وہ اپنے کمرے میں آگئیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی کیوں بھائ بھائ کیوں ۔۔۔۔۔۔
اتنے پاس ہوکر بھی مجھ سے اتنے دور کیوں رہے بھائی بھروسہ نہیں تھا بھائی کیا۔وہ خودکلامی کررہی تھی۔
پھپھو میں اندر آجاؤ۔رانیہ نے پوچھا ۔
آجاؤ میری جان۔وہ مسکرانے کی ناکام کوشش کررہی تھیں۔
پھپھو آپکا ہر شکوہ اپنی جگہ ٹھیک ہے آپ کے ہر شکوے کا جواب ہے
اسنے انکی طرف کچھ خط بڑھاۓ جسکو انھوں نے تھام لیا۔
رانیہ کمرے سے باہر نکل گئی۔اور وہ صرف ان خطوط کو دیکھتی رہ گئی۔
********†******************************
وہ اپنے کمرے میں یوں بستر پر پڑا پڑا تنگ آچکا تھا اس نے انسٹاگرام کھولی اور اوپر نیچے کرنے لگا اچانک اسکی نظر کے سامنے روبائشہ کی تصویر پر پڑی جو کہ کسی لڑکے کے ساتھ تھی۔اسے غصہ آیا۔اس نے روبائشہ کو مسیج کیا اور اسکے رپلائے کا انتظار کرنے لگا ناجانے وہ کب نیند کی وادیوں میں اتر گیا اسکو اسکی بھی خبر نہیں ہوئی۔
ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا کوئی بھی اسکے ساتھ نا تھا وو اکیلا اس اندھیرے میں تھا وہ سب جو پکاررہا تھا مگر کوئی بھی نہ آیا۔اچانک ایک طرف سے سفید رنگ کی روشنی پھوٹتی ہے اور وہاں سے ایک ہیولا نمودار ہوتا ہے وہ اس طرف لپکتا ہے تو دیکھتا وہی لڑکی جو ایکسیڈنٹ والے دن اسکی گاڑی میں موجود تھی۔
وہ اسکی طرف ساکت دیکھ رہا تھا۔
تم نے بے وفا لڑکی کی خاطر ایک پارسا لڑکی کی زندگی کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا دیکھو ﷲ نے اس کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونے دی۔
دولت کے نشے میں تو اتنا کھوگیا تھا کہ تجھے تیرا رب بھی یاد نہ رہا
اے بندے تیرا رب تجھے چاہتا ہے اس لیے اس نے تجھے زندگی دی تاکہ تو اسے دوبارہ غفلت میں نہ گزارے۔
مگر یہ نادان انسان کب سمجھتے ہیں کہ موت انکے قریب سے بھی گزرجاتی ہے مگر وہ بےخبر ہ ہی رہتے ہیں کیا ہوتا اگر اس ایکسیڈنٹ میں تمہاری جان چلی جاتی ہاں کیا تیرے پاس کچھ ایسا تھا کہ تو اپنے رب کے آگے سرخرو ہوپاتا۔
کچھ بھی تو نہیں بس۔۔کس کی چاہ میں اب تک کی زندگی گزاری ہے اس دنیا اس دولت کی چاہ میں جس نے تمہارے پاس رہنا ہی نہیں اور دیکھو جب سے تم اپاہج ہوۓ ہو کون آیا تمہارے پاس تمہارے دوست جو ہر وقت مکھیوں کی طرح منڈلایا کرتے تھے کہاں ہے تمہاری محبوبہ جو تم سے ہر دم محبت کے دعوے کرتی رہتی تھی ۔تمہارے باپ کو تو اپنے بزنس سے فرصت نہیں۔تم ان ملازموں پر ہو جو صرف چند پیسوں کی عوض یہ کام کرتے ہیں ورنہ انھیں تم سے کوئی دلی لگاؤ نہیں۔
ایک تمہارا رب ہی ہے جو تمہیں ہر حال میں اپناتا ہے۔
