اس وقت وہ سب لاؤنج میں موجود تھے۔سید ابشام شاہ نے بات شروع کی ۔
مراد نے اپنے بیٹے ارتضی کے لیے ہمارے گھر کی ایک بیٹی کا رشتہ مانگا ہے چونکہ ارین سب سے بڑی اور سمجھدار ہے۔ اسی لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ارتضی کے ساتھ ارین کی بات پکی کردی جاۓ۔کسی کو کوئی اعتراض تو نہیں۔انھوں نے پوچھا۔
بابا جان آپ جو فیصلہ کریں گے وہ ہمارے حق میں بہتر ہوگا اور ارین آپ کی ہی بیٹی ہے آپ جو بھی کریں گے اس میں اسی کی بھلائی ہے۔ہاشم شاہ نے۔فرمانبرداری سے کہا۔
سید ابشام شاہ اپنے بیٹے کی اس فرمانبرداری پر فخر سے مسکراۓ اور باقیوں کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
سب نے مثبت جواب دیا۔
ان کی نظر اپنی بیٹی پر جو سب سے لاتعلق بیھٹی کسی نقطے پر غور کررہی تھی۔
مومنہ کیا ہوا ہے تم اس فیصلے پر خوش نہیں ہو؟؟ انھوں نے اپنی لاڈلی سے پوچھا۔
مومنہ شاہ جو صبح والے واقعے کو سوچ رہی تھیں۔ ان کی آواز پر چونکی۔
کیا ہوا پریشان لگ رہی ہو؟؟ انھوں نے محبت سے پوچھا۔
نن نہیں بابا حضور ایسا نہیں ہے۔ انھوں نے ہربڑا کر جواب دیا۔
طبیعت تو ٹھیک ہے نہ میرے بچے کی۔ سید ابشام شاہ نے لاڈ سے پوچھا۔
جی بس سر میں ہلکا سا درد ہے۔انھوں نے بھی کہا۔
چلو تم جا کر آرام کرو میں شمو کے یاتھ دوائی بھیجتا ہوں۔ انھوں نے فکرمندی سے کہا۔
جی اچھا۔وہ وہاں سے چلی گئیں۔
****************************************
یار حیا باجی! جہان سکندر کتنا ٹیلنٹڈ ہے نہ اور ہینڈسم بھی۔علیزے ہاتھ میں جنت کے پتے تھامے جوش سے بولی۔
ہمممم۔حیا جو الماری سیٹ کرنے میں ارین کی مدد کروارہی تھی اس کی بات سن کر مصروف انداز میں بولی۔
حیا سلیمان کو تو جہان مل گیا۔آپ بھی حیا ہو آپ کے لیے بھی ایسا ہی ایک ہیرو آۓ گا ۔ آپ بھی تب تک شادی نہ کرنا جب تک آپ کو جہان نہ مل جاۓ۔علیزے پر جوش ہوکر بولی۔
علیزے کی بات پر وہ مسکرادی
اچھا تو تب تک کوئی رشتہ آگیا۔ اس کے لیے پھر؟ ارین نے ہوچھا جو الماری سیٹ کرکے اس کےپاس آکر بیٹھ گئی حیا وہی صوفے پر بیٹھ کر گئی ۔
انکار کردینا۔علیزے لاپرواہی سے بولی۔
اس کی بات پر ارین کی آنکھیں پھیل گئی اور حیا کا منہ کھول گیا۔
کیا کوالٹیز ہوں تو ہم حیا کی شادی کریں ۔ارین نے بھی سنجیدگی سے کہا۔جس پر حیا کی آنکھیں بھی پھیل گئی۔
ترکی کا ہو ۔سبانجی سے گریجویٹ ہو ۔آرمی میں ہو اوررر۔۔ آؤچ۔۔۔۔۔ایک زوردار کشن اس کے سر پر آکر لگا اس سے اس سمت دیکھا تو اس کی نظر اسے گھورتی ہوئی حیا پر پڑی ۔
