وہ اس وقت ماسکو کی سب سے بڑی مسجد کے باہر کھڑا تھا ۔ اندر جانے کا حوصلہ نہیں تھا اس طرح دس منٹ یونہی کھڑے رہنے کے بعد جب وہ اندر داخل ہوا اسے ایسے لگا اب وہ کبھی یہاں سے نہیں جا پائے گا۔
آہستہ آہستہ مسجد خالی ہونے لگی۔
یہاں تک کہ مسجد میں مکمل طور ہر سناٹا چھا گیا وہ ایک ہی پوزیشن میں تھا ۔
تم یہاں کیا کررپے ہو مسجد کو بند کرنا ہے اپنے گھر جاؤ ۔چوکیداربولا۔
ابھی تو آیا ہوں ابھی تو اپنا ٹھکانا ملا ہے۔ابھی تو اپنی شناحت ملی ہے ابھی ہی لوٹ جاؤو ۔وہ بولا ۔
اسکی بات سن کر وہ اسکی طرف دیکھتا رہا پھر وہاں سے جا کر مولانا صاحب کو لے آیا حو مسجد کے نزدیک رہتے تھے۔
کیا ہوا بچے۔ انھوں نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
کچھ نہیں بس اپنا ٹھکانا مل گیا ہے۔وہ مل گیا ہے جس کی تلاش میں زندگی کے کتنے سال رائیگاں کیے وہ مجھے آج مل گیا۔مجھے آج اپنا آپ مل گیا ۔وہ بولا
اس کا لہجہ انھیں عجیب لگا۔
تمہارا نام کیا ہے۔
جوز۔۔۔ یو ۔یوسف یوسف نام ہے میرا۔
ماشاءاللّٰه ۔نام بھی تمہارا خوبصورت ہے ۔تم بھی خوبصورت ہو ۔وہ بولے۔
کیا کچھ چاہیے۔ابھوں نےپوچھا ۔
جس کی تلاش میں تھا وہ تومل گیا۔ آج تک جتنی زندگی گزاری وہ سب تو وقت کا ضیاع تھا ۔
لگتا ہے ابھی ابھی اسلام قبول کیا ہے انھوں نے پوچھا۔
پیدائشی طور پر مسلمان تھا۔مگر معلوم نہ تھا ۔
آپ مجھے اسلام سیکھائیں گے۔وہ انکا ہاتھ پکڑ کر بولااس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی وہ اسکوانکار نہ کرسکے ۔
*************#************
عصر کی نماز پڑھ کر وہ ابھی ابھی فارغ ہوئی تھی۔
زمیل حمدانی کو اس نے راضی کرلیا تھا۔وہ شمائل کو بطور بہو قبول کرچکے تھے۔شمائل بھی انکی خدمت میں کوئی کمی نہ چھوڑی تھی۔
دعا مانگ کر وہ کچھ دیر جاہ نمازپر بیٹھی رہی۔
دنیا بھی کتنی عجیب ہے اپنی محبت دے کر رب سے دور کردیتی ہے اور یہی دنیا تمہیں دکھ دے کر رب سے قریب کردیتی ہے ۔ وہ سوچ کر خود ہی مسکرائی ۔۔
وہ اٹھی اور قرآن لے کر بیڈ پر آگئی ۔
آج ناجانے اس کے دل میں ایک عجیب بے چینی تھی جسم تھکا تھکا لگ رہا تھا مگر ایک اطمینان تھا جیسے آنے والے وقت کے لیے وہ خود کو تیار کرچکی تھی ۔
اس نے تلاوت شروع کردی۔
آگے کا وقت کیا لانے والے تھا یہ نہ اسے معلوم تھا نہ ہی کسی اور کو۔
***********************************
تھکا ہارا وہ کوئی ایک ہفتے بعد گھر لوٹا تھا۔ملازم اسکو دیکھ کر حیران تھے کیا یہ وہی جوزف ہے جو ایک دفعہ کے پہنے کپڑے دوبارہ ڈرائی کلین ہوئے بغیر پہنتا نہیں تھا ۔آج وہ ایک ہی سوٹ میں پورا ہفتہ گزار کر آرہا ہے۔
ایسا لگتا تھا جیسے کوئی مسافر بہت لمبے سفر سے کوٹا ہو۔کپڑوں پر چگہ جگہ مٹی لگی ہوئی۔
سر آپ کے لیے ناشتہ لاؤں۔ملازم نے پوچھا ۔
نہیں۔اس نے سرسری سا جواب دیا اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
سر لیارا سر نے کہا تھا آپ جب گھر آئیں آپکو ناشتہ وغیرہ سب دے کر ہم چلیں جائے ۔
کہاں حانا ہےتم دونوں نے اور انکل اور باقی ملازمین کہاں ہیان۔
اس نے ایک نظر پورےگھر پر دوڑاتے ہوۓ ان سے ہوچھا پورا گھر خالی تھا ۔
