رات کا پہلا پہر ڈھل چکا تھا مگر وہ ابھی بھی سجدے کی ہی حالت میں تھا۔وہ اپنے اور ﷲ کے درمیان کی دوریاں کم کررہا تھا اس کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
یا رب تو مجھ کو معاف کردے مولا مجھ گناہ گار کو معاف کردے ۔یااللہ جس طرح تو نے آدم کی توبہ قبول کی میری توبہ بھی قبول فرما۔یااللہ میں تجھ سے تیری رحمت اور رحمانیت کو وسیلہ بنا کر مانگتا ہوں یاﷲ میں تجھ سے تیرے حبیب ﷺ کے صبر کے وسیلے سے مانگتا ہوں یااللہ معاف کردے مجھے اور کردے مجھے فلاح پانے والوں سے اے ﷲ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں تو نے مجھے برائی اور گناہ کے دلدل میں پھنسنے سے بچا لیا۔وہ اٹھا سجدے سے اور اس نے آسمان کی طرف دیکھنے لگا یک دم اس کے ذہن میں اسکا بچپن گھومنے لگا ۔ اسے یاد تھا جب وہ بارہ سال کا تھا اور جب بھی نماز پڑھ کے لوٹتا تھا اس کی ماں اس کا ماتھا چومتی تھی اور کہتی تھی ﷲتیری نماز کو ہمیشہ سلامت رکھے اس وقت ان کی آنکھوں میں الگ ہی چمک ہوتی۔
اسے یہ بھی یاد تھا جب وہ چودہ سال کا ہوا اسکی ماں بیمار رہنے لگی ایک دن جب وہ عصر کی نماز پڑھ کر لوٹا اور اپنی ماں کے کمرے میں گیا۔آج اسکی ماں کی حالت زیادہ خراب تھی اور وہ باربار غنودگی میں اس کا نام لے رہی تھی اس نے انکا ہاتھ تھاما اور آواز دی اس کی آواز سن کر بمشکل انہوں نےآنکھیں کھولیں اسکو دیکھ کر مسکرائیں اور بولی آگیا میرا شہزادہ ادھر بیٹھو آج مجھے میرے بیٹے سے بہت سی باتیں کرنی ہیں۔
بیٹا تم اب بڑے ہورہے ایک لڑکے سے مرد بن رپے ہو اور جانتے ہو جو مرد نماز پڑھتے ہیں اور ﷲ کے احکام پر مکمل طور عمل پیرا ہوتے ہی وہ بے شک کامیاب ہوتے ہیں اور نماز مرد کی وجاہت میں اضافہ کرتی ہے۔ تم بھی نماز مت چھوڑنا ہمممم۔۔
اگر نماز چھوڑو گے تو ﷲ ناراض ہوگا اور ﷲ ناراض ہوا تو میں بھی تم سے ناراض ہوجاؤں گی۔
ایک آنسو آنکھ سے ٹوٹ کر کپڑوں میں جذب ہوگیا دیکھیں امی آجﷲ مجھ سے کس قدر ناراض ہوچکا ہے۔ میں کامیاب بھی نہیِ ہوا اور آپ بھی تو مجھ سے ناراض ہیں۔
امی اپنے بیٹے کو معاف کردیں۔
رات کا یہ پہر بھی ڈھل چکا سورج بھی نکلنے کو تیار تھا ہلکی ہلکی کرنیں کھڑکی سے اندر آررہیں تھیں۔
ایک روشن صبح اسکی منتظر تھی جس کا اس نے ایک خوبصورت مسکان سے استقبال کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*****************************
کسی نے اسے جھنجوڑا جس کی وجہ سے تھوڑی سی کروٹ لی اور آنکھیں کھول کر دیکھا سامنے اس کے راہم تھا جو مسکرارہا تھا اسکو دیکھ کر وہ پوری سیدھی ہو کر بیٹھ گئی اور سائیڈ پر پڑا دوپٹہ اٹھا کر گلے میں ڈال لیا اسکی یہ ساری کاروائ دیکھ کر راہم مسکرایا اور بولا تم سوتے ہوۓ بہت کیوٹ لگتی اگر مجبوری نہ ہوتی تو کبھی نہیں اٹھاتا ۔۔۔۔
ڈیڈ نیچے ہمارا ویٹ کررہیں ہیں تو جلدی سے ریڈی ہوکر آجائیں۔وہ مٹھاس بھرے لہجے میں بولا۔
وہ ابھی بھی اسی کی طرف دیکھ رہی تھی