لڑکی تمھیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتی ہوۓ بدتمیز۔حیا نے دوسرا کشن بھی اسے مارا۔
حیا باجی ارین باجی نے کہا تو میں بتادیا۔ اسنے معصومیت سے کہا۔
ہاہاہا۔۔۔۔ارین کی ہنسی سے یہ ہوش میں آئیں۔
حیا چھوڑو اسے علیزے بچے ادھر آو۔ارین نے محبت سے کہا۔حیا ارین کے دائیں اور علیزے بائیں جانب بیٹھ گئی۔
دیکھو علیزے ناول میں جو کہانیاں ہوتی ہیں جو لوگ ہوتے وہ صرف فرضی کہانی ہوتی ان کرداروں کا حقیقت یا پھر انسانوں سے کسی قسم کا تعلق نہیں ہوتا ۔ تم نے ابھی کہا کہ حیا سلیمان کو جہان سکندر ملا ۔تمھیں یہ تو نظر آیا کہ وہ کتنا ٹیلنٹڈ ہے مگر تم نے یہ نہ دیکھا کہ حیا سلیمان نے کتنی سختیاں جھیلیں کتنی آزمائش سے وہ گزری ۔ناول کے اختتام پر وہ حیا سلیمان نہیں رہی جو ابتدا میں تھی۔گڑیا ناولز پڑھنا بری بات نہیں مگر بعض لڑکیاں کہانی کے مین سے ہٹ کر اس طرح کی فضول باتوں پر دھیان دیتی ہیں ۔تم نے یہ دیکھا کہ وہ دونوں مل گیے مگر تم نے یہ نہ دیکھا کی اس ناول میں آیت حجابہ کو کتنی خوبصورتی سے بیان کیا۔تم لوگ یہ سوچتی ہو۔امامہ کو سالار ملا مگر یہ نہیں دیکھتی امامہ کو سالار جھولی میں یا گھر بیھٹے نہیں ملا۔ ایک لمبی اور مشکل آزمائش سے گزر جانے کے بعد ملا ہے۔اکثر ناول مزاح کے طور پر لکھے جاتے ہیں جو لوگوں کو ڈپریشن سے نکال کر ہنسنے پر مجبور کردیتے ہیِں۔کچھ ناولز معاشرے کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں اور کچھ ناولز میں بولڈنیس کے نام پر بے حیائی پھیلائ جاتی ہے اپنے ناولز کے انتحاب کو بہترین بناؤ۔اس سے تمہارے ذوق کا اندازہ ہوگا۔سالار سکندر اور جہان ایک فرضی دنیا کے کردار ہیں جنہیں ان کے لکھاریوں نے بہت بہترین طریقے سے لکھا ہے مگر حیا میں اور تم اس حقیقی دنیا کے کردار ہیں۔ہماری کہانی اس لکھاری نے لکھی ہے جو سب لکھاریوں کا بنانے اور پیدا کرنے والا ہے۔جو ہم سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے اور چاہنے والا ہے جیسے یہ لکھاری ناول کو بہترین اور پر مسرت طریقے سے اختتام پذیر کرتے ہیں تو سوچو جو ان سب کو صلاحیتیں دینےوالا ہمارے ساتھ برا کرے گا۔نہیں نہ تو پھر اس پر یقین رکھو وہ بھی بہترین کرے گا تمہارے ساتھ۔وہ خاموش ہوئی
ہممممم۔۔۔۔ہمیں یقین ہے ﷲ نے ہمارےلیے بہترین رکھا ہوگا۔ وہ دونوو مسکراکر بولیں۔
******************************************
what happened why u r looking so upset??
