"زمل تم کل یونیورسٹی نہیں جانا۔" ثناء نے میڈیسن دیتے ہوئے کہا ۔
"جی بھابھی نہیں جاؤں گی " زمل نے دودھ کا گلاس وآپس دیتے ہوئے کہا۔
"بھابی میں آج زمل کے پاس سوؤں گی۔" انعم نے زمل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
"ہاں ٹھیک ہے۔۔ اچھی بات ہے یہ تو۔۔ " بھابھی نے دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور وہاں سے چلے گئیں ۔
"انعم کیا تم مجھے گھورنا بند کرسکتی ہو اب پلیز۔۔" زمل نے آنکھیں بند میں اُسے کہا ۔
"نہیں۔۔ جب تک تم مجھے ساری بات نہیں بتاؤ گی تب تک تو نہیں۔۔ " انعم نے لفظوں کو چبا چبا کر کہا۔
"کوئی بات ہو تو تمہیں بتاؤں میں " زمل نے آنکھیں موندے ہی جواب دیا۔
"زمل تم مجھ سے جھوٹ نہیں بول سکتی ہو تم جانتی یہ بھی کہ کل کی بات سے صاف ظاہر ہے کہ تم کوئی بات ضرور چُھپا رہی ہو"۔ انعم کو غصہ آیا تھا۔
"انعم میں تم سے کچھ کیوں چھپاؤں گی یار خود بتاؤ ایسی کوئی بات ہوسکتی جو تم سے چھپاؤں گی میں ۔۔؟ زمل نے آنکھیں کھول کر اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
"بھائی نے تو کچھ نہیں کہا تمہیں۔۔ ؟" انعم نے پھر پوچھا۔
"نہیں " زمل نے تھوڑے توقف سے جواب دیا اور اپنی آنکھیں موند لیں ۔
"گاڑی لے کر کیوں گئی تھی تم۔۔؟ "
"یہ تم کیا تھانیدارنی بنی سوال پر سوال کر رہی ہو مجھ سے" زمل نے مسکراہتے ہوئے پوچھا۔
"کون سا تم پھر بھی مجھے سچ جواب دو گی۔۔ " انعم نے ناراضگی دکھانا چاہی ۔
لیکن
زمل کا کوئی جواب نا پاکر انعم سمجھ چکی تھی کہ وہ اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔ اور اُسکے آرام کی وجہ سے اُس نے بھی مزید کچھ پوچھنے کا ارادہ ترک کردیا ۔
"تم آرام کرو میں ذرا سب کو کافی دے کر آتی ہوں۔۔ "انعم نے لائٹ آف کرتے ہوئے اُسے کہا ۔
انعم کے جاتے ہی زمل نے انکھیں کھول لی تھی اور آنسو اُسکی آنکھ سے نکل کر تکیے میں جذب ہوگیا تھا ۔
****
بالاج اپنے روم میں بیٹھا فائلوں میں مگن تھاجب انعم دروازہ ناک کر کے روم میں اندر آئی تھی ۔
"بھائی یہ لیں کافی" انعم نے کافی کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا ۔
"تھینکس انعم مجھ اس وقت کافی کی اشد ضرورت ہورہی تھی اور تم بنا کہے ہی لے آئی ہو" بالاج نے ہاتھوں سے سر دباتے ہوئے کہا۔
"بھائی وہ اپنے ہی کیا جو اپنوں کی ضرورت کو بنا کہے محسوس نہیں کرپائے۔" انعم نے سرسری سے لہجے میں کہا ۔
لیکن بالاج نے انعم کو ضرور دیکھا تھا اسکی بات پر۔۔
"سب ٹھیک ہے۔۔ ؟" بالاج نے انعم سے پوچھا ۔
"جی بھائی شاید۔۔ خیر آپ بتائیں سر درد کی میڈیسن لاؤں آپ کے لیے ۔۔؟ انعم نے بات بدل دی ۔
"نہیں میں ٹھیک ہوں تم بتاؤ کیا بات ہے۔۔ ؟" بالاج نے پھر سے پوچھا۔
"بھائی آپ شاید بزی ہیں میں کل بات کرتی ہوں آپ سے۔۔ " انعم کو لگا شاید وہ ڈسٹرب کر چُکی یے ۔
"لیکن میں تمہارے لیے فری ہوں انعم ۔" بالاج نے مسکرا کر کافی کا مگ اُٹھا لیا اور اپنا رخ پوری طرح سے بیڈ پر بیٹھی انعم کی طرف کر لیا۔
"بھائی مجھے گُھما پھرا کر بات نہیں کرنا آتی ہے آپ جانتے ہیں ۔۔ آپ نے زمل سے اُسکی طبعیت کا ایک بار نہیں پوچھا ایسا کیوں۔۔؟ "
"تم سب نے پوچھ لیا کافی ہے یہ ۔میرا پوچھنا اُس کے لیے ضروری تو نہیں۔۔ " ناچاہتے ہوئے بھی اُسکے انداز بدلا تھا۔
"بھائی اُسکے لیے ضروری نہیں تھا یا پھر اُسکی اس حالت کے زمہ دار ہی آپ تھے اس لیے نہیں پوچھا۔۔ ؟ " انعم نے ڈائیرکٹ بالاج سے سوال کر لیا ۔
"تم کہنا کیا چاہتی ہو 'کھل کر کہو کیا زمل نے کچھ کہا تم سے۔۔؟ " بالاج کو انعم کا ایسے پوچھنا اچھا نہیں لگا لیکن وہ کنٹرول کر گیا ۔
"کاش وہ کہتی کچھ تو میں یہاں آپ سے پوچھنے نہیں آتی ۔۔"
"جبکہ مجھے لگتا ہے کہ اُس کے کہنے پر ہی تم یہاں موجود ہو۔۔ " بالاج نے جانچنا چاہا ۔