اور یہ لیں آپکی منہ دکھائی کا تحفہ اس نے ایک لال رنگ کی مخملی ڈبیا اسکی طرف بڑھائی جسے اس نے لے لیا ۔۔۔۔۔۔
آجائیں جلدی سے ہم ویٹ کررہیں ہیں آپکا۔ وہ یہ کہہ کر چلا گیا اسے حیران چھوڑ کر کتنا عجیب شخص ہے۔کبھی دھوپ کبھی چھاؤں ہے وہ صرف اتنا ہی سوچ سکی۔
نیچے جب ڈائینگ پر آئ تو ان دونوں کو اپنا منتظر پایا
السلام عليكم ماموں۔اس نے زمیل حمدانی کے آگے سر جھکاتے ہوۓ کہا۔
وعليكم السلام کیسا ہے میرا بچہ۔انھوں نے بھی اس کے سر ہر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا
آؤ بیٹھو ناشتہ کرو راہم چیئر کھول کر دو۔انھوں نے رجا کو کہا اور پھر راہم کو ۔
اوکے پاپا ۔اس نے جواب دیا اور عمل بھی کیا ۔
ناشتے سے فارغ ہو کر ذمیل حمدانی بولے رجا آپ نے پارلر کب جانا ہے ۔
بس کچھ دیر میں نکل رہیل ہوں۔اس نے جواب دیا ۔
ٹھیک ہے راہم آپکو ڈراپ کردے گا اور عنبر کو بھی ساتھ لگ جائیے گا۔ انھوں نے کہا ۔
جی۔۔۔اس نے جواب دیا۔
******************************
وہ اس وقت اس آفس کے کیبن میں موجود تھا جس کے باہر مذہبی اسکالر اطہر درانی کی تختی لگی تھی ایک ادھیڑ عمر شخص داخل ہوا
السلام و علیکم جناب ! کیا آپ تشریف آوری کی وجہ بتاسکتے ہیں اس شخص پوچھا ۔۔۔
کیا آپ ڈاکٹر اطہر درانی ہیں؟؟؟؟
جی ظاہر سی بات ہے ۔انھوں نے مسکراکر کہا ۔
جناب میں آپ کے پاس ایک مسئلہ لے کرآیا ہوں ۔امان نے کہا ۔
اس کے بعد اس نے اپنی تمام رواداد بیان کی اور کل مسجد والے واقعے کو بھی بیان کیا اور کچھ سوال پوچھے ۔
اس کی تمام باتیں سن کر وہ مسکراۓ اور بولے میرا سیمینار ہے کچھ دیر میں اسے ضرور جوائن کریں آپ کے تمام سوالوں کے حواب مل جائیں گے ۔
جی اوکے ۔امان نے جواب دیا اور چلا گیا ۔
**********************************
حاذق کہاں جارہے ہو ۔مومنہ نے حاذق سے پوچھا جو باہر جارہا تھا ۔
تائی انٹرویو کے لیے جارہا ہوں ۔ دعا کریں مل جاۓ ۔اس نے مسکرا کر جواب دیا ۔
میری دعائیں تو ہمیشہ تم لوگوں کے ساتھ ہیں اور میں تو بہت خوش ہوں تم لوگوں کے یہاں شفٹ ہونے سے انھوں نے بھی جواب دیا ۔
ہممممم چلیں میں نکلتا ہوں آپ اپنا اورامی کا خیال رکھنا ۔وہ انہیں خدا حافظ کہہ کر چلا گیا ۔
********************************
پورا ہال لوگوں سے بھرا ہوا تھا ۔طرح طرح کے لوگ آئے ہوۓ تھے۔کچھ سیاح تھے۔اسی کی طرح کے ۔مختلف مذہب سےتعلق رکھنے والے بھی موجود تھے عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک دیوار نصب کی گئی تھی جس کے دونوں اطراف شیشہ نصب تھا ۔سامنے ایک ڈائس تھا حو بلکل کلیئر نظر آررہا تھا ۔امان بھی یہی موجود تھا ۔
ہال میں عجیب طرح کی گہما گہمی تھی ہر کوئی اپنی گفتگو میں مصروف تھا ۔وہ یہاں خود کو بہت بے سکون محسوس کررہا تھا اس کا دل چاہ رہا تھا وہ یہاں سے کہیں دور بھاگ جائے مگر وہ ایسا نہی کر پار رہا تھا کیونکہ اسے اپنی تمام الجھنوں کو ختم کرنا تھا ۔
کچھ ہی دیر میں اسٹیج پر ڈاکٹر اطہر درانی موجود تھے ۔
السلام علیکم !