جارڈن نے لیارا سے کہا ۔
لیارا سمتھ نے کہا۔
nothing special۔
جارڈن نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔
جوزف اور امان پاکسان جاررہے ہیں ۔لیارا سمتھ نے اسے دیکھتے ہوۓ کہا۔
مجھے ڈر لگتا ہے جو بات میں اتنے عرصے سے سینے میں چھپاکر بیٹھا۔کہہں وہ راز نہ کھل جاۓ۔ جب جوزف کو حقیقت معلوم ہوگی اس کا ردعمل کیا ہوگا۔لیارا نے اپنے خدشات ظاہر کیے۔
کچھ نہی ہوگا تم فکر مند مت ہو اور مجھے ٹوئر کا بتاو۔اس نے تسلی بخش انداز میں کہا اور بات بدل دی۔
اور وہ اپنے ٹوئر کے بارے میں محو گفتگو ہوگئے۔
اس بات سے بےخبر آنے والا وقت کیا کچھ بدل دے گا اور کس کس کی آنکھوں سے پردہ اٹھانے والا ہے۔
*******************************************
اس وقت وہ لاؤنج میں بھیٹے ہوۓ تھے۔جب رجاء ان کے پاس آکربیھٹی ۔
ڈیڈ۔۔۔۔ آپ کو بھائ کے لیے وہ اولڈ اور بہن جی ٹائپ ہی ملی ۔اسی اثناء میں ارتضٰی بھی آگیا۔
جی ڈیڈ جب کہ آپ جانتے تھے میں صرف روبائشہ سے محبت کرتا ہوں۔
واوووو روبائشہ شی از سو بیوٹیفل۔۔۔۔رجا نے ارتضی کی بات مکمل ہوتے ہی کہا۔
ڈیڈ بھائ کے ساتھ تو بس روبائشہ ہی سوٹ کرسکتی ہے۔ماڈرن پڑھی لکھی لگتی ہے ۔
رجا نے شارٹ شرٹ اور ساتھ جینز پہنی ہوئ تھی جو گھٹنوں سے پھٹی ہوئ تھی۔ ۔
"اپنا کر اطوار زمانہ جہالت کے وہ
ماڈرن سمجھتے ہیں خود کو وہ"
ارتضٰی بھی بہن کی باتیں سن کر بولاجی ڈیڈ اس کے ساتھ نکلوں گا تو لوگ اس کو میری بڑی بہن سمجھیں گے۔
ہوگیا تم دونو کا اور ارتضی میں کب کہا کہ تم روبائشہ سے شادی مت کرو ہممم۔اگر پسند ہے تو کرلو ارین کو بس اپنا نام دےدو۔مت دینا بیوی کا مقام بس سمجھو مفت کی نوکرانی لا رہا ہوں۔تمہارے لیے۔سارا دن وہ کام کرے گی تم روبائشہ کے ساتھ مزے کرنا ۔
مگر ڈیڈ آپ میری شادی اس سے کروانا کیوں چاہتے ہیں۔وہ بولا۔
ہاہاہا تم نہیں سمجھو گے لوگ مجھے ایماندار بزنس مین کے نام سے جانتے ہیں اور ابشام شاہ کے گھرانے کے ساتھ میرا نام جڑ جاۓ گا تو میری ایمانداری پر ٹھپہ لگ جاۓ گا۔وہ شیطانی قہقہ لگا کر ہنسا۔
ارتضی بھی مسکرانے لگا۔
*******************************************
اس وقت وہ سب لوگ کھانا کھاکر فارغ ہوۓ تھے ۔ابشام شاہ نے علی کو بھی بلایا تھا۔انھوں نے مومنہ شاہ کو روک لیا تھا۔اب وہ سب لاونج میں بھیٹے باتوں سے لطف اندوز ہورہے تھے۔اتنے میں علیزے مٹھائی کی پلیٹ ہاتھ میں تھامے آئ اور علی کے آگے کی علی نے گلاب جامن لیتے ہوۓ کہا یہ کس خوشی میں میڈم ؟
علی بھائ مبارک ہو ارین باجی کی بات پکی ہوگئی۔
