پندرہ سال کا طویل عرصہ، قید با مشقت اور وہ بھی وطنِ مالوف سے کوسوں دور، ایک غیر مہذب جزیرہ میں جہاں غم خواری کے لیے نہ دوست احباب تھے، نہ ہمدردی کے لیے عزیز و اقارب۔ پھر اس تمام دوران میں یہ حقیقت اس کے لیے سوہانِ روح بنی رہی کہ جس جرم کی پاداش میں اس کو جلا وطن کیا گیا وہ محض الزام ہے۔ وہ بالکل بے قصور تھا۔ صرف واقعات نے ایسی صورت اختیار کی کہ عدالت اس کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے مجبور ہو گئی۔ قید و بند کی طویل مدت میں اس نے بارہا ارادہ کیا کہ خودکشی کرے۔ کیونکہ ایسی بد رنگ و بے لطف زندگی سے مر جانا بہتر تھا، لیکن امید کی ایک ہلکی سی جھلک اس کو اپنے ارادوں سے باز رکھتی رہی۔ اسے یقین تھا کہ معینہ وقت گذر جانے کے بعد وہ اپنے عزیز و اقارب میں جا ملے گا۔ مسلسل غم و اندوہ نے اس کے خد و خال کو بالکل مضمحل کر دیا تھا۔ نا موافق آب و ہوا سے اس کی صحت بھی خراب ہو چکی تھی۔ بالوں کا سفید ہو جانا لازمی تھا۔ آنکھوں کی بصارت بھی کسی قدر کم ہو گئی تھی۔ دو چار دانت شکستہ ہو چکے تھے۔ کمزوری کا یہ عالم کہ قدم اٹھاتے ہوئے ٹانگیں لڑکھڑاتی تھیں۔
قید سے رہائی حاصل کرنے کے بعد وہ سیدھا اپنے وطن گیا۔ اسے گلی کوچے یاد تھے۔ اپنا مکان بھی یاد تھا۔ لیکن تلاش کرنے کی زحمت اٹھانی پڑی کیونکہ شہر کا نقشہ ہی بدل چکا تھا۔ بہت سی تبدیلیاں رونما ہو چکی تھیں۔ عمارتیں نئی شان کی تھیں۔ بازاروں کی رونق بڑھ گئی تھی۔ کسی کسی گلی کا نام بھی تبدیل ہو چکا تھا۔ تاہم وہ دریافت کرتے کرتے منزلِ مقصود پر پہنچ گیا۔ سڑک پر کھڑے ہو کر اس نے اپنے مکان پر نگاہ ڈالی۔ دیواروں کی شکستگی اور دروازوں کی بوسیدگی میں اسے سینکڑوں افسانے پنہاں نظر ائے۔ اس نے زینہ کی سیڑھیوں کو دیکھا جس پر اپنے مضبوط قدم رکھ کر وہ ہزاروں بار اترا چڑھا تھا۔ لیکن آج اوپر جاتے ہوئے اس کی ہمت نہیں پڑتی تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ اب بھی اس کی شریکِ حیات اسی چار دیواری میں زندگی کے دن پورے کرتی ہے یا نہیں۔ وہ جھجک رہا تھا کہ کہیں غیر کا گھر نہ ہو۔
وہ کھڑا سوچتا رہا۔ آواز دے تو کس کو دے۔ وطن کو خیرباد کہتے وقت اس نے اپنی آرزوؤں کا ثمرہ صرف ایک شیر خوار لڑکی کی شکل میں چھوڑا تھا۔ چند راہ گیروں سے کچھ دریافت بھی کیا مگر مطلب برآری نہ ہو سکی۔ کسی نے ٹال دیا اور کسی نے غیر تسلی بخش جواب دیا۔ مایوس ہو کر اسے کہیں اور چلا جانا چاہیے تھا مگر ایک نا معلوم کشش اسے کھینچ رہی تھی۔ آخر وہ جرات کر کے زینہ چڑھ گیا اس خیال سے کہ اگر جگہ غلط بھی ہوئی تو زیادہ سے زیادہ معافی مانگ لے گا۔ اس کی حالت قابلِ رحم تھی۔ کوئی سختی کے ساتھ اس سے باز پُرس نہ کرتا۔
اوپر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ وہ بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ ایک تو مکروہ صورت اور پھر مداخلت بے جا۔ ہر شخص کو تھوڑی دیر کے واسطے خوف زدہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس نے دیکھا ایک عورت سہم کر ایک مرد سے چمٹ گئی ہے۔ گھر میں تیسرا متنفس کوئی نہیں تھا۔ وہ زیادہ قریب پہنچ گیا اور خوب غور سے دیکھنے کے بعد پہچان لیا کہ عورت سواے کملا کے کوئی نہیں۔ لیکن وہ حیران تھا کہ اس کے خد و خال میں فرق کیوں نہیں آیا۔ وہ اسی طرح شگفتہ و شاداب اور خرم و شاد تھی۔ عہدِ شباب کی رنگینیاں ابھی تک اس کے اعضا سے نمایاں تھیں۔ برخلاف اس کے وہ خود بوڑھا ہو چکا تھا۔ اپنی بیوی کو ایک غیر شخص کے ساتھ دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ مگر انتقام لینے کی قوت اس کے اعضا سے مفقود ہو چکی تھی۔ وہ خود لڑکھڑا کر گر پڑا۔
