السلام عليكم امی جان !۔
وعليكم السلام بیٹا!
وہ دونوو اس وقت ناشتے کی ٹیبل پر موجود تھے۔جب علی نے مومنہ شاہ کوسلام کیا جب کا انھوں نے محبت سے جواب دیا۔
ماما آج مجھے آنے میں تاخیر ہوجاۓ گی۔آپ کھانا کھالینا۔اس نے کہا
خیریت بیٹا۔انھوں نے پوچھا
جی ماما آج ڈاکٹر شہزاد راؤ آررہے ہیں تو ا نکے ساتھ کمٹمنٹ ہے۔اس نے بتایا
اوہ اچھا ۔
جی اب میں چلتا ہوں ﷲ حافظ
اور وہ کام کے لیے نکل گیا ۔
*******************************
ہاں میں تم سے ملنے آررہی ہوں نہ کیوں تم پریشان ہورہے ہو۔اس نے فون کان سے لگاۓ کہا۔
مقابل نے کچھ کہا۔
ہاں بابا دیر تک رکوں گی تم فکر نہ کرو۔
تم نے باقی لوگوں کی بھی انوائٹ کرلیا ہے نہ ۔اس نے دوبارہ بولا۔
اوفو آج تمہارا اسپیشل ڈے ہےتمھیں سب کو بلانا چاہیے۔
اس نے مقابل کی بات سن کر کہا۔
یاں میں دیر تک ہی رکوں گی اب فون بند کروں بھائ یا بابا آتے ہونگے۔
اس نے کہہ کر فون بند کردیا اور آنکھیں بند کرکے مسکرانے لگیں۔
*********************************
واؤوو ایک ہفتے بعد نکاح کتنا مزا آۓ گا نہ ارین باجی دلہن بن کے کتنی پیاری لگیں گی نہ ۔علیزے نے جوش سے کہا ۔
ہاں بھائ پیاری تو لگیں گی۔ارتضٰی بھائ بہت خوش قسمت ہیں جن کو ارین جیسی دلہن ملے گی۔
ہاں مگر میری بہت خواہش تھی کہ ارین باجی کی شادی علی بھائ سے ہوجاتی نہ ہم سے دور بھی نہ جاتیں۔علیزے نے اداس ہوتے ہوۓ کہا۔
ارے میری جان یہ تو قسمت کے کھیل ہیں بس ﷲ اس کے نصیب اچھے کرے۔آمین۔حیا نے کہا۔
آپ کدھر کھوئی ہوئیں ہیں لگتا ہے اپنے ''ان" کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔حیا نے آنکھ دباتے ہوۓ کہا
ارین جو کب سے خاموش تھی اس کی بات سن کر بولی ۔نہیں پتا نہیں دل کیوں گھبرارہا ہے ڈر لگ رہا ہے کہ کچھ برا نہ ہوجاۓ۔
ﷲ نہ کرے ایسا کیوں سوچ رہی ہو۔ﷲتمہارے حق میں بہتر کرے گا۔حیا نے اسے تسلی دی۔
ہمم آمین۔ارین نے دھیرے سے کہا۔
اچھا تو اب امی کے پاس چلتے ہیں اور کاموں کی لسٹ بناتے ہیں۔حیا بولی۔
میرے سر میں درد ہورہا ہے۔میں کچھ دیر سونا چاہتی ہوں تم لوگ جاؤ ۔
اچھا آرام کرو۔میں اور علیزے سنبھال لیں گے۔
اوکے۔اس نے کہا۔
**********************************
ارتضی تمارا دماغ ٹھیک ہے ایک ہفتے بعد اور تم سیر سپاٹے کے لیے جارہے ہو۔مراد برہم ہوا۔
افففففف ڈیڈ کول ڈاؤن نکاح سے پہلے موجود ہونگا اور روبائشہ نے کہا تو میں منع نہی کرپایا۔اس نے عذر پیش کیا۔
واٹ بیٹا ہم ماڈرن ضرور ہیں مگر بے شرم نہی جو شادی سے پہلے اس لڑکی کے ساتھ تم ایسے گھومنے جاؤ۔
ڈیڈ اب زمانہ ماڈرن ہوچکا ہے اور آپ ابھی تک ان دقیانوسی باتوں پر یقین رکھتے ہیں۔اس نے جیسے افسوس کیا۔
اوہ بڈی کول ول بچہ ہے اور ٹھیک کہہ رہا ہے انڈرسٹینڈنگ ہونی چاہیے تاکہ بعد میں اچھی طرح گزر بسر ہوسکے۔