علی کے ہاتھ ساکت ہوگۓ جو گلاب جامن اس کے منہ میں تھا نہ ہی اس سے نگلا جاررہا تھا نہ ہی اُگلا جاررہا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو کمپوز کیا۔
اچھانانا جان اب اجازت دیں ۔رات کافی ہوچکی ہے۔
اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔
وہاں بیھٹا ہر شخص اس بات سے بےخبر ہے آج کی رات کتنی لمبی ہے اور کون کون یہ جاگ کر گزارے گا۔
اے دلوں کے حال جاننے والے اے رحیم وکریم رب ہم تجھ سے مانگتے ہیں تیری رحمت کے صدقے یااللہ تو نے میرا نصیب جس کے ساتھ لکھا ہے اسے میرے حق میں بہترین ثابت کرنا اور اسے میرے لیے۔وہ رورہی تھی۔اپنے رب کے سامنے جس کے در سے اسے بس سکون ملنا تھا۔دل ہلکا کرنے کے بعد اٹھی۔جاہ نماز کو طے کیا اور کھڑکی کے پار چاند کو دیکھنے لگی۔جب سے اسے علیزے نے بتایا ہے اسکی بات ارتضی سے پکی ہوئی ہے۔اس کا دل بھاری ہوگیا تھا وہ رونا چاہتی تھی وہ روئ اپنے رب کے سامنے جہاں رونے ک بعد صرف سکون ملتا ہے۔
تب سے چاہا تجھے جب چاہت کے معنی بھی معلوم نہ تھے۔ارین نے پورے چاند کو دیکھتے ہوۓ سوچا
علی محبت ہر کسی کو نہیں ہوتی مگر جسے ہوجاۓ شدت سے ہوتی ہاں مجھے آپ سے محبت ہے بچپن سے جب سے محبت کے معنی بھی معلوم نہ تھے۔علی آپ سے میری محبت صرف ایک سیراب تھا جو صحرا میں بنتا ہے۔جسے صرف دور سے دیکھا جاسکتا ہے ۔ جو قریب جاتے ہی غائب ہوجاتا ہےاس نے خیالوں میں علی کو مخاطب کیا ۔میری محبت یکطرفہ تھی۔وہ زخمی مسکراہٹ چہرے پر سجاتی ہوئ بولی۔
مگر کیا واقعی یہ محبت یکطرفہ تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
کون جانے؟
*****************************************
اے دلوں کے حال جاننے والے تو جانتا ہے اس وقت میری کیفیت سے تو واقف ہے تو تو شہ رگ سے بھی قرب تر ہے یااللہ وہ میری محبت ہے میں نے اسے تجھ سے تہجد میں مانگا ہے۔ میں تجھ سے کوئ گلہ شکوہ نہی کررہا میں جانتا ہوں تو ستر ماؤں سے زیادہ چاہنے والا ہے۔تو اپنے بندے کے ساتھ کبھی ناانصافی نہیں ہونے دے گا ضرور اس میں اس کے لیے بھلائی ہوگی۔یااللہ اگر تو مجھے اس آزمائش میں ڈال رہا ہے تو مجھے صبر دے اور تیرے فیصلے کو تسلیم کرنے کی ہمت دے آمین
وہ رات کے پچھلے پہر اپنے رب سے محو گفتگو تھا جس پہر صرف آپ اور آپکا رب ہوتے ہیں اور تیسرا کوئ معجود نہی ہوتا۔
اس نے بھی مانگی تھی اپنی رب کی رضا اور سکون ۔اسکا دل ہلکا ہوگیا۔دل کا بوجھ آنکھوں کے ذریعے باہر آررہا تھا۔ وہ اپنے آنسوؤں کو روکنا چاہتا تھا مگر روک نہیں پا رہا تھا۔وہ مرد تھا۔