"بھائی جیسے میں آپکو جانتی ہوں نا بلکل ویسے ہی میں زمل کو بھی جانتی ہوں اگر آج اُس نے مجھے کچھ نا بتانے کا ارادہ کیا ہے نا تو اب وہ ساری زندگی بھی گزر جائے گی نا وہ مجھے نہیں بتائے گی وہ ایسی ہی ہے
لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ کوئی نا کوئی بات ضرور ایسی ہوئی ہے جو وہ اتنی بری طرح ہرٹ ہوئی اور اُس بات کا تعلق آپ ہی سے ہے"۔
"تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ میں وجہ ہوں اس سب کے لیے۔۔؟ بالاج نے خود کو نارمل کرتے ہوئے کہا ۔
"تو کیا یہ جھوٹ ہے۔۔ ؟" انعم کچھ اخذ نہیں کر پارہی تھی ۔
"ہو بھی سکتا ہے کہ یہ صرف تمہارا وہم ہو۔۔ ویسے اتنی بیسٹ فرینڈ بنتی ہے تمہاری اور تم کو ہی کچھ سچ نہیں بتایا اُس نے کیسی دوست ہے وہ ۔۔" بالاج نے اُسکا دھیان ہٹانے کے لیے اُسے چڑایا ۔
"بھائی وہ رشتوں کو نبھانا جانتی ہے اور رشتوں کے ٹوٹنے اور کُھونے سے بہت ڈرتی ہے وہ۔۔ رشتوں کو جوڑے رکھنے کے لیے جس حد تک وہ برداشت کر سکتی ہے وہ کرے گی۔۔ " انعم کے لہجے میں اُس کے لیے ستائش تھی ۔
"میری بہن کو اپنے بھائی سے ذیادہ اُس سے پیار ہے لگتا ۔" بالاج نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا ۔
"ایسی بات نہیں ہے بھائی آپ دونوں ہی مجھے بہت عزیز ہو
میں آپ دونوں میں سے کسی ایک کو بھی دُکھی نہیں دیکھ سکتی ہوں ۔ آپ دونوں کی میری زندگی میں اپنی اپنی بہت اہم جگہ ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں سوچیئے گا بس مجھے بہت افسوس ہوا کہ آپ نے ایک بار اُسکی طبعیت کا نہیں پوچھا کزن ہونے کے ناطے ہی پوچھ لیتے آپ۔۔ " انعم نے افسردگی سے کہا ۔
"اچھا بابا ٹھیک ہے کل پوچھ لوں گا بس اگر تمہارا شک ایسے دور ہوتا ہے تو ایسے ہی کروں گا۔۔ " بالاج نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
"بھائی شک تو نہیں کر رہی ہوں ۔۔ بس ایسے ہی کہا یہ تو۔۔ " انعم نے شکایتی انداز میں کہا ۔
"ہاہاہا مزاق کررہا تھا میں۔۔ اب تم بھی پریشان نہیں ہونا ایسا کچھ نہیں ہے ۔" بالاج نے بوسہ دیتے ہوئے ساتھ لگایا ۔
"بھائی میں آپ دونوں کو خوش دیکھنا چاہتی ہوں ہمیشہ۔۔ مجھ سے اُسکی یہ حالت برداشت نہیں ہوئی آج سے پہلے ایسے روتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا اُسے ۔۔اُسکی پریشانی میں پتہ نہیں آپ سے کیا کہہ دیا آئی ایم سوری بھائی مجھ سے ناراض مت ہونا آپ۔۔ " انعم کو احساس ہوا کہ اُسے ایسے نہیں پوچھنا چاہیئے تھا ۔
"اٹس اوکے مجھے کچھ برا نہیں لگا اور تم سے میں کبھی ناراض نہیں ہو سکتا ہوں اور تم بھی کم دماغ پر زور دیا کرو سمجھی۔۔ اب جاکر سوجاؤ "بالاج نے پیار سے کہا اُسے
تھینک یو بھائی۔۔ گڈنائٹ " انعم آنسو صاف کرتی وہاں سے چلے گئی۔
بالاج کو آج احساس ہو رہا تھا کہ اس کے علاوہ گھر کے ہر فرد کی زندگی میں زمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے جو کبھی بھی ختم نہیں کر سکتا کوئی۔۔ زمل کا رونا یاد آیا تو اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا کہ وہ غلط کر گیا اُسکے ساتھ ۔"
****
"بابا پلیز نا سچ میں کچھ نہیں ہوتا میں جلدی وآپس آجاؤں گی۔۔ " زمل نے منت کرتے ہوئے کہا ۔
"لیکن بیٹا آپ کسی ایک کو تو ساتھ لے جائیں ایسے تو ہمیں آپکی ٹینشن رہے گی۔ " جمال صاحب نے روکنا چاہا۔۔
"بابا بھابھی، مامی اور انعم شاپنگ پر گئی ہوئی ہیں مجھے نہیں جانا تھا آپ جانتے مجھے شاپنگ کرنا کتنا برا لگتا ہے۔۔ " زمل نے اُنکو منانے کی کوشش کی ۔
"تمہاری طبیعت بھی نہیں ٹھیک ۔۔اور پھر خود ڈرائیو کر کے جانا۔۔ کتنے ٹائم کے بعد کر رہی ہو دیکھ لو"
"بابا ایک ہفتے سے ذیادہ ہوگیا ہے میری طبیعت ٹھیک ہوئے۔۔ یونیورسٹی تک نہیں جانے دے رہے تھے آپ لوگ۔۔ اور میں صحیح ڈرائیو کروں گی اُس دن بھی تو کی تھی نا۔۔ " زمل آج ماننے کو تیا ر نہیں تھی ۔