اس سے پہلے کے مراد کچھ کہتا اس آواز نے اس کے الفاظوں و روک لیا ۔
اوہ ہو آپ ادھربھول کر تو نہی آگۓ ہممم بولیں۔ارتضی شوخا ہوا۔
ہاں ۔ اور دیکھو ٹھیک وقت پر آگیا اور تم جاؤ گھومنے جاؤ کچھ نہی بولے گا۔ماموں نے کہا۔
مگررر۔مراد نے بولنا چاہا
اوہ یار تم اور باجی بھی تو ایسے ملتے تھے تو اپنا وقت بھول گیا اب بچوں پر سختی کررہا ہے۔چل جا پتر اپنی تیاری کرر۔انھوں نے بیچ میں بات کاٹ دی۔
اور ارتضی جو وہاں سے بھیج دیا۔
تو میرے بچوں کو بگاڑرہا ہے۔
ہاں نہ بگھڑے باپ کی بگھڑی اولاد۔اس نے بھی قہقہ لگاتے ہوۓ کہا۔
****************************************
وہ لوگ ابھی ابھی ائیرپورٹ سے گھر آۓ امان جتناپہلے ایکسائٹڈ تھا اب اتنا ہی سنجیدہ لگ رہا تھا
جوزف نے غور نہیں کیا کیونکہ وہ ابھی سفر سے تھکے آۓ تھے اس لیے گھف پہنچتے ہی وہ لوگ بستر میں لیٹ گئے۔جوزف سوگیا مگر امان ابھی تک الجھا ہوا تھا اس نے بہت کچھ پوچھنا تھا۔مگر کیا وہ بھی نہی جانتا تھا
*************** *********************
ہاں فری ہوگیا ملاقات اچھی رہی وہ ایک ہفتے تک سینٹر میں ہی رکیں گے۔وہ فون پر محو گفتگو تھا۔
وہ ابھی ابھی ڈنر سے فارغ ہوکر گھر کی جانب جاررہا تھا۔سڑک کافی سنسان تھی حالانکہ ابھی صرف نو بجے تھے۔اچانک اس کی نظر گاڑی پر پڑی جو بہت بری حالت میں تھی۔
اچھا یار میں بعد میں بات کرتا ہوں اس نے فون رکھا۔گاڑی سے نکل کر وہ اس گاڑی کی طرف بڑھا اس کے اندر شخصیت کو دیکھ کر وہ حیران پریشان ہوگیا۔
*****"*****************************
ہاں تو اس میٹنگ کا کیا ہوا؟؟
ہاں یار ڈیل تو ہوگئی آگے دیکھو کیا ہوتا ہے۔تم اپنا سناؤ تمارا کیسا جارہا۔مراد نے جواب کے آخر میں سوال کیا۔
بہت بہترین اور ایک یہ بات بتا تو ارتضی کی شادی کررہا ہے وہ بھی کاشم شاہ کی بیٹی سے۔کل کو اگر ماضی کھل کر سامنے آگیا تو۔اس نے سوال کیا۔
کیسا ماضی بھئ کس کا ماضی۔ہممم؟ رجا نے کمرے میں داخل ہوتے ہوۓ پوچھا۔
سیکرٹ۔۔اس نے کہا۔
اوہوووو بڑے لوگ آئیں ہیں آج ہمارے گھر۔وہ ان سے ملتے ہوۓ بولی۔
دیکھ لو پھر۔انھوں نے بھی کہا۔
اچھا ڈیڈ میں چلتی کوں مجھے ایک دوست کی برتھڈے پارٹی میں جانا ہے۔اوکے باۓےے۔
وہ مراد کو کہتے ہوۓ نکل گئی۔
پیچھے مسکراتے ہوۓ وہ اسے دیکھنے لگے۔
تو رجا کو کبھی نہی روکتا۔اس شخص نے کہا۔
نہی میں رجا کو نہی روکتا کیونکہ مجھے اس پر یقین ہے کہ وہ کبھی بھی کچھ ایسا نہی کرے گی جس سے میرا سر جھکے۔وہ سر اٹھا کر بولے۔
مگر کیا واقعی ایسا ہوگا ۔
*********،*،*******************************
کیا ہے پاکستان میں جو مجھے نہی معلوم ایسا کیا ہوا تھا کہ پاپا کو اپنی سر زمین چھور کی اسی دوسرے ملک میں رہنا پڑا۔کبھی انھوں نے اس بات کا ذکر بھی نہیں کیا کہ وہ پاکستانی ہیں ۔