آج کی یہ نشست بہت ہی اہم ہی۔اس میں بہت سےسوالوں کے حواب ہیں جو اکثر ہمارے دماغوں میں آتے۔
چلیں تو آغاز کرتے ہیں
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيْم
ڈائس پر کھڑے وہ مائک پر بول رہے تھے اور آواز ہر جگہ گونج رہی تھی ۔
تمام لوگ ان کی طرف متوجہ تھے۔
جب کائنات کو بنایا گیا تو اَللّٰهُ (ﷻ( نے نظام کائنات کوچلانے کے لیے آدم (انسان ) کو پیدا کیا ۔
آدم اور حوا سے ہی اس کائنات کا نظام آگے بڑھا ۔جب آدم کی وفات ہوئی تو لوگ جو تھے وہ برائی کی طرف مائل ہوگئے کیونکہ انکو حق سے آگاہ کرنے والا کوئی نہیان تھا پھر اَللّٰهُ نے انھی میں سے ایک کو نبی چنا وہ تھے شیس علیہ سلام ۔کوئی بھی نبی نبی پیدا نہیں کیا گیا اسے بعد میں اس رتبے پر فائز پر یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے برائی میں پرورش تو پائی مگر خود برائی کی طرف مائل نہیں ہوئے ۔اسی طرح اَللّٰهُ نے اور بھی بہت سے نبی معبوث فرماۓ رہنمائی کے لیے اور یہ لوگ پیغام حق پہنچاتے رہے لوگوں تک اس کے علاوہ رہنمائی کے لیے بہت سی آسمانی کتابیں بھی نازل فرمائی ۔تاکہ نبیوں کے بعد وہ اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرسکیں مگر شیطان انکو بہکاتا رہا اور وہ کتابوں میں رد و بدل کرتے رہے ۔عیسی کو اَللّٰهُ نے بہت حیران کن صلاحیتیں عطا کی تھیں وہ مردے کو زندہ کرسکتے تھے مٹی سے چیزبنا کر اس میں جان بھر سکتے تھے جو کہ صرف اَللّٰهُ ہی کرسکتا تھا مگر
اَللّٰهُ نے عیسی کو بھی یہ صلاحیت دی جس کے پیچھے اسکی کچھ مصلحت تھیں جو انسان کی سمجھ سے باہر ہے.قوم عیسی کو عیسی سے خطرہ محسوس ہونے لگا تو انہوں نے اسے قتل کرنے کا سوچا وہ اپنے جنرل کے پاس گئے اور انکو جھوٹی داستان سنائی جنرل نے انکو سزاۓ موت سنادی جب انکو پھانسی کے تختےپر لے گئے مگر وہاں رب نے انکو آسمانوں پر اٹھا کیا جس پر لوگ انکو بیٹا کہنے لگے اور انکی مورت بناکر پوجنے لگے ۔اب اس کے بعد ہم۔آتے ہیں نبی محمدمصطفیٰﷺ پر جو کہ آخری بنی ہیں۔
اسلام ایک کامل دین ہے مکمل دین ہے اور اسے لوگوں کے لیے پسند کیا گیا ہے یہ آخری نبی محمدمصطفیٰﷺ کا دین ہے جس نے ہمیشہ زندگی صبر وشکر دے گزاری جھوٹ نہیں بولا کسی آرائش کی خواہش نہ رکھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر باقی دین بھی تو گاڈ کے ہیں پھر اونلی اسلام ہی کامل دین کیسے ۔ایک نوجوان نے پوچھا ۔
وہ اسکا سوال سن کر مسکراۓ اور بولے
یس بلکل تمام دین واحد رب کی اتاری گئی کتابوں پر قائم ہین۔