"پتہ نہیں کبھی کبھی آپ اتنی ضدی کیوں ہوجاتی ہو زمل ۔" اُنھوں نے ہار مانتے ہوئے کہا ۔
"جانے دو جمال بڑی ہوگئی ہے ہماری زمل اپنا خیال رکھ سکتی ہے اچھے سے " مدثر صاحب نے زمل کی سائیڈ لیتے ہوئے کہا ۔
"تھینک یو سو مچ ماموں ۔" زمل نے شرارتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔
"تمہاری ہی وجہ سے یہ خود کو بہادر سمجھنے لگتی ہے ورنہ یہ ہے نہیں۔۔" جمال صاحب نے مسکراہتے ہوئے کہا ۔
اور کبھی ہو گی بھی نہیں " حماد وہاں آکر چئیر پر بیٹھتے ہوئے بولا
"تم تو چپ رہا کرو " زمل نے گھورا ۔
"گھورنے کے علاوہ بھی کوئی کام کر لیا کرو تم " حماد کہاں اُسے ستائے بغیر رہتا تھا ۔
"زمل حماد کو ساتھ لے جاؤ۔ " جمال صاحب کو پھر سے اُسکی فکر ہوئی۔
"بابا پلیز اسے تو رہنے ہی دیں ورنہ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں۔ " زمل نے چہرے کے زاویے بگاڑ کر کہا ۔
"کہاں جانا ہے۔۔ ؟" سینڈوچ سے انصاف کرتے ہوئے پوچھا حماد نے ۔
"ساحل سمندر پر جانے کا دل ہے انکا وہ بھی اکیلے خود ڈرائیو کر کے جانا کا۔۔ " جمال صاحب نے بتایا ۔
"تو جانے دیں انکل آپ اسکی اتنی ٹینشن نہ لیا کریں یہ خود ایک چلتی پھرتی ٹینشن ہے کوئی اور ٹینشن کیا اس کے پاس آئی گی ۔" حماد ہنسنے لگ گیا ۔
"ویری فنی ۔۔ لیکن ہنسی پھر بھی نہیں آئی۔۔ " زمل نے چڑ کر جواب دیا ۔
"اچھا زمل بیٹا آپ اب جاؤ ۔۔ آرام سے ڈرائیونگ کرنی ہے تیز نہیں چلانی اور اپنا خیال رکھیے گا جلدی واپس آجانا آپ۔۔ " جمال صاحب نے جانے کا کہا ۔
"اور اس بار کوئی حرکت کی تو یاد رکھنا ہم نہیں آئے گے " حماد نے جاتے جاتے بھی چھیڑا ۔
"شٹ اپ ۔۔ اچھا بھی بول لیا کرو کبھی بدتمیز انسان۔۔ " زمل اُنکو بائے کہتی وہاں سے چلے گئی تھی ۔
"پتہ نہیں کبھی کبھی اسے کیا ہوجاتا ہے کسی کی نہیں سنتی یہ " جمال صاحب پریشان لہجے میں بولے ۔
"انکل آپ پریشان نہیں ہوں میں نے بالاج بھائی کو ٹیکسٹ کر دیا ہے وہ اُسی سائیڈ ہیں وہ زمل کو دیکھ لیں گے ۔" حماد نے انہیں ریلکس کرنا چاہا ۔
"اب تو پریشان نہیں ہو تم ۔۔ " مدثر نے ہنستے ہوئے کہا ۔
****
"ساحل سمندر کے کنارے پانی کی لہروں میں کھڑے ہو کر سمندر کے شور میں جیسے دل کے شور کو بھی دبانا چاہتی تھی زمل لیکن۔۔
حقیقت چاہے کتنی تلخ کیوں نہ ہو ہمارے نا ماننے سے بدل نہیں جاتی ہے ہم چاہے جتنا بھی منہ موڑ لیں وہ گُھوم کر ہمارے سامنے پھر سے آئی ہی جاتی ہے۔"
" کیا یہ سب میں بدل پاؤں گی۔۔؟ کیا مجھ میں ہمت ہے کہ میں کوئی فیصلہ کروں اور اُس کے لیے سب کے مقابل آکر اُس پر قائم رہ سکوں۔۔ لیکن یہ سب تو وہ بھی کرسکتے ہیں وہ مرد ہیں وہ مجھ سے زیادہ ہمت رکھتے ہیں پھر کیوں نہیں کرتے وہ کیوں چاہتے کہ میں ہی سب کے سامنے کھڑی ہوں ۔۔؟
شاید
وہ بھی مجبور ہیں ۔۔ لیکن مجبور تو میں بھی ہوں
ماموں آپ نے کس جگہ پر لاکھڑا کیا ہے۔۔؟
'جو رشتہ ساری زندگی کے لیے جُڑنا ہو وہ یوں زبردستی نہیں کیا جاتا ہے۔۔ رشتہ نبھانے سے ہی وہ زندگی بھر چل سکتا ہے زبردستی سے جُڑے رشتے کبھی پائیدار نہیں ہوتے ہیں '
خود ہی اپنے سوالوں کے جواب دیتی وہ تھک گئی تو وہاں ہی نیچے بیٹھ گئی۔۔ اُسکی آنکھوں سے آنسو نکل کر اُسکے گالوں پر بہہ گئے تھے ۔ وہ سب سے بے نیاز رو رہی تھی ۔
بنا یہ جانے کہ دور کھڑا بالاج اُسے ہی دیکھ رہا تھا ۔ جو وہاں آتے ہی اُسے فالو کررہا تھا ۔
"تم اُس کے ساتھ اچھا نہیں کر رہے ہو بالاج " باری کی آواز پر وہ چونک کر سیدھا ہوا اور زمل کی طرف سے اپنا رخ موڑ لیا ۔
"منہ موڑ لینے سے فرار حاصل نہیں کر سکتے ہو تم۔۔ " بالاج کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔
"تم جانتے ہو باری کہ میں کسی اور کو پسند کرتا ہوں اور زمل شروع سے مجھے ناپسند رہی ہے شاید میں اُسے آپشن میں بھی نہیں رکھتا کبھی " بالاج کہنا نہیں چاہتا تھا پھر بھی بول پڑا ۔
"مجھے بہت افسوس ہے تمہاری اس سوچ پر بالاج۔۔ تم بھی اُسکی لائف میں کوئی آخری لڑکے نہیں ہو تم بہتر جانتے ہو یہ رشتہ صرف انکل کی خواہش ہے " باری کو برا لگا تھا ایسا کہنا اس لیے اُس نے پھر سے بتائی ہوئی حقیقت یاد دلائی ۔
"یہی تو مجبوری ہے میری لیکن یہ میرے لیے ناممکن ہے ۔"
زمل اکثر اپنے دُکھ کو یہاں بہانے آجاتی تھی ۔اُسے لگتا تھا کہ
" آنسو اس سمندر کے سامنے بہت چھوٹے ہوتے ہیں جس سے دکھ بھی کم لگنے لگتے ہیں اور یہاں کی خاموشی ہمیشہ سکون کا باعث بنتی ہے۔
یہاں کی سکون اور لہروں کی آواز میں کچھ سننے کی چاہ میں مصروف ہو کر وہ ہمیشہ اپنے دُکھ کو بھول جاتی تھی "
اور
آج بھی ایسا ہی ہوا تھا ۔ آنسو بہا دینے اور وہاں سے سکون کو اپنے اندر اتار لینے کے بعد وہی کھڑی ہو چُکی تھی اور ڈھلتے سورج کو دیکھتے ہوئے اُس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ کوئی فیصلہ ضرور کرے گی ۔
"ہر دن ڈوبتا سورج خوبصورتی بکھیر سکتا ہے تو کیا کچھ چیزیں ہمیشہ کے لیے ختم ہوجانے سے اُس سے بھی زیادہ اچھی نہیں ہوسکتی ہیں۔۔؟ "
واپسی کا راستہ بہت سکون دہ تھا جو وہ پچھلے دنوں برداشت کر کرکے تھک چکی تھی اب خود کو سکون میں محسوس کر رہی تھی ۔"
****
"اسلام و علیکم ماموں " زمل نے روم میں داخل ہوکر سلام کیا ۔
" وعلیکم اسلام بیٹا آج ماموں کی یاد کیسے آگئی ۔" اُنھوں نے پیار سے ساتھ لگاتے ہوئے ہلکا سا شکوہ کیا ۔
"ہاہاہا آپ کا شکوہ کرنا بنتا ہے ماموں لیکن سچ میں پڑھائی میں بہت بزی ہوں جب ہی نہیں آرہی تھی۔۔ ورنہ آپ جانتے ہیں آپ سے ملے بنا میں رہ سکتی ہوں۔" زمل نے مسکراہتے ہوئے وضاحت دی ۔
"مجھے پتہ ہے زمل یہ سب صرف تمہارے بہانے ہیں اچھا ہوا تم آج آگئ ہو ورنہ میں خود آنے والا تھا۔" وہ جانتے تھے بالاج کی وجہ سے آنا کم کردیا ہے زمل نے ۔
"جی مجھے بھی آپ سے بات کرنی تھی اکیلے میں اس لیے ابھی آئی ہوں جب آپ گھر میں اکیلے ہیں " زمل نے سنجیدگی سے کہا۔
"پھر کیا سوچا تم نے۔۔؟ " انہوں نے اُسکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
"اگر آپ سچ میں میرے فیصلے کے انتطار میں ہی ہیں تو میری طرف سے انکار ہے ۔" زمل نے جواب دیا ۔
"یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ہم سب کی خواہش ہے تم انکار کررہی ہو۔۔؟ " انہیں اندازہ تھا زمل کے انکار کا۔
" ماموں اس سے آپ سب خوش ہوں گے
لیکن جو دو لوگ یہ رشتہ جوڑیں گے اگر وہ ہی خوش نہ ہوں ۔۔؟" زمل نے الٹا سوال کیا اُن سے ۔
" تم نے سوچنے کے لیے وقت مانگا تھا زمل اور اب انکار کر رہی ہو۔۔؟ انہوں نے تاسف سے دیکھا۔
" کیا وقت مانگنے کی شرط یہ رکھی تھی میں نے کے میں انکار نہیں کروں گی۔۔
ماموں میری بات سنیں آپ صرف میری محبت میں یہ رشتہ چاہتے ہیں۔۔
'زندگی بھر کے ساتھ کے لیے صرف نام کا رشتہ جوڑ لینا کافی نہیں ہوتا ہے اس رشتے کو محبت، اعتماد، احترام، اور احساس اس سب کی بھی ضرورت بھی ہوتی ہے اس سب سے ہی یہ رشتہ زندگی بھر کے لیے مضبوط ہوتا ہے ۔۔ اور اگر ایک بھی چیز کی کمی ہو جائے تو یہ رشتہ کمزور رہتا ہے ساری زندگی کے لی '
کیا آپ نے بالاج سے بھی اُنکے خیالات جاننے کی کوشش کی ہے۔۔؟
"میں تمہاری رضامندی کے بعد ہی اُس سے بات کروں گا لیکن میں اپنے فیصلے کے بارے میں اُسے کافی پہلے یہاں سے جانے سے پہلے بتا چُکا تھا ۔۔" وہ زمل کی انکار کی وجہ سمجھ چُکے تھے ۔
"اور آپ مجھے یہ بات اب بتا رہے ہیں مجھے حیرت ہورہی ہے ماموں ۔۔" زمل کو حیرت کا جھٹکا لگا تھا ۔
"بیٹا میرے لیے آپ کی رضامندی کی اہمیت زیادہ ہے۔۔ " انھوں نے پیار سے کہا ۔
