“طاہرہ دیوی شیرازی کا یہ دوسرا افسانہ ہے جو نگار میں شائع ہو رہا ہے۔ آپ نسباً ہندو اور ازدواجاً مسلمان ہیں لیکن اعتقاد کے لحاظ سے بالکل میرے خیالات کی ہمنوا ہیں۔ یہ افسانہ فن کے لحاظ سے اردو میں اس ارتقائی درجہ کی چیز ہے جہاں مردوں کا دماغ بھی مشکل ہی سے پہنچ سکتا ہے، چہ جائیکہ عورتیں۔ طاہرہ دیوی نہ صرف فارسی بلکہ فرانسیسی زبان کی بھی ماہر ہیں اور غالباً یہیں سے یہ معمہ حل ہوتا ہے کہ ان کی افسانہ نگاری میں یہ رنگ کہاں سے آیا۔ زبان کی صفائی و شگفتگی کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بنگال کی ایک ہندو خاتون اتنی صاف اور صحیح اردو لکھنے میں کیونکر کامیاب ہو سکیں۔”
یہ ہیں وہ الفاظ جو علامہ نیاز فتحپوری نے کچھ میری شخصیت اور میرے ایک افسانے کے متعلق جو نگار بابت جولائی 34ء میں شائع ہوا تھا، قلمبند فرمائے۔ جب میں نے ان سطور کا مطالعہ کیا تو میری مسرت کی انتہا نہ رہی۔ کیونکہ نیاز جیسے بلند پایہ ادیب کی یہ راے میرے لیے نہ صرف باعثِ عزت ہے بلکہ مجھ جیسی ایک مبتدی کی ان سے ہمت افزائی بھی ہوتی ہے۔
اردو میں لکھنے سے قبل ہندی، بنگالی یا انگریزی میں خصوصاً اور فارسی یا فرانسیسی میں محض “تذکرۃً” میں نے جو کچھ تحریر کیا، وہ خارج از بحث ہے۔ تاہم یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتی کہ ان زبانوں کے ذریعے میں نے قلم پر قدرت حاصل کر لی تو صحافت اردو میں شہرت پانا میرے لیے بہت آسان ہو گیا۔ چنانچہ ادیب فاضل کے امتحان سے فارغ ہوتے ہی میں نے تہیہ کر لیا کہ اس بساطِ ادب پر بھی کچھ مہرے چلنے چاہئیں۔ اور خدا کے فضل سے میں ایک حد تک اپنی آرزوؤں کی تکمیل میں کامیاب ہو گئی۔ مجھے افسوس ہے کہ اچانک علیل ہو جانے کے باعث بعض مدیران رسائل کی فرمائشات کما حقہ پوری نہ کر سکی۔ پھر بھی فخر سے کہہ سکتی ہوں کہ اس وقت ہندوستان کے تمام بلند پایہ جرائد میں بالواسطہ یا بلاواسطہ میرے افسانے شائع ہو چکے ہیں۔
پیشِ نظر مجموعے میں چند فسانے طبع زاد ہیں اور باقی ماخوذ یا ترجمہ۔ میں نے ترجمہ کرتے وقت اس امر کو ملحوظ رکھا ہے کہ اصل افسانے کی خوبیاں برقرار رہیں۔ چنانچہ ادبی دنیا کے سالنامے میں بطور تعارف لائق مدیر کے یہ الفاظ خاص طور پر قابلِ غور ہیں:
“جنابہ طاہرہ دیوی صاحبہ کے “خوابِ رنگین” کے متعلق یہ عرض کر دینا کافی ہے کہ اگر آج موپساں زندہ ہوتا تو یہ فیصلہ نہ کر سکتا کہ ترجمہ کون سا ہے اور اصل کون سا۔”
میں نے ایران کے دورانِ قیام میں فرانسیسی ادب کا بالاستیعاب مطالعہ کیا تھا۔ اس وقت کے کچھ نقوش دل و دماغ پر مرتسم رہ گئے تھے۔ ہندوستان آنے کے بعد ان کو اردو کے سانچوں میں ڈھالا تو ان کی ہیئت مختلف ہو گئی۔ بعض جگہ پلاٹ کے اندر بھی اہم تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں جس کے باعث ان کو اچھی طرح پہچاننا بھی دشوار ہے کہ وہ اس “آواگون” سے قبل کس صورت میں تھے۔
