(1)
جس طرح زرگر کو پیتل کے زیور پر ملمع کرنے کے لیے خالص سونا بھی درکار ہوتا ہے اسی طرح ایک دروغ گو کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جھوٹ کو نبھانے کے لیے انتہائی صداقت سے کام لے۔ اگر یہ صورت نہ ہو تو جھوٹ میں کوئی ندرت پیدا نہیں ہوتی۔ قوتِ بیان کا اعجازِ کمال یہ ہونا چاہیے کہ جھوٹی بات کو بھی سننے والے سچ اور صداقت سے لبریز تسلیم کر لیں۔ خواہ یہ اثر ہنگامی ہو اور بعد میں قدرت کے زبردست جھوٹ یعنی سراب کی طرح اصل حقیقت منکشف ہی کیوں نہ ہو جائے۔ عام طور پر اس فن لطیف کو مذموم سمجھا جاتا ہے اور دروغ گو کے لیے نہ صرف مذہب و ملّت کی طرف سے سزا مقرر ہے بلکہ سوسائٹی بھی اسے مطعون کرتی ہے حالانکہ روزمرہ کی زندگی میں اور زندگی کے ہر شغل میں ہم اس کا ارتکاب کرتے ہیں اور محسوس نہیں کرتے کہ غیر ارادی طور پر ہم ایک جرم کے مرتکب ہو گئے۔
اسلاف کو اور ان کے کارناموں کو بہتر بتانا اور مقابلتاً اپنے اپ کو حقیر و کم مایہ سمجھنا کیا درحقیقت اعماقِ قلب سے نکلی ہوئی ایک آواز ہوتی ہے یا محض لبوں کی جنبش ان الفاظ کو ادا کرتی ہے؟ کسی کی جھوٹ بات سن کر اخلاقاً اعتراض نہ کرنا بلکہ سکوت سے کام لینا کیا ایک خاموش جھوٹ نہیں ہے؟ اور کیا صداقت اسی کا نام ہے کہ مرگِ دشمن کی خبر سن کر محض اس لیے اظہارِ افسوس کیا جائے کہ اب وہ مر گیا ہے یا بادشاہِ وقت کی قصیدہ خوانی کی جائے صرف اس خوف سے کہ اس کا عتاب نازل نہ ہونے لگے۔
ایران کے دوران قیام کا ذکر ہے کہ مجھے اہلِ تشیع کی ایک مجلس میں شریک ہونے کا موقع ملا اور وہاں شامل ہونے سے قبل مجھے بتایا گیا کہ سوز خوانی کے وقت خوب رونا چاہیے۔ اگر گریہ و زاری ممکن نہ ہو تو کم از کم رونی صورت بنا لینی چاہیے۔ اگر آنسو نہ نکل سکیں تو منہ پر رومال رکھ کر ایسی آواز نکالی جائے جو آہ و بکا کے وقت ممکن ہے۔ مجھے بے اختیار ہنسی آ گئی اور زندگی میں پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ مذہب یا بالفاظ دیگر مفتیانِ مذہب ہمیں جھوٹ بولنا بھی سکھاتے ہیں۔ اور جب بہ نظر غائر مطالعہ کیا تو مجھے تسلیم کرنا پڑا کہ ہر مذہب کی سینکڑوں باتیں مجموعۂ کذب و بطل ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی خیال آیا کہ اگر کسی بے سر و پا قصّے کو ایسے رنگ میں پیش کیا جائے جس سے قارئین کی توجہ کسی مذہبی واقعہ کی طرف مبذول ہو جائے تو بلاشبہ وہ بے بنیاد قصہ بیک جنبشِ قلم صداقت سے لبریز ایک حقیقت بن جائے گا۔
اس خیال کے پیدا ہوتے ہی مجھے ایک فرانسیسی افسانہ یاد آ گیا جو پیرس کے ایک ظریف اخبار میں شائع ہوا تھا۔ میں نے قند مکرّر کے طور پر دوبارہ اس کا مطالعہ کیا۔
(2)
“موسم بہار کی ایک خوشگوار شام تھی اور ہمارا جہاز سمندر کی پُرسکون لہروں پر آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ میں اپنی شریکِ حیات کے ساتھ عرشۂ جہاز پر کھڑا اس بحرِ ناپیدا کنار کا نظارہ کر رہا تھا۔ مسرت و شادمانی سے ہمارے چہرے نو شگفتہ پھول کی طرح پُر رونق تھے۔ خاص طور پر مجھے یہ خوشی تھی کہ ایک طویل سفر کے بعد اپنے وطن مالوف کی طرف مراجعت عمل میں آرہی تھی۔ میرا تخیل ہوا کے تیز جھونکوں سے زیادہ سریع الرفتار تھا مگر افسوس ان لمحاتِ مسرت کے عین دوران میں اچانک روزا کے سینہ میں درد اٹھا۔ اس قدر خوفناک درد کہ جہاز کے کپتان سے لے کر معمولی ملاح تک سب پریشان ہو گئے۔ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا لیکن مطلق سمجھ میں نہ آیا کہ درد کا سبب کیا ہے۔ تکلیف بڑھتی گئی اور میری یہ کیفیت تھی کہ اس کی ہر آہ کے ساتھ سینہ پر ایک کاری ضرب لگتی اور میں دل مسوس کر رہ جاتا لیکن اس سے کیا ہو سکتا تھا۔ روزا کے درد میں کمی نہ ہوئی۔ میں زار و قطار رونے لگا مگر قدرت کی ظالم دیوی کو بالکل ترس نہ آیا۔ نصف شب کے قریب اس کا اضطراب سکون پذیر ہوا لیکن تندرستی کی صورت میں نہیں بلکہ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا تو معلوم ہوا کہ قلب کی حرکت بند ہو گئی ہے اور اس کا جسدِ خاکی ایک محروم روح نعش کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مجھ پر گویا بجلی گر پڑی۔ میرے لیے دنیا اندھیری تھی۔ وطن سے کوسوں دور پانی کی موجوں پر بہتے ہوئے جہاز میں عرصۂ دراز کی شریکِ حیات کا یکایک مر جانا جس قدر اندوہ ناک ہو سکتا ہے، اس کے اظہار کی ضرورت نہیں۔
جہاز کے آئین کی رُو سے کپتان نے حکم دیا کہ بہت جلد متوفّیہ کی تجہیز و تکفین کر دی جائے تاکہ اصول کے مطابق نعش سمندر میں پھینک دی جائے۔ زیادہ عرصہ اس کو جہاز میں رکھنا خلافِ قاعدہ ہے۔ ہر چند میں نے استدعا کی کہ بندرگاہ پہنچنے تک کی مہلت دے دی جائے تاکہ میں اپنی شریکِ حیات کو زمین میں دفن کر کے ایک یادگار قائم کر سکوں۔ لیکن کپتان نے میری بات نہ مانی اور اسی پر مصر رہا کہ نعش پانی میں ڈال دی جائے۔ مجبوراً با دلِ نخواستہ میں نے نعش کو اس کے بہترین لباس میں لپیٹ کر ایک اونی کمبل میں باندھ دیا۔ دستور کے مطابق کچھ وزنی پتھر بھی ساتھ رکھ دیے تاکہ نعش جلدی ڈوب جائے لیکن جب لوگ اسے پانی میں ڈالنے لگے تو ضبط و تحمّل کی باگ میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی اور میں نے تہیہ کر لیا کہ اس کے بعد زندہ رہنا فضول ہے۔ موت کا سبب یکساں نہ سہی۔ تاہم مٹی دونوں کی ایک ہی طرح ٹھکانے لگ جائے تو بہتر ہے۔ اس لیے فوراً چھلانگ مار کر نعش ہی کے ساتھ میں خود بھی پانی کی موجوں پر جا گرا۔ وزن زیادہ ہونے کے باعث وہ بڑی سرعت سے تہ میں بیٹھتی جا رہی تھی۔ اس لیے میں نے زبردست تعاقب سے کام لیا اور اسے پکڑنے کی کوشش برابر جاری رکھی۔ اچانک میرا سر کسی شے سے ٹکرایا اور میں نے محسوس کیا کہ کسی محدود جگہ میں گھر گیا ہوں بلکہ مقید ہوں کیونکہ اب میں پانی کی موجوں کی بجاے ایک ایسے مقام پر تھا جہاں معمولی نمی تھی۔ ورنہ زیادہ تر نشیب و فراز کی سی بنجر زمین معلوم ہوتی تھی۔ سخت اندھیرا تھا کوئی چیز نظر نہ آتی تھی، سانس بھی کسی قدر گُھٹ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد میں نے ہمت سے کام لیا اور ادھر اُدھر ہاتھ بڑھا کر ٹٹولنا شروع کیا یہ معلوم کرنے کے لیے کہ وہ جگہ کس قسم کی ہے کہ اچانک میں نے اسی کمبل کو محسوس کیا جس میں روزا کی نعش لپیٹی گئی تھی۔ مجھے ایک گونہ اطمینان ہو گیا کہ خیر اس کے قریب ہوں۔ انجام جو ہو سو ہو۔
میں اس کے پاس بیٹھ کر خود اپنی موت کا انتظار کر رہا تھا کہ یکایک روشنی کی ایک شعاع ایک سمت سے نمودار ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کچھ شور سنائی دیا۔ اس وقت بچشمِ خود میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی مچھلی کے پیٹ میں ہوں۔ اس وقت مجھے آسمانی جھلک بھی نظر آئی جس سے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ مچھلی سانس لینے کے لیے سطح پر آئی ہے۔ کچھ دیر بعد پھر اندھیرا ہو گیا۔ وہی اندھیرا اور میں افسردہ و غمگین اپنی شریک حیات کی نعش سے لپٹ کر رونے لگا۔