"ماموں ویسے آپ ہمیشہ کہتے ہیں مجھے کہ ہم دوست ہیں اور آپ جانتے ہیں بچپن سے اب تک ہم اپنی ہر بات شئیر کرتے آئے ہیں۔۔ پھر آپ نے مجھے یہ بات کیوں نہیں بتائی تھی آپ کی اسی طرح کے بی ہیو کی وجہ سے وہ ایسے ہیں ماموں آپ اتنے فرینڈلی ہونے کے بعد بھی اُن پر زبردستی اپنا فیصلہ کیسے مسلط کرسکتے ہیں کیوں چاہتے کہ وہ ہم سب سے دور ہو جائیں ۔
اور
آپ اُنکو بتا چُکے ہیں اُس کے بعد بھی اُن کا رویہ میرے ساتھ چینج نہیں ہوا ہے آپ کو میں نے سب بتایا بھی تھا ہماری جو بھی بات ہوئی تھی ۔۔مجھے لگا تھا وہاں جاکر شاید اُنکی سوچ بدل جائے اور میرے بارے میں جو وہ اتنا نیگٹیو سوچتے ہیں بدل جائیں گے اس لیے اُن کے واپس آنے تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتی تھی ۔
لیکن اب میں فیصلہ کرچُکی ہوں ۔ آپ اب بھی امید رکھتے ہیں۔۔ ؟ زمل کو سمجھانا مشکل لگ رہا تھا اُنکو ۔
"زمل میں سب سمجھتا ہوں میرے بچے تمہیں لگتا ہے کہ مجھے اُسکا کوئی خیال نہیں مجھے کوئی محبت نہیں اُس سے۔۔؟ ایسا نہیں ہے اور اُسکا تمہارے ساتھ رویہ مجھے ایک آنکھ نہیں بھایا میں پہلے ہی سمجھ گیا تھا تمہیں دیکھتے ہی جب ہی تم سے پوچھا میں نے ۔ تم سے کیا ہوا پُرامس یاد آجاتا ہے ورنہ میں اتنا آگے نہیں بڑھنے دیتا اُسے کہ وہ تم سے اس لہجے میں بات کرے وہ بیٹا ہے تو تم بھی میری بیٹی ہو اور اُس سے زیادہ چاہتا ہوں تمہیں ۔
"جی بلکل میں پُرامس نا لیتی آپ سے تو آپ نے ہر بات پر غصہ کرنا تھا اُن پر مجھے تو لگتا ہے میری وجہ سے آپ دونوں میں دوریاں بڑھ رہی ہے اب۔۔ " زمل نے آہستگی سے کہا ۔
تم نے سچ بھی کیسے لیا زمل ایسا۔۔؟ " مدثر صاحب دُکھ سے بولے ۔
"ماموں جب ہی تو کہہ رہی ہوں کہ آپ میری بات مان جائیں اسی میں ہم سب کی بہتری ہے۔۔ " زمل نے پھر سے اُنکو سمجھایا ۔
"اگر میں پھر بھی نا مانوں۔؟ " انہوں نے بھی اپنی کوشش کرنا چاہی ۔
"ماموں میں پھر بھی نہیں مانوں گی آپ یہ بات جان لیں اچھے سے۔۔ " زمل نے لہجہ کو مضبوط کرکے کہا ۔
"زمل مجھے امید تھی کہ تم مجھ انکار نہیں کروگی بالاج سے تو میں نے پوچھا بھی نہیں صرف اپنا فیصلہ سنایا تھا ۔" اُنہوں نے رنجیدہ ہوتے کہا ۔
"ماموں آپ مجھے ایموشنل کرنے کی تھوڑی بھی کوشش مت کیجیئے گا۔۔ کیونکہ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گی اور نہ میں ایموشنل ہوں گی ذرا سی بھی اس لیے مت کریں۔ " زمل نے مسکراہٹ کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا ۔
"ہاں بیٹا اُٹھا لو فائدہ ہماری محبت کا تم کو دوست بنا کر ہر بات بتانے کا نقصان ہے جو تم اتنا جان گئ ہو اور زرا جو میرے فیصلوں کو اہمیت دے دو ہماری محبت نے ہی بگاڑا ہے۔۔ " انہوں نے خفگی سے کہا ۔
"ہاہاہاہا ماموں آپ کرتے رہیں کوشش۔۔ " زمل زور سے ہنستے ہوئے اُنکے ساتھ لگ گئی ۔
وہاں سے گزرتے بالاج نے آواز سن کر قدم مدثر صاحب کے روم کی طرف بڑھا لیے ۔
"آئی لو یو ماموں۔۔ آپ نے ہمیشہ میرا ساتھ دیا ہے بچپن سے اب تک آپ میرے ہر دُکھ سکھ کے ساتھی ہیں۔۔ " مدثر صاحب نے بھی اُسکے ماتھے کو چوما ۔
"تم مجھے اپنی سب اولادوں سے بڑھ کر عزیز ہو زمل۔۔ کاش تم میرے لیے ہی ہاں کردیتی ۔ "
"ماموں پھر سے نہیں پلیز۔۔ میں اپنا فیصلہ نہیں بدلوں گی آئی ایم سوری۔ " مجھے ہی مضبوط رہ کر اس سب کو روکنا ہے ورنہ سب کچھ بکھر جائے گا ۔زمل نے دل میں سوچتے ہوئے کہا ۔
"ایک بار پھر سے سوچ لو زمل۔۔ " انہوں نے پھر سے کہا ۔
"آپ یہ سننا چاہتے ہیں میرے منہ سے کہ
"بالاج وہاں سے گزرتے ہوئے رُوم کے سامنے رک جاتا ہے'
میں بالاج سے شادی کے لیے تیار ہوں اُسے تو آپ راضی کر ہی لیں گے مجھے اُنکے انکار سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے میں خود ہی اُنکو ہینڈل کرلوں گی بعد میں ویسے بھی آپ ہیں نا میرا ساتھ دینے کے لیے ایک دن خود ہی بدل جائیں گے وہ ۔