جب اسے نیند نہ آئ تو وہ یہ سب سوچنے لگا۔
پاپا نے کبھی جوزف کو چرچ نہی جانے دیا ۔
جوزف کون ہے کیا رشتہ ہے اس کا پاپا سے۔
اسے ایسا لگ رہا تھا کہ اسے پاکستان بلایا گیا تھا کچھ ہے جو اس کو اپنی طرف مسمائر کرہی تھی مگر ایسا کیا ہے وہ خود سمجھنے سے قاصر تھا۔
یہی سب کچھ سوچتے ہوۓ وہ نیند کی وادی میں چلا گیا۔
*****************************"***********
مومنہ شاہ علی کا انتظار کرہی تھیں جب کافی وقت گزرگیا تو ان کو پریشانی ہونے لگی انھوں نے دو بار فون بھی کیا مگر فون اٹھایا نہیں گیا۔
تیسری دفعہ ابھی وہ فون کرنے لگیں کہ اچانک دروازے کی گھنٹی بجی۔
شکر ہے آگیا۔وہ دروازہ کھولنے گئی۔
مگر جیسے ہی دروازہ کھولا تو سامنے کھڑی شخصیت کو دیکھ کر وہ حیران ہوگئیں۔
ڈاکٹر اب کیسی ہے مریض کی حالت جیسے ہی ڈاکٹر باہر آۓ اس نے ان سے پوچھا
جی انجری بہت زیادہ ہے دماغ کے نرم حصوں میں بھی کانچ کےچھوٹے چھوٹے ٹکڑے ہیں جن میں سے کچھ نکال چکے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ بھی بہت جلد نکال لیں گے۔
آپ فکر مت کریں۔ڈاکٹر پروفیشنل انداز میں کہتے ہوۓ چلے گئے ۔
اس نے موبائل چیک کیا تو وہاں دو مسڈ کالز تھیں۔
اس نے نمبر ڈائل کیا۔
السلام عليكم ارحم ایک کام تھا۔
********************************
ہما چلو یار واپس چلتے ہیں۔حاذق نے اپنی بہن سے کہا۔
آپ چلیں جائیں۔اس نے بھی اسی ٹون میں جواب دیا۔
تائ نے اندر تو آنے نہی دینااااااااآہ ہ اس سے پہلے وہ اپنا جملہ پورا کرتا کسی نے زور سے کان کھنچا
بہت بولنے نہی لگ گئے ہاں ڈرامےباز ۔ہممممم وہ اس کے کان سے کھنچ کر اندر لائی۔
ان کے پیچھے وہ دونوں بھی داخل ہوئیں۔
ارے میری پیاری تائ جان کان چھوڑیں۔ اس نے کان چھڑوانے کی ناکام کوشش کی۔
اس کی شکل دیکھ کر ان تینوں کی ہنسی چھوٹ گئی۔
حد ہے امی آپ کا لاڈلا سپوت یہاں درد سے چیخ رہا ہے اور آپ ہنس رہی ہے۔چچچ چچچ۔اس نے گویا افسوس کرتے ہوۓ کہا۔
جس کے نتیجے میں جان اور زور سے مروڑا گیا۔
ہاۓ چھوڑ دیں رحم کردیں۔
اس بار مومنہ نے کان چھوڑدیا۔
ہاۓے تائ اتنا لمبا کردیا کان آپ نے میرا ۔حاذق نے کان مسلتے ہوۓ کہا۔
اثر تو پھر بھی نہ ہوا۔ہما بولی۔
اور سناؤ مومنہ کیسی ہو۔علی کیسا ہے۔ایمن نے اس سے ملتے ہوۓ کہا۔
میں ٹھیک بس علی کا انتظار کررہی تھی آج لیٹ ہوگیا ہے۔
ایمن کی شادی حلیمہ بیگم کے دوسرے بیٹے سے ہوئی تھی۔
ہاۓ کہیں چھپ کر نکاح تو نہی کرلیا۔ حاذق نے مارے صدمے سے کہا۔
میرا نام علی ہے حاذق نہیں۔علی نے جواب دیا جو ابھی ابھی گھر داخل ہوا تھا اور اس کی آواز سن لی تھی۔
کہاں تھے بیٹا اتنی دیر لگادی کب سے تمارا انتظار کرہی تھی۔مومنہ بولی
امی جان وہ بس کام میں مصروف تھا۔اس نےجواب دیا۔