دنیا میں تمام انسان ایک دوسرے سے لنک رکھتے ہیں چاہے وہ یہود ہو چاہے عیسائی کیونکہ وہ ایک انسان آدم کی اولاد ہیں ۔باقی دین کامل کیوں نہیں کیونکہ وہ ادھورے ہیں ادھورے اس طرح ہیں جیسے ابھی ہم بات کررہے تھے ہر انسان کا ایک دوسرے سے کوئی نہ کوئی لنک ہے اسی طرح ہر نبی کا بھی ایک دوسرے سے کوئی لنک ہے۔قرآن سے پہلے جتنی بھی آسمانی کتابیں اتاری گئیں ان میں محمدمصطفیٰﷺ کے آنے کی بشارت دی گئی ہے کہ آخری وقتوں میں ایک نبی آئے گا جو تمام جہانوں کا سردار ہوگا اور دنیا کے لہے رہبر ہوگا وہ لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی روشنی تک لے حائے گا۔اور ہر قوم کو نصیحت کی گئی کہ تمہارا ایمان تب تک۔مکمل نہیں ہوگا جب تک تم اس پر ایمان نہ لے آؤ اب بتاؤ جب تک وہ محمدمصطفیٰﷺ پر ایمان نہیں لائیں گے ان کا دین کامل کیسے ہوگا اسی کے بدلے اسلام کو دیکھا جائے تو اس میں ہر نبی پر اتنا ہی یقین اور ایمان ہے جتنا محمدمصطفیٰﷺ پر ہے ۔اور قرآن بھی تمام پچھلی کتابوں کا خلاصہ ہے ۔
سر تو اَللّٰهُ نے رسول محمدمصطفیٰﷺ کو وہ خصوصیات کیوں نہ دیں جو عیسی کو دیں ہیں۔کسی نے سوال کیا ۔
ہر کسی کی اپنی جگہ ہے جو محمدمصطفیٰﷺ کو ملا وہ مقام وہ رتبہ کسی دوسرے کو نہیں ملا جن آزمائشوں اور مشکلات سے رسول گزرے ان سے کوئی اور نہیں گزرااگر لاک ڈاؤن لگ جائے اور گھر بیٹھنا پڑے تو آپ کب تک گھر بیٹھیں گے ایک دن دو دن حد ہفتہ اسکے بعد آپ اکتا جائیں گے اور باہر جانے کے بہانے ڈھونڈیں گے۔آپ گھر بیٹھے صرف ایک ہفتے میں اکتا گۓ کیوں ؟؟جبکہ آپ کے پاس تمام سہولیات تھیں جن سے آپ لطف اندوز ہوسکتے تھے ۔
شعب ابی طالب لاک ڈاؤن نہیں تھا ایک مکمل محاصرہ تھا وہ بھی تین سال کا اس میں بڑے بوڑھے عورتیں بچے سب شامل تھے وہ بھی بغیر کسی سہولت کے ایک غار میں بند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انکی بات سن کر بیٹھے ہر شخص ایک۔دفعہ اندر سے ضرور ہل۔گیا تھا ۔
اجکی نشست یہاں ہی ختم ضرور آپ لوگوں کو اچھا لگا ہوگا ۔
یہ کہہ کر وہ اٹھے جیسے ہی وہ گئے لوگ اپنے ہچھلے مشغلے میں مصروف ہوگئے ۔
اس کا سکتہ ٹوٹا وہ اٹھا اور اس جانب چل پڑا جس جانب وہ گئے تھے ۔
ایکسوزمی سر پلیز ون منٹ۔۔۔۔۔۔امان نے کہا ۔
اؤ ینگ میں تمہارے سارے ڈاؤٹس کلیئر ہوگئے۔انھوں نے ۔
ید سر ۔۔۔۔اس نے انگلیاں مروڑتے ہوئے کہا۔
کچھ کہنا چاہتے ہو۔انھوں نے پوچھا ۔
سر ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔وہ ۔ ۔ ۔ وہ آئی وانٹ ٹو بی مسلم ۔اس نے ہمت جمع کرکے بول دیا۔
اسکی بات سن کر وہ مسکراۓ اور اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔
*****************************
تھکا ہارا جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا اسکی نظر سامنے رانیہ پر ٹہر گئی جو بے نیازی سے کچن میں مشغعل تھی ۔وہ اسے یک ٹک دیکھ ریا تھا ۔خود پر نظروں کی تپش محسوس کرتے ہوئے اس نے جیسے ہی پیچھے دیکھا حاذق کو خود کودیکھتے ہوئے پایا ۔اس نے جلدی سے دوپٹہ درست کیا۔
آگئے ۔۔جاب کا کیا ہوا؟؟؟علی نے پوچھا جو ابھی ابھی باہر سے آیا تھا ۔
ہمممم انٹریو تع اچھا ہوگیا اب آگے کا مجھےمعلوم نہیں ۔یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا ۔
اسے کیا ہوا۔علی بھی کندھے اچکا کر اندر چلا گیا۔
رانیہ نے اس سمت دیکھا جیاں سے حاذق گیا تھا ۔
کھانے سے فارغ ہوکر سب لاؤنج میں تھے ۔
مجھے یہاں آپ سب سے ضروری بات کرنی ہے۔ایمن بولی ۔
ہسب سوالیہ نگاہوں سے انکی طرف دیکھنے لگے۔
میں رانیہ کو کبھی خود سے دور نہیں کرنا چاہتی ۔وہ بولیں
سب ناسمجھی سے دیکھ رہے تھے ۔
میں رانیہ کو اہنی بیٹی بنانا چاہتی ہوں میرے حاذق کی دلہن ۔وہ بولیں۔
رانیہ اور حاذق بے یقینی سے انکی طرف دیکھ رہےتھے۔
رانیہ تمہیں کوئی اعتراض تونہیں۔
جیسے آپ کو صحیح لگے۔یہ کہہ کر وہ چلی گئی ۔
اور تمہیں؟؟انھوں نے حاذق سے پوچھا۔
امی آپ کی مرضی ۔اس نے شرما کر بولا۔
اسکی بات سن کر وہ مسکرائیں ۔
اتنے میں اسکے موبائل کی بیپ بجی اس نے چیک کیا تو علی کا مسیج تھا ۔
چل ٹریٹ تیار رکھیں ماما کے فرمانبردار اور اتنا نہ شرما کہ بارات لے جانے کی بجائے تیری بارات آئے۔
اس نے علی کو گھورا ۔حو میٹھی میٹھی ہندی ہنس رہ تھا ۔
سلور اور پنک کلر کی میکسی میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔اسٹیج پر بیٹھے بیٹھے اسے کافی وقت ہوگیا تھا اسکی آنکھیں ہال کے دروازے پر تھیں۔
آجائیں گے فکر مت کرو ۔راہم نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر تسلی دی۔
السلام علیکم ہاں جی تو کیا راز و نیاز ہورہے ہیں آپس میں۔راہم کا کزن اسٹیج ہر آکر بولا ۔
اگر تو یہ راز و نیاز جاننا چاہتا ہے تو شادی کروالے ۔راہم بولا۔
ہک ہاہ ہمارے نصیب کہاں ایسے ۔وہ بولا
ارے تو ابھی خالہ کو جاکر کہتا ہوںسکینہ کو لے آئیں ۔راہم مسکراہٹ دبا کر بولا
اسکی بات پر وہ صرف اسے گھوڑ کر رہ گیا ۔
بھائی آگئے۔انکی بحث میں رجا بولی ۔
دونوں نے اس جانب دیکھا تو ارتضی ویل چیئر پر بیٹھے اسٹیج کی طرف آرہا تھا۔
راہم اور اس کا دوست اسٹیج سے اترے اور مل کر اسکی چیئر کو اوپر چڑھایا اور رجا کے پاس رکھ دیا۔
شکریہ ۔وہ بولا۔
اٹس اوکے برو۔راہم بولا
اتنی لیٹ بابا کہاں ہے۔رجا اس سے ملتے ہوئے بولی ۔
ہاں بس ٹانگوں میں درد تھی تو دوائی لی تھی تو آنکھ لگ گئی۔
اپ نہ آتے اگر درد تھی۔وہ بولی ۔
کیوں نہ آتا میری گڑیا کا دن تھا اور جانے سے پہلے میں ملنے بھی نہ آتا ۔وہ محبت سے بولا ۔
کہاں جارہے ہیں ۔اس نے پوچھا۔
جرمنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ بولا
بابا کہاں ہیں؟؟؟اس نے دوبارہ پوچھا ۔
وہ میٹنگ میں ہیں پہنچتے ہی ہونگے۔وہ بولا ۔
***************
اووووف تھینک گاڈ ۔۔۔ہم یہاں سے فائنلی جارہے ہیں بہت ہی کوئی بورنگ پلیس تھی ۔جوزف بولا ۔
امان اس وقت گاڑی چلا رہا تھا ۔
اب تم واپس جاکر وہ وعدہ پورا کرنا جو کیا تھا ۔
ہمممم ضرور نبھاؤ گا وعدہ جو کر کے آیا ہوں
گریٹ جوزف بولا ۔
ساری کشتیاں جلا کر آگے بڑھ رہا ہوں ۔ وہ پر اسرار لہجے میں بولا۔
کیا مطلب ۔جوزف نے پوچھا ۔
کچھ نہیں یہ کہہ کر اس نے موڑ کاٹا اور اس کی ٹکر گاڑی سے ہوگئی ۔
وہ دونوں گھبرا کر گاڑی سے نکلے۔
معاف کیجیے گا۔امان بولا
ینگ مین تم۔کیوں معافی مانگ رہے غلطی میری تھی اسی لیے میں ایکسیوز کرتا ہوں۔مراد نے گاڑی کا شیشہ نیچے کر لے کہا ۔
نو انکل اٹس اوکے ۔امان بولا
چلو میں چلتا ہو بی کیئر فل ۔وہ یہ کہہ کر وہاں سے چلے گئے
امان نے جوزف کو ہلایا جو کسی سوچ میں گم تھا۔
کیا سوچ رہا ہے بھائی۔وہ بولا ۔
میں نے انکو کہیں دیکھا ہے۔وہ بولا ۔
ہم تو پاکستان آۓ نہیں کیا پتہ یہ ماسکو آئیں ہوں وہاں دیکھا ہو اور ایک شکل کے سات لوگ ہوتے اب چل ۔
امان بولا ۔
وہ بھی کندھے اچکا کر اسکے پیچھے چل پڑا ۔
کچھ ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عنبر کیا کررہی ہو؟ رجا نے کچن میں داخل ہوتے ہوئے کہا ۔
جی وہ بڑے صاب اور چھوٹے صاب کے لیے چائے لے کر جارہی ہوں۔
اچھا تم رہنے دو۔ میں لے جاتی ہوں ۔وہ مسکرا کر بولی ۔
مگر آپ کیسے ۔۔۔۔۔۔۔عنبر اس کو دیکھ کر بولی ۔
میں نے جتنا کہا ہے بس اتنا کرو۔۔اس نے مصنوعی آنکھیں دکھا کر کہا ۔
اچھا بیبی جی جیسے آپکی مرضی ۔اس نے ٹرالی اسکے حوالےکردی۔
وہ لے کر ان کے کمرے میں پہنچی ۔۔۔۔۔
ان کچھ مہینوں میں وہ بہت بدل گئی تھی جس نے کبھی ماں باپ کے گھر ہاتھ سے گلاس تک نہ خود رکھا تھا۔آج وہ یہاں سب کام کرتی تھی چاہت سے اپنائیت سے۔اپنی خوشی کے لیے اپنے شوہر کے دل میں جگہ بنانے کے لیے ۔
جیسے ہی وہ کمرے کے دروازے کے پاس پہنچی اس کے کانوں میں آواز آئی
پاپا آپکے کہنے پر میں نے رجا سے شادی تو کرلی اور اب میں اس شادی کوگزار رہا ہوں میں اسکو خوش رکھتا بھی ہوں مگر پاپا میں اس سے محبت نہیں کرپایا اتنے عرصے میں پاپا وہ میرے دل میں داخل نہ ہوسکی اور پاپا وہ داخل ہو بھی نہیں سکتی تھی جہاں پہلے سے ہی کوئی اور ڈیرہ جمائے بیٹھا ہو ۔پاپامیں کسی اور سے محبت کرتا ہوں ۔
اس کی برداشت بس یہی ختم ہوئی اور وہ وہاں سے بھاگ گئی ۔
رکیں بیبی جی ۔۔۔۔عنبر نے آواز دی مگروہ ان سنا کرگئی۔
بیبی جی کو کیا ہوا ؟؟وہ خود سے ہمکلام ہوئی اور آگے پڑھ گئی ۔