زمل کی اس بات سے بالاج کے ماتھے پر بل پڑے تھے اور وہ غصے میں وہاں سے پوری بات سنے بنا چلاجاتا ہے ۔'
تو میں ایسا بلکل نہیں بولنے والی کیونکہ میں ساری زندگی آپ کے جنگجو بیٹے کے ساتھ لڑتے نہیں گزار سکتی ہوں سوری ۔۔مجھے دیکھتے ہی وہ ایسا منہ بنا لیتے کہ پتہ نہیں خدانخواستہ کتنا بڑا نقصان کردیا ہو ساری زندگی کیسے گزاریں گے۔۔؟ اُنکو کسی اور کا اچھا نصیب بننے دیں پلیز "زمل مزاق میں ہاتھ جوڑ کر سر تک لے گئ ۔اُسکے انداز پر وہ بھی ہنس دیے
" اپنا اچھا نصیب تو وہ خود ٹھکرا چکا ہے۔۔ " انہوں نے افسردگی سے کہا ۔
"آپ پریشان نہیں ہوں ماموں سب اچھا ہوگا انشااللہ۔۔ "زمل نے تسلی دی وہ جانتی تھی اُنکو دکھ ہوا ہے لیکن وہ مجبور تھی کچھ نہیں کرسکتی تھی اُن کے لیے ۔
"چلو بیٹا میں اب آرام کروں گا "۔ اُنہوں نے زمل کو سوچتے دیکھ کہا ۔
"جی نہیں آپ میرے ساتھ چل رہے ڈنر بھی وہاں ہی کریں گے سب بھابھی نے بول کر بھیجا ہے مجھے ۔۔ آرام بعد میں کیجیئے گا اور پلیز کچھ مت سوچئیے گا آپ اس بارے میں ۔"
"میں اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتا ہوں اگرتم دونوں کی یہی مرضی ہے تو مجھے بھی کوئی اعتراض نہیں ہے۔۔ " انہوں مسکرا کر کہا ۔
****
"شور سے اُسکی آنکھ کُھلی تو وہ گبھرا کر اُٹھ کے بیٹھ گئی۔۔ " اپنے سامنے انعم، حماد، باری اور بھابھی کو کھڑے دیکھ کر حیران رہ گئی اور نظر گھڑی پر پڑی تو صبح کے 8 بج رہے تھے اُسکے ماتھے پر تیوری چڑھ گئی ۔
"کون سا ایسا عذاب نازل ہوگیا تھا صبح صبح جو تم لوگ میرے اُٹھنے کا انتظار کیا بنا میرے سر پر مسلط ہوگئے ہو اس ٹائم۔۔ " زمل نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے کہا ۔
"بات ہی ایسی تھی اگر تم کو ابھی نہیں اُٹھاتے تو تمہارے اُٹھنے تک یقیناََ کسی ایک کا ہارٹ فیل ضرور ہوجانا تھا۔" انعم نے ہنسی کو دباتے ہوئے کہا باقی سب بھی ہنسی کنٹرول کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔
"اللہ نہیں کرے انعم کیا فضول بول رہی ہو ایسا بھی کیا ہوگیا۔" زمل نے سنجیدگی سے پوچھا۔
"مجھے لگ رہا یے کہ یہ ڈرامہ کر رہی ہے اسے سب خبر ہے اس لیے تو اتنے آرام سے سورہی تھی اور اب بھی بن رہی ہے بس بنا اسے علم ہوئے بات یہاں تک نہیں آسکتی تھی ۔مجھے پہلے ہی ان دونوں پر شک تھا۔۔ " حماد نے مزید بات بنائی۔
"کیا بکواس کررہے ہو کون سی بات اب بتا بھی دو مجھے۔" زمل نے چڑ کر پوچھا ۔اگر بھابھی ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہوتی تو وہ مان لیتی کہ یہ صرف اُسے تنگ کرنے کے لیے کررہے ہیں ۔
"انتطار بھی نہیں ہورہا اب تو بھابھی بیگم سے۔۔ " حماد نے اُسے چڑانے کے لیے کہا ۔
"یہ کیا بکواس ہے حماد میں نے ہزار بار کہا ہے تمیز میں رہا کرو مجھ سے ایسے فضول مزاق ہرگز نہیں کرنا سمجھے تم۔۔ " زمل تو تپ گئی تھی حماد کے ایسے مخاطب کرنے پر ۔
"لو جی آپ کو کیا ہم اتنے ہی فضول لگے ہیں جو صرف یہ مزاق کرنے کے لیے اپنی نیند خراب کرکے آئے گے۔۔ مجھ پر نہیں یقین تو ان سب کے یہاں ہونے سے ہی یقین کر لو۔۔ "
"حماد صحیح کہہ رہا ہے زمل ۔۔ ماموں تو رات تمہارے روم میں آنے کے بعد آئے تھے ہم بھی پریشان ہوگئے تھے اُنکے اور مامی کے اتنی رات کو آنے پر۔۔
لیکن وہ کہنے لگے بالاج کے ہاں کہنے کی اُنکو اتنی خوشی تھی کہ اُن سے رہا ہی نہیں گیا اور وہ اُسی وقت آگئے ۔۔اور آج شام چھوٹی سی رسم بھی کریں گے کیونکہ اُنکا شادی کرنے کا جلدی ہی ارادہ ہے ۔" بھابھی کے تفصیل سے جواب دینے پر زمل کو لگا کسی نے اُس کے سر پر بلاسٹ پھوڑ دیا ہوا۔
"ایسے کیسے ہوسکتا ہے۔۔؟ بابا نے کچھ نہیں کہا۔۔؟ زمل حیران ہونے کے ساتھ ساتھ بالاج پر غصہ آرہا تھا۔
