کسی ملک کی حیاتِ قومی کا مطالعہ کرنے کے لیے جن پہلوؤں کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے ان میں سے ادبیات کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ ادب کے ذریعے انسان کی انفرادی اور اجتماعی دونوں ذہنیتوں کی ترجمانی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ قوم لائقِ نفرین ہے جس کے ادبیات میں ہر قسم کا رطب و یابس موجود ہو۔ غائر نظر سے دیکھا جائے تو تسلیم کرنا پڑے گا کہ کم از کم عصر جدید میں خوب و زشت کی بیشتر ذمہ داری ان حاملانِ ادب پر عائد ہوتی ہے جو رسائل ادبیّہ کے مدیر یا دار التصانیف کے ناظم و ناشر ہیں۔ اعتراض ہو سکتا ہے کہ مُوردِ الزام یا لائقِ تحسین ان ہستیوں کو کیوں نہ ٹھہرایا جائے جن کی نگارش کاغذ پر کثیف یا لطیف نقوش پیدا کرتی ہے۔ یہ صرف اس حد تک درست ہے کہ ادب شخصی تخیلات، جذبات اور احساسات کا پرتو ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کی کاوش دماغی انھی حاملانِ ادب کی فرمائشات اور ذوق کی بلندی و پستی کے تابع ہوتی ہے۔
تخلیق ادب کے اس عمیق نکتہ پر غور کرنے سے پہلے اس امر کو سمجھنا ضروری ہے کہ ہر ادب میں دو عناصر پائے جاتے ہیں، پہلا اکتسابی یا ارثی کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔ یہ وہ عنصر ہے جو ایک فاتح قوم مفتوح قوم کے لیے یا ایک نسل دوسری آنے والی نسل کے لیے بطور ورثہ چھوڑ جاتی ہے۔ مثلاً یورپ میں یونان کا ادب روم کو ملا یا ہندوستان میں ایرانی اور بعد میں انگریزی ادبیات کے نقوش یہاں کے لوگوں کے دل و دماغ پر مرتسم ہو گئے۔ ایسی صورت میں اسلوب بیان کے اندر تصنع اور آورد کو زیادہ دخل ہوتا ہے اور صداقت و سادگی کا فقدان۔ جذبات کے پیکر غیر فطری لباس میں نظر آتے ہیں۔ استعارے اور تشبیہات بھی مانگے کے ہوتے ہیں۔
دوسرا عنصر وہ ہے جسے طبعی کہا جا سکتا ہے۔ یہ رنگ صرف اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب کہ ذاتی ماحول کے مطابق اور خالص انفرادی تاثرات کے بموجب اپنے جذبات کی ترجمانی دل سے کی جائے۔ اس کے ذریعے ہم کائنات کے پوشیدہ راز معلوم کر کے دوسروں کو سمجھا دیتے ہیں اور نہ مٹنے والے نقوش کی طرح ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔
اس وقت ہندوستان میں مختلف زبانوں کے بے شمار رسائل شائع ہو رہے ہیں اور ہر سال سینکڑوں کتابیں تصنیف ہوتی ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک کو بھی خالص ہندوستانی پیداوار نہیں کہا جا سکتا۔ ایک اردو ہی کو لیجیے۔ ایرانی رنگ تغزل اور انگریزی طرزِ فسانہ نویسی اس درجہ حاوی ہے کہ اگر کوئی طبع زاد چیز بھی لکھی جائے تو اسے طبع زاد ثابت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ تاہم بنگال ایک ایسا صوبہ ہے جس کو اس کلیّہ سے مستثنیٰ کیا جا سکتا ہے۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ابتدا ہی سے اس کا خزینۂ ادب اس قدر لبریز تھا کہ بیرونی بھیک کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ اور اگر کسی نے نذرانہ پیش بھی کیا تو خود دار طبیعت نے اس کی اثر آفرینی قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور اس وقت بھی جب کہ یہاں انگریزی معاشرت کے جراثیم بکثرت موجود ہیں، وہ اپنے شعار قومی اور روایاتِ ملکی پر قانع ہیں۔
