رالفو مصری بازی گر کا نام ہر شخص کی زبان پر تھا۔ تمام شہر میں اس کے کمالات کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ضعیف الاعتقاد لوگ تو اس کے بعض کرتبوں کو معجزات سے تعبیر کرنے لگے تھے۔ عقل میں نہ آنے والی باتیں ہمیشہ تحیر خیز ثابت ہوتی ہیں اور یقیناً کمال اسی چیز کا نام ہے کہ ایک مرتبہ اصحاب عقل و دانش بھی اپنے دل سے یہ سوال کرنے کے لیے مجبور ہو جائیں کہ “ایسا ہونا ممکن ہے؟” بعض نقادوں کی راے تھی کہ وہ علمِ تنویم کا ماہر ہے اور محض اپنی قوتِ مقناطیسی سے کام لے کر ناظرین کے احساسات کو عارضی طور پر مسحور کر دیتا ہے، اس طرح کہ ہر شخص کو وہی چیز نظر آتی ہے اور وہی آواز سنائی دیتی ہے جس کا تصور وہ خود اپنے ذہن میں کر لے۔ بہرحال حقیقت کچھ بھی ہو مگر یہ واقعہ ہے کہ گذشتہ ہفتہ کی رات مَیں اور کرشن بھی دم بخود رہ گئے۔
ہم دونوں دوست جب تماشا گاہ میں داخل ہوئے تو اسٹیج کے سامنے رنگین پردہ آویزاں تھا کیونکہ وقتِ معیّنہ میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔ تمام نشستیں بھر چکی تھیں اور کہیں تل رکھنے کو جگہ باقی نہ تھی۔ پھر بھی شائقین کا سلسلہ کسی طرح ختم نہ ہوتا تھا۔ ٹھیک ساڑھے نو بجے موسیقی کی ایک دلنواز لے کے ساتھ پردہ اٹھا۔ بوڑھا رالفو اپنے مخصوص لباس میں نقرئی اور طلائی تمغے آویزاں کیے ہماری نظر کے سامنے تھا۔ مختصر الفاظ میں اس نے تمام ناظرین کی تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور اس رات کا لائحۂ عمل بتا کر پسِ پردہ چلا گیا۔
دوسرا پردہ اٹھا اور اس کے کمالات کی نمائش شروع ہو گئی۔ تمام کام وہ خود کرتا تھا۔ صرف دو خواتین معمولی معاونین کی حیثیت سے شریک عمل تھیں۔ ہر کھیل کے بعد ایک منٹ کے لیے پردہ گرتا اور پھر اٹھ جاتا۔ پہلا شعبدہ ختم ہونے کے بعد ہم نے راے قائم کی کہ شاید یہ اس بازی گر کا شاہکار ہے۔ مگر ہمیشہ دوسرے شعبدہ نے ہماری توقع کو بدل دیا۔
تمام فضا خاموش تھی اور ہر شخص پر ایک سکوت طاری تھا۔
تفصیل اگرچہ خالی از دلچسپی نہیں مگر دقت طلب ضرور ہے۔ تاہم آخری شعبدہ کو جو بلاشبہ شاہکار کا درجہ رکھتا ہے نظر انداز کر دینا نا ممکن ہے۔ اس شعبدہ کو “نقاب پوش نشانہ باز” کے نام سے موسوم کیا جائے تو بہتر ہے۔ اس قسم کے کھیل سینکڑوں مرتبہ مشاہدہ میں آئے مگر اس قدر مہارت کے ساتھ کبھی دیکھنے نصیب نہیں ہوئے۔ کرشن تو اس درجہ متاثر ہوا کہ انتہاے استعجاب کے باعث دیر تک اس کی زبان کو جنبش نہ ہو سکی۔
پردہ اٹھنے پر ہم نے دیکھا کہ لکڑی کا ایک قدِ آدم تختہ سیدھا کھڑا ہے اور اس کے بالکل قریب ایک خاتون دونوں ہاتھوں کو افقی حالت میں پھیلائے کھڑی مسکرا رہی ہو۔ ایک دوسری خاتون نے اسٹیج پر آ کر رالفو کی آنکھوں پر موم جامہ کی پٹیاں اس کثرت سے لپیٹ دیں کہ دکھائی دینے کا کوئی امکان نہ رہا۔ پھر اس بازی گر نے کمر میں کسی ہوئی پیٹی میں سے چھریاں نکالیں اور تختہ کی طرف رُخ کیے بغیر نشانے مارنے شروع کیے۔ ہر بار چھری ایک مخصوص جگہ لگتی اور نرم تختے میں پیوست ہو جاتی۔ حتیٰ کہ اس خاتون کا سر ان کے درمیان محصور ہو گیا۔ اس تمام دوران میں اس نے ایک دفعہ بھی تختے کی طرف اپنے چہرے کا رُخ نہیں کیا اور نہ ایک جگہ ساکن رہا بلکہ ادھر ادھر ٹہل کر چھریاں پھینکتا رہا۔ اس کے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان موم بتیوں کو روشن کر دیا جو ایستادہ خاتون کے جسم سے بالکل قریب تختے کے چاروں طرف ترتیب سے لگی ہوئی تھیں۔ بازی گر نے پستول نکالا اور بدستور اپنی شان استغنا کے ساتھ کلائی کو نصف دائرے کی شکل میں گھماتے ہوئے فائر کرنے شروع کر دیے۔ پستول کی ہر آواز کے ساتھ ایک بتی گُل ہو جاتی۔ یہاں تک کہ ایک بھی باقی نہ رہی۔
پردہ گر گیا۔
اختتام سے قبل رالفو نے دوبارہ منظرِ عام پر آ کر محض سر کی ایک خفیف جنبش سے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔
دوسرے دن کرشن نے کہا کہ تماشا ایک بار پھر دیکھا جائے اور ساتھ ہی مُصر ہوا کہ وقتِ معیّنہ سے ایک گھنٹہ قبل چل کر اس بوڑھے بازی گر سے ملاقات بھی کی جائے۔ میرا بھی دل للچایا کہ ایسے شخص سے ضرور گفتگو کرنی چاہیے۔ لہذا ہم دونوں بہت پہلے تھیٹر پہنچ گئے کیونکہ رالفو اسی جگہ ایک کوٹھی میں مقیم تھا۔
ملازم کے ہاتھ کارڈ اندر بھیجے گئے جس کے جواب میں ہم کو اندر طلب کر لیا گیا۔ ہمارے داخل ہونے پر رالفو نے کرسی پر سے اٹھ کر استقبال کیا اور کرسیاں پیش کیں۔
کرشن نے بیٹھتے ہوئے کہا:
“میں آپ کے کمالات کی خوبیوں کو شرمندۂ الفاظ کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ گذشتہ رات ہم دونوں موجود تھے اور آپ نے محسوس کر لیا ہوگا کہ ہال کی فضا کا سکوت اور حاضرین کا استعجاب کیا معنی رکھتا تھا۔ فن کی صحیح تعریف کرنا ارباب فن کا حصہ ہے، عام لوگ محض اظہارِ پسندیدگی کر سکتے ہیں۔ آپ کی شریک کار خاتون بھی ہر لحاظ سے تعریف کی مستحق ہے۔ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ کیونکہ بازی گر کو کتنی ہی مہارت ہو جائے مگر یہ امر قرین قیاس ہے کہ ہاتھ کی خفیف لغزش معمول کی زندگی کو ختم کر دے۔”
رالفو خاموش تھا اور اس کے چہرے سے حزن و ملال کے آثار ہویدا تھے۔ کرشن کی بات ختم ہونے پر اس نے کہا:
“آپ نے جس قدر تعریف و توصیف کی وہ جناب کا حسنِ ظن ہے، میں اس کا مستحق نہیں ہوں۔ بہر حال اس عزت افزائی کا شکریہ۔ اب جبکہ آپ اظہارِ ہمدردی کر رہے ہیں تو میرا جی چاہتا ہے کہ اپنے دل کی درد بھری داستان آپ کے گوش گزار کر دوں تاکہ ان آلام کا بوجھ کسی حد تک کم ہو جائے جو عرصۂ دراز سے میری روح پر مسلط ہیں۔ زندگی میں پہلی بار میرا یہ راز آپ پر منکشف ہوگا لیکن بالکل رازدارانہ طریقے پر۔ آپ سے استدعا ہے کہ اس کو اپنے ہی تک محدود رکھیں۔ آپ کو اور شاید کسی کو بھی یہ علم نہیں ہے کہ وہ خاتون جو تختے کے قریب کھڑی ہوتی ہے خود میری شریک حیات ہے اور میں یہ کھیل صرف اس کی جان لینے کی غرض سے کرتا ہوں لیکن آج تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ قصہ بہت طویل ہے، میں مختصراً عرض کروں گا۔ آج سے پانچ سال قبل میں ایک عظیم الشان سرکس کا مالک تھا، سینکڑوں کھلاڑی ملازم تھے۔ ہم شہر در شہر ملک بہ ملک اپنے کمالات دکھا کر دولت جمع کرتے پھرتے تھے۔ پانچ سال ہوئے فرانس میں ہمارا قیام تھا۔ ایک روز حسب معمول کھیل سے فارغ ہو کر تبدیل لباس کی غرض سے کمرے میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا، اُف! کس زبان سے کن الفاظ میں کہوں۔ میں نے دیکھا کہ میری بیوی ایک غیر شخص کے ساتھ ہم آغوش ہے۔ چونکہ میں یہ چاہتا تھا کہ ان کو اس امر کی خبر نہ ہو کہ میں ان کی پوشیدہ سیاہ کاری سے واقف ہو گیا ہوں، اس لیے فوراً الٹے پاؤں باہر آ گیا۔ مگر معلوم نہیں کہ کس طرح میری بیوی کو اس کا علم ہو گیا، تاہم وہ خائف نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ سے دلیر ہے اور کسی بات کو مطلق اہمیت نہیں دیتی۔ میں نے اس روز سے آج تک اس کے سامنے اس موضوع پر گفتگو نہیں کی اور نہ اپنے طرزِ عمل میں کسی قسم کی تبدیلی کی۔ البتہ ایک زبردست مگر خاموش انتقام کی تیاری شروع کر دی۔ میں نے اپنی بڑھی ہوئی شہرت کو اپنے ہاتھوں خاک میں ملا دیا۔ تمام کھلاڑیوں کو برطرف کر کے سرکس کے شیرازے کو بکھیر دیا۔ اب ہم صرف تین آدمی مَیں، میری بیوی اور ایک قابل اعتماد ملازمہ تمام کھیل پیش کرتے ہیں۔ اس سانحے سے قبل ایک جاپانی خاتون تختے کے سامنے کھڑے ہو کر اس خدمت کو انجام دیتی تھی جو اب میری بیوی کے ذمہ ہے۔ میں اس روز سے کوشش کر رہا ہوں کہ اپنی بے وفا رفیقہ کو کھیل کے دوران میں تماش بین حضرات کی نگاہ کے سامنے منظرِ عوام پر ہلاک کر کے جذبۂ انتقام کو سرد کر لوں۔ میں صدہا ذرائع سے اس کی زندگی کا خاتمہ کر سکتا ہوں مگر یہ مجھے منظور نہیں۔ صرف یہی طریقہ پسند ہے۔ تعجب ہے کہ مصمم ارادہ کر لینے کے باوجود آج تک مجھ سے یہ غلطی سرزد نہ ہو سکی۔ میں دانستہ طور پر اپنے ہاتھوں کو خلافِ اصول گھما کر چھری پھینکنے اور غیر معیّنہ اوقات میں پستول کی لبلبی دبانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر بے سود۔ کہنہ مشقی کے باعث میرے تمام اعضا لوہے کی مشین کی طرح بے خطا کام کرتے ہیں۔ میری دیرینہ مہارت اس درجۂ کمال تک پہنچ گئی ہے جب عامل سے لغزش ہونے کا امکان باقی نہیں رہتا۔ شاید آپ یقین نہ کریں گے ایک دن جان بوجھ کر میں نے اپنا ہاتھ جلا لیا۔ محض اس خیال سے کہ شاید اس کی سوزش و تکلیف سے غلطی کرنے کا موقع مل جائے۔ ایک دن سخت بخار کی حالت میں مَیں نے اپنا کھیل جاری رکھا مگر افسوس ہے کہ میں اپنے ارادے میں ہنوز کامیاب نہ ہو سکا۔ غلطی کرنا اب میرے لیے قطعی نا ممکن ہو گیا ہے۔ میری اس کمزوری کو میری بیوی خوب سمجھتی ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتی ہے کہ مجھے اپنے اعضا پر قدرت حاصل نہیں۔ آپ نے بجا ارشاد فرمایا ہے کہ ایک خطرناک ماحول میں کھڑے ہو کر مسکرانا بڑے دل و جگر کا کام ہے۔ لیکن وہ صرف آپ کے نزدیک خطرناک ہے۔ میری بیوی اس کو بچوں کا کھیل تصور کرتی ہے۔ اس کا تبسم بھی مصنوعی ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی شخص ایک ہی کیفیت کے ماتحت ایک لمحے سے زیادہ نہیں مسکرا سکتا۔ اس کے تبسم میں ایک طنز پنہاں ہے جو میرے لیے سوہانِ روح ہے۔ میں غم و الم کی زندگی بسر کر کے خود اپنی ہستی کو تباہ و برباد کر رہا ہوں۔ در آں حالیکہ اس بے وفا کا بال بھی بیکا نہیں ہوتا۔ کیا آپ دونوں میں سے کوئی صاحب ایسی تدبیر بتا سکتے ہیں جس پر عمل کرنے سے میری مہارت کو ترقیِ معکوس حاصل ہو سکے۔ میرا فن انحطاط کے تمام مدارج طے کر کے ایسے نقطے پر آ جائے جہاں سواے لغزش کے اور کچھ نہیں ہوتا۔”
