جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا اس کی نظر اپنی ماں پر گئ جو کھانس رہی تھی ان کو دیکھ کر وہ اکتایا اور کچن کی جانب بڑھ گیا۔کچھ ہی دیر بعد اس کی واپسی ہوئ وہ طیش میں تھا۔
اگر تجھے تیرے شغل سے فرصت مل گئی ہو تو مجھے روٹی پکا دے ۔اس نے طیش سے کہا۔ اس کی ماں اسکو دیکھتی رہی پھر بولی آج طبیعت ناساز تھی نہی پکائ گئی میں بھی نہیں کھائی تو لے لا تو دونوں ماں بیٹے ساتھ کھائیں گے جا میرا لال وہ محبت سے بولیں۔
میرے باپ کو کھاگئ وہ کافی نہیں ہے تیرا پیٹ نہیں بھرا اور آٹا لا کر دیا ہے نہ پکا اٹھ کر۔ باہرسے لے آوں۔ میرا باپ قارون کے خزانے نہیں چھوڑ کر گیا جو تیری عیاشی میں اڑاؤں۔وہ درشتی سے کہتا ہوا چلا گیا پیچھے وہ لاغر وجود آسمان کی طرف دیکھتے ہوۓ فریاد کرنے لگا اور چاروناچار اٹھ کر کطن کی جانب بڑھ گیا یہ ایک چھوٹے سے محلے کا بوسیدہ سا مکان ہے جہاں یہ دونوو ماں بیٹے رہتے ہیں اس گھر کا خرچہ کریانے کی دکانوں کے کراۓ پر چلتا ہے۔
************************,,,,,****************
اس نے آرام سے ان کو بستر پر بٹھایا آپ اپنا بلکل بھی خیال نہیں رکھتی نہ ڈاکٹر نے بھی یہی کہا ہے آپ اپنا خیال رکھا کریں ۔ اس نے محبت سے ان کا ہاتھ چوما۔
ارے کیا آرام کرو بلکل ہی بستر سے لگ جاؤں اب جتنا ہوسکتا ہے اتنا کرتی ہوں جلدی سے تو شادی کرلے اور ایک پیاری سی دلہن لے آ اس کے بعد میں مر بھی جاؤں تو کوئ کسک نہیں رہے گی مجھے۔
کیسی باتیں کررہی ہیں دادی آپ آپکا سایہ ہم پر ہمیشہ رہے آمین اس نے محبت سے کہا
ہیلو گائیز! کیا ہورہا ہے وہ دھپ کرکے بستر پر بیٹھی۔
آے ہے لڑکی آرام سے ناجانے کون سے طور طریقے ہیں تیرے لڑکیوں کو زیب نہیں دیتے ایسے طریقے اگلے گھر جاۓ گی تو ناجانے وہ کیا سوچیں گے ماں باپ نہیں تھے تو دادی بھی کچھ نہ سکھا سکی ان کو اس کی اوٹ پٹانگ حرکتوں سے بہت چڑ تھی ۔۔
اوہو دادی آپ بھی نہ کیا طور طریقوں کو لے کر بیٹھ گیئں ہیں اب یہ سب کچھ نہیں دیکھا اور مجھے کوئ فرق نہیں پڑتا سلمان انکل کیا سوچتے ہیں۔اس نے بے نیازی سے کہا۔
دادی اسکی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہیں تھیں۔۔
ارے بھئ ابھی تو آپ نے کہا ۔ وہ کھڑی ہوتے ہوۓ بولی۔
دادی ناسمجھی سے اسے دیکھتی رہیں۔
بھئ آپ ہی نے کہا اگلے گھر والے کیا کہیں گے اگلے گھر میں تو سلمان انکل رہتے ہیں نہ۔ یہ کہتے ہوۓ دوڑ لگادی۔
جب تک دادی کو بات سمجھ آتی وہ جاچکی تھی
وہ بس اسے صلواتے سناتی رہ گیئں ۔
ماجد نے ان کا غصہ ٹھنڈا کیا۔
ایک یہ نالائق ہے اور ایک اسکی سہیلی ہے مومنہ معصوم اتنی سادہ ہے دل خوش ہوجاتا ہے۔وہ مومنہ کی تعریف کرنے لگیں ۔