علاوہ ازیں زبان کی نزاکت، اس کے فطری لوچ اور قدرتی فضاؤں کے لحاظ سے بھی بنگال خوش نصیب ہے۔ ہر شاعر اور ہر افسانہ نویس اپنے صحیح جذبات کو حقیقی رنگ میں بیان کرنا فرض اولین سمجھتا ہے۔ اسی لیے اس میں حد درجہ بے ساختہ پن پایا جاتا ہے۔ شاعری کے ضمن میں اگر کبھی محبوب کو یاد کیا گیا تو بالکل اس طرح گویا وہ سامنے موجود ہے۔ اسی طرح افسانے کے واقعات آنکھوں کے سامنے چلتی پھرتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ مرد عورت کو یاد کرکے خون کے آنسو بہاتا ہے اور عورت مرد کے فراق میں جاں بلب نظر آتی ہے۔ اردو کی طرح نہیں کہ محبوب کی ہستی کو ہر صورت میں صنف قوی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
شاعری کے لیے آلام حیات اور آرزوؤں کی پامالی بہت ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر صحیح جذبات بیدار نہیں ہوتے۔ مرد اپنے غمگین دل کی افسردگی کو سینکڑوں ذرائع سے محو کر سکتا ہے۔ یار دوستوں کی بے تکلف محفل میں اُٹھ بیٹھ کر، مختلف تفریحات میں حصہ لے کر، اقتصادی مشاغل میں منہمک رہ کر وہ ان کلفتوں کو جلد ہی بھول جاتا ہے جو اس کی روح کے لیے بارِ گراں بنتی ہیں۔ برخلاف اس کے صنفِ نازک کے لیے جس کی ہر آزادی پر بھی سینکڑوں پابندیاں عائد ہوتی ہیں، مقسوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے جذبات کو سینہ ہی میں پرورش کرے اور کبھی ان کی تسکین کا خیال بھی نہ کرے۔ چنانچہ میں سمجھتی ہوں کہ ایک عورت کے اعماقِ قلب سے نکلے ہوئے گیت یا اس کے قلم سے لکھے ہوئے ایک افسانے میں جتنی صداقت ہو سکتی ہے، مرد کے ہاں ممکن نہیں۔
اسی لیے میں نے ان سطور کو ایک خاتون کی شاعرانہ شخصیت کے لیے مخصوص کیا ہے۔
سُربالا دیوی، میرے وطنِ عزیز کی بے مثل شاعرہ، جس کا پاکیزہ کلام ہر ملک کے لیے ایک نمونۂ ادب بن سکتا ہے، اس قدر گمنامی کے پردہ میں زندگی بسر کر رہی ہے کہ خود بنگال کے بڑے بڑے ادب نواز طبقوں میں اس کا نام تک سننے میں نہیں آیا۔ جس زمانہ میں یہ شانتی نکیتن کے اندر موسیقی کی تعلیم حاصل کر رہی تھی، مجھ سے ملاقات ہوئی۔ نہایت متین و سنجیدہ، کم سخن اور آنکھوں میں ایک وحشت سی تھی۔ پہلے تو میں اس کی فطرت سمجھ ہی نہ سکی۔ خیال ہوا کہ شاید دیوانی ہے۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اسے مطالعۂ قدرت کا بے حد شوق ہے۔ بارہا میں نے دیکھا کہ موسم سرما کی بہتے ہوئے پانی کو منجمد کر دینے والی خنک راتوں میں وہ صحن چمن میں بیٹھی ماہ و انجم سے ہم کلام ہے۔ جس دن چاند پورے شباب پر ہوتا وہ اکثر قریب کے ایک چشمے کے کنارے اپنا رباب لے کر چلی جاتی اور سکوت شب کو اپنے دل نواز نغمے سنا کر بیدار کر دیتی۔ یوں دوسرے شعرا کا کلام بھی اسے یاد تھا مگر عموماً اپنی ہی غزلیں گاتی تھی۔ وہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ حقیقت نگر آنکھیں قدرت کی جمال آفرین کیفیتوں میں اس حسن کا مطالعہ کر سکتی ہیں جو ایک شاہدِ رعنا کے ظاہری خد و خال یا خود ارادی ناز و انداز میں کبھی ممکن نہیں۔
ایک رات کا منظر وہ ان الفاظ میں پیش کرتی ہے:
“میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی،
جب ٹھنڈے چشمے کی سنجیدہ روانی میں مدھم سروں کا باجا بجتا تھا۔
جب سرد ہوا کے ہلکے جھونکوں سے،
ننھی شاخوں پر سبز پتے رقص کرتے تھے۔
جب سُرمئی رنگ کی کہر کے دھندلے پردوں سے
چاند کی سنہری کرنیں چھن چھن کر آتی تھیں۔
جب بھیانک جنگل کے سکوتِ مطلق میں
وحشی درندے تھم تھم کر چلاتے تھے۔
جب خنکی و دہشت کے اس ہوش ربا عالم میں
مجھے پرمیشور آ آ کر تسکین دیتے تھے۔
میں ایسے سمے کو کبھی نہ بھولوں گی۔”
بچپن اور بچپن کی بے فکری کا زمانہ اور اس زمانے کی معصومیت مرتے دم تک یاد آتی ہے۔ اس کھوئے ہوئے عہد زریں کا نوحہ ہر شخص کی زبان سے سن لو۔ لیکن صنف نازک جس نرالے انداز میں اس کو یاد کرتی ہے، وہ اسی کا حصہ ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک بار سُربالا دیوی اپنی مندرجہ ذیل نظم کو گاتے گاتے خود رونے لگی تھی ( ترجمہ میں وہ خوبی کہاں جو اصل میں ہے):
“کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا
نہ کوئی فکر، نہ غمگین جذبات کا ہجوم
میرا دل رنج و غم کا مرکز بن جاتا ہے
جب مجھے پچھلی باتیں یاد آتی ہیں۔
گھر کے کُل دھندوں سے فارغ ہو چکنے پر
سہیلیوں کی سنگت میں میں کھیلا کرتی تھی۔
ان کی شرارت سے دل جل جاتا تھا
(لیکن) اس جلن میں لذت ہوتی تھی۔
چاندنی راتوں میں ندی کے کنارے پر
ریتلی مٹی کے محل سب مل کے بناتے تھے۔
ایک رانی بنتی، چند سکھیاں، ایک داسی
پھر راجا کے بنانے میں جھگڑا ہوتا تھا۔
ایک کہتی میں بنوں، دوسری کہتی میں بنوں
کوئی منہ پُھلا کر رہ جاتی، کوئی روٹھ کر چل دیتی
لیکن روز کا کھیل بدستور ہوتا اور سب شامل ہوتیں۔
لڑ پڑنا آپس کا، پھر مل جانا آپس میں
کیسا پیارا پیارا بچپن کا زمانہ تھا۔”
میں سمجھتی ہوں کہ اس بے مثل شاعرہ کا معصوم دل بھی ننھے کام دیو (کیوپڈ) کی کمان سے نکلے ہوئے کسی تیر سے چھلنی ہو چکا ہے۔ بسا اوقات محض چھیڑنے کی غرض سے اور کبھی کبھی سنجیدہ طور پر میں نے پوچھا بھی کہ کہیں مرضِ محبت تو تمھیں لاحق نہیں ہو گیا۔ لیکن ہر بار میرے استفسار کے جواب میں سواے مسکرا دینے کے زبان سے کوئی لفظ نہیں کہا۔ اس لیے کم از کم مجھے یقین ہے کہ اگر وہ تبسم خفی کسی روز تکلم بلیغ بن گیا تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے یہ چند اشعار اس کے ذاتی تاثرات کا نتیجہ ہیں:
“اے عشق! اے بربطِ قلب کے سب سے بلند (آہنگ) نغمے!