جانتے ہو اسے سب سے زیادہ کیا پسند ہے جوانی کی توبہ۔سمجھ تو گئے ہوں نہ۔وہ مسکرائ۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا ۔اچانک اس کی آنکھ کھلی وہ اپنے بستر پر تھا۔اس نے سائیڈ ٹیبل سے پانی اٹھایا اور ایک ہی سانس میں پی لیا۔
اس نے گھڑی کی طرف نظریں دورائیں تو شام ڈھلنے کو تھی وہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگاۓ سب باتوں کو سوچ رہا تھا۔
سب سچ ہی تو تھا یہ دنیا کچھ بھی تو نہیں لاحاصل مقام ہے۔
سب کو اپنی ہی پڑی ہے چیونٹیوں کی طرح ایک دوسرے کو مسل کر آگے نکلنا چاہتے ہیں بزنس مقام سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تو رہتا ہے بس انسان نہیں رہتا ہے آخر میں سب کے حصے صرف دو گز زمین ہی تو آنی ہے ۔
وہ اٹھا اور اپنے خاص ملازم کو آواز دی ۔
اشرف اشرف کہا ہو۔ ادھر آؤ۔
اشرف بھاگتا ہوا آیا اور بولا۔
جی چھوٹے صاب جی کیا حکم ہے۔اشرف بھاگتا ہوا آیا اور بولا ۔
مجھے وضو کرانے میں مدد کرو۔اس نے آنکھیں نیچی اوع سر جھکاۓ کہا۔
جی۔۔اشرف حیران ہوگیا تھا۔
اس نے سر اٹھا کر اشرف کی طرف دیکھا۔
جی اچھاصاب جی۔۔اس نے حیرت پر قابو پاتے ہوۓ کہا۔
ااس نے اسے سہارا دے کر ویل چیئر پر بٹھایا اور وضو کی غرض سے باتھ روم کی جانب بڑھ گیا۔
وضو سے فارغ ہوکر وہ باہر آیا تو اس نے اشرف سے جاءنماز مانگی۔ اشرف نے پورے کمرے میں تلاش کیا مگر جاہ نماز نہیں ملی ۔
اس نےجھجکتے ہوۓ اسے بتایا۔
اسکی بات سن کر اسکے چہرے پر شرمندگی کے تاثر نمایاں ہونے لگے۔
کیا تم۔مجھے اپنی جاہ نماز دو گے؟؟؟اس نے ہچکچاتے ہوۓ پوچھا۔
جی مالک مگر آپ ہمارے آقا ہے اور ہمکو بہت خوشی ہوگی کہ آپ ہمارے کوئ چیز استعمال کریں۔اس نے عاجزی سے کہا۔
اصلی مالک تو وہ ہے جس کے لیے تم۔بھی برابر ہو اور میں بھی۔اس نے اپنائیت سے کہا۔
اشرف ویاں سے گیا۔اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں جاہ نماز تھی۔
اس نے وہ اسے دےدی۔
***************************
اب منہ سے کچھ بولے گا بھی ہممم۔علی نے اپنے سامنے بیٹھے حاذق سے بولا ۔
وہ دونو اس وقت کافی شاپ میں تھے۔
کس بارے میں بات کررہا ہے تو ؟؟حاذق نے پوچھا۔
اتنے تم۔معصوم نہیں کے میری بات کا مفہوم ہی نا سمجھ سکو۔اسنے طنز کیا۔
علی سیدھا سیدھا بول اس وقت میرا موڈ نہیں۔اس نے بیزار لہجے میں کہا۔
رانیہ کی بات کررہا ہوں۔وہ بولا۔
کیا کچھ بھی تو نہیں ہے ۔وہ خود پر قابو پاتے ہوۓ بولا
ہاہا ہاہا ۔ویری فنی جیسے کےمیں جانتا نہیں۔اس نی طنز کیا۔
یار میں خود فلحال خود کی کیفیت سمجھنے سے قاصر ہوں ۔اس نے جواب دیا۔
چل کوئی نہیں۔وہ ابھی ادھر ہی ہے نا تو آہستہ آہستہ سب سمجھ آجاے گا۔اس نے آنکھ دبا کر کہا۔
بتمیز انسان۔حاذق منہ کے زاویے بگاڑ کر بولا۔