مومنہ کا نام سن کر ماجد کے چہرے پر ایک جاندار مسکراہٹ آگئی۔
************************************
اس وقت وہ دونو کینٹین میں تھیں ان کی کلاسز کو تین مہینے ہوچکے تھے اور دو مہینے بعد پیپرز تھے
بیلا اور جینی سے ان کی رسمی بات ہوجاتی ورنہ کوئ خاص دوستی نہیں تھی
افففف پیپرز پھر سے یار ہر جگہ پیپرز ضروری ہیں کیا۔سکول سے نکلو تو کالج میں پیپرز میں تو تنگ آگئیں ہوں کوئ ایسا حل بتاو جس سے پیپرز نہ ہوں۔ ایمن نے کہا
ہممم سمپل ہے شادی کروالو پیپرز کی ٹینشن سے بھی آزادی ۔مومنہ نے نوٹس بناتے ہوۓ کہا۔
ہاہاہا گڈ آئیڈیا پہلے ماجد بھائ کی تو ہولینے دو پھر اپنا نمبر آۓگا۔ اس نے ڈرامائ انداز میں کہا
چلو لیکچر کا ٹائم ہوگیا ہے۔
جیسے ہی کلاس میں پہنچی تو معلوم ہوا آج سر نہیں آۓ۔آدھی کلاس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ باقاعدہ بھنگرے ڈالےجن میں ایمن کا شمار بھی ہوتا ہے جو باقاعدہ ڈھول بجانے کے حق میں تھی اتنے میں سر عاقب کلاس میں آۓجن کا شمار کالج کی معتبر شخصیات میں ہوتا ہے۔سب ان کو دیکھ کر بیٹھ گۓ۔ سر عاقب حافظ قرآن تھے ان کی آواز میں ایک ایسا تاثر تھا گویا جادو ہو اگلا بندہ دیوانہ ہوجاۓ۔
وہ آکر آرام سے چیئر پر بیٹھ گئے اور اسائمنٹ چیک کرنے لگ گئے جو اپنے ساتھ لاۓ تھے۔
سر ہم نے سنا ہے آپ کی آواز میں جادو ہے ہمیں بھی آپ تلاوت کرکے سنائیں نہ۔ایک لڑکی ے کہا
سر نے اس کی طرف دیکھا پھر مسکراۓ اور باقی سب کو دیکھا۔ان کے چہروں سے بھی لگ رہا تھا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔ وہ گہرا سانس لیتے ہوۓ ڈیک پر آے اور مائک قریب کرکے سورةرحمٰن کی تلاوت شروع کی ۔
صد خاموشی تھی سب اس کے سحر میں گرفتار ہوگۓ۔تلاوت جیسے ہی ختم وہ کلاس دے نکل گئے چھٹی کا وقت تھا کلاس میں اب اکادکا اسٹوڈنٹ تھے اسے کسی نے بری طرح جھنجورا۔
ہہہہ۔وہ جیسے کسی سوتے خواب سے جاگی ہو۔
کہاں کھوگی مقابل سے سوال آیا کہیں نہی چلو ۔ وہ کہہ کر چلی گئی پیچھے وہ ہکا بکا رہ گئی۔
آج ایک ہفتہ ہوگیا ہے اسکی حالت ایسی تھی رات کو سوتی تو وہی آواز گونجتی اسے لگتا کوئ اسے اپنی جانب کھینچ رہا ہو۔اس نے کسی سے رابطہ نہ کیا نہ اپنے بھائ سے نہ ہی بیلا سے
اس وقت وہ لوگ کلاس میں موجود تھے۔جب وہ داخل ہوئ سب دم بخود ہوگۓ وہ پہلے تو ایسی نہ تھی زرد رنگ لال آنکھیں جیسے سو ہی نہ سکی ہو ۔
سب حیران ہوگۓ اس کو دیکھ کر وہ آکر خاموشی سے جگہ پر بیٹھ گئی سر کلاس میں آگۓ کلاس شروع ہوگئی۔
*************************************
یار یہ آج جینی کو کیا ہوا ہے ایک ہفتے بعد آئ ہے اور ایسی حالت۔ ایمن نے تشویش سے کہا۔