ارین تم سے محبت ہے مجھے اس قدر آنکھیں بھی بند کروں تو صرف تم دیکھائ دیتی ہو۔اس نے آنکھیں بند کرتے ہوۓ سوچا مگر جھٹ آنکھیں کھول دیں۔ وہ اب اسے نہیں سوچنا چاہتا تھا۔
وہ اب کسی اور کی امانت ہے کسی کی ہونے والی عزت علی اب تیرے لیے اس کا خیال بھی گناہ ہے۔ اس نے خود سے مخاطب ہوتے ہوۓ کہا۔
***************************************
یادِماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میر
۔کمرے میں اس قدر خاموشی تھی کہ گھڑی کی ٹک ٹک بھی واضح تھی اس وقت وہ رات کے ڈھائی بج رہے تھےا س وقت وہ اپنے کمرے میں راکنگ چیئرپر بھیٹی ہوئی تھیں ان کی گودمیں ایک ڈائری پڑی تھی جس پر جلی حرفت سے "میری یادیں لکھا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں موندے ماضی میں کھوگئیں۔
افففف یہ بیلا بھی کہاں رہ گئی۔اسے معلوم بھی تھا آج میں آررہی ہوں پھر بھی نہیں آئ۔اس نے بیلا کو کال ملانے کی کوشش کی جو کہ ناکام ہوئ۔وہ پھر ادھر اُدھر دیکھنے کگ گئ شاید کہیں سے کوئ مدد مل جاۓ اس کی نظر سامنے بینچ پر بیٹھی دو لڑکیوں پر پڑی۔
یار ایمن دیکھو نہ یہ کیسے ہوگا۔مجھ سے نہیں ہوررہا۔ابھی لیکچر شروع میں پندرہ منٹ ہیں تم میری مدد کردو۔اس نے جھنجھلاتے ہوۓ کہا۔
ایکسیوزمی! ۔۔ابھی ایمن کچھ بولتی ان کو ایک آواز سنائ دی انھوں نے سر اٹھاکر دیکھا تو سامنے ایک نازک سی لڑکی کھڑی تھی۔ایسا معلام ہوتا تھا جیسے بڑی فرصت سے کسی نے اسے بنایا ہو۔موم سے بنی ہوئ۔یوں معلوم ہوتا تھا ہاتھ لگاؤ تو میلی ہوجاۓ۔اگر کوئ زور سے پکڑلے تو ٹوٹ جاۓ۔تیکھے نقوش کھڑی ناک اس کے ساتھ ہیزل آنکھیں۔وہ بلا کی معصوم لگ رہی تھی۔وہ ان کی نظروں سے پزل ہوررہی تھی۔سب سے پہلے ایمن کو ہوش آیا۔
جی۔اس نے کہا۔
ایمن کی آواز سن کر وہ بھی ہوش میں آئ جو آنکھوں سے اس کا ایکسرے کررہی تھی۔
وہ کیا آپ مجھے راستہ بتاسکتی ہیں آج میرا فرسٹ ڈے ہے۔ اس نے کہا۔
مگر کالج سٹارٹ ہوۓ ایک ہفتہ ہوگیا ہے۔ایمن نے حیران ہوتے ہوۓ کہا۔
جی وہ میری طبعیت ٹھیک نہیں تھی اس لیے میں آ نہی سکی ۔اس نے بتایا۔
اووہ کوئ بات نہیں اپنا سیکشن اور سبجیکٹ بتائیں۔ایمن نے دوستانہ لہجے میں کہا۔
اوکے یہ کہہ کر اس نے کلاس اور سیکشن بتایا۔
واووو سیم سبجیکٹ اور سیکشن اس نے خوش ہوکر کہا۔
اس کی بات سن کر وہ بھی مسکرادی۔
میرا نام ایمن ہے اور یہ مومنہ ہے ہم دونوں بچپن سے ساتھ ہیں ساتھ سکول ساتھ کھیلتے ساتھ ساتھ ہی ہر کام کرتے۔ ایون کے۔۔آہہہہ۔بات کرتے کرتے وہ چیخی۔ اس نے اپنے بازو و سہلاتے ہوۓ مومنہ کو گھورا جو اسے آنکھوں سے خاموش رہنے کا کہہ رہی تھی۔