**********************************
پیاری بہنا! جانتا یوں میری بین مجھ سے بہت ناراض ہے مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میری بہن مجھ سے زیادہ دیر تک نہیں ناراض رہے گی۔
ایمن میں جانتا ہوں کہ تمہارے دل میں بہت سوال ہیں۔اور امید کرتا ہوں کہ تمہارے تمام سوالوں کے جواب اس خط میں مل جاۓ گے۔
اس دن بدر میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھے بتایا کہ علیخان اپنی بیوی کے ساتھ کچھ برا کرنا چاہتا ہے اور اگر ہم اسے نہیں روکیں گے تو بہت برا کچھ ہوجاۓ گا۔میں دادی کی تدفین سے واپس آیا تھا۔اس وقت کچھ سوچے سمجھے بغیر میں اسکے ساتھ چلا گیا وہاں جا کر دیکھا تو وہاں کا نظارہ دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
زلیخا زحمی حالت پر زمین پر پڑی تھی اور نیم بے ہوش بھی تھی۔اور علیخان اس پر گن کو تان کر کھڑا تھا۔اس سے پہلے کہ ہم کوئی ردعمل کرتے کہ دو نقاب پوش ہماری طرف آۓ اور مار پیٹ شروع کردی۔اسی ہاتھا پائی کے دوران میری چین گر گئ علیخان وہاں سے اپنا کام کرکے فرار ہوگیا۔وہ دونوں نقاب پوش بھی جاچکے تھے میں اٹھا اور بدر کو سہارے سے اٹھایا اور باہر کی طرف چل دیا۔میرا دماغ مکمل طور پر ماؤف تھا۔میرے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت منجمد ہوچکی تھی۔میں اپنے وجود کو کس طرح گھیسیٹ کر وہاں سے نکلا مگر میرا دماغ وہیں تھا۔اگلے دن جب میں بدر سے ملنے گیا۔وہاں جاکر مجھے معلوم ہوا بدر کو پولیس لے گئی ہے۔میں پولیس اسٹیشن گیا وہاں اس سے ملا اس نے مجھے کہا یہاں سے چلے جاؤ اور معاملے کو رفع دفع کرو میں بھی کچھ ہی دنوں میں باہر آجاؤنگا تم اس آدمی سے رابطہ کرو یہ تمہیں یہاں سے باہر بھیج دے گا۔
وہاں سے باہر آیا تو دماغ کام نہیں کررہا تھا گھر آگیا اور صوفے پر بیٹھ گیا اس وقت سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں جامد ہوگئی تھیں۔تب ہی مومنہ آئی اور وہ سب کچھ ہوگیا غصے میں میں سب کچھ کر توآیا مگر میں ایک پل بھی سکون سے نہ ریا تمہاری یاد پل پل آتی تھی میں نے یہاں ایک بیوہ عورت سے شادی کرلی اس کا نام بھی مومنہ تھا مومنہ بہترین ہمسفر ثابت ہوئی ۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ تمہاری شادی زمان شاہ سے ہوئی تو مجھے سکون ہوگیا کہ میری بہن اچھے لوگوں میں گئی ہے۔میں نے اس سے رابطہ کیا اور اسے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔اس نے میرا ساتھ دیا قدم بہ قدم اور جب مجھے حاذق کی پیدائش کا معلوم ہوا تو میں سر کے بل آیا تب میرے ساتھ ہزیل تھا۔ زمان نے مجھے اسے گود میں دیا اس وقت میری کیفیت کیا تھی میں بیان نہیں کرسکتا۔ حاذق کی پیدائش کے دوسال بعد رانیہ کی پیدائش ہوئی۔رانیہ کی پیدائش کے دو مہینے بعد ہی مومنہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی۔