ہممممم۔مجھے بھ۔ی۔اس سے پہلے وہ کچھ کہتی اس کےوم کندھے پر کسی سے ہاتھ رکھا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو جینی تھی۔
کیا ہم۔بات کرسکتے ہیں کچھ دیر کے لیے ؟؟
اس نے پوچھا
ہاں کیوں نہیں۔ مومنہ نے رسانیت سے کہا۔
یار مجھے تو بھوک لگ رہی ہے میں تو چلی کچھ کھانے ورنہ میرے معصوم سے چوہے جو پیٹ میں بے حال ہیں وہ اس دارِفانی سے کوچ کرجائیں گے۔
ان بولی اوروہاں سے چلی گئی۔
وہ دونوں بیک وقت مسکرائیں۔
جی کہیئے مومنہ نے جینی سے کہا جو انگلیاں چٹخارہی تھی
وہ سر نے اس دن کیا گنگنایا تھا۔اس نے پوچھا
ایک منٹ کے لیے وہ حیران ہوگئی۔۔
وہ سورة رحمن تھی اور اس کو تلاوت کیا گیا تھا گنگنایا نہیں گیا تھا۔اس نے اس کی طرف نظریں مرکوز رکھتے ہوۓ کہا۔
سورةرحمن؟؟؟اس نے سوالیہ نگاہوں سے دیکھا
ہممممم ﷲ کے کلام میں سے ایک خوبصورت تخفہ
وہ اب بھی اس کی طرف ایسے ہی دیکھ رہی تھی
قرآن مجید جو ﷲ نے عزت مآب مصطفٰی ﷺ پر نازل فرمایا۔
اس نے مسکراکر کہا۔
او میڈم تم لوگ ابھی بھی ادھر ہی ہو وہاں سر ایاز کلاس میں پہنچ گئے ہیں اور لگتا ہے بیگم سے جھگڑا کرکے آیئں ہیں ۔
وہ تینوں کلاس میں چلی گیئں۔
************************************
یار علیخان تو صرف باتیں ہی بناتا رہ کوئ کام نہ کریں جس سے دولت بنے۔وہ اس وقت پان کے کوکھے پر تھے۔ جب بدر نے اس کو مخاطب کیا۔
ہممم مگر یار کچھ ایسا کرنے کو ملے بھی تو۔اس نے کہا۔
کسی سونے کی چڑیا کو قید کر۔بدر نے معنی خیز لہجے میں کہا۔
وہ ناسمجھی سے اسے دیکھ رہا تھا۔
ابے نکمے کسی امیر باپ کی بیٹی کو پکڑ اور دولت ہر عیاشی کر ۔بدر نے کہا
ہاں وہ تو جیسے مجھ کنگلے کے لیے ہی بیھٹی ہوگی ۔ س نے تنک کر کہا۔
اوے یہ محبت میں کوئ دولت اوقات نہیں دیکھتا سمجھا۔سوچ لے ورنہ ساری زندگی ایسے ہی رہے گا ۔ وہ یہ کہہ کر چلا گیا۔
پیچھے سے وہ اس حوالے سے سوچنے لگا۔
فضول مشوره ہے ۔میں بھی کیوں اسکی باتوں پر دھیان دوں۔وہ بڑبڑایا۔
****************************************
اس وقت وہ سب رات کے کھانے پر موجود تھے جب دادی بولیں۔
ایمن مومنہ کی کسی کے ساتھ نسبت ہے؟؟
ایمن نے دادی کو دیکھا اور نفی میں سر ہلادیا۔
میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ مومنہ کو یہاں لے آؤ اپنی بیٹی بنا کر۔دادی بولیں ۔
ماجد ان کی بات سن کر بہت خوش ہوا جس کا ثبوت اس کے چہرے کی جاندار مسکراہٹ تھی
ڈیٹس ناٹ فیئر۔۔ ایمن بولی
