اسے کس قدر فخر تھا اپنے زہد و اتقا پر۔ کتنا ناز کرتا تھا اپنی تقدیس و طہارت پر۔ سمجھتا تھا کہ دنیا سے منہ موڑ کر جنگل میں آ جانے سے اس نے نفس پر فتح حاصل کر لی ہے۔ وہ خوش تھا کہ دنیا کی معصیت سے بچ نکلا ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ میں نے سرابِ زندگی کو بے نقاب کر کے ان حقیقتوں کو معلوم کر لیا ہے جو خوب و زِشت میں امتیاز پیدا کرتی ہیں۔ اسے یقین تھا کہ اب میں نسوانی فطرت کی کی سحرکاریوں، حسن و جمال کی فتنہ سامانیوں، عشق و محبت کی کرشمہ سازیوں اور ان سب سے زیادہ شباب کے بوجھ سے دبے ہوئے ایک پیکرِ مخمور کی تقویٰ شکن انگڑائیوں کی دسترس سے کوسوں دور ایک ایسی معصوم فضا میں پہنچ گیا ہوں جہاں صرف الوہیت رقص کرتی ہے تقدس کی لَے پر، جہاں مخلوقِ سماوی کے نغمے بیدار ہوتے ہیں تاروں کی جھلملاتی آغوش میں۔
وہ راہب تھا ایک تارک الدنیا راہب۔
نمودِ سحر سے وہ چڑیوں کے دلفریب چہچہوں، آب رواں کی رقیق راگنیوں اور بادِ صبا کے نرم جھونکوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر اس برگذیدہ ہستی کی حمد و ثنا میں محو ہو جاتا جس نے، خود اس کے اعتقاد کے مطابق، اسے صرف اسی مقصد کے لیے تخلیق کیا تھا۔ وہ گھنٹوں سجدۂ شکر میں پڑا رہتا۔ مالا جپتے جپتے دھوپ ڈھل جاتی اور رات کی تاریکیاں حسب معمول کائنات کے ذروں پر پھیل جاتیں۔ خودرو درختوں کے بد ذائقہ پھل اور بہتے ہوئے دریا کا کثیف پانی ہی اس کے کام و دہن کی لذت کے لیے کافی تھا۔
ایک روز حسبِ معمول وہ ساحل کے قریب بیٹھا عبادت میں مشغول تھا کہ اسے لہروں کے شگافوں میں ایک زرنگار سفینہ نمودار ہوتا دکھائی دیا۔ وہ اس کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کی نظریں جم گئیں اور جم کر اس مرکز پر قائم ہو گئیں جو نسوانی رعنائیوں کا حامل تھا۔ دریا کی ہر موج کے ساتھ سفینہ قریب آتا گیا۔ یہاں تک کہ ساحل کے پاس آ کر ٹہر گیا۔
اس کے اعضا پر لباس یا تو تھا ہی نہیں اور اگر تھا تو محض براے نام۔ اس قدر باریک اور ایسے رنگ کا جو اعضا کی لحمیت سے وصل ہو کر جلد میں مدغم ہو جاتا ہے اور اسی کا ایک جز معلوم ہونے لگتا ہے۔
سفینہ کے ٹہر جانے پر اس نے ایک رباب اٹھا لیا۔ نازک انگلیوں میں جنبش ہوئی اور فضا میں تاروں کی جھنکار سے ایک مترنم تموّج کا تلاطم برپا ہونے لگا۔ پھر لبوں کی شگفتگی سے ان نغموں کو سنا دیا جو اس وقت تک رباب کے تاروں سے بھی بیدار نہ ہو سکے تھے۔ راگ کے زیر و بم کے ساتھ شباب و رعنائی کے حامل سینۂ عریاں میں بھی ایسا نشیب و فراز پیدا ہوتا گویا وہ خود ایک زندہ ساز ہے جو آرزومند ہے صرف ایک مضراب کا۔ گاتے گاتے اسی پر ایک محویت طاری ہونے لگی۔ اور در حقیقت اس وقت موسیقی کا یہی اعجاز ہونا چاہیے تھا کہ خود مغنیہ وجد میں آ جاتی۔
راہب نے سب کچھ سنا اور سنتے سنتے اسے اپنے جسم میں وہ تھرتھری محسوس ہونے لگی جو خون میں سرعت رفتار پیدا ہو جانے کے بعد نمایاں ہوتی ہے۔
اسے یقین ہو چلا کہ اگر ماحول بدستور رہا تو آج عمر دراز کا تمام زہد و اتقا اس حسینہ کے قدموں میں ڈال دینا پڑے گا۔ اس لیے پوری احتیاط کے ساتھ وہ اس طرح پنبہ بگوش ہو گیا کہ بیرونی صدا تو درکنار اس کے قلب کی دھڑکن بھی اس کی سماعت پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ لیکن اس کی آنکھیں، وہ غیر ارادی طور ہر اسی مرکز پر جمی رہیں۔