"پاپا نے کیا کہنا تھا تم جانتی ہو جب ماموں نے پہلے پاپا سے بات کی تھی تب ہی اُنہوں نے کہہ دیا تھا کہ یہ اُنکا اپنا اور اُنکی بیٹی کا اپنا مسئلہ ہے تب سے تم پراور ماموں پر فیصلہ چھوڑ دیا تھا ۔اب وہ کیوں کچھ کہتے۔۔؟ بھابھی نے الجھ کر پوچھا ۔
"بالاج کہاں ہے اسوقت۔۔؟ زمل نے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا۔
"لڑکی کچھ تو شرم کرو کل رات ہی تمہارا رشتہ طے ہوا ہے وہ بھی بنا تمہاری نالج میں لائے جھوٹی ہی سہی سب سسرال والوں کے سامنے شرمانے کی ایکٹینگ ہی کر لو ہمیں بھی یقین ہوجائے کہ ایک نارمل لڑکی ہی بھائی کی زندگی میں آرہی ہے ۔ ورنہ تو بھائی کی زندگی برباد۔۔ " حماد نے مزاق کا رخ دیا بات کو ۔
"حماد میں تمہارا قتل کردوں گی اگر اب تم نے مزید کچھ فضول بولا تو ۔۔" زمل نے غصہ دکھایا ۔
"اپنے شوہر کو تو غصہ کرنے پر بھی کچھ برا نہیں لگتا۔۔ اور مجھ معصوم کا مزاق بھی برداشت نہیں ہوتا یہ اچھی دھاندلی ہے ۔" حماد کے مسکین منہ بنانے پر سب نے بمشکل اپنی ہنسی روکی ۔
"حماد بس کر جاؤ اب بہت ہوگیا کیوں بیچاری کا دماغ کھا رہے ہو اُٹھتے ساتھ ہی۔۔ اور زمل بھائی آج صبح ہی حیدرآباد گئے ہیں شام تک آجائیں گے۔۔ "انعم کی بات پر اُسے چُپ ہونا پڑا ۔
"اس کے پاس دماغ ہو جو کھائے کوئی۔۔ " حماد کہاں باز آنے والا تھا ۔
انعم نے اُسے گھورا۔
بھابھی نے آگے بڑھ کر زمل کو گلے لگا کر مبارکباد دی اور انعم نے بھی باری اور حماد نے بھی دی ۔
زمل کو ناشتے پر اُسکا انتطار کرنے کا کہہ کر وہ سب روم سے باہر نکل گئے۔
"یہ کیا تماشا ہے اب یہ سب کرنے کا مطلب کیا ہے انکا۔۔ میں کوئی اتنی ہی مررہی تھی نا اُن سے شادی کرنے کو اب جب انکار کردیا ہے میں نے خود ہی تو اب یہ سب کیوں کررہے ہیں میں اُنکے وہ الفاظ نہیں بھولی ہوں انہوں مجھے سمجھ کیا لیا ہے میں پوچھ کر رہوں گی ۔۔ کچھ سوچ کر وہ باہر جانے کے لیے اُٹھ گئی تھی ۔"
****
"ماموں یہ سب کیا ہے۔۔؟ زمل نے اُنکے روم میں داخل ہوتے ہی سوال کرا ۔
"کیا میری بیٹی خوش نہیں ہے اس سے۔۔؟ انہوں نے اُسکے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
"ماموں جب کل بات ختم کرچُکی تھی میں تب اس سب کا کیا مطلب بنتا ہے کہیں آپ نے تو اُن کو نہیں کہا۔۔؟
"نہیں زمل میں نے کچھ نہیں کہا رات اُس نے آکر کہا کہ وہ شادی کے لیے تیار ہے۔۔"
"ماموں اور وہ جو انکار کررہے تھے پھر یہ سب اچانک کیوں۔۔؟ اور میں اُنکو کال کررہی ہو تو وہ اٹینڈ نہیں کررہے ہیں ۔"
"زمل اگر اب وہ سب کچھ بھول کر اپنی زندگی میں آگے بڑھنا چاہتا ہے تو تم کیوں نہیں بڑھ رہی ہو۔۔؟ انہوں نے اُسے سمجھانا چاہا ۔
"ماموں اتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔۔ " زمل نے بے بسی سے بولا۔
"زمل تم بہت سمجھدار ہو مجھے یقین ہے آگے بھی سب بہت اچھا ہوگا اور جب تم نے مجھے پر پہلے بھی بھروسہ کیا تو اب بھی اپنے ماموں پر یقین رکھو میں تمہارے ساتھ کبھی کچھ غلط نہیں ہونے دونگا ۔"
"ماموں آپ کو رسم اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟ " زمل بالاج سے بات کیے بنا کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تھی لیکن ماموں ہر کام میں جلدی کررہے تھے اور اُسے یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا ۔
"بیٹا اچھے کام میں زیادہ سوچ بچار کیا کرنا اور میں نے کہا نا کہ کچھ نہیں سوچو بس اپنی تیاری کرو اور بلکل بھی پریشان نہیں ہونا تم۔۔ " انہوں نے اس کے ماتھے پر بوسہ دیتے ہوئے کہا ۔
"زمل نے چُپ رہنا ضروری سمجھا اس وقت۔۔ "
****
"لان میں ہی ایک چھوٹا سا فنکش رکھا گیا تھا جس میں بہت ہی کلوز فرینڈز کو انوائیٹ کیا گیا تھا۔ "
