دستک کے بعد جب اندر سے کوئ جواب موصول نہ ہوا تو وہ دھیرے سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا کمرے میں داخل ہوتے ہی اس کی نظر اپنی ماں پر پڑی جو دنیا سے بےنیاز نماز میں مشغول تھیں ان کو دیکھ کر وہ مسکرایا اور وہی صوفے پر بیٹھ کر نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔سلام پھیر کر وہ دعا مانگنے لگیں اس بات سے بےخبر کوئ بہت غور سے دیکھ رہا ہے ۔ دعا منگنے کے بعد ان کی نظر اپنے بیٹے پر پڑی وہ مسکرائیں اور بولیں۔کب آۓ؟؟؟
جب آپ ملاقات کررہی تھیں اپنے رب سے۔ اس نے جواب دیا۔
وہ سن کر مسکرائیں ان کے کچھ کہنے سے پہلے ہی وہ بولا۔امی کیا مانگتی ہیں آپ ؟؟
اس کا سوال سن کر وہ بولیں میں نے فلاح مانگی ہے اور گمراہی سے پناہ مانگی ہے۔
لیکن امی جان آپ تو اتنی عبادت گزار ہیں آپ کیسے بھٹک سکتیں ہیں ؟؟ بھٹکتے تو وہ ہیں جن کا ایمان کمزور ہو آپ کا ایمان تو پختہ ہے؟؟ علی نے اپنی ماں سے پوچھا۔
وہ بولیں بھٹکتے ہمیشہ وہ ہیں جو صراط مستقیم پر ہوں۔وہ کبھی بھی نہیں بھٹکتے جو صراط مستقیم پر نہ ہوں ان کا بھٹکنا نہ بھٹکنا ایک برابر ہوتا ہےعزازیل بھی بھٹک کر ابلیس بنا تھا بھٹکے تو آدم( علیہ سلام) بھی تھے اس کا مطلب یہ تو نہیں وہ ایمان کے کمزور تھے۔بیٹا آزمائش کا وقت ہر کسی پر آتا ہے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو آزمائش کے وقت میں صبر کرلیتے ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز کی طرح یہ بھی وقتی ہے اور کچھ لوگ ہوتے ہیں جو ہرچیز کی طرح آزمائش کے وقت بھی shortcuts میں بھی اسی تلاش میں ہوتے ہیں مگر بعض اوقات shortcutsہمیں out of way لے جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ نقصان اٹھاتے ہیں۔بیٹا یہ بات یاد رکھنا سیدھا راستہ جتنا بھی لمبا ہو اور تھکن سےبھرپور ہو ہوتا ہو سیدھا ہی ہے اورمنزل تک پہنچاتا ہے ۔ وہ اسے سمجھاتے ہوۓ بولیں۔
ہمممم۔وہ تابعداری سے بولا
تم کسی کام سے آۓ تھے کیا؟؟ انھوں نے پوچھا
اوہ میں تو بھول ہی گیا تھا۔ اس نے سر پر ہاتھ مارتے ہوۓ بولا
کہو کیا کام تھا؟ انھوں نے دوبارہ پوچھا۔
آپ کا بلاوا آیا ہے کل حاضری ہے آپ کی نانا جان کے دربار میں۔ وہ ڈرامائ انداز میں بولا
اس کے اس طرح بولنے پر انہوں نے اسے گھورا پھر مسکرادیں