“خدا آپ پر رحم کرے۔” میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ “بہتر ہے کہ آپ اس ارادے ہی کو اپنے دل سے ترک کر دیں۔ اتنی طویل مدت میں تو آتش انتقام ویسے بھی سرد پڑ جانی چاہیے تھی۔”
“بے شک!”، اس نے اعتراض کرتے ہوئے کہا۔ “یہ ایک نظریہ ہے کہ اسے سرد پڑ جانا چاہیے تھا لیکن عملی دنیا میں اگر ایسا نہ ہو تب؟”
میرے پاس اس کا جواب نہیں تھا۔
کرشن نے کچھ دیر سکوت کے بعد کہا:
“اچھا! آپ اپنی شریک حیات سے چند لمحے ملاقات کرنے کا موقع دیجیے، ممکن ہے اس کو دیکھ کر ہم کوئی مفید مطلب مشورہ دے سکیں۔”
رالفو نے کچھ ایسے انداز سے آمادگی ظاہر کی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ خود اس چیز کا آرزومند تھا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے ہمیں ایک دروازے کے قریب بلا کر کہا:
“دیکھیے! اسٹیج کے عقبی حصہ میں اس وقت بھی وہ اسی انداز سے کھڑی ہے۔ اس کا معمول ہے کہ کھیل شروع ہونے سے قبل وہ اپنے مخصوص طرزِ عمل کی مشق دہرا لیتی ہے تاکہ کھڑے ہونے میں خود اس سے غلطی نہ ہو جائے۔”
پھر اس نے اپنی بیوی سے مخاطب ہوکر کہا:
“زنوبیہ! دو شریف آدمی تم سے نیاز حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ چند لمحے کے لیے یہاں آ جاؤ۔” اس کا رخ ہماری طرف تھا۔ وہ اسی بے پناہ شان استغنا کے ساتھ اپنے نقرئی بازوؤں کو افقی حالت میں پھیلائے کھڑی مسکراتی رہی اور ایک قدم بھی آگے نہ بڑھایا۔
یکایک میرا دوست ایک قدم آگے بڑھا اور پھر فوراً ہی پیچھے ہٹ کر پُر غضب نگاہوں سے بازی گر کو گھورتے ہوئے کہنے لگا:
“تم مکار ہو۔ تم نے ایک گھنٹے تک اپنے فرضی افسانے سے ہمیں دھوکا میں رکھا۔ دیکھو! تمھاری بیوی کے دائیں پاؤں پر ایک چھوٹا سا سانپ چڑھ رہا ہے اور اسے خبر نہیں۔ علاوہ ازیں کھڑکیوں سے آنے والی ہوا کے باعث دروازوں کے پردے، چھت گیری کا کاغذ اور گلدستہ کی پتیاں وغیرہ جنبش میں ہیں۔ مگر تمھاری بیوی کا ملبوس حرکت نہیں کرتا۔ یقیناً وہ کوئی زندہ عورت نہیں ہے بلکہ مجسمۂ غیر ذی حیات ہے۔”
رالفو کے چہرے کا حزن و ملال فوراً مسرت و انبساط میں تبدیل ہو گیا۔ اس نے کہا:
“آخرکار آپ حقیقت کی تہ کو پہنچ گئے۔ اچھا! آج رات آپ دونوں اسٹیج کے ایک پوشیدہ مقام پر بیٹھ کر ہمارے کمالات دیکھیں۔ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہر چیز میں حقیقت کا شائبہ کس قدر کم ہے اور جس چیز کو آپ کمال فن سمجھتے ہیں وہ فریبِ نظر کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن آپ یہ راز کسی پر ظاہر نہ کریں ورنہ ہماری شہرت خاک میں مل جائے گی۔ میری بیوی کے متعلق آپ نے جو کچھ سنا ہے وہ محض افسانہ ہے جو میرے دماغ نے عین اسی وقت تخلیق کیا تھا۔ میں آپ کو مغالطہ میں مبتلا کر کے آپ کے استعجاب کو بڑھانا چاہتا تھا تاکہ آج رات جب آپ دوبارہ تماشا دیکھیں تو ایک دوسری نوع کے تاثرات آپ پر طاری ہو جائیں۔”