سب بہت ہی خوش تھے بھابی اُسے تیار کرچُکی تھیں ۔ زمل بھابھی اور انعم کے ہمراہ چلتے ہوئے باہر آئی تھی ۔ مدثر صاحب اور جمال صاحب نے اُس کے ماتھے پر بوسہ دیا ۔
"میری بیٹی تو بہت پیاری لگ رہی ہے آج ۔۔ اللہ پاک کسی کی نظر نا لگائے اور ہمیشہ تم دونوں کو بہت خوش رکھے آمین ۔" زکیہ بیگم نے بھی زمل کو پیار کرتے ہوئے دُعا دی ۔
"ماما آپ کہنا چاہتی ہیں کہ پہلے زمل پیاری نہیں لگتی تھی۔۔؟ " حماد درمیان میں بول پڑا ۔
"حماد بہت بدتمیز ہو تم میں نے ایسا کب کہا میرا مطلب تھا کہ عام دنوں سے ہٹ کر تیار ہوئی ہے تو اور بھی پیاری لگ رہی ہے ورنہ میری بیٹی ہمیشہ ہی اچھی لگتی ہے ۔" زکیہ بیگم کے گڑابڑا کر جواب دینے پر سب کا مشترکہ قہقہہ تھا ۔
زمل کو بالاج کے پہلو میں بٹھا دیا تھا ۔سب نے اُن دونوں کی جوڑی کی بہت تعریف کی تھی ۔
بالاج کے صحیح ہو کر بیٹھنے سے بالاج کا کندھا زمل سے مس ہوگیا تھا ۔ زمل کو پہلے ہی بالاج پر غصہ تھا ۔اُس نے ایک نظر گردن گُھما کر بالاج کی طرف غصے سے دیکھا۔
"بھابھی کیو بھائی کو ڈرا رہی ہیں آپ ۔۔؟ حماد نے فوراً ہی زمل کو ٹوکا ۔
"زمل نے حماد کو چبا جانے والی نظروں سے گھورا جیسے کہہ رہی ہو کہ تمہیں تو بعد میں پوچھوں گی " زمل نے دل میں خود کو اور حماد کو کوسا اور جی بھر کر رونا آیا ایک پل کے لیے دل ہوا یہاں سے اُٹھ کر ہی بھاگ جائے ۔
"حماد تنگ نہیں کرو اسے " انعم نے اُسے روکا ۔
"تم تو اسی کا ساتھ دو گی بعد میں ٹریننگ جو لینی ہوگی اس سے شوہر کو دبانے کی باری بھائی بالاج بھائی میں آپ دونوں کو کہہ رہا ہوں ابھی سے ان دونوں کو دور رکھیے گا ورنہ دونوں اپنی بیوقوفیوں سے اپنے ساتھ ساتھ آپ دونوں کی زندگی بھی اجیرن کر دیں گی ۔"
"کچھ تو سوچنا پڑے گا تمہاری باتوں میں دم ہے ویسے بالاج اسی پر عمل کریں گے اگر اپنے اپنے گھروں میں سکون چاہتے ہیں تو۔۔ ورنہ عورتوں کی عقل سے تو واقف ہی ہو ۔" باری نے کنفیوز ہوتی انعم کو اپنی نظروں کے حصار میں رکھتے ہوئے کہا ۔
"تو آپ لوگوں سے کس نے کہا کہ عورتوں کی سنیں اپنی عقل بھی تو دی ہے نا اللہ نے۔ " انعم نے اپنے بنا سوچے سمجھے بغیر بولے گئے جملے پر غور کیا تو وہاں سے شرمندہ ہو کر چلے گئی لیکن اپنے پیچھے سب لڑکوں کا مشترکہ قہقہہ دور تک سنا تھا ۔
"زمل کو بخار ہونے کی وجہ سے رسم جلدی ادا کر لی اُسکے بعد فوٹوگرافی کا دور چل پڑا ۔"
"زمل تھوڑا سا تو مسکرا دو ایسا لگ رہا ہے جیسے زبردستی یہاں بٹھایا گیا ہو تمہیں۔ " حماد اُسکے بیزار کن چہرے کو دیکھ کر بولا ۔
زمل نے زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر لے آئی تھی ۔ وہ مہمانوں کے درمیان اپنا تماشا نہیں بنوانا چاہتی تھی ۔بالاج وہاں انجان بنا سب سے مُسکر کر باتیں کرنے میں مصروف تھا لیکن زمل کے چہرے سے اُس کے اندر اُٹھتے طوفان سے بھی واقف تھا ۔
کھانا کھا لینےکے بعد بھی باتوں کا دور کافی دیر تک چلتا رہا سب کلوز فیملیز ہی تھیں ۔ زمل نے بہت اسرار پر بھی کچھ نہیں کھایا تھا ۔بھابھی جانتی تھی کہ وہ بہت اپ سیٹ ہے اس لیے ذیادہ زور نہیں دیا ۔
"سب یہاں پر کتنے خوش ہیں لیکن کیا میری خوشی کوئی معنی نہیں رکھتی لیکن میں اپنی غرض کے لیے ان سب کا دل بھی تو نہیں دُکھا سکتی ہوں نا ۔
کیا مجھے ان سب کے لیے قربانی دے دینی چاہیے؟ ہاں دے تو دینی چاہیے ان سب نے ہمیشہ میرا کتنا ساتھ نہیں دیا میرے ہر رویے کو بنا کچھ برا مانے ہمیشہ خوشی سے برداشت کیا میری محبت میں صرف ۔
اور بالاج کیا میں بالاج کے ساتھ رہ سکوں گی اُس نے ایک نظر بالاج کو دیکھا جس کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا جس سے وہ اندازہ کر سکے کہ وہ ایسا فیصلہ کیوں کیا ۔ اب وہ سب کچھ سوچنا چھوڑ چُکی تھی صبح سے سوچ سوچ کر اُسکا دماغ شل ہوچکا تھا ۔" دل میں خود سے مخاطب ہو کر اب وہ کچھ سوچنا نہیں چاہتی تھی۔