دادی آپ مجھ سے زیادہ مومنہ سے پیار کرتی ہیں جو اس کو بیٹی بنا کر لاۓ گی ۔اور ابشام انکل آپ کو اپنی بیٹی کیوں دیں گے وہ مومنہ سے بہت پیار کرتے ہیں اور آپ کو کیا ضرورت ہے کسی کی بیٹی کو گود لینے کی آپ کے پاس ہم دونوں ہیں نہ ۔۔ایمن خفگی سے بولی
ارے کوڑھ مغز لڑکی میں اس کو اپنے ماجد کی دلہن بنانے کا کہہ رہی ہوں۔دادی نے اسکو دھپ رسید کرتے ہوۓ کہا۔
ہیں سچی! واقعی مجھے یقین نہیں آررہا مومنہ میری بھابھی بنے گی ۔واؤ ووووو
اچھا چل اب برتن سمیٹ۔ دادی نے اسے کہا
جی دادی۔اس نے کہا اور برتن سمیٹ کر کچن میں چلی گئی۔
جھلی ہے پوری۔ دادی نے کہا
ماجد تمھیں کوئ اعتراض تو نہیں۔انھوں نے پوچھا
دادی آپ کو جیسا بہتر لگے ۔ اس نے جھنپ کر کہا اور وہاں سے چلا گیا۔
************************************
اس وقت وہ دونوو اس سینٹر کے کیبن میں تھیں اور کسی کا انتظار کررہیں تھیں۔
سامنے سے وہ شخصیت آی جس کو دیکھ کر ایک کے چہرے پر پریشانی جبکہ دوسری کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
السلام عليكم کیسی ہی آپ ؟؟ اس نے ادب سے سلام کیا۔
وعليكم السلام میں ٹھیک تم سناؤ اور یہ کون ہیں تمھارے ساتھ انھوں نے پوچھا
یہ میری دوست ہے یہ دین حق اور آپﷺ کےبارے میں جاننا چاہتی ہے اچھا ۔ انھوں نے اسکی طرف جانچتی نگاہوں سے دیکھا ۔
جی چچی۔مومنہ نے کہا
نام کیا ہے تمھارا بیٹا۔ انھوں نے شفقت سے پوچھا
جینی اور میرا تعلق عیسائ طبقے سے ہے۔ میں اسلام اور آخری نبی کے بارے میں جاننا چاہتی ہوں۔اس نے کہا ۔
لیکن انکی آنکھوں میں اس کو دیکھ کر الگ ہی اک چمک تھی۔
ہمممم ضرور یہ دین ہر کسی کے لیے ہے اور محمد ﷺ تو سب کے لیے سرچشمئہ ہدایت ہیں۔انکا لہجہ خوبصورت اور دھیما تھا
ﷲ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے ہیں تاکہ انسان غلط راہ پر گامزن نہ ہوں اور جو لوگ بھٹک چکے ہیں ان کو راہ حق پر واپس بلانے کے لیے اور کتابیں بھی نازل فرمائیں تاکہ جب کوئ پیغمبر نہ ہو تو لوگ اس سے روشنی حاصل کریں آپ ﷺ آخری نبی ہیں ان کے بعد کوئ نہیں آۓ گا اور وہی محشر تک ہدایت کے پیکر رہیں گے ۔حلیمہ بیگم نے اسے سمجھایا۔
کیا اب لوگ نہیں بھٹکیں گے اور اگر بھٹک جائیں تو کیا ہوگا۔جینی نے ہوچھا ۔
بھٹکیں گے بار بار بھٹکیں سب سے زیادہ بھٹکیں گے لیکن اب نبی کسی صورت نہیں آۓ گا۔انھوں نے دوبارہ کہا
اور اب ان کے لیے قرآن رہنمائی کا ذریعہ ہے وہ اس سے رہنمائی حاصل کریں گے۔وہی ہے لوگوں کے اب رہنمائی کا ذریعہ۔انھوں نے دوبارہ کہا۔
قرآن کیوں باقی کتابیں بھی تو ہیں ان سے کیوں نہیں صرف قرآن سے ہی کیوں۔
باقی کتابوں میں ردوبدل ہوچکا ہوا ہے قرآن میں نہیں ہوا کیونکہ اس کا ذمہ ﷲ نے خود اٹھایا ہے۔ہممم تاکہ لوگوں تک صیحیح باتیں پہنچائ جاسکے۔جس میں جھوٹ نہ ہو انھوں نے اسکو سمجھایا۔
