نماز ﷲ سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔ اپنی نماز کو بہترین بناؤ۔ نماز جبرئیل لے کر نہیں آۓ تھے۔یہ ملاقات کے وقت محبوب کو تخفے میں دی گئی۔ نماز میرے نبی ﷺ کو سب سے پیاری تھی۔ اکثر عورتیں نماز جلدی جلدی پڑھتی ہیں کیونکہ ان کو کام کرنے ہوتے ہیں۔ یہ غلط ہے نماز انسان کے اور رب کے درمیاں کے تعلقات اور مضبوط بناتی ہے۔
روز محشر سب سے پہلا سوال نماز کا کیا جاۓ گا کیونکہ نماز فرق کرتی ہے مومنو اور مشرکین میں
جو نماز پڑھیں گے ان کا شمار مومنو میں ہوگا اورجو نماز نہیں پڑھے گا اس کا شمار مشرکین میں ہوگا جن کا ٹھکانہ جہنم ہے سورة مدثر میں فرمایا گیا ہے
Surat No 74 : سورة المدثر - Ayat No 42
مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۲﴾
تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا ۔
Surat No 74 : سورة المدثر - Ayat No 43
قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾
وہ جواب دیں گے کہ ہم نمازی نہ تھے ۔
۔
جنت والے دوزخ والوں سے سوال کرہے ہیں ۔ بےشک نماز کے نوافل بھی پڑھا کرو انہیں چھوڑا مت کرو یہ تمہارے لیے بخشش کا سامان ہے۔
حدیث قدسی ہے
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن بندہ کے اعمال میں سے سب سے پہلے نماز کا حساب ہوگا۔ اگر وہ درست نکلی تو وہ کامیاب و کامران ہوگا۔ اور اگر وہ خراب نکلی تو وہ ناکام و نامراد ہوگا۔ لیکن اگر اس کے فرائض میں کچھ کمی ہوئی تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: “دیکھو! کیا میرے بندے کے پاس کچھ نوافل ہیں؟ تاکہ اس کا فرائض میں جو کمی رہ گئی ہےوہ ان نوافل کے ذریعہ پوری کر دی جائے”۔ پھر اس کے تمام اعمال کا حساب اسی طرح کیا جائے گا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، احمد، ابن ماجہ)
دنیا کے کاموں میں گم ہوکر نماز مت چھوڑا کرو۔
سیدہ مومنہ شاہ کی آواز میں ایک سحر تھا جو ان تمام خواتین کو اپنے گرویدہ کیے ہوۓ تھا۔
جو کچھ اس محفل سے سیکھنے کو ملا ﷲ کے حضور دعا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کی توفیق بھی ہو۔ آمین
ہر جمعہ کی طرح اس بار بھی ان کے گھر کے لان میں عورتوں کی یہ خوبصورت محفل سجی ہوئ تھی۔
جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئیں ان دونوں کو اپنا منتظر پایا۔جن کو دیکھ کر ان کے چہرے پر جاندار مسکراہٹ آگئی۔
****************************************
ہیلو ہیلو !! کیا کوئی ہے یا میں فضول میں بول رہا ہوں۔ وہ اپنے منفرد رشئن لہجےمیں شرارت چھپاۓ بول رہا تھا۔
تو ویسے بھی فضول بولتا ہے ۔نڑوٹھے پن سے جواب دیا گیا۔
وہ میری حسین روٹھی محبوبہ کب تک ناراض رہو گی۔وہ پھر اسی انداز سے بولا۔
دیکھ امان باز آجا اور مجھے تجھ سے کسی قسم کی بات نہیں کرنی۔وہ تنگ آکر بولا۔
اچھا اچھا مذاق کررہا تھا تو ناراض ہوگیا۔ویسے بھی وہاں جانے میں کوئی حرج نہیں باقی ملکوں کی طرح پاکستان بھی ایک ملک ہے اور بہت خوبصورت ہے وہاں کی ثقافت بہت منفرد ہے۔لوگ محبت کرنے والے ہیں۔مشکل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں۔ بہت الگ ہیں وہاں کے لوگ میں ایک بار ان سے ملنا چاہتا ہوں وہ ایک ٹرانس میں بول رہا تھا۔
اچھا اچھا بس! اگلے ہفتے چل رہے ہیں نہ پھر دیکھ لینا اپنا سو کالڈ پاکستان۔ وہ بیزاری سے بولا۔
تجھے پاکستان سے اور مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں ہیں؟؟؟ امان نے پوچھا
وہ مطلب پرست ہوتے ہیں مفاد کے لیۓ کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن وہ میں تجھے نہیں بتا سکتا ۔ اچھا چل پھر اگلے ہفتے ملاقات ہوتی ہے۔
یعنی تو چل رہا ہے؟ امان جوش سے بولا
ہممم۔اس نے جواب دیا
چل پھر اگلے ہفتے ملاقات ہوتی ہے
میں بہت خوش ہوں
ok byeee see you on next weeek.