اس مجموعے کو مرتب کرنے سے قبل تمام افسانوں پر ایک سرسری نظر ڈال لی گئی ہے۔ “دختر کفش دوز” کو علامہ نیاز نے بہت ترمیم و تنسیخ کے بعد شائع کیا تھا جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور نہ میں خود سمجھ سکی۔ اب میں نے اس کو اصل مسودے کے مطابق چھپوا دیا ہے کیونکہ میں اس قطع و برید سے متفق نہیں ہوں۔ اگر نیاز صاحب کا اعتراض یہ ہو کہ اس میں بصورت موجودہ عریانی بہت ہے تو میں کہوں گی کہ عریانی ہی آرٹ کی معراج ہے، لہذا اس سے احتراز کرنا مناسب نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ قارئین اسے بہت ہی زیادہ پسند فرمائیں گے۔ کیونکہ نگار میں شائع ہونے کے بعد خود میں نے پانچ چھ مختلف رسائل میں اس کو چھپا ہوا دیکھا۔ اگرچہ ان مدیران کی یہ جرات قابل اعتراض ہے کہ بغیر حوالے کے اس کو نقل کر لیا اور مجھے اطلاع تک نہیں دی، تاہم اس سے افسانہ کی مقبولیت کا اندزاہ بخوبی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض دوسرے افسانے بھی کئی دیگر رسائل میں نقل کیے گئے۔ میں علامہ نیاز کی حد درجہ شکر گزار ہوں کہ انھوں نے اپنے قیمتی مشوروں سے ہمیشہ میری اعانت فرمائی۔ “سکون کی جستجو” کو انھوں نے خاص طور پر پسند کیا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ میں نے اس افسانے کے اندر جس اعلیٰ پیرایہ میں تجزیۂ نفسی (PSYCHO-ANALYSIS) کیا ہے ادبِ اردو میں اس کی کوئی مثال ملنی محال ہے۔
“بنگالی ادب” سے متعلق مضمون کو ان اوراق میں شامل کرنا نہیں چاہیے تھا لیکن چونکہ اس میں ایک خاتون کی افسانوی زندگی کو بے نقاب کیا ہے نیز اس کی رومانوی شاعری کے چند نمونے پیش کیے ہیں، اس لیے اس مجموعہ میں اس کو جگہ دینا کچھ غیر موزوں نہیں ہے۔ سُربالا دیوی سے مجھے اس قدر محبت ہے کہ اپنے اکثر افسانوں میں عموماً ہیروئن کا نام یہی تجویز کرتی ہوں۔ “نصف ایکٹ کا ڈراما” ایک ہلکا سا طنز ہے ان حاملانِ ادب کی طرزِ نگارش پر جو ایک ایکٹ کے ڈرامے اتنے مختصر لکھتے ہیں کہ اگر ان کو تمثیل کیا جائے تو مشکل سے پانچ منٹ درکار ہوں گے اور اس طرح ڈراما کا مقصد خبط کر کے اپنی حماقت کا ثبوت دیتے ہیں۔
اکثر اصحاب جن کو میرے افسانے پسند ہیں، خطوط کے ذریعہ میری شخصیت کے متعلق استفسار کرتے ہیں۔ مگر میں مفصل حالات قلمبند کرنے سے اجتناب کرتی رہی اور یہی مناسب بھی تھا۔ کیونکہ میری زندگی بجاے خود ایک افسانہ ہے۔ اس وقت مختصراً صرف اتنا عرض کروں گی کہ ارض بنگال میرا عزیز وطن ہے اور جیسا کہ علامہ نیاز نے لکھا ہے میں نسبتاً ہندو ہوں۔ زندگی کی ابتدائی منزلیں جس المناک ماحول میں گذاریں، اس کے تصور ہی سے انقباضِ روح ہونے لگتا ہے۔ بعد ازاں اگر شانتی نکیتن میرے لیے گہوارۂ تربیت نہ بنتا تو نہ مجھے نگار خانۂ ادب میں اپنے نقوش کی نمائش کا موقع ملتا اور نہ میری روح مسرت و شادمانی کی فضا میں سانس لیتی۔ فارغ التحصیل ہونے اور منزلِ شباب میں قدم رکھنے کے بعد سب سے پہلا دل جس نے میرے نغمۂ محبت کے جواب میں محبت کا گیت گایا ایک مسلمان دل تھا اور اس لیے میں ازدواجاً مسلمان ہوں۔ تھوڑے ہی عرصہ بعد 31ء میں عہدۂ سفارت پر فائز ہو کر جب میرے عزیز شوہر کو ایران جانا پڑا تو میں بھی ساتھ گئی۔ چنانچہ وہاں فارسی اور فرانسیسی کا کافی مطالعہ کرنے کا موقع مل گیا اور اس وقت بھی شاید اسی زرّیں فضا میں سانس لیتی ہوتی جو صدیاں گذر جانے کے باوجود ابھی تک بادۂ حافظ کی سرمستیوں سے معمور ہے۔ لیکن رفیقِ زندگی کی بے وقت موت نے مجھے واپس وطن بھیج دیا۔ یہی المِ حیات مستقل طور پر میرے لیے سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔ اگر ادبی انہماک ایک حد تک باعثِ تسکین نہ ہوتا تو یقیناً پیمانۂ زیست کبھی کا چھلک چکا ہوتا۔
دارجلنگ طاہرہ دیوی شیرازی
19 جولائی 35ء