اب وہ اس کو اس حوالے سے اور باتیں بتارہی تھیں جس کو وہ بخوبی سمجھ اور سن رہی تھی۔
**********************"***********
آج دادی ایمن کے ساتھ مومنہ کا ہاتھ مانگنے آئ تھیں جس کا جواب ابشام شاہ نے مثبت دیا تھا کیونکہ ماجد ان کے سامنے کا بچہ تھا۔
اس وقت وہ لوگ مومنہ کے کمرے میں تھے۔
بھابھی جان میرے بھائ کو مرغ کی یخنی بہت پسند ہے ہفتے میں ایک بار ضرور بنتی ہے اور کریلے تو وہ روزانہ کھاسکتے ہیں ۔ایمن اس کا دماغ خراب کررہی تھی ۔
میں کیا کروں؟اس نے اکتا کر کہا
پریکٹس۔اس نے دانت نکالتے ہوۓ کہا۔
باز نہ آنا تم کبھی ۔مومنہ نے گھورتے ہوۓ کہا
ہک ہاہ ہم باز آگۓ تو ان کا کیا ہوگا جن کو ہمارے پاگل ہن سے عشق ہے۔اس نے بھی کہا۔
اور کون ہے وہ۔مومنہ نےپوچھا
کھانالگ گیا ہے آپ لوگ آجائیں۔ملازمہ نے کہا۔
جی ہم آررہے ہیں۔ اس نے جواب دیا۔
****************************"*********
وقت کا کام ہے گزرنا اور وہ گزرگیا جینی کو حلیمہ بیگم کے پاس آۓ ہوۓ دس مہینے ہوگئے تھے جس کے سبب ہو دین حق کے بہت سے بنیادی حقائق سے فیض یاب ہوئ اور اب وہ حلقہ اسلام میں بھی داخل ہوگئی۔
آج سید ولا میں بہت گہما گہمی تھی کیونکہ آج ابشام شاہ کی لاڈلی مومنہ شاہ کا نکاح تھا ۔
ہر طرف رونقیں ہی تھیں مہمان آنا شروع ہوگۓ تھے ۔ابھی لڑکے والے نہیں آۓ تھے۔
السلام عليكم کیسی ہو۔ وہ ابھی اپنے کمرے میں تیار بیٹھی تھی کہ اس کے کانوں میں آواز گونجی
میں بلکل ٹھیک اور تم اب مہمانوں کی طرح آی ہوں ہممم تم بہن ہو میری سمجھ لگی ۔اس نے خفگی سے کہا
اچھا بابا سوری اگلی دفعہ لیٹ نہی ہونگی۔بھائ آۓ ہوۓ نہ اس لیے آج واپس جاررہے نہ
زلیخا نے کہا۔
اوکے کوئ بات نہیں۔مومنہ نے بھی کہا
کیا باتیں ہورہی ہیں ہم سے چھپ کر ایمن نے انٹری ماری۔
تمہاری برائی۔مومنہ نے بے نیازی سے کہا۔
اچھا جی ابھی سے ہی روایتی بھابھی بن گئی ہو۔
جی آپ جیسی نند ہو تو بننا پڑتا ہے۔زلیخا نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا ۔
اووہ تو جینی میڈم۔بھی ہیں۔ ایمن بولی
جینی نہیں زلیخا۔ اسنے تصیح کی
اوو سوری میں بھول گئی۔
حلیمہ بیگم نے اس کا نام جینی سے تبدیل کرکے زلیخا رکھا تھا رکھا تھا ۔
مولوی صاب آررہے ہیں دلہن کو گھونگٹ دیا جاۓ۔
ملازمہ نے اعلان کیا۔
مومنہ کو گھونگٹ کروایا گیا ۔
کچھ ہی دیر میں وہ مومنہ ابشام شاہ سے مومنہ ماجد خان ہوگئی۔
مومنہ کو ماجد کے پہلو میں بٹھایا گیا۔
دادی نے انکی نظر اتار کر پیسے ملازم کو دیے
اب سب ان سے ملنے آرہے تھے۔
اچھا اب میں چلتی ہوں بھائ انتظار کرہے ہونگے اور یہ چھوٹا سا تخفہ تمھارے لیے۔زلیخا نے اسے کہا۔