یہ کہہ کر کال کٹ گئی اور وہ گہری سوچ میں چلا گیا۔
پاکستان جس کا نام سننا بھی اس کو گوارا نہ تھا وہاں وہ پندرہ دن کیسے گزارے گا۔
مگر وہ کیا جانے یہ پندرہ دن ان کی زندگی کیسے بدل دیتے ہیں ۔ قسمت نے آگے کیسے کھیل سجا کر رکھے ہیں۔۔۔
**********†***************************
علیزے تم یہاں کیا کررہی ہو؟؟اس نے اپنے سامنے کھڑی لڑکی سے پوچھا جس نے گھٹنوں تک آتے کالے فراک کے ساتھ سفید کیپری پہنی تھی چہرے پر بلا کی معصومیت سجاۓ وہ سامنے کھڑے اس گندمی رنگت کے شخص کو دیکھا جس کے چہرے پر نور چمک رہا تھا اور چہرے پر سجی سنت رسول اسے اور پر کشش بنارہی تھی۔
وہ علی بھائی! بس کا انتظار کررہی تھی ابھی تک نہیں آئ۔اس نے نظریں جھکا کر جواب دیا۔
ہممم۔چلو میں تمہیں چھوڑدیتا ہوں اسی بہانے نانا جان سےبھی ملاقات ہوجاۓ گی۔چلو
جی اچھا۔اس نے ہچکچاتے ہوۓ کہا
اور وہ دونوں نفوس گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔
*****************************************
نازش بی بی آپ کو بڑے شاہ جی بلارہے ہیں۔شمو نے آکر نازش بیگم کو اطلاح دی جو کچن میں رات کے کھانے کی تیاری کررہی تھیں۔
اچھا تم ذرا یہاں دیہان دو میں آتی ہوں۔انہوں نے جواب دیا۔یہ کہہ کر وہ چلی گیئں۔
ٹھک !ٹھک! تایا جان آجاؤ اندر میں؟؟ نازش بیگم نے دستک دی اور اجازت مانگی
سید ابشام شاہ نے ان کو دیکھا اور بولے
آؤ بیٹا! انھوں نے شفقت سے کہا
تایا جان بلایا آپ نے کچھ کام تھا کیا ؟؟انھوں نے پوچھا
ہمممم ارین اور حیا کدھر ہیں؟؟انھوں نے پوچھا
وہ دونوں بھابھی جان کی طرف گئیں ہیں۔نازش بیگم نے جواب دیا
نازش بیٹا مراد نے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگا ہے میں سوچ رہا ہوں ارین کی بات کرو پچیس سال کی ہوگئی ہے اور اتنی سعادت مند بچی ہے۔ بس ﷲ اس کے نصیب اچھے کرے۔ ابشام شاہ نے بات پوری کی اور سوالیہ نگاہوں سے نازش بیگم کو دیکھا
آمین۔ تایا جان آپ ہمارے بڑے ہیں آپ کا ہرفیصلہ سرآنکھوں میں اور ہاشم کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ وہ تابعداری سے بولیں۔
خوش رہوآباد رہو ۔انھوں نے مسکرