے پاک یہ برکت سفر کی ہے
سالکِ طریقت کے لیے بحکم محکم “سیروا في الأرض” سفر دوام ضرور ہے اور اس دنیا سے سبقِ عبرت حاصل کر سکتا ہو جو اسے غور و تامل کی نگاہوں سے دیکھے گا۔ جس شخص کی سیاحت جتنی وسیع ہوگی، اس کی معلومات و تحقیقات بھی ویسی ہی عریض و طویل ہوگی ؎
تا بدوکانِ خانہ در گروی
ہرگز اے خام آدمی نشوی
اہلِ طریقت کے لیے بڑا فائدہ سفر کا ایک یہ ہے کہ ان کا دل کسی جگہ سے تعلقِ خاص پیدا نہیں کرتا۔ روزانہ کے سفر سے دنیا واقعی طور سے ان کو سراے فانی معلوم ہونے لگتی ہے۔ لمولفہ ؎
مسافر اُس میں ہیں اوترے ہوئے اِس میں ہے تو منعم
یہی حالت سرا کی ہے جو اس دولت سرا کی ہے
وطن کی محبت ایک سخت محبت ہے۔ انتہا یہ ہے کہ حضرت یوسف علی نبینا وعلیہ السلام سے نبی کو با وجودیکہ مدت ہاے دراز تک عزیزِ مصر رہے مگر وطن کی یاد نہ بھولی ؎
یوسف کہ بمصر بادشاہی می کرد
می گفت: گدا بودنِ کنعان خوشتر
اگرچہ کہ اس قول کی تاویل یہ ہو سکتی ہے کہ ان کو وطن کی ضمنی محبت تھی، اصل محبت ان کو اپنے والدِ بزرگوار کی تھی ورنہ برادرانِ وطن کا حسنِ سلوک تو معلوم ہی ہے ؎
بھاگ اِن بردہ فروشوں سے کہاں کے بھائی
بیچ ہی ڈالیں جو یوسف سا برادر ہوئے
پس سالک کے لیے سفر اس اصول سے قرار پایا ہے کہ کہیں وطن اور عزیزانِ وطن کی محبت کا شجر اس قدر نہ پھیلے کہ محبوبِ حقیقی کی محبت کا تخم جس کے سایہ میں دب کر رہ جائے۔ ایسے ہی مقام پر قول “السفر وسیلة الظفر” درست آتا ہے، وگرنہ سفر کے مصائب مخفی نہیں ہیں۔ مسافرانِ دنیا دار سے پوچھ لیجیے، انھیں لوگوں کے واسطے حضرت نے ارشاد فرمایا ہے: السفر قطعة من السقر۔ اور اہلِ سلوک کے ہاں فائدہ سفر کا یہ ہے کہ نفس مودب ہو جاتا ہے، اخلاق پاکیزہ ہو جاتے ہیں، آدابِ حاضری خدمتِ فقرا و صحبتِ امرا آجاتے ہیں، نشۂ غرور و نخوت سر سے نکل جاتا ہے، مسافرت میں اِدھر سے ادھر مارے پھرتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں۔ وطن میں جو پہچاننے والے لوگ فی الجملہ عزت کرتے تھے اور اس نے ایک سرمایۂ پندار دماغ میں جمع کر رکھا تھا، مسافرت میں اس کا تزکیہ ہوجاتا ہے۔ وطن میں امرا قدم چومتے تھے، غربت میں سالک کو امرا کے خدام کے پاؤں چومنے کی نوبت آ جاتی ہے۔ پاک اور بڑی عظمت و شان والا وہ اللہ ہے کہ جس نے اپنے کسی بندے کا دل ایسے پاک خیالوں سے بھر دیا ہے ؎
اُفتادگی برآورد از خاک دانہ را
گردن کشی بخاک نشاند نشانہ را
آدمی وہ ہی ہے جو خاکسار ہے، کیونکہ یہ اپنی اصل کی طرف پھرتا ہے اور ہر آدمی کا جوہر ذاتی یہ ہے کہ اپنی اصالت کو نہ بھولے۔ مثل: اے ایاز! قدر خود بشناس۔ اور یہ باتیں آدمی کو سفر ہی کے تجربے سکھاتے ہیں۔ الغرض سفر کی برکتیں بے شمار ہیں جن کا اندازہ مشکل ہی سے ہو سکتا ہے۔ یورپ میں اگر پاک اور حلال کھانا ملتا تو واقعی وہ خطہ سیر کے قابل ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی وجہ سے مسافرت کے قابل نہ ہو تو وہ اپنی ذات ہی میں سفر کیا کرے اور گھر بیٹھے آیاتِ قدرت کا تماشا کرتا رہے۔ لمولفہ ؎
ہمارے جسم میں ہے ایک عالم اور ہم غافل
جانے نہ پائے شاہدِ معنیٰ کی جستجو
نہیں معلوم اس میں کر رہی ہے کام قدرت کیا
اکبرؔ نفس کی طرح وطن میں سفر رہے
اگرچہ میں نے اس بلدۂ متبرکہ کی چند بار زیارت کی ہے مگر ہر بار اس کی سیر نے نیا ہی لطف دکھایا ہے۔ اور نیا لطف کیوں نہ آئے، دہلی بائیس خواجہ کی چوکھٹ ہے، یہ اولیاء اللہ کا آستانہ، یہ علما کا مدرسہ، یہ شعرا کا مشعرہ، یہ بادشاہوں کا دار السلطنت، یہ حکما کا مطب، یہ تجارت کی منڈی، یہ اہل صنعت کی کارگاہ۔ بمبئی اور کلکتہ کو یہ جمعیت کہاں نصیب، کلکتہ آدمیوں کا جنگل ضرور ہے مگر سب عاریتی یعنی پردیسی اور اس پر بھی اس تراش خراش کے انسان اسے کہاں نصیب۔ بمبئی بہت وسیع شہر ہے، آٹھ آٹھ اور نو نو منزل کی عمارتیں ہیں مگر ایسی جیسے کبوتر کی کابکیں اور آدمی کل جنگلی۔ دہلی کی قطع کے وسیع و فراخ مکانات بمبئی کو خواب میں بھی نظر نہ آئے ہوں گے۔ ہاے دہلی، واے دہلی! لیکن حق تو یہ ہے کہ اس کے بگڑے زمین بھی لطف ہے ؎
نہ کچھ پیری چلی بادِ صبا کی
بگڑنے میں بھی زلف اس کی بنا کی
میں نے دہلی کا ایک شہر آشوب لکھا ہے، اُس کا اس مقام پر درج کرنا خالی از لطف نہ ہوگا۔