میں پھر تنہا ہوگیا۔
ایمن مجھ سے ناراض مت رہنا مجھے تمہاری ناراضگی برداشت نہیں بس مجھے معاف کردو۔
ایمن میں تم ست کچھ مانگنا چاپتا ہوں ایمن رانیہ کو اپنی بیٹی بنالو اسے کسی غیر کے ہاتھ مت سونپنا
اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا تمہارا بہت بڑا احسان ہوگا مجھ ہر یہ
تمہارا بےبس بھائ
ماجد خان
خط ہاتھ سے نیچے گرگیا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا دل کا ہر گلہ ختم ہوچکا تھا اب کوئی شکوہ باقی نہ رہا
بادل جھر چکے تھے۔آسمان صاف ہوچکا تھا۔
****************************************
ہر طرف لال گلاب کے پھول تھے درمیان میں وہ دلہن بنی بیٹھی تھی م یرون کلر کے عروسی جوڑے جس کے اوپر خوبصورت گولڈن کام ہوا تھا کلر میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ آج اس کا نکاح تھا مگر ماموں کے اصرار پر آج ہی رخصتی ہوگئی۔
اس وقت اسکو کسی چیز کی خوشی نہیں تھی مگر وہ خوش دکھنے کی اداکاری کررہی تھی اسکو اسکے باپ کا مان رکھنا تھا اور اپنے وعدے کی پاسداری کرنی تھی جو اس نے کیا تھا۔
ہال میں سب اسکی تعریف کررہے تھے۔مگر اس کا دل خوش نہ تھا اس کا دم گھٹ رہا تھا۔
مجھے بے چینی ہوررہی ہے میں کمرے میں جانا چاہتی ہوں اس نے ساتھ بیٹھی اپنی کزن سے کہا
ہاں اچھا ٹھیک ہے رکو ایک منٹ میں بس آئی۔یہ کہہ کر وہ اٹھ گئی .... واپس آکر بولی آجاؤ
یہ کہ کر وہ اسے وہاں سے لے گئی۔
کمرے میں داخل ہوئی تو پورا کمرہ سرخ و سفید پھولوں سے سجا تھا ۔
اگر اسکی جگہ کوئی بھی ہوتا تو اپنی قسمت پر رشک کرتا ۔
تم بیٹھو میں تمہارے لیے ریفریشمنٹ لے کر آتیں ہوں۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی
اس کے جانے کے بعد وہ بیڈ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد دروازہ دوبارہ کھلا اور راہم ہاتھ میں
کھانے کی ٹرے لے کر داخل ہوا اس کو دیکھ کر وہ بلکل سیدھی ہوگئی ۔۔۔۔۔
یہ لو کھالو۔۔۔۔اس نے سرسری سے لہجے میں کہتا وہ باتھ روم چلا گیا۔
اس کے اس لہجے نے اس کو پریشان کردیا۔اس نے ایک نظر بند دروازے کی طرف دیکھا اور ایک نظر کھانے کی طرف دیکھا کھانا ایک طرف رکھ کر وہ پھر اپنے پہلے والی حالت میں بیٹھ گئی اور کب نیند کی وادی میں اتر گئی اسکو معلوم نہ ہوا ۔۔۔۔
اسکو خود پر نظروں کی تپش محسوس ہوئی تو اسکی آنکھ کھل گئی سامنے راہم بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ بوکھلا کر بیٹھ گئی۔