سر سب لوگ جاچکے ہیں سربھی چلیں گئےہیں ہم دونوں آپ کے لیے رکے تھے آپکو یہ دینے کے لیے اور بتانے کے لیے کہ سر نے یہ گھر اور اپنا بزنس سیل کردیا ۔
اسکی بات سن کراس پر حیرتوں کے پہار ٹوٹے لیکن ایسا کیوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے پوچھا۔
جس پر وہ بولا معلوم نہیں اور کاغذات اسکی طرف بڑھا دیے۔جس کو اس نے تھام لیا ۔
وہ اپنے کمرے میں آچکا تھا ۔وہ ایک دم شاکڈ تھا ۔کہاں جاسکتے ہیں اس کے دماغ میں بار بار یہی سوال آرہا تھا اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذوں کو دیکھا جن میں کچھ پراپرٹی کے کاغذات تھے اور ایک لفافہ تھا اس نے لفافہ کھولا ۔
یوسف جب تم یہ خط پڑھ رہے ہو گے تب تک میں بہت دور جاچکا ہوں گا یہ جو کاغذات ہیں یہ تمہاری ماں کی جائیداد کے ہیں جس کے تم وارث ہو اور یہ تمہاری امانت تھی میرے پاس جو آج میں تمہیں دے چکا ہوں۔
پاکستان والا گھر بھی تمہارا ہے مجھے ڈھونڈنے میں وقت ضائع مت کربا ۔
لفافے میں ایک تصویر بھی تھی۔
اس تصویر کو دیکھ کر اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔جس کے اوپر ایک کاغذ چپکا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہے تمہارا باپ۔
"مراد علیخان"
***********************************
عنبر رجا جی نہیں آئیں ابھی تک۔شمائل نے پوچھا
جی وہ تو عصر کے بعد سے ہی کمرے سے نہیں نکلیں۔اسنےجواب دیا۔
سب خیریت توہےنہ۔اس نے پوچھا ۔
اس وقت وہ دونوں رات کے کھانے کی تیاری میں مصروف تھے۔
کس کی خیریت دریاقت کی جارہی ہے۔راہم نے پوچھا جو ابھی ابھی ڑیبل پر آ کربیٹھا .
رجا جی کی۔شمائل بولی۔
کیوں کیا ہوا ہے رجا کو؟؟؟؟زمیل جمدانی نے پوچھا جو ابھی ابھی آئے تھے۔
معلوم نہیں۔عنبر بولی۔
میں دیکھتی ہوں عنبر کہہ کر چلی گئی
رجا باجی۔وہ آواز دیتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تواسکی سانس اٹک گئی ۔رجا اوندھے منہ بیڈ پر پڑی ہے اور سامنے قرآن پڑا تھا ۔
رجا باجی۔رجا باجی۔بڑے صاب جی ۔چھوٹے صاب جی جلدی آئیں اور دیکھیں رجا باجی کو کیا ہوا ہے۔
اسکی آواز سن جر سب دوڑے آئے راہم نے رجا کو سیدھا کیا تو وہ ایک طرف لڑھک گئی اس نے نبض چیک کی تواس کا ہاتھ چھوڑدیا ۔۔
بابا رجا ہم میں نہیں رہی۔وہ بولا۔
اسکی بات سن کر وہاں سب شاکڈ ہوگئے۔
******************
ارتضی ارتضی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مراد کے چلانے کی آواز پورے گھر میں گونج رہی تھی ۔
جی ڈیڈ۔۔۔۔۔ وہ بھاگتا ہوا آیا اور بولا ۔
ارتضی میری بیٹی چلی گئ مجھے چھوڑ کر چلیگئی یہ دنیا چھوڑ کر ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے بولے ۔
یہ دن کر وہ دو قدم یچھے ہوا دو منٹ کی خاموشی کے بعد آگے بڑھ کر اسنے اپنے باپ کو سنبھالا جونیچے زمین پر نڈھال پڑا تھا۔
وہ اس وقت زمیل کے گھر آچکے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مراد نے رجا کاچہرہ دیکھا تو اطمینان اورسکون کے علاوہ کچھ نہ تھا ۔۔۔