*****************************************
ماسکو کی سڑکوں پر زندگی معمول پر ہے۔ اس وقت وہ تینوں نفوس سمتھ انڈیسٹری کے کیبن میں موجود ہیں۔ یہ جو سامنے راکنگ چیئر پر موجود شخصیت ہیں جن کی عمر پچپن سے ساٹھ کے ررمیان ہے وہ ہیں لیارا سمتھ رعب دار شخصیت کے مالک ان کے گرےبال ان کی شخصیت کے وقار کو بڑھارہے ہیں۔اور جن کو یہ سخت نظروں سے گھور رہے ہیں وہ کوئ اور نہیں بلکہ ان کی اکلوتی(نکمی بقول ان کے)اولاد امان لیارا ہے۔تیئس سالہ خوبرو نوجوان سیاہ گھنگھرالے بال اور نیلی آنکھیں جن کو فلحال جھپکا جھپکا کر وہ معصوم بننے کی ناکام کوشش کررہا ہے اس کی شخصیت کو اور سخر انگیز بنارہی تھیں۔اسی کے ساتھ بیٹھا ان سے بےنیاز کافی پینے میں مصروف کوئ اور نہیں جوزف لیارا ہے۔ چھبیس سالہ مغرور شخص کسی شہزادے سے کم نہیں لائٹ براؤن بال ہری آنکھیں چہرے ہر ہلکی سی بریڈ اس کی شخصیت کو اور ابھاررہی تھی ۔
امان لیارا اور لیارا سمتھ کا تعلق عیسائ برادری سے تھا۔ جوزف کون تھا؟ اس کی شناخت سے تو امان بھی بے خبر تھا۔
تم تو جرمنی میں تھے نہ؟؟ لیاراصاحب نے امان پر طنز کیا۔
جی جی بس آپ کی یاد یہاں کھنچ لائ۔امان نے ڈھٹھائ سے جواب دیا۔
کیا کرنے آے ہو یہاں اب۔لیارا صاحب کے عضے میں ذرا فرق نہیں آیا۔
ڈیڈ آپ سے ملنے۔امان نے معصومیت سے کہا
ہونہہ ملنے۔ پیسے ملنے بند ہوۓ تو باپ یاد آگیا۔ ان کے لہجے میں فرق نہیں آیا۔
ایسا نہیں ہے ڈیڈ ایم سو سوری آپ غلط سمجھ رہے ہیں۔اس بار واقعی امان کے لہجے میں سچائی تھی۔
ہمممم تو پھر پہلے کیوں ملنے نہیں آۓ۔انہوں نے دوبارہ کہا لیکن لہجے میں غصے کا عنصر کم تھا
سوری ڈیڈ۔وہ شرمندگی سے بولا
میں مر بھی رہا ہونگا نہ تو بھی تم نے آنا نہیں بس سوری ہی بولنا ہے۔وہ خفگی سے بولے۔
ڈیڈ آپ ایسی باتیں مت کریں میں اب کہیں نہیں جاونگا پاکستان بھی نہیں ۔کل سے ہی آفس جوائن کرلونگا مگر آپ ایسی باتیں مت کریں۔ امان ان کی باتیں سن کر روہانا ہوگیا۔
اس کا یہ روپ دیکھ کر لیارا صاحب اور جوزف ایک دم حیران ہوگۓ۔
انکل غصہ چھوڑ دیں۔معاف کردیں وہ شرمندہ ہے۔
جوزف نے بات کو سنبھالا۔
ہممم میں شملہ بزنس ٹوئر پر جارہا ہوں۔میرا ٹوئر پانچ مہینے کا ہے اس کے بعد مجھے تم دونوں آفس میں چاہئیے۔لیارا صاحب نے کہا۔
جی۔دونوں نے یک آواز میں کہا۔
آگے کیا ہوگا کوئ نہیں جانتا یہ صرف قسمت جانتی ہے کیا واقعی پانچ مہینے بعد زندگی ایسی ہی ہوگی ہم پلان تو کرلیتے ہیں مگر سب کچھ ہماری سوچ سے بالاتر ہوتا ہے کیا واقعی امان بدل جاۓ گا اگر بدل بھی گیا تو ویسا ہوگا جیسا لیارا سمتھ چاہتے ہیں
******************************************
یار مجھے تو بہت تجسس ہورہا ہے ۔کیا بات ہوگی جو کرنے کے لیے پھپو کوبلایا ہے۔حیا نے ارین سے کہا۔
مجھے معلوم ہے۔علیزے نے کہا
واقعی ۔حیا نے کہا
ارین بھی علیزے کو دیکھنے لگی۔
بابا خضور نے پھپھو کو ارین باجی اور علی بھائ کے رشتے کے لیے بلایا ہے۔
کیااااا۔وہ بہت اونچا بولی۔
ارین بھی ہق دق اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔
آہستہ بولیں میں نے تو بس اندازہ لگایا ہے۔علیزے گھبراکر بولی۔
ارین نے اسے سخت نظروں سے گھورا اس سےپہلے حیا شروع ہوگئی۔
فضول اندازے مت لگایا کرو ٹائم ویسٹ کردیا۔پاگل۔
ویسے کتنامزہ آۓ گا نہ اگر علی بھائی میرے دلہا بھائی بن جائیں۔علیزے شوخ لہجے میں بولی۔
اس کی بات پر ارین کے گالوں پر سرخی آئی مگر وہ سنھبل کر بولی جاؤ یہاں سے تم دونوں لہجہ سخت تھا۔
وہ دونوں منہ بناتے ہوۓ چلی گئیں۔
ان کے جاتے ہی اس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔
*********************"*""""**************
علیخان تمھیں خوف نہیں آتا۔ کیا تمھارا ضمیر تمھیں جھنجورتا نہیں؟؟تم راتوں کو سکون سے سو کیسے جاتے ہو ؟؟کیا ایک بار بھی تمھیں ماضی کا خیال نہیں آتا؟؟ اس نے اپنے سامنے ٹانگ چڑھاۓ بیٹھے شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر ملال کا نام و نشان نہیں تھا۔
ہاہاہا۔ماجد یہ ضمیر کا جھنجورنا سب کتابی باتیں ہیں۔ایسا کچھ نہیں ہوتا اور سب جب ختم ہوچکا ہے تو دوبارہ کیوں کھولتا اب تک تو سب بھول بھی گئے ہونگے۔ تو بھی بھول جا۔اس نے سخت الفاظ میں کہا۔
میں کبھی بھی نہیں بھول سکتا وہ الفاظ اس رات کے بعد سے میں ہر دعا میں توبہ کرتا ہوں۔کاش میں اس سے بھی معافی مانگ پاتا۔
بس ہوگیا تیرا لیکچر ختم اب کام کی بات پر آتے ہیں۔اس کے لہجے سے ناگواری صاف ظاہر تھی۔
ماجد اس کو افسوس سے دیکھتا رہ گیا۔
*******************************************
یہ اسلام آباد کا پوش علاقہ ہے جہاں یہ خوبصورت حویلی نما بنگلہ واقع ہے۔یہ گھر سید ابشام شاہ کا ہے یہاں کے مکین ایک دوسرے سے مخلص ہیں۔ابشام شاہ کی تین اولادیں ہیں دو بیٹے اور ایک بیٹی۔سب سے بڑے ہیں سید ہاشم شاہ ان کے بعد آتی ہیں سیدہ مومنہ شاہ اور سب سے چھوٹے ہیں سید حیدر شاہ۔ہاشم شاہ کی شادی ان کی پسند سے ان کی خالہ زاد رابعہ سے ہوئی ۔مومنہ شاہ کی شادی اپنےچچازاد محسن شاہ سے ہوئی۔حیدر شاہ کی شادی اپنی پھپھو زاد سمیہ بیگم سے ہوئی۔ہاشم شاہ اور رابعہ کی ایک بیٹی ہوئی جس کی پیدائش کے وقت رابعہ بیگم کا انتقال ہوگیا۔خوشی کی جگہ غم نے لے لی۔ننھی پری کا نام ارین ہاشم شاہ رکھا گیا۔رابعہ بیگم کی وفات کے بعد ہاشم شاہ کی شادی مومنہ شاہ کی نند نازش شاہ سے کی گئی جو اعلیٰ ظرف کی مالک ہیں ان کی اور ہاشم شاہ کی ایک بیٹی ہوئی جن کا نام انھوں نے علیزے رکھا۔مومنہ شاہ اور محسن شاہ کا ایک بیٹا ہے سید علی شاہ۔حیدر شاہ اور سمیہ بیگم کی بھی دو اولادیں ہیں ایک بیٹا اور اپیک بیٹی بیٹا سید وجدان شاہ اور بیٹی سیدہ حیا شاہ۔ وجدان پڑھائی کے سلسلے میں بیرون ملک ہوتا ہے۔ارین نے کالج کے بعد گھریلو کاموں میں دلچسپی لےلی ۔ علیزے بی ۔کام (b . com) کے پہلے سال میں جبکہ حیا تیسرے سال میں تھی۔ مومنہ شاہ کے شوہر محسن شاہ کارروباری ہونے کے ساتھ ساتھ تبلیغی کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ان کا اپنا ایک اسلامک سینٹر ہے جہاں سے لوگ دین کی روشنی حاصل کرتے ہیں ایک جہاد کے دوران یہ شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہوئے۔علی جاب کے ساتھ ساتھ اپنے والد کے سینٹر کو بھی دیکھتا ہے۔
علیزے،حیا،ارین نازش بیگم کو بڑی امی اور سمیہ بیگم کو امی کہہ کر مخاطب کرتیں ہیں۔ اس گھر کے لوگ ایک دوسرے کا خیال خود سے زیادہ رکھتے ہیں۔
*********************""""""*****************
کیا تجھے معلوم بھی ہے تو یہ کیا کہہ رہا ہے۔ماجد نے صدمے سے کہا۔
ہاں۔اس نے سگرٹ کا کش لیتے ہوۓ کہا۔
میں اب تیرا ساتھ نہیں دےرہا کسی بھی معاملے میں میں سمجھا تھا تو سدھر گیا ہوگا مگر تو ویسا ہی ہے لوگوں کو اپنے مطلب کے لیۓ استعمال کرنے والا۔مطلبی انسان۔آج میں تجھ سے اپنی دوستی ختم کرتا ہوں۔ ماجد نے کہا۔
تو واقعی ختم کررہا ہے دوستی؟علیخان نے تنبیہ لہجے میں کہا۔
ہاں میں دوستی ختم کررہا ہوں وہ دوستی جس کی وجہ سے میں نے اپنی محبت کو کھودیا ۔ تیری دوستی کی خاطر میں نے ایک ناکردہ گناہ کا الزام خود پر لےلیا۔ میں نے اپنی فیملی کو کھودیا۔انیس سال ملک دیار میں رہا لیکن تجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ماجد نے بےنیاز بیٹھے علیخان کو کہا۔
ہوگیا تیرا چل اب نکل۔اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔
کاش میں یہ پہلے کرلیتا۔ماجد نے افسوس سے کہا اور چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد اس نے شیطانی قہقہ لگایا۔
ماجد تو مجھے جانتا نہیں میں لوگوں کی قسمت لکھتا ہوں اب تیرا فیصلہ میں کرونگا۔اس نے خیالوں میں ماجد کو مخاطب کیا۔
شاید وہ اس کاتب کو بھول گیا تھا جس نے اس کی رسی کو ڈھیل دی ہوئی تھی۔
لوگ کررہے ہیں لوگو کا فیصلہ بن کےخدا
یہ تماشہ خدا بھی دیکھ رہا ہوگا
*****************************************
امی جان میں وہاں رکو گا نہیں کیونکہ میں بہت مصروف ہوں۔علی نےڈرائیو کرتے ہوۓ ساتھ بیٹی مومنہ شاہ کو مخاطب کیا جو آنکھیں موندے سیٹ کے ساتھ ٹیک لگاۓ بیھٹی ہوئی تھیں۔
ہمممم مگر بابا حضور سے ملاقات ضرور کرنا ورنہ خفا ہونگے۔انھوں نے اسی پوزیشن میں جواب دیا۔
کیا ہوا آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے؟؟اس نے فکر مندی سے کہا۔
ہاں بس دل عجیب ہوررہا ہے۔انھوں نے کہا۔
اوہ ہ۔۔دھڑااااک۔اس سے قبل وہ کچھ کہتا گاڑی سامنے سے آتی گاڑی سے ٹکراگئ۔