اس کی نگاہیں عورت پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ ایک فلسفی کی طرح گذشتہ واقعاتِ زندگی پر غور کرنے لگا۔ وہ کملا کو الفت و محبت کی دیوی سمجھتا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ وہ تصنع سے کام لیتی تھی۔ عورت بہت زیادہ بے وفا ہوتی ہے۔ اور ہرجائی ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے جذبات کے سامنے مذہبی عقائد کی بھی قدر نہیں کرتی۔ اسے تعجب ہو رہا تھا کہ ہندو دھرم کی پیرو ہوتے ہوئے اس نے کس طرح گوارا کر لیا کہ ایک شخص کی ہو جانے کے بعد پھر کسی دوسرے شخص کی ہو جائے۔
دل ہی دل میں وہ اس کو برا بھلا کہتا رہا۔ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ اٹھ کر اس کے بال نوچ لے اور مارتے مارتے اس کا تمام جسم سوجا دے۔ وہ خود بھی پشیمان تھا کہ مسلسل پندرہ برس مسموم فضا میں تکالیف برداشت کرنے کے بعد رہائی حاصل کی تو ایسی جگہ کیوں آیا جہاں اس کی روح کے لیے مزید سامانِ رنج و الم موجود تھا۔
اس پر بے ہوشی طاری ہونے لگی۔
عورت نے اپنے ساتھی سے سرگوشی کرتے ہوئے کہا: “یہ کوئی بدمعاش ہے یا نشہ کی حالت میں، اسے باہر نکال دو۔”
مرد نے جواب دیا: “نہیں کچھ بیمار معلوم ہوتا ہے ہمیں سخت دل نہ بننا چاہیے۔” اور یہ کہہ کر وہ بڈھے کی طرف چلا تاکہ اسے ہوش میں لے آئے۔
کچھ دیر بعد اس نے آنکھیں کھول دیں اور غصہ کے ساتھ عورت کو گھورتے ہوئے کہا: “مجھے پہچان میں کون ہوں۔ بے وفا عورت! تو اتنی جلدی بھول گئی۔ دیکھ میں تیرا شوہر ہوں۔”
عورت نے حیرت و استعجاب میں کہا: “شوہر؟ نہیں بالکل غلط۔ میں نہیں جانتی کہ تم کون ہو۔ میں نے اس سے پہلے تم کو کبھی نہیں دیکھا۔”
بوڑھے کی آنکھوں سے آنسو بہ نکلے۔ اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا: “اچھا تو بتا اگر تو کملا نہیں ہے تو پھر کون ہے؟”
“کملا، کملا۔ نہیں نہیں میں کملا نہیں ہوں۔ لیکن تم کون ہو جلدی بتاؤ۔ کیا تم قیدی تھے؟ پندرہ برس بعد واپس آئے ہو؟”
“ہاں! پندرہ برس بعد۔ آخر کار تم نے مجھے پہچان لیا۔ اب سے پندرہ برس پہلے یہ مکان میرا تھا۔ یہاں کی ہر چیز میری ملکیت تھی۔ میرا ہر حکم یہاں ایک اٹل قانون تھا۔ میں یہاں کے در و دیوار سے مانوس ہوں۔ سامنے کے برآمدہ میں مَیں ہر صبح گیتا پڑھتا تھا اور تم قریب بیٹھ کر سنتی تھیں۔ اسی کمرے کے اندر میں نے اور تم نے پریم کا پہلا گیت گایا اور آج تم مجھ سے ناواقفیت کا اظہار کر رہی ہو۔ میری ایک چھوٹی بچی تھی، بتاؤ کملا وہ کہاں ہے؟”
اس کی آنکھوں سے آنسو بہ رہے تھے۔ وہ دوڑ کر بوڑھے سے لپٹ گئی
“پتا جی! میرے پتا جی! وہ چھوٹی بچی میں خود ہوں۔”
وہ کملا نہیں تھی۔ کملا اس کی ماں کا نام تھا جو مر چکی تھی۔ دونوں کے خد و خال میں بے حد مشابہت تھی۔ یکساں آنکھ، ناک، ہونٹ اور تمام چہرہ ایک دوسرے سے ملتا جلتا تھا۔ سرِ مو فرق نہیں تھا۔ رہا عمر کا سوال، سو بصارت کے ساتھ بوڑھے کی قوتِ امتیاز میں بھی کچھ فرق آ گیا تھا۔ کملا کو وہ شباب کے عالم میں چھوڑ گیا تھا۔ وہی صورت اس کی آنکھوں میں پھر رہی تھی۔ اس لیے اگر وہ ہر نوجوان خوبصورت عورت کو کملا کہہ اٹھتا تو کوئی تعجب کی بات نہ تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس طویل عرصہ میں بیٹی نے ماں کی جگہ لے لی ہوگی۔
آخرکار بوڑھے نے اطمینان کے ساتھ تین سسکیاں لیتے ہوئے اپنی بیٹی کی آغوش میں جان دے دی، اس بیٹی کی آغوش میں جس کو چند لمحے پیشتر خود اپنی شریکِ حیات سمجھ رہا تھا اور برہم تھا کہ وہ ایک غیر شخص کے ساتھ کیوں زندگی بسر کر رہی ہے۔ حالانکہ وہ غیر شخص نہیں، اس کا شوہر تھا۔