سات سال بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی ابھی وہ کاموں سے فارغ ہوکر کمرے میں داخل ہوئی تھی کہ لیکن اندرکا منظر دیکھ کر اس کاسانس رک گیا اس کا ڈھائی سال کا بیٹا ڈریسنگ پر کھڑے ہوکر اس کی نیو لپ اسٹکس کٹ کی تمام لپ اسٹکس سے آئینے پر مختلف نقش نگاری کررہا ہے ابھی بھی بے بی پنک شیڈ کی لپ اسٹک ہاتھ میں تھامے ڈرائنگ میں اتنا مصروف تھا کہ اس کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوئی ۔
حازم بیٹا یہ کیا کردیا ہے ۔۔۔وہ اس کے پیچھے جا کر کھڑی ہوکر بولی۔
مما گودی۔۔۔۔۔گودی مما۔رانیہ کو دیکھ کر وہ اس کی گود می۔ آنے کی کوشس کررہا تھا اس سے پہلے وہ گرتا اس بے تھام لیا۔
یہ کیا کیا ہے پٹائی کرنے والے کام کرتے ہو آپ۔۔۔۔۔
بلکل باپ پر گیا ہے۔وہ آئینے کی طرف دیکھ کربولی۔
باپ کا بیٹا باااا۔۔۔۔۔۔یہ کیا ہے۔۔۔۔
حاذق جو کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بول رہا آئینے کو دیکھ کر اپنا فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
اپ کے لاڈلے کا کارنامہ ۔وہ طنزیہ لہجے میں بولی۔اس نے ایک نظر رانیہ کو دیکھا دوسری نظر اپنے لخت جگر کو دیکھا جو اس کی گود میں بیٹھا اس کے دوپٹے کے ساتھ اٹکیلیاں کررہا تھا۔
ادھر آؤ بیڈ بوائے مما کا سارا میک اپ خراب کردیا ہیں ۔
اس نے اسے گود میں لیتے ہوئے کہا۔
اسکی بات سن کر وہ شرارتی مسکان لیے اس کی گود سے اترنے لگا جب اپنی کوشس میں کامیاب نہ ہوسکا تو آنکھوں میں آنسولا کر رونے کی مکمل تیاری میں تھا۔
یہ لے بھائی اتاردیا ہے اب جا ۔وہ اسے اتارتے ہوئے بولا ۔
اسکی گود سےاترکروہ باہر بھاگ گیا ۔
وہ رانیہ کے قریب آکربیٹھ گیا۔
کیوں اداس ہو؟؟؟ اس نے پوچھا
اسکی بات سب کر اس نے اسے ایک گھورا ۔
میں کیا کروں غصہ اس پرمیں کرنہیں سکتی بگاڑ رکھا ہے اس کو آپ نے اور پھپھو نے ۔یہ دیکھیں کیا کیا ہے اب کیسے صاف ہوگا یہ اور میری لپ اسٹکس ۔اس نے ساری بھڑاس حاذق پر نکالی
ریلکس یار کیا ہوگیاہے۔تمہارے بیٹے نے تمہارا میک اپ خراب کر کے خود ہی کو سزا دی ہے۔وہ بولا ۔
کیا مطلب وہ اسکی طرف دیکھ کر بولی ۔
یار تمہیں میک اپ کے بغیر دیکھنا کسی سزا سے کم نہیں ۔وہ سرکجھا کر بولا ۔
کیا مطلب میں ڈراؤنی ہوں میک اپ کے بغیر چڑیل لگتی ہوں میں نہیں کرنی بات ۔وہ اسکو کشن سے مارتے ہوئےبول رہی تھی ۔
بات نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی ۔
پیچھے وہ بس سر تھام کر رہ گیا۔
*******@*@*@*@*@*@*@*@*@
وہ ابھی غنودگی کی حالت میں تھا جب اسکو اپنے چہرے پر ننھے ننھے ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا تو اس نے آنکھیں کھولیں اسکی ایک سال کی بیٹی اس پرچڑھ رہی ہے ۔
وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے باپ کو جگارہی تھی ۔
یہ دیکھ کر اسکو شرارت سوجھی اس نے آنکھیں بند کرلی۔
جب اس نے دیکھا نہیں جاگ رہا تو وہ رونے لگ گئی۔
ارے میرا بچہ ۔۔۔۔۔۔۔اسے روتا دیکھ کر اس نے فورا آنکھیں کھولیں اور اسے اپنے ساتھ لگایا۔ گول مٹول سی نیلی آنکھوں والی گڑیا سب کو بھاتی تھی اور علی کی تو اس میں جان بستی تھی۔۔۔