میرا نام جینی ہے۔میں اور میری دوست بیلا بھی اس کالج میں ہیں وہ آج آئ نہیں آئ۔اس وجہ سے میں اکیلی ہوگئی اس نے بھی بتایا۔
اوکے دس منٹ بعد کلاس سٹارٹ ہے تو ساتھ چلتے ہیں۔ ایمن بولی۔
جینی کو مومنہ عجیب لگی اور مومنہ کو بھی جینی۔
*******************************************
یار علیخان جلدی کر تیری وجہ سے میں بھی لیٹ ہوررہا ہوں۔ماجد نے اسے کہا جو آرام سے سگرٹ پی رہا تھا۔
ماجد کو اس کی اس عادت سے چڑ تھی وہ اسے اکثر اسے منع بھی کرتا تھا مگر وی نہی سدھرا۔
صبر رکھ میری جان آررہا ہوں۔اس نے سگرٹ کا دھواں خارج کرتے ہوۓ کہا
تیری وجہ سے بھی مجھے بھی دیر ہوررہی آج میں جلدی گھر جانا ہے۔اور تو دیر کررہا ہے اس نے غصے سے کہا۔
آررہا ہوں صبر رکھ کیوں جلدی ہے گھر جانے کی کون سا تو شادی شدہ ہے جو تیری بیوی تیرا انتظار کرررہی ہوگی ۔اس نے سگرٹ پھینک کر کہا۔
یار بیوی نہی دادی ہیں ان جو چیک اپ جے لیے لے جانا ہے آجا اب یہ کہتے ہوۓ اس نے بائیک سٹارٹ کردی وہ بھی پیچھے بیٹھ گیا۔
**********************************
یار مومی تو نے جینی کو دیکھا تھا نہ کتنی خوبصورت ہے ایک منٹ میں بھی اسے دیکھ کر مہبوت ہوگئی کاش میں بھی اتنی خوبصورت ہوتی۔اس نے حسرت سے کہا۔
ایمن تم پھر ناشکری والی باتیں کرنے لگ گئی یو اسے بنانے والا اور ہمیں بنانے والا کوئ اور نہی بلکہ ایک ہی ہے جس نے اسے خوبصورت بنایا ہے اسینے تمھیں بنایا۔اس کے نقوش اور تمہارے نقوش اس رب نے ہی بناۓ ہیں اور بہت محبت سے بناۓ ہیں اسے تم اس طرح خوبصورت لگی ہوگی تو اس نے تمھیں اس طرح بنایا۔جانتی ہو وہ رب کیا کہتا ہے
Surat No 95 : سورة التين - Ayat No 4
لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡۤ اَحۡسَنِ تَقۡوِیۡمٍ ۫﴿۴﴾
کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچے میں ڈھال کر پیدا کیا ہے ،
جب اس نی یہ کہہ دیا ہے تو تم۔کیو لوگوں کی باتوں میں آتی ہو۔ ہممم
لوگوں کا معیار بدلتا رہتا ہے اسی لیے خود کو اپنے رب کی پسند کا بناؤں وہ تم سے بے حد محبت کرتا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ بندہ بھی اس کو چاہے۔
وہ اسے پیار سے سمجھارہی تھی۔
جزاک ﷽ﷲ تم نے مجھے ناشکری جیسے گناہ سے بچالیا۔اس نے بھی مسکراکر کہا۔ اتنے میں دونوو کی بس آگئی وہ اس پر روانہ ہوگئیں۔
،،،،،،،،*،،،***،*،************************،،،،