تم۔خوبصورت ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر میرے ساتھ ساتھ نہیں جچتی۔
اسے لگا جیسے کسی نے اس کے چہرے پر بیچ بازار میں طمانچہ ماردیا ہو۔
اس کی آنکھیں دھندلا گئیں اور اس کے کانوں میں وہ الفاظ پڑنے لگے جو کبھی وہ ارین کے لیے اس نے بولے۔۔۔۔۔۔
"مکافات نہ در دیکھتا ہے نہ دستک دیتا ہے وہ بس آجاتا ہے مختلف شکلوں میں"
*******************************
اس وقت وہ اس مسجد کے باہر بیٹھا تھا یہاں پر اسے وہ سکون مل رہا تھا جو اسے فائیو سٹار کے کسی لگثری بیڈ پر بھی نہیں مل سکتا تھا۔اس کی نظر سامنے روڈ پر تھی۔ اس نے دیکھا ایک بزرگ آدمی سڑک پار کرنے کی کوشش کررہا تھا اتنے میں ایک تیز رفتار گاری آئی اور اسے ٹکر مار کر گزرگئی۔
وہ جلدی اٹھا اور اس بزرگ کے پاس پہنچا اور انہیں سہارا دے کر کھڑا کیا اور ان سے گھر کاایڈریس پوچھا۔پہلے تو کچھ حیران ہوۓ پھر انھوں نے بتادیا ان کے بتاۓ ہوۓ ایڈریس کی طرف وہ چل پڑے۔۔۔۔۔
کہا تھا تمہارے ابا کو کہ مت نکلیں اس عمرمیں گھر سے مگر سنتے کہاں ہے وہ کسی کی خود کو ابھی بھی جوان ہی سمجھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلقیس بانو پریشانی سے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
کچھ نہیں ہوتا اماں ابھی آتے ہی ہونگے۔
اتنے میں دروازے کی بیل بجی جمال نے دروازہ کھولا سامنے اسکے والد صاحب کھڑے تھے ساتھ ہی ایک نوجوان لڑکا کھڑا تھا جس نے انکو سہارا دیا تھا اس نے آگے بڑھ کی باپ لو سہارا دیا۔
کیا ہوا ابا جی آپکو اور یہ کوں ہے ۔اس نے اپنے باپ کو تھامتے ہوۓ کہا ۔
ارے نیک بخت صبر کرلو اندر تو آنے دو آؤ بیٹا تم بھی آجاؤ ایک کپ چاۓ پی لو ہمارے ساتھ۔
نہیں انکل اب مجھے چلنا چاہیے۔وہ بولا مگر ان کے زیارہ اصرار پر اندر داخل ہوگیا۔
ارے واہ میں نہ کہتی تھی ابھی دنیا سے اچھائی ختم نہیں ہوئی۔بلقیس بانو پورا قصہ سن کر بولیں۔
بیٹھو میں چاۓ لے کر آتی ہوں یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلی گئیں۔
آپ نماز پڑھ کر آررہے تھے مسجد سے؟؟؟جمال نے پوچھا۔
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا آذر صاحب بولے ۔
ہاں تو بیٹا نماز کا وقت تھا نماز ہی پڑھ کر آررہا ہوگا۔
نہیں انکل میں مسلمان نہیں ہو ں۔ وہ بولا ۔ایک منٹ کے لیے وہاں خاموشی چھاگئی۔
اس خاموشی کو آذر صاحب نے توڑا۔
مسجد میں پھر کیا کررہی تھے آپ؟؟ انھوں نے پوچھا
یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم میں وہاں خود بخود کھینچا چلا جاتا ہوں شاید لوگ صحیح کہتے ہیں مسلمان جادو کردیتے ہیں اور شاید مجھ پر بھی جادو کردیا ہے