ارشمان بھائی کدھر ہیں ۔اس نے ہوچھا ۔
وہ بس اسے ہی دیکھ رہی تھی آنکھو میں آنسو ابھی بھی موجود تھے ۔
چلو دیکھتےہیں ۔آؤ۔وہ اسے گود میں اٹھا کر باہر لایا ۔
ارین کچن میں مصروف تھی ۔
ارین ارشمان کہاں ہے۔؟اس نے پوچھا ۔
دوستوں کے ساتھ کھیلنے گیا ۔۔۔۔وہ بولی
اچھا سنیے ۔۔۔کچھ یاد آنے پر اس نے پلٹ کر دیکھا اور بولی۔
جی بولو ۔وہ ننھی زنیرہ کو پیار کرتے ہوئے بولا ۔
میں سوچ رہی ہوں کیوں نہ شام کے کھانے پر حیا اور ارتضی بھائی کو بلا لوں۔۔۔آپ کیا کہتے ہیں؟
خیال تو اچھا ہے ویسے بھی ارشمان زرغم کو بھی یاد کررہا تھا بچے بھی خوش ہوجائیں گے۔وہ بولا
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی اور دوبارہ اپنے کام میں مصروف ہوگئی۔
**\©©©©©©©©©©©©©©©©©©
اس وقت وہ بالکونی میں بیٹھا ڈھلتے سورج کو دیکھ رہا تھا اور گہری سوچ میں تھا ۔
کیا سوچا جارہا ہے۔علیزے ہاتھ میں دو کپ چائے تھامے اس کے سامنے آبیٹھی ۔
یوسف اسکی طرف دیکھ کر مسکرایا اور دوبارہ سورج
کی طرف دیکھ کر بولا
سوچ رہا ہوں ...
وہ سب کی سنتاہے، لیکن اسے خاص طور پر سنتا ہے، جو صرف اسے پکارتا ہے۔ وہ سب کے پاس ہے لیکن اس کے پاس خاص طور پر ہے جو اس کی تلاش میں ہے۔ وہ سب کو دے رہا ہے، لیکن اسے خاص دے رہا ہے جو پورے یقین سے مانگ رہا ہے ۔ سب بیمار ہیں، اور سب پریشان حال ہیں، اس کا رحم سب کی تلاش میں ہے ، لیکن یہ رحم اس پر خاص طور پر سایہ فگن ہے ، جو پر امید ہے، اور یقین رکھتاہے کہ اس کا رب اس سے غافل نہیں ہے۔۔۔۔۔۔یقین۔۔۔۔۔۔صرف یقین۔۔۔۔۔۔اللہ کو اپنے بندے سے صرف یہ'' یقین'' چاہیے۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی۔
علیزے زندگی ہمیشہ مکمل کیوں نہیں ,...
اسکی بات سن کر وہ ناسمجھی سے اسکی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔
دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے پاس دنیا کی ہردولت ہے مگر اولاد کی کی دولت سے محروم ہے کسی کے پاس اولاد ہے وہ بےروزگار ہے۔کچھ کے پاس سکون نہیں ہے کوئی دنیا میں بہت اونچے مقام پر ہے اور دینی معاملات میں صفر ۔۔۔۔۔۔۔
ایسا کیوں ہے جوئی مکمل کیوں نہیں ؟؟؟وہ بولا
انسان کی یہی نامکملی اسے اس کے رب سے جوڑتا ہے۔۔۔اگر انسان کو ہر چیز دینی دنیاوی معاملات میں عبور حاصل ہوجائے تو اس کے پاس کی وجہ نہیں رہے گی اپنے رب سے کچھ مانگنے کی وہ بولی۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرایا ۔۔۔
چلیں باقی باتیں بعد میں اٹھیں وانیہ کو لینے جانا ہے نہ چلیں جائیں۔وہ اس کو بھیجتے ہوئے بولی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ دونوں چلڈرن پارک میں تھے ۔وانیہ جھولے لے رہی تھی یوسف اس کو دیکھ کر مسکرایا اور دوبارہ
موبائل پر مصروف ہوگیا۔اسے ایک کال آئی وہ کال سننے میں مصروف تھااسے وانیہ کے رونے کی آواز آئی وہ فورا کال کٹ کے مڑا اور دیکھا وانیہ زمین پر بیٹھی رورہی تھی۔۔۔۔۔ساتھ ہی ایک گول مٹول بچہ اسے چپ کروارہا تھا۔
یوسف کو پاس آتے دیکھ کر وہ پیچھے ہوگیا ۔۔۔