تو پیغامِ سروش ہے نا امید زیست کے لیے
(تجھ میں) لذتِ غیر فانی ہے بیداریِ روح کی۔
تیرا ہی ذوقِ نظر ہے دیدۂ عبرت بیں میں
تو کاشفِ فطرت ہے عقدۂ لاینحل کا۔
حسن سر بسجدہ ہے تیری بارگاہ میں
آسمانی پریاں تیرا گیت سننے کے لیے ہمہ تن گوش ہیں
ہاں گا! اور گائے جا! اے عشق نغمہ نواز!”
مختلف آلامِ حیات، ہر وقت کی وحشت و بے چینی اور مسلسل اضطراب انسان کو عارضی طور پر اہلِ دنیا سے بیزار کر دیتے ہیں اور وہ مجبوراً گوشۂ تنہائی کو پسند کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر تمناؤں کی شکست کا سلسلہ جاری رہے تو وہ دل برداشتہ ہو کر قدرت کے خلاف جنگ کرنے کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے اور لامذہبیت کے سوگوار دامن میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ سُربالا دیوی پر بھی ایک بار یہ کیفیات طاری ہوئی تھیں۔ لیکن نفسیات کے ایک دقیق پہلو کو جس سادگی کے ساتھ بیان کیا ہے وہ تعریف سے مستغنی ہے۔ صرف ایک شعر کا مفہوم یاد ہے۔ کہتی ہے:
“جب دل میں آرزوؤں کا ایک طوفان برپا تھا تو دعا مانگنے کے لیے ہاتھ اٹھ جاتے تھے۔ آرزوئیں پامال ہو چکیں اس لیے اب خدا بھی یاد نہیں آتا۔”
ایک اور شعر میں کہتی ہے:
“کبھی کبھی تمناؤں کا پامال ہو جانا بھی اشد ضروری ہے ورنہ خدا کی شان قہاری کو ثابت کرنا دشوار ہو جائے گا۔”
اس قسم کے انقلاب انگیز خیالات بنگال کے مشہور شاعر نذر الاسلام کے کلام میں بکثرت موجود ہیں اور اسی لیے ان کو بجا طور پر باغی شاعر کا خطاب دیا گیا ہے۔ کسی آئندہ فرصت میں ان کی شاعری پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گی۔
ہرچند بنگالی زبان میں الفاظ کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ ایک ہی مفہوم کو کئی کئی لفظوں سے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جذبات و احساسات کا ہیجان نا قابل بیان حد تک بڑھ جاتا ہے تو دنیا کی کسی زبان میں ان کا اظہار آسان نہیں۔ خدا جانے سُربالا دیوی پر ایک مرتبہ کس نوع کے جذبات طاری ہوئے کہ وہ ان کو الفاظ میں ظاہر کرنے سے قاصر رہ گئی۔ کہتی ہے ؎
“آج میرے سینے کے نیچے ایک نامعلوم درد پیدا ہو رہا ہے
دل میں کبھی نہ گھٹنے والا جوش زلزلہ انگیز ہے
میں کچھ کہنا چاہتی ہوں (لیکن) کہہ نہیں سکتی
آج اپنے الفاظ کی تنگ دامانی مجھ پر ظاہر ہو گئی۔
انسان مجبور محض ہے، پھر منصوبے بیکار
قدرت جو چاہتی ہے، ہو کر رہتا ہے
کاش! آج میری زبان برق گیر بن جائے۔
اس میں صاعقہ ریزی کی قوت پیدا ہو،
میرے دہنِ قلم سے آتش باری ہونے لگے
اپنے مشتعل جذبات کو تحریر میں مقیّد کر دوں