اس کی بات سن کر وہ مسکراۓ اور بولے بیٹا یہ جادو نہیں یہ کشش ہوتی ہے جو صرف ان لوگوں کے لیے ہوتی ہے جن سےﷲ محبت کرتا ہے کتنے ہی سیاح پاکستان تفریح کرنے آتے ہیں مگر ان میں سے کوئی تائب نہیں ہوتا لیکن تم ہوررہے ہو اور یہ ﷲ کی چاہ ہے کہ تم بھی اس کے رسول سے محبت کرو جیسے وہ اہنے محبوب سے کرتا ہے ۔
رسول کون؟؟؟؟؟؟انکی بات سن کر وہ متاثر وہ بولا
رسول انبیا کو کہتے ہیں جب کائنات کو ﷲ نے بنایا تو ﷲ نے بہت سے انبیا کو بنایا اور کائنات میں بھیجا کہ وہ آۓ اور لوگوں کی رہنمائی فرمائیں اور ﷲ کی انکو پہچان کروائیں تاکہ لوگ نیکی اختیار کرلے اور بدی کے کاموں سے محفوظ رہیں اور ٰ نبی ﷺ ﷲ کے آخری نبی ہیں ان کے بعد کسی بھی صورت نبی نہیں آئیں گے اور ان پر ہی دین مکمل ہوگیا تھا۔
رسول یعنی علم فراہم کرنے والا لیکن عیسٰی تو ﷲ کے بیٹے ہیں اور ایک سچے مسیحا ہیں تو دین تو ان پر مکمل ہونا چاہیے تھا اور لوگوں کع انکی پیروی کرنی چاہیئے۔وہ بولا۔
بیٹا ﷲ کا کوئی بیٹا نہیں ہے وہ اکیلا ہے نہ اس سے کسی نے جنا ہے نہ ہی اس کو کسی نے جنا ہے اور دوسری بات عیسی مسیحا تھے یہ ہمارا بھی ایمان ہے مگر انھوں نےبھی آپ ﷺ کی بشارت دی تھی اوربولا تھا جب وہ آئیں تو ان پر ایمان لے آنا۔
اسی وقت بلقیس بانو کمرےمیں داخل ہوئیں وہ اسکی بات سن چکی تھیں وہ.آئیں اور اس کے سامنے بیٹھ گئیں اور بولیں
عیسیٰ ٰ(علیہ سلام ) مسیح تھے صرف ایک قوم کے ایک آبادی کے مگر آقا ﷺ پوری دنیا کے لئے ہدایت کا پیکر ہیں ان کا کوئی قبیلہ نہیں ہم سب ان کے پیروکار ہیں ان کو ماننے والے ہیں۔ وہی ہمارے رہبر ہے اور آخرت تک رہیں گے۔ ہاں عیسیٰ کو ﷲ نے حیران کن صلاحیتوں سے نوازا ہےجس سے کسی اور نبی سے نہیں نوازا گیا لیکن اس سے عیسٰی ان پر برتر نہیں ہوۓ اور بھی انبیا ہیں جن کو صلاحیتوں سے نوازا ہے موسٰی( علیہ سلام) کا عصاء سانپ بن گیا۔ہر نبی کو مختلف صلاحیتوں کے ساتھ آزمایا گیا لیکن جو مقام رسول ﷺ کو ملا وہ کسی کو بھی نہیں ملا وہ مہر ہیں انبیاء کی جس طرح خط پر مہر لگ جانے کے بعد وہ کھل نہیں سکتا اسی طرح آپ
ﷺ کے بعد نبی نہیں آسکتا۔ وہ ان کی باتوں کو تحمل سے سن رہا تھا۔
what is the diffrent between bible and Quran Both r books of God???
اس نے پھر سوال کیا ۔وہ اس کے سوال پر مسکرائیں اور بولیں بیٹا ! بائبل اور قران ایک رب نے ضرور اتاری ہیں مگر وہ ایک طرح کی نہیں ہیں بائبل ایک بار اتاری گئی مگر قرآن ایک بار میں نہیں اتارا گیا مختلف مو قعوں پر حالات کی پیش نظر اتارا گیا یہ تمہارا حال تمہارا ماضی اور مستقبل جانتا ہے آپ ﷺ کے بعد یہی انسانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے۔وہ گہرا سانس لیتے ہوۓ بولیں اور وہ گہری سوچ میں چلا گیا۔