کچھ ہی دیر میں جنازہ ہوگیا آنے جانے والے لوگوں کا سلسلہ چل رہا تھا ۔اس پورے وقت میں شمائل بہت کم مراد کے سامنے آئی اس سے راہم نے منع کیا تھا ۔۔
مراد کو بھی ہوش نہیں تھی اس وجہ سے اس نے زیادہ دھیان نہیں دیا ۔۔۔۔۔
پاپا کچھ تو کھالیں کل سے آپ ایسے ہی بیٹھے ہیں۔۔
ارتضی نے مراد سے کہا۔۔
جس باپ کی جوان تندرست بیٹی مرجائے اسےسکون کیسے آتا ہے۔وہ چلی گئ کیوں۔ ۔
زمیل تم نے میری بیٹی کی حفاظت نہیں کی ۔
وہ بولا اسکی بات پر اس نے سر جھکالیا ۔۔۔
انکل انکا وقت تھا اس لیے وہ چلی گئیں ہم کیا کرسکتے تھے ۔شمائل بولی ۔اس وقت وہ سب لاؤنج میں موجود تھے
تم کون ہو؟؟ انھوں نے پوچھا۔
میری بیوی ۔راہم بولا۔
اسکی بات سن کر وہ طیش میں آگئے اور غصے سے اسکی جانب بڑھے۔اس سے پہلے وہ کچھ کرتے ابشام شاہ آگے بڑھے۔
اور اسے بٹھا دیا۔
زمیل تو نے میری بیٹی کے ساتھ ناانصافی کی ہے۔وہ بولے
میں نے کچھ نہیں کیا یہ تو مکافات ہے۔وہ سرجھکائے بولا۔
اسکی بات دن کر وہ خاموش ہوگیا ۔
وہاں موجود ہر فرد ایک دوسرے کی طرف ناسمجھی سے دیکھ رہا تھا ۔
اچانک تب ہی کوئی بجلی کی طرح اندر داخل ہوا اور مراد کا گریبان پکڑلیا ۔
مراد علیخان ۔۔۔۔وہ چلایا ۔۔۔۔
راہم اور ارتضی نے اسے الگ کیا ۔
کون ہو تم۔زمیل حمدانی بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بھول گئے مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ دوبارہ بولا ۔
دیکھیں مسٹر آپ جو بھی ہیں ہم آپکو نہی۔ جانتے پلیز جائیں یہاں سے راہم اسے باہر دھکیلتے ہوئے بولا ۔
آپ نہیں جانتے مگر یہ دونوں جانتے ہیں ۔ اس نے زمیل اور مراد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔
سب حیرانگی سے انکی طرف دیکھ رہے تھے ۔
وہ دونوں بھی ناسمجھی سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔
میں نہیں یاد لیکن زلیخا کو کیسے بھول گئے آپ لوگ۔
وہ بولا ۔
اسکی بات سن کر وہ دونوں ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھ رہے تھے
کیسے جانتے ہو۔زلیخا کو۔ علیخان نے پوچھا اسکی آواز میں ایک ڈر تھا ۔
وہ میری ماں تھیں میں انکا بیٹا ہوں ۔وہ انکی طرف بڑھتا ہوا بولا ۔
اسکی بات سن کر انکا چہرہ سفید پڑگیا ۔
کیا بکواس کررہے ہو۔۔زمیل حمدانی چلائے ۔
بکواس ہاں آپ لوگوں کو تو بکواس ہی لگے گی نہ آپ دونوں نے تو مجھے مارنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی میری ماں کو بھی قتل کردیا ۔آپ نے مائی سو کالڈ ڈیڈ ۔وہ مراد علیخان کی طرف بڑھتے ہوئے "ڈیڈ" لفظ ہر زور دے کر بولا ۔
اسکی بات سن کر نفی میں سر ہلاتے وہاں سے بھاگ گئے ۔
سب پیچھے حیران تھے ۔۔۔۔۔۔۔
انصاف ہوگا اسی دنیا میں ہوگا آپکا۔۔ان کے جانے کے بعد وہ پیچھے سے بولا اور سب پر ایک نظر دوڑا کر چلا آیا ۔۔۔
سب ابھی بھی بے یقینی کی حالت میں تھے ان سب کے سوال کا جواب اب صرف ایک انسان دے سکتا تھا اور وہ ہے۔ زمیل حمدانی ۔
سب کی نظریں خود پر دیکھ کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور بولا۔
علیخان نے زلیخا سے شادی کی دونوں بہت اچھی زندگی گزار رہے تھے ۔زلیخا سے شادی کی ایک وجہ اسکی دولت بھی تھی ۔ایک دفعہ بدر بھائی سے ملنے علیخان گھر آیا تب اس کی نظر آپا پر پڑی جن کو طلاق ہوچکی تھی علیخان کو ان سے پہلی نظر میں محبت یوگئی رفتہ رفتہ زلیخا سے وہ دور ہوگیا ۔