نغموں کو دوبارہ آسودۂ خواب کر کے وہ ساحل پر اس طرح اتر آئی گویا برق کی ایک لہر ہے جس کا اضطراب متشکل ہو گیا ہے۔ وہ رقص کے انداز میں کمر کے اندر بل ڈال کر اس طرح کھڑی ہو گئی گویا کالی ناگنوں کو لہرانے کی تعلیم دے رہی ہے۔ پھر ہاتھوں کو شانوں کے متوازی کر کے ساعدِ سیمیں میں خفیف حرکت شروع کر دی اور اس کے ساتھ ہی بائیں ٹانگ میں تھوڑا سا خم ڈال کر پاؤں کی انگلیوں سے کسی ناشنیدہ نغمے کے سروں پر تال دینے لگی۔ اس طرح کہ کائنات کے ذروں سے ہم آہنگ ہو کر بدن کا ہر رونگٹا گنگنانے لگا۔ بکھرے ہوئے بال اور منتشر ہو گئے۔ ابھرے ہوئے میناے شباب کو کچھ اور سرفرازی نصیب ہوئی۔ آنکھیں تھرکنے لگیں، بھویں مٹکنے لگیں اور بحیثیت مجموعی اس کے تمام جسم پر وہ کیفیت طاری ہو گئی جو طوفانی سمندر میں موجوں کے ہچکولوں پہ ڈگمگاتی ہوئی کشتی پر ہوتی ہے۔ پھر وہ رقصِ طاؤس کے انداز میں پشت کی جانب جھکی اور اتنی جھکی کہ سر زمین سے آ لگا۔
اس وقت اس کے جسم کا وہ مخصوص حصہ مکمل عریانی کے عالم میں راہب کی آنکھوں کے سامنے تھا جس کے معکوس ساغروں میں خون بھی شراب معلوم ہونے لگتا ہے۔
راہب کو اندیشہ ہوا کہ مبادا تابِ ضبط نہ رہے اس لیے اس نے منہ موڑ کر آنکھیں بھی بند کر لیں لیکن دل و دماغ کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔ کیونکہ پیشانی پر پڑنے والے بلوں اور اندازِ نشست سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ منتظر ہے یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اب عورت کے پاس وہ کون سا حربہ باقی ہے جس کے ذریعے اس کی اہرمنی قوتیں بروے کار آ سکتی ہیں۔
کچھ دیر سکوت طاری رہا۔
حسینہ کشتی کے قریب جا کر کھڑی ہو گئی۔ راہب نے ڈرتے ڈرتے آہستہ آہستہ آنکھیں اس طرح کھولنی شروع کیں گویا نسیمِ صبح کے لطیف جھونکوں اور قطرہ ہاے شبنم کی صباحت سے دو غنچے بتدریج شگفتہ ہو رہے ہیں۔
یہ دیکھ کر کہ وہ کشتی میں بیٹھ کر چلے جانے کا ارادہ کر رہی ہے، وہ دل ہی دل میں خوش ہوا کہ شیطانی وسوسوں سے نجات مل گئی۔ لیکن عین اس وقت جب کہ وہ سُکّان کو پکڑ کر اندر بیٹھ جانے کی آمادگی ظاہر کر رہی تھی، اس نے ارادتاً اپنا توازن بگاڑ دیا اور پانی میں جا پڑی۔ اپنے ہاتھوں کی بے قاعدہ جنبشوں اور ہر ابھار کے ساتھ ہلکی چیخ سے اس نے راہب کو محسوس کرا دیا کہ وہ تیرنا نہیں جانتی۔
راہب نے کچھ دیر اس کو بغور دیکھا لیکن پھر یقین ہو گیا کہ ایک انسانی ہستی خطرہ میں ہے۔ اس لیے فوراً اپنی جگہ سے اٹھا اور بے تحاشا دریا میں کود پڑا۔ چند لمحے بعد حسینہ بے ہوشی کے عالم میں اس کی آغوش میں تھی اور وہ اس کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ دیکھ کر کہ اس کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں، اس کا دل ہل گیا۔
اُف! حسین آنکھیں اور اشک آلود۔
جوشِ ہمدردی میں اس نے حسینہ کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور خاکستری لبوں سے اس کے پپوٹوں پر گرم بوسے ثبت کر کے آنسوؤں کو خشک کر دینا چاہا۔ اس نے آنکھیں کھول دیں اور اپنی اس کامیابی پر مسکرانے لگی۔
اپنی جان کو مصیبت میں پھنسا کر اور اشکوں کے تقاطر سے فریب دے کر دوسروں کی ہمدردی حاصل کر لینا صنفِ نازک کا وہ آخری اور کامیاب حربہ ہے جس کے مقابلے میں تیر و تفنگ کی بھی کچھ حقیقت نہیں۔
نمودِ سحر سے قبل اس خوابِ بیداری کا طلسم ٹوٹ چکا تھا۔ مناظرِ قدرت کی کیفیات بدستور تھیں۔ لیکن خلافِ معمول دیکھا گیا کہ راہب جنگل کے گوشۂ اعتکاف کو چھوڑ کر شہر کے ہنگاموں کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت اس پر روشن ہو چکی تھی کہ صنفِ نازک سے منہ موڑ کر تارک الدنیا ہو جانا ایک ایسا تقدس ہے جو اپنی مذموم نوعیت کے لحاظ سے ایک زبردست معصیت ہے۔