اچھا بیٹا خبر تو دےدیتے۔انھوں نے کہا۔
اگلی دفعہ دیہان رکھنا۔
ایمن تم لوگ فریش ہوجاؤ۔مومنہ نے کہا
ہمممم۔
********************************
اتنا تو ٹائم ہوگیا ہے دیکھو بارہ بج گئے ہیں۔اب مجھے چلنا چاہیے۔اس نے کہا۔
ابھی تھوڑی دیر اور رک جاؤ۔مقابل نے کہا۔
نہیں رک سکتی نہ سمجھا کرو نہ۔
اچھا ٹھیک ہے جاؤ مگر اگلی دفعہ جلدی ملنے آنا۔
اوکے ڈن۔اس نے مسکراتے ہوۓ کہا۔
****""""""******************************
تمھیں کیا ہوا ہے ؟؟؟جوزف نے کہا۔
امان جو کسی سوچ میں گم تھا اس کی آواز سے ہوش میں آیا ۔
کہیں نہی میں نے کہا کھونا ہے۔یہی پر تو ہوں۔اس نے جواب دیا۔
کہاں گئی تماری ایکسائٹمنٹ یہاں آنے سے پہلے تو بہت خوش تھے اب کیا ہوگیا۔
معلوم نہی مگر ایسا لگتا ہے جیسے یہاں میں نہی آیا مجھے بلایا گیا ہے۔
معلوم نہیں وہ کون سی چیز ہے جو مجھے اپنی ھانب کھینچ رہی ہے اور میں کھینچا چلا جارہا ہوں۔
اس نے کہا۔
امان مجھے تیری طبیعت کچھ خاص ٹھیک نہیں لگ رہی میرے بھائ تجھے آرام کی ضرورت ہے۔تھوڑی دیر آرام کر پھر ہم لوگ کہیں گھومنے جائیں گے۔
مگررررر۔اس نے بولنا چاہا
بس کہا نہ ریسٹ کر مائنڈ فریش ہوگا۔ جوزف نے اسے ٹوک دیا۔
*****************************************
اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔وہ دوپہر کے کھانے کی تیاری کررہی تھیں۔جب انھوں نے ایمن سے پوچھا آج کھانے میں کیا بناؤ؟؟
اس سے پہلے وہ کوئ جواب دیتیں۔
کریلے بنا لیں مجھے بہت پسند ہیں۔ حاذق بولا۔
آپ تو روزانہ کریلے کھا سکتے ہیں۔ہنا بولی۔
ہاں جی یہ ہمارے خون کو صاف کرتے ہیں۔وہ مزے سے بولا۔
ایک بات تو بتائیں سب اپنے والدین پر یا کسی رشتہ دار پر جاتے ہیں آپ کس پر گئے ہیں۔ہما نے سوچنے والے انداز میں کہا۔
کیا مطلب۔اس نے آنکھیں سکوڑ کر کہا۔وہ اس کی آنکھوں میں چھپی شرارت نہی دیکھ سکا۔
ہاں نہ دیکھیں اولاد کی جو عادتیں ہوتی ہیں وہ اپنے والدین یا کسی رشتے دار سے ملتی ہیں جیسے خالہ ماموں پھپو چچا وغیرہ سے مگر آپ کی تو کسی سے نہی ملتی۔اس نے سمجھایا البتہ آنکھوں میں شرارت ابھی تک برقرار تھی۔
بیکوز آئم یونیک۔اس نے کالر جھاڑتے ہوۓ کہا۔
جی نہی کیونکہ آپ ہمارے اپنے نہی کو میں نے خود ماما پاپا کو بات کرتے ہوۓ سنا تھا کوئ آپ کو دروازے پر چھوڑ گیا تھا۔آپ کی تو شکل بھی ہم سے نہی ملتی۔ہما نے لہجے میں سنجیدگی لاتے ہوۓ کہا۔
حاذق اس کی بات سن کر ایک دم خاموش ہوگیا کیونکہ یہ سب تو سچ تھا۔
اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا تو بے تاثر چہرہ لے کر اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
ماں اس کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا کہ ہما کی ہنسی چھوٹ گئی۔
مومنہ بھی ہنسنے لگی۔