کیا ہوا میرے بچے کو۔وہ وانیہ کے پاس بیٹھ گیا اور اسے پوچھا ۔
اس کے پوچھنے پر اس نے چوٹ کی طرف اشارہ کیا یوسف نے دیکھا گرنے کے باعث اس کے بازو پر ہلکی ہلکی خراشیں آگئیں ہیں۔
ارے میرا بیٹا تو اتنا بہادر ہے ان چھوٹی سی چوٹوں سے ڈر گیا کچھ بھی تو نہیں ہوا چلو اب سمائل کرو وہ اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے بولا۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائی اسے ہنستا دیکھ کر وہ بھی مسکرایا ۔اچانک اسکی نظر اسی گول مٹول بچے پر پڑی جس کی آنکھیں نیلی تھی جس میں ایک مایوسی تھی ۔حسرت تھی۔
اس نے ہاتھ کے اشارے سے پاس بلایا وہ سہم گیا اس نے دوبارہ بلایا اب کی بار وہ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اسکی جانب آگیا ۔۔
آپ کیا کررہے تھے ۔اس نے پیار سے پوچھا۔
وہ ۔۔۔۔۔وہ اتنا کہہ کر اس نے چوٹ کی طرف اشارہ کیا ۔
اس کی اس حرکت پر مسکرایا اور ادھر ادھر دیکھا۔
آپ کے ماما پاپا کہاں ہیں۔۔
پاپا اَللّٰهُ کے پاس چلے گئے اورماما یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھا ۔
یوسف کو اسکی نیلی آنکھیں بہت کچھ یاددلارہی تھی ۔
وہ ہیں مما۔۔۔
ایک عورت بھا گ کر انکی طرف آئی اوراس بچے کو گلے سے لگایا ۔
کدھر تھے آپ کب سے ڈھونڈ رہی تھی میں آپکو بیٹا ایسے کہاں چلے جاتے ہو۔
مما انکل ۔۔۔۔۔اس نے اپنی ماں کا دھیان یوسف کی طرف دلایا۔
اس نقاب پوش عورت نے یوسف کو دیکھا تو ایک منٹ کے لیے حیران ہوگئی ۔
جوزف ۔۔۔۔جوزف لیارا ۔آآآپ جوزف لیارا ہیں نہ۔وہ لڑکی بولی ۔
اسکی بات سن کر وہ شاکڈ رہ گیا اپنی پہچان وہ پہچان جو وہ کب کا بھول چکا تھا اتنے عرصےبعد سنے گا۔وہ بھی ایک لڑکی سے حو نقاب کرتی ہو ۔۔۔
آاپ کون؟وہ بولا ۔
میں مسز امان اور یہ میرا بیٹا عائذ امان ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بات سن کر اس کے چہرے پر کچھ تاثرات ابھرے خوشی کے حیرت کےاس نے عائذ کو گلے لگایا اور اس کے چہرے کو غور سے دیکھا وہ بلکل امان لگ رہا تھا۔
اچانک اس کے ذہن میں تھوڑی دیر پہلے کہے ہوئے جملے آۓ۔
"پاپا اَللّٰهُ کے پاس چلیں گئے ہیں"
امان ۔۔۔۔۔اس نے اس عورت کی طرف دیکھا ۔
وہ اس دنیا میں نہیں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے نظریں جھکا کرکہا۔
اسکی بات سن کر وہ ساکت رہ گیا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔
وہ شرارتی نٹ کھٹ سا لڑکا،اسکی نظروں میں لہرایا ۔۔۔۔
******************************
ماضی۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت وہ استنبول کی گلیوں میں پھر رہا تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہاتھا وہ گھر سے دور یہاں تک تو آچکاتھا مگر اب کیا کرنا چاہیے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔
اس نے ڈاکٹر اطہر درانی سےرابطہ کرنے ہی کوشس کی تھی ۔مگر رابطہ نہیں ہوپایا ۔
ابھی وہ یہ سوچ ہی رہا ہوتا ہے اس کے فون پر کال آتی ہے وہ فون اٹھاتا ہے۔