مجھے محسوس ہوا کہ اس مردہ جسم میں خفیف سی حرکت ہو رہی ہے۔ پہلے گمان ہوا کہ یہ اپنے واہمہ کا کرشمہ ہے۔ لیکن جب وہ جنبش بڑھتی گئی تو مجھے یقین ہونے لگا کہ روزا مری نہیں تھی بلکہ صرف سکتہ ہو گیا تھا اور اب وہ دوبارہ ہوش میں آ رہی ہے۔ میرا یقین واثق ہو گیا جب ایک نحیف آواز “میں کہاں ہوں؟” مجھے سنائی دی۔ میں نے کہا “روزا تم میرے قریب ہو، ڈرو مت۔”
اس سے قبل میں مر جانا چاہتا تھا لیکن اب زندہ رہنے کی تمنا پیدا ہونے لگی۔ لیکن کوئی تدبیر سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ سوچتے سوچتے خیال آیا کہ میری جیب میں ایک چاقو ہے، اس سے کام لینا چاہیے۔ فوراً اسے نکالا اور سب سے پہلے اس رسی کو کاٹا جس نے روزا کو جھٹک رکھا تھا۔ وہ بالکل آزاد ہو گئی اور زندہ بھی۔ میں نے جوشِ محبت میں اس کو سینہ سے لگا لیا اور اس کے لبوں کو جن میں دورانِ خون کے شروع ہو جانے سے حرارت پیدا ہو چلی تھی۔ بے تابی کے ساتھ چومنے لگا۔ تاہم میں نے اس کو یہ نہیں بتایا کہ ہم ایک خطرناک قید خانہ میں بند ہیں۔
معمولی چاقو سے مچھلی کے جسم کو چیر کر باہر نکل آنا غیر ممکن سی بات تھی۔ کیونکہ ظاہر تھا کہ اس کا گوشت نہایت فربہ اور کھال دبیز ہوگی۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ اس کے دل کو زخمی کر کے اسے ہلاک کر دیا جائے اور پھر باہر نکلنے کی تدبیر کی جائے۔ لیکن دل کہاں اور کس جگہ ہے؟ یہ معلوم کرنا مشکل تھا۔ کیونکہ اس قدر وسیع اور تاریک جگہ میں یہ پتہ نہ لگ سکا کہ بایاں پہلو کون سا ہے۔ لہذا میں نے محض اندازہ سے کام لے کر تلوار کے سے ہاتھ چلانے شروع کر دیے اس خیال سے کہ کوئی نہ کوئی ضرب تو کاری لگ ہی جائے گی۔ میرا کوئی وار خالی نہیں گیا۔ مگر پھر بھی بے سود۔ میرے قویٰ مضمحل ہو گئے۔ پسینے کے باعث برا حال تھا۔ علاوہ ازیں اس محدود فضا میں ایک قسم کا تعفن بھی پیدا ہو چلا تھا۔ جس سے دم گھٹنے لگا۔ لیکن زندہ رہنے کی تمنا کسی تکلیف سے پامال نہیں ہو سکتی تھی۔ انسان آخری سانس تک جد و جہد کرتا رہتا ہے۔ چنانچہ میری کوششیں کامیاب رہیں اور مچھلی کچھ تڑپنے کے بعد بالکل مردہ ہو گئی۔
اس کے بعد کیا ہوا؟ کچھ علم نہیں۔ البتہ جب ہوش آیا تو میں ساحل پر تھا۔ کیونکہ ماہی گیروں نے ایک بڑی مردہ مچھلی کو سطح پر تیرتے ہوئے دیکھا تو اسے خشکی پر کھینچ لائے اور چربی وغیرہ نکالنے کے لیے جب پیٹ چاک کیا تو ہم برآمد ہو گئے۔ روزا بھی زندہ سلامت رہی۔”
(3)
افسانے کو دوبارہ پڑھ لینے کے بعد میں نے غور کیا کہ طرزِ بیان اگرچہ دلکش ہے مگر صداقت کا فقدان صاف ظاہر تھا۔ کوئی شخص یقین نہ کرتا کہ یہ واقعہ ہو سکتا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ ایک معمولی سی ترمیم سے اس مردہ ڈھانچ میں جان پڑ سکتی ہے۔ لہذا اس کا ترجمہ فارسی زبان میں کرنے کے بعد اختتام سے قبل ان الفاظ کا اضافہ کر دیا:
“مچھلی کے پیٹ میں رہ کر دوبارہ زندہ نکل آنے کے باعث لوگ مجھ کو یونس ثانی کہنے لگے۔”
نتیجہ ظاہر ہے کہ اس آخری جملے کا مطالعہ کر کے قارئین کو حضرت یونسؑ کا قصہ یاد آ جاتا اور وہ اسی فرضی افسانے کو حقیقت سمجھنے لگتے۔ کیونکہ ان کے ذہن پر اچھی طرح مرتسم تھا کہ حضرت یونسؑ تین یوم تک مچھلی کے پیٹ میں رہے اور پھر زندہ نکل آئے۔ اس طرح اور صدہا جھوٹے واقعات کو ہم صداقت کے رنگ میں پیش کر سکتے ہیں۔