ارے یہ ٹرالی یہاں پرہی ہے۔ اسکی نظر ٹرالی پر پڑی تو وہ یہ لے کر اندر داخل ہوگئی ۔
معافی صاب جی دیری کے لیے مگر ہم تو چاۓ لے کر کب کے آجاتے مگر رجا باجی نے کہا کہ وہ لے کر جائیں گی مگر وہ ٹرالی یہی دروازے کے پاس چھوڑ کر چلی گئیں۔
عنبر اپنی ٹون میں یہ دیکھے بغیر وہاں بیٹھے لوگوں کے رنگ کیسے سفید پڑچکے تھے میں بولی جارہی تھی۔
رجا آئی تھی ۔زمیل حمدانی بولے ۔
جی مگر پتا نہیں انھوں کو کیا ہوا ۔وہ دوبارہ بولی ۔
اس کی بات سن کر انھوں نے ایک شکوہ کن نظر اپنے بیٹے پر ڈالی جو نظریں پھیر گیا ۔
***************************************
صبر کرلیں سب کے ساتھ شروع کیجیے گا۔رانیہ نے حاذق سے کہا۔
ارے یار کہاں رہ گئے انکو پتا نہیں ادھر پیٹ میں مائکل جیکسن شروع کردیا ہے چوہوں نے ۔۔۔۔۔وہ کباب ہاتھ سے رکھ کر بولا ۔
تو چوہے مار دوائی کھالو پھر نہ ہوگا چوہا نہ ہوگا پیٹ میں مائکل جیکسن ۔علی نے اسکو پیچھے سے دھپ لگاتے ہوئے کہا۔
دیکھ لیں بھابھی آپکی دیورانی اور مجازی خدا مجھ معصوم کو کتنا ستاتے ہیں ۔۔اس نے ارین سے کہا جو علی کی بغل والی کرسی پر بیٹھی تھی ۔
علی اور ارین کی رخصتی ایک ہفتہ پہلے ہوئی تھی اسکے ساتھ ہی رانیہ اور حاذق کی بھی شادی ہوگئی ۔
کیوں تنگ کررہے ہیں میرے معصوم دیور + بھائی کو۔ارین بولی ۔
علی کچھ بولتا اس سے پہلے وہ دوبارہ بولا ۔اب باقی بحث بعد میں پہلے کھانا۔۔۔۔
اسکی بات پر سب مسکرا کر رہ گئے ۔۔۔
جوزف یہ امان نے کرتا پاجامہ کب سےپہننا شروع کردیا۔لیارا سمتھ نے جوزف سے پوچھا وہ جب سے آئے تھے امان کو دیکھ کر وہ دنگ رہ گئے
انکل آپکو توپتا ہے نہ جہاں پر رہتا ہے وہاں کا کلچر بھی اپنا لیتا ہے اور پاکستان تو اسکی ڈریم پلیس ہے اس لیے وہاں کے کلچر کا اثر زیادہ دیر تک رہے گا۔وہ موبائل پر مصروف تھا اسی انداز میں بولا ۔
ہمممم۔وہ اس کی بات پر مطمئن ہوگئے۔جب سے وہ آئے تھے تب سے وہ امان کو دیکھ رہے تھے وہ اب پہلے جیسا نہیں رہا وہ۔ مکمل طور پر بدل چکا تھا اس کی شوخیاں کہیں چھپ گئیں تھیں اب اس کی جگہ سنجیدگی آچکی تھی وہ آفس باقاعدگی سے جاتا اور تمام معاملات احسن طریقے سے نبھاتا ۔
مراد صاحب اس وقت لان میں بیٹھے چاۂے پی رہے تھے۔
دروازے پر دستک ہوئی اشرف نے دروازہ کھولا ۔سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر اشرف حیران ہوگیا۔
آپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ حیرانگی سے اس پر بھرپور نظر ڈال کر بولا ۔اس بات پرمقابل نے سرکو جنبش دی اورمسکرایا اور اندر داخل ہوگیا۔پیچھے اشرف بھی سامان اٹھا کر داخل ہوا۔
اہم آہم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس آواز پر مراد صاب نے پیچھے مڑ کر دیکھاتو ارتضی کھڑا تھا۔۔۔