جی ڈاکٹر صاحب ۔ڈاکٹر اطہر درانی ہوتے ہیں دوسری طرف وہ انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کرتاہے دوسری طرف سے ایک ایڈریس اور پتا دیا حاتا ہے۔
جزاكَ اللّٰه خيرً ۔یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا اور فون پر بتائے گئے ایڈریس کی جانب بڑھ گیا ۔
وہ اس وقت ایک انسٹیٹیوٹ کے آفس میں موجود تھا۔
السلام علیکم !ڈاکٹر شہزاد راؤ بولے۔
وعلیکم السلام ۔وہ بھی خوش اسلوبی سے ملا۔
مجھے اطہر نے آپکی صورتحال بتائی ہے ۔میں نے آپکی رہائش کا انتظام کردیاہے۔۔۔۔۔
انکی بات سن کر وہ مسکرایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وقت کا کام ہوتا ہے گزرنا اور وہ گزرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اج ایک مہینہ ہونے والا تھا مگر اسے کہیں بھی حاب نہیں ملی کیونکہ اس کے پاس ڈاکومنٹس نہیں تھے۔۔۔۔
وہ آج پھر وہ اسی آفس میں اس شخص کے سامنے بیٹھا تھا جس کے ساتھ ایک مہینہ پہلے بیٹھا تھا ۔۔۔۔
عجیب ہوگئی ہے زندگی۔میں کیا کروں دیکھیں کیا سے کیا حال ہوگیا ہے میرا اس سے بہتر تومیری پہلی زندگی تھی ۔
تنگ آگئے ہو بھی بس اتنے سے۔۔۔۔۔۔
ابھی تو آزمائش کا آغاز ہے اور تم اس چھوٹی سی آزمائش سے گھبرا گئے۔
آزمائش کیا یہ آزمائش تھی۔
ہاں آزمائش تھی۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔
تم جو سوچ رہے ہو یہ آزمائش کیسے تھی میں سمجھ سکتا ہوں۔
تمہیں نوکری چاہیے تھی تم مجھ سے بھی کہہ سکتے رھے جب میں تمہاری رہائش کا انتظام کرسکتا ہوں تو نوکری بھی تو دے سکتا تھا نہ۔ نہیں کہا کیونکہ اَللّٰهُ تمہیں آزمانا چاہتا تھا۔یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئے انکی بات سن کراس نے سرجھکالیا۔
کیا سوچ رہے ہو ؟؟؟انھوں نے پوچھا ۔
کچھ نہیں ۔میں سمجھتا تھا کہ میں اپنے گھر جائیداد چھوڑ آیا ہوں تو میں نے اپنے رب سے محبت کی تمام مراحل پار کرلیے ہیں۔
مگر۔۔۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر اس نے دوبارہ سر جھکالیا۔
اگر لگن سچی ہو تو محبت عشق میں تبدیل ہوجاتی ہے اور سفر عشق کبھی بھی آسان نہیں ہوتا چایے عشق مجازی کا ہو یا پھر عشق حقیقی کا۔۔
جب تم اس سفر کے آخری حدود میں داخل ہوجاؤ تو تم بلال حبشیؓ بن جاتے ہو جس کو گرم تپتے صحرا پر بھی لٹایا جائے تو زبان سے "احد احد " ہی نکلتا ہے۔۔۔۔۔
ابوبکر صدیق ؓ بن جاتے ہیں جو گھر کا سارا سامان جنگ میں لے آئے اور جب پوچھا جائے کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو تو بولے صرف اَللّٰه( ُﷻ)۔
حسین ابن علی بن جاتے ہو جس کا سر بھی تن سے جدا کردیا جائے تو تلاوت قرآن جاری رہتی ہے۔وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔ِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی باتیں اس کے دل میں اتر رہی تھیں۔
۔ مجھے کُن سے کر تُو قریب تر
مجھے اپنے گھر کی گدائی دے
مجھے اِس جہاں سے غرض نہیں
مجھے اُس جہاں کے رسائی دے..
اس کا صحیح مفہوم اگر معلوم ہوجائے تو تمہیں اس دنیا میں کسی کی بھی طلب نہیں رہے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*@@@@@@@©©©©©©©©©©©©©©©