حاذق کو ساری بات سمجھ آگئی۔
ہما کی بچی رک ابھی بتاتا ہوں تمہیں۔یہ کہہ کر وہ اس کی طرف لپکا مگر وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھی فورا بھاگ نکلی۔
ٹام اینڈ جیری کا کھیل شروع ہوگیا۔
ان کے پیچھے مومنہ مسکرانے لگیں۔
ان کی نظر ایمن پر پڑی۔جو ابھی بھی ویسے ہی بیھٹی تھی۔
کیا ہوا؟؟ انھوں نے پوچھا۔
حاذق بلکل ماجد بھائ کی کاپی ہے۔ان جیسے نقوش ان کی پسند ایسا لگتا ہے وہی پرانے بھائ دوبارہ ہمارے سامنے کھڑے ہیں۔
کہاں ہونگے وہ کیسے ہونگے۔انھوں نے شادی کرلی ہوگی۔ مومنہ بھائ نے کیوں میراج خیال نہیں کیا اور طلے گئے ایک بار بھی نہی سوچا ان کی ایمن ان کے بغیر کیسے رہے گی۔انھوں نے باپ بن کر پالا تھا۔مومنہ میرا دل آج بھی گواہی دیتا ہے کہ میرا بھائ گناہگار نہی۔ان کا چہرہ آنسوؤں سے تر تھا۔
بس ایمن بچے کیا سوچیں گے تمہیں ایسے دیکھ کر مومنہ نے ایمن کو گلے لگا کر بولا۔
******************************
افففف اٹھالیں فون پاکستان جا کر لگتا ہے بھول گئے ہیں۔وہ جو کب سے فون ملانے کی کوشش کرہی تھی آخر میں ناکام ہوکر بولی۔
تو چھوڑ دو کیوں فکر کرہی ہو مصروف ہونگے یا سگنل کا مسئلہ ہوگا۔ہزیل نے اس کو تسلی دی۔
اب ایسی بھی کیا مصروفیات کہ ایک کال بھی نہ کرسکے۔
اچھا ریلیکس دوبارہ کوشش کرلینا کچھ دہر بعد۔ ہزیل نے تسلی دی۔
ہمممم اچھا ٹھیک ہے۔اس نے منہ بسور کر کہا۔
**********\\\\\\\\*******\\\\\\\\***
ابھی ابھی وہ سو کر اٹھا تھا۔جوزف موجود نہ تھا گھر میں ۔وہ اٹھا کچن میں گیا۔کافی بنائی اور بالکونی میں آگیا۔اسلام آباد کی خوبصورت شام جو اپنے اختتام پر تھی۔وہ بالکونی میں کھڑا تھا۔اس کے سر میں شدید درد تھا۔ اتنے میں دور کہیں سے اذان کی آواز آنے لگ گئی یک دم اس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ پرسکون فضائیں،ڈھلتا سورج تنہائی اور اذان۔ جیسے ہی اذان کی آواز اس کے کا نوں میں سر گھول رہی تھی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئ اس کی گرد حصار کیے بیٹھا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو اپنے پہلو میں چھپا کر رکھتی ہے ہر مصیبت سے حفاظت اسے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ماں کی گود میں ہو اس کے سر کا درد ختم ہوچکا تھا۔ایسا محسوس کیا جارہا تھا جیسے کسی نے ابھی اس کے جسم کے تمام اعضاء میں جان بھری گئی ہو۔
ٹھنڈی فضا ڈوبتا سورج
تنہائی آپ اور اذان
اذان ختم ہوچکی تھی مگر وہ ابھی بھی اس کے سحر میں مدہوش تھا۔اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے آج ہی دنیا میں آیا ہو۔ کافی ٹھنڈی ہوچکی تھی۔
مگر وہاں پروا کسے تھی۔
وہاں پر وہ تھا اور اس کا رب جس سے عہ بے خبر تھا مگر وہ رب اپنے بندوں سے بےخبر نہی۔