لیکن وہ زلیخا کو چھوڑ نہیں سکتا تھا کیونکہ دولت نے آنکھوں پر پٹی باندھی ہوئی تھی۔علیخان نے زلیخا کو قتل کرنے کا ارادہ کیا مگر بدر بھائی نے منع کردیا ۔میں نے ساتھ دیا تھا علیخان کا اور الزام ماجد پر لگادیا جبکہ وہ تو اسے بچانے آیا تھا ۔
آپا کو جب شادی کے بعد سچائی پتا چلی تب تک بہت دیر ہوچکی ہوئی تھیں ۔
اسی دولت کے لاہچ میں اندھا ہوکر میں نے رجااور راہم کی شادی کروائی مگر میں بہت پچھتارہا ہوں۔
مجھے معاف کردیں آپ سب لوگ ۔اس نے سب کو سچائی بتائی ۔
وہاں خاموشی تھی۔۔۔۔
************""""""""******""******
یہ کیسے ہوسکتا ہے وہ زندہ نہیں ہوسکتا دودھ میں زہر میں نے خود ملایا تھا کیا کیا میرے کیے کی سزا میری بیٹی کو ملی نہیں ایسے کیسے ہوسکتا ہے یہ سب یہ سب اس زمیل نے کروایا ہے اسی نے کسی کو میرا جھوٹا بیٹا بناکر بھیجا ہوگا مکافات تو صرف کتابوں میں ہوتا ہے حقیقت میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے۔وہ رش ڈرائونگ کرتے پوئے سوچ رہا تھا وہ سوچوں میں اتنا گم تھا کہ سامنے سے آتا ٹرک اسکی گاڑی کو ٹکر مارگیا۔
*****************************
وہ بیڈ سے ٹیک لگائے بیٹھے سوچ رہی تھی چہرہ آنسوؤں سے تر تھا ۔ اتنے میں ایمن کمرے میں داخل ہوئی ۔
مومنہ ۔۔۔۔۔
اس نے پکارا ۔۔۔۔
ایمن میں نےماجد پر یقین کیوں نہ کیا ایسا کیوں ہوا کیا میرا ایمان اتنا کمزور تھا کہ مجھے میرے دل نے اسکی سچائی کی گواہی کیوں نہ دی بولو ایمن تم جانتی تھی نہ تو پھربتایا کیوں نہیں وہ اونچا اونچا رونے لگ گئی ۔
بس کرو بس دیکھو آج ماجد بھائی کی روح کو کتنا سکون ملے گا نہ تم بس ان کے لیے دعا کیا کرو ۔
محشر میں جب مجھے اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تو کیا منہ دیکھاؤں گی وہ اس کے گلے لگ گر اونچا اونچا رونے لگی
**************************
اس وقت کمرے می صرف خاموشی تھی ان دونوں وجود کے علاوہ وہاں کوئی بھی نہ تھا۔
مشینوں کی ہلکی ہلکی آواز آرہی تھی ۔۔
چھوٹےچھوٹے قدم لیتا اس شخص کی جانب بڑھا اس کے قریب جا کر رک گیا۔
کسی نے صحیح کہا ہے ہر چیز کا بدلہ ہوتا ہے آپ نے پیسوں کے لیے میری ماں کو مارا تھا قدرت نے دیکھیں کیسا بدلہ لیا ہے آپ سے آپکی دولت اس وقت کسی کام کی نہیں۔
خیر اگر آپ مجھے سن رہے ہیں تو میں بس یہ کہنے آیا ہوں۔
میں محمد یوسف علیخان آپکو یعنی مراد علیخان کو معاف کرتا ہوں۔
معاف کرتا ہوں۔
معاف کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔
یہ الفاظ بول کر وہ ان لے کمرے سے باہر نکل گیا ۔یہ دیکھے بغیر کے انکی آنکھوں میں آنسو تھے ۔
مراد کا ایکسیڈنٹ بہت شدید قسم کا تھا اب وہ اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو حرکت نہیں دے سکتے تھے حتی کہ زبان کو بھی نہیں۔۔ بس دماغ اور کان کام کرتے تھے اب وہ ایک زندہ لاش بن چکے تھے ۔
یوسف اب ایی نئی زندگی کی راہ پر نکل چکا تھا جو اس کے انتظار میں تھی ۔