اتنی جلدی چلو کوئ بات نہیں ۔مومنہ نے کہا۔
وہ حلیمہ بیگم سے مل کر نکل گئی۔
*************************************
ایک تو اس عمر میں چلا مجھ سے جاتا نہیں اور علیخان بھی ضدی ہے سنتا کچھ نہیں اور کہہ دو تو بدتمیزی بھء کرتا ہے وہ اس وقت سڑک پار کررہیں تھیں ساتھ اپنے بیٹے کو کوس رہیں تھیں کہ سامنے سے آتی ہوئی گاڑی سے وہ ٹکراکر گر گئیں۔
او آئم سو سوری۔مجھے معلوم نہیں ہوا ۔زلیخا نے معزرت کی۔
کوئ بات نہیں بیٹا تمھیں شرمندگی ہے یہی کافی ہے ۔ انھوں نے پیار سے کہا
شکریہ آیئے میں چھوڑدوں۔زلیخا نے کہا
نہیں میں چلی جاؤ گی۔انھوں نے کہا
آپ نے بیٹی کہا ہے تو چلیں میں چھوڑدوں اب آپ انکار مت کرنا آپ۔اس نے انکو کہا
اچھا چلو چھوڑ دو۔انھوں نے ہار مانتے ہوۓ کہا۔
انکی بات پر وہ مسکرادی اور گاڑی کی طرف چل پڑیں۔
*******************************""*********
ابھی ایمن اسے روم میں چھوڑ کر گئی تھی وہ کمر سیدھی کرنے کے لیے لیٹی ہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔
آجائیں۔مومنہ نے آنکھیں بند میں ہی کہا۔
دروازہ کھولا۔
رقیہ بی مجھے ایک کپ چاۓ تو لادیں۔اس نے بغیر دیکھے ہی کہا۔
آہم آہم۔ آنے والے نے گلا کھنکارا۔
مومنہ نے آنکھیں کھول کر دیکھا تو سامنے ماجد کھڑا تھا۔
آ آپ یہاں پر۔ اس نے ہڑبڑاکر کھڑے ہوتے ہوۓ کہا۔
کیوں میرا آنا منع ہے۔اس نے جواب دیا
ماجد کو مومنہ کا یہ گھبرانا اچھا لگ رہا تھا۔
نہی وہ باہر سب ہیں تو میں اسی لیے کہہ رہی تھی ۔اس نے بہانا بنایا
جی اجازت لے کر ہی آیا۔اس نے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوۓ کہا۔
مومنہ نے نظریں نیچی کرلی۔وہ پزل ہوررہی تھی
آپ کو کچھ دینا بلکہ پہنانا تھا ۔ماجد نے کہا۔
جی۔ مومنہ نے کہا
ہممم۔ ماجد نے کہا
پھر اس کے پیچھے جاکر اس نے ایک خوبصورت سا لاکٹ پہنایا اور پیچھے ہوگیا
کیسا لگا ۔
اس نے پوچھا
مومنہ نے آئینے میں دیکھا تو وہ ایک خوبصورت سا لاکٹ تھا جس کے درمیان دل بنا ہوا تھا اور اس میں ڈبل ایم لکھا تھا۔
بہت خوبصورت۔مومنہ نے کہا
بےساختہ مومنہ کی نظر ماجد کی کلائ پر پڑی تو اس نے چین پہنی ہوئ تھی جس پر جلی حرف سے ایم۔جے لکھا تھا۔
ماجد نے جب اسکی نظروں کا تعاقب کیا تو وہ مسکرایہ اور بولا
یہ میری ماں کی آخری نشانی ہے میرا لک یہ میرے دل کے بہت قریب ہے وہ بولا مومنہ بس اسے دیکھ رہی تھی
وقت ملاقات برخاست ہوا اب باہر آجائیں۔ایمن نے ہانک لگائی۔
یہ نہیں سدھرے گی ۔ماجد نے کہا۔
چلیں میں چلتا ہو آپ آرام کریں۔اس نے کہا اور باہر چلا گیا ۔
اسکے بعد اسکی نظر لاکٹ پر پڑی تو وہ مسکرادی۔