کون ہے جسے گاڑی چلانی نہیں آتی اگر نہیں آتی تو سڑکوں پر کیوں نکلتے ہیں۔ماجد بڑبڑاتا ہوا گاڑی سے نکلا۔
علی بھی گاڑی سے باہر آیا۔
معاف کیجیے گا غلطی سے ہوا میں آپ کا نقصان پورا کردونگا۔علی نے مہذب انداز سے کہا۔
ماجد جو پہلے ہی علیخان سے بھپر کرآیا۔اب اس ٹکر نے اور دماغ گھومادیا وہ شروع ہوگیا
جب چلانی نہیں آتی تو سڑکوں پر آتے ہی کیوں ہو آج کل کی نسل جانے خود کو کیا سمجھتی آتا کچھ ہے نہیں بس الٹے سیدھے پنگے لینے ہیں وہ مسلسل بول رہا تھا۔
دیکھیے یہ سب حادثاتی طور پر ہوا ہے میں جان کر نہیں کیا میں آپ کا نقصان پورا کردونگا۔علی نے معذرت کرتے ہوۓ کہا۔
مومنہ شاہ بھی گاڑی میں سے دیکھ رہیں تھیں بحث کو بڑھتے دیکھ کر وہ گاڑی سے باہر آگئیں مگر اس آواز کو سن کر سن کے قدم ساکت ہوگئے۔
ماں باپ بھی اولاد کی ناجانے کیسی تربیت کرتے ہیں ۔جوان اولاد کو سڑک پر نکالا ہوا ہے۔
ماجد خان۔ ۔ مومنہ شاہ بڑبڑائیں ان کی بات سن کر وہ طیش میں آگئیں۔
علی اس سے پہلے کچھ کہتا مومنہ شاہ بولیں ۔
اولاد کی تربیت یہ ہے کہ سگر وہ غلط ہے تو معافی مانگ لے اور میرے بیٹے سے غلطی ہوئی ہے جس کی اس نے معافی مانگ لی ہے۔اب یہ آپ کا ظرف ہے اس کومعاف کرنا۔
یہ آواز مومنہ شاہ کی آواز وہ جو اس آواز کو سننے کے لیے ستائیس سال سے ترستا تھا آج یوں سنے گا اس کے وہم ہ گمان میں بھی نہ تھا۔
ماجد خان رک گیا اس کی نظر اب مومنہ شاہ کے چہرے پر تھی وہی باوقار چہرہ جس پر نور اب بھی چمک رہا ہے ۔اس کی نظر مومنہ شاہ کی آنکھوں پر تھی جہاں کبھی اس کے لیے محبت تھی وہاں اب صرف نفرت ہے ۔
علی چلو ۔مومنہ شاہ کی آواز سے وہ ہوش میں آیا۔
علی جو حیران سا ماں کو دیکھ رہا تھا سن کی آواز سن کر بولا جی چلیں ۔
وہ وہاں سے چلے گئے۔
ماجد خان پھر اکیلا ہوگیا ۔
وہ پھر پچھتایا اپنی غلطی پر جو وہ کئی سال پہلے کرچکا ہوا ہے۔
***************************************
ارتضٰی تم شادی کررہےہو وہ بھی ااس بیک ورڈ لڑکی سے۔جو اتنی بڑی چادر لے کر نکلتی ہے جیسے ساری دنیا میں اس سے خوبصورت کوئی نہیں۔۔اس لڑکی نے اپنے سامنے بھیٹے اس ٹال لڑکے کو مخاطب کیا۔
ہاہاہ۔ارے میری جان میں صرف تمہارا ہوں صرف روبائشہ کا۔ اس نے اس کے ہاتھ پر گرفت کو مضبوط کرتے ہوۓ کہا۔
پھر اس سے شادی کیوں کررہے ہو؟؟ اس نے منہ پھلاکر کہا
ارے وہ تو بس ڈیڈ کے لیے ورنہ میں کیوں کرنے لگا اس بہن جی سے شادی ۔ اس نے کہا۔۔
مگررر۔۔ ۔ ابھی اس کی بات مکمل نہیں ہوئی تھی کے ارتضی نے اسے خاموش کروادیا تھا۔
ہم یہاں اپنی باتوں کے لیے آۓ ہیں یا پھر اس کی ۔ اس نے غصے سے کہا۔
اچھا سوری بولو کیا کہہ رہےتھے۔
اور وہ دونوں باتوں میں مشغول ہوگئے۔
*******************************************