وٹ آ پلیزنٹ سپرائز ۔۔۔وہ کھڑےہوکر اس سے بغلگیر ہوئے۔
خوشی دونوں کےچہرے پر عیاں تھی
ایک منٹ ۔۔۔۔۔۔ وہ اس سے علیحدہ ہوکر اسکو دیکھنے لگے وہ اپنے پاوں پر کھڑا تھا ایک بیساکھی کے سہارے جو بس کچھ عرصے کی ساتھی تھی ۔
وہ ابھی بھی حیرانگی سے اسکی طرف دیکھ رہے تھے ۔
ارتضی ۔ ۔۔۔۔۔۔ انکے چہرے پر خوشی عیاں تھی ۔
میں بہت خوش ہوں۔وہ بولے ۔
انکی بات پر وہ مسکرایا
میں تھک گیا ہوں کچھ دیر ریسٹ کرونگا ۔یہ کہہ کر وہ ویاں سے چلا گیا۔
اس کے جانے کے بعد وہ مسکرانے لگے اور کچھ سوچنے لگے۔۔۔۔۔۔
*********************
السلا۔۔۔۔۔۔۔مارننگ ڈیڈ ۔امان جو آفس جانے لگا تھا لیارا سمتھ کو دیکھ کر وہ ان کو سلام کرنے لگا تھا مگر ایک دم سنبھل کر بولا۔۔۔۔۔
وہ پہلے اسکی طرف دیکھتے رہے پھر سر جھٹک کر جواب دیا۔
وہ بھی وہاں سے چلا گیا
اس کے جانے کے بعد وہ اٹھے اور اسکے کمرے کی طرف جانے لگے ۔۔۔۔۔۔
تو مسٹر پیٹر ہماری اس ڈیل کا کیا ہوا جو فائنل ہونے والی تھی ۔وہ آفس میں بیٹھا ہوا اہنے اسسٹنٹ سے بول رہا تھا اتنے میں آفس کا کھولا اور جوزف اندر داخل ہوا اور اس نے پیٹر کو باہر جانے کا کہا۔
کیا ہوا۔امان نے پوچھا ۔
چل گھر جانا انکل کا فون آیا ہے وہ فوراً بلارہے ہیں۔
کیوں سب خیریت ۔۔۔وہ بھی پریشان ہوگیا ۔
چلو پھر ۔۔۔۔
وہ دونوں گھر داخل ہوئے اور ملازم سے پوچھا ۔
مجھے معلوم نہیں صبح آپ لوگوں کے جانے کے بعد وہ امان صاب کے کمرے میں گئے تھے تب سے ایسے ہیں ۔۔۔
یہ سن کر امان سب سمجھ گیا اور آنے والےوقت کے لیے خود کو تیار کرنے لگا ۔
وہ دونوں جیسے ہی لائبریری میں داخل ہوئے سامنے لیارا سمتھ سر ہاتھوں میں دیے ہوئے تھے اور ان کے سامنے ٹیبل پر چیزیں بکھری ہوئیں تھیں ۔جن میں ایک اسلامی کتاب تھی تسبیح تھی اورجاہ نماز تھا ۔۔۔۔۔۔
امان ۔۔۔۔۔کیا جو میں سوچ رہا ہوں وہ سچ ہے وہ بولے ۔
انکی بات پر اس نے سے جھکا لیا ۔جس کا مطلب ہاں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چٹاخ ۔۔۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے وہ کوئی دلیل دیتا ایک زوردار تھپر اس کے چہرے پر پڑا وہ بے یقینی سے اپنے باپ کی طرف دیکھ رہا تھا جس سے کبھی اونچی آواز میں بھی بات نہ کی آج اس پر ہاتھ اٹھالیا۔
نکل جاؤ میرے گھر سے یہاں تمہاری کوئی جگہ نہیں ۔دفع ہوجاؤ میری نظروں سے۔وہ طیش میں چلاۓ انکی بات سن کر وہ بے یقینی سے انکی طرف دیکھ رہا تھا اور پھر خاموشی چلا گیا ۔۔۔۔۔۔
اس کے جانے کے بعد وہ سوچنے لگے کیا ماضی ،دوبارہ اپنے آپ کو دہرانے لگا ہے۔۔۔۔کیا اس بار بھی کہانی کا اختتام وہی ہوگا جو تب ہوا تھا۔۔۔۔۔۔
یہ تو صرف وقت کو معلوم ہے۔
******