لیکن خوب سمجھتی ہوں یہ کبھی نہیں ہوگا۔
دل کی ٹیسیں رہ رہ کر بڑھتی جاتی ہیں
اج رو کر آنسو بہانے سے بھی قاصر ہوں
آہ! آنکھوں کے چشمے! تیری تنک ظرفی
نغماتِ موت کے بول تک یاد نہیں آتے
اظہار کی ساری قوتیں کس نے سلب کر دیں؟
لیکن نہیں میں خاموش رہوں گی۔ بالکل خاموش
میرا سکوتِ مطلق ہی شرحِ بسیط بن جائے گا۔”
واہ! سکوتِ مطلق کو شرح بسیط لکھنا کتنا بلند اور فلسفیانہ تخیل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شاعر جسے بجا طور پر لسان الغیب کا خطاب دیا گیا ہے، ان رموز کی عقدہ کشائی کر لیتا ہے جو عام انسانوں کی فہم و ادراک سے دور ہوں۔ اس موقع پر مجھے ایک اردو شعر یاد آ گیا (شاعر کا نام یاد نہیں) ؎
اسے صیاد نے کچھ، گُل نے کچھ، بلبل نے کچھ سمجھا
چمن میں کتنی معنی خیز تھی ایک خامشی میری
سُربالا دیوی نہایت اعلیٰ خاندان کی شریف النسب خاتون ہے۔ اس کے والد نون چندر چٹر جی جن کو کلکتہ یونیورسٹی نے ڈی، او، ایل کی اعزازی ڈگری دی تھی فارسی زبان کے بہت بڑے عالم تھے۔ حتیٰ کہ اس زبان میں اپنا کچھ کلام بھی چھوڑا ہے۔ اس لیے وراثتاً باپ کا ذوق بیٹی کو ملا اور وہ بھی فارسی زبان کی لطافت اور شیرینی سے محروم نہ رہی۔ عمر خیام کا کلام اسے خاص طور پر پسند ہے اور خافظ کے بعض اشعار بھی ازبر تھے۔
ایک مرتبہ میں نے اس کو نہایت پریشان حالت میں دیکھا۔ سر کے بال الجھے ہوئے، چہرہ خاک آلود، پھٹے پرانے کپڑے، ایک راہبہ کی صورت بنائے دریا کے کنارے بیٹھی بنسی بجا رہی تھی۔ جب میں قریب پہنچی تو اس پر ایک وجد طاری تھا۔ اس لیے کچھ دیر ایک طرف خاموش کھڑی رہی۔ لیکن دلی عقیدت کے باعث زیادہ عرصہ تک تاب نہ ہو سکی اور وفورِ جوش میں اس سے لپٹ گئی۔ اس کے لبوں میں ارتعاش تھا اور آنکھیں اس قدر سرخ تھیں گویا شراب پی رکھی ہے۔ میں نے اس کے حسب و نسب کا ذکر کر کے اس کو متوجہ کیا کہ اس زدہ حالت میں رہنا زیبا نہیں۔ اس نے فوراً کوئی جواب نہیں دیا بلکہ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔ کچھ دیر بعد بولی:
“میں یہ سب کچھ جانتی ہوں کہ ؎
صوفی صومعہ عالم قدسم لیکن
حالیا دیر مغان است حوالتگاهم”
اس کی عمر تقریباً 23 سال ہے۔ ابھی تک اس نے شادی نہیں کی لیکن نہایت تقدس کی زندگی بسر کر رہی ہے اور کسی کو آج تک یہ معلوم نہ ہو سکا کہ اس کی بے خودی کا اصل سبب کیا ہے۔ اس کا کلام بہت زیادہ نہیں ہے لیکن جو کچھ بھی ہے عمدہ اور قابلِ وقعت ہے۔ میں کوشش کروں گی کہ کسی طرح اسے حاصل کر کے کتابی صورت میں مجتمع کر دیا جائے اور اگر ممکن ہو سکے تو دوسری زبانوں میں بھی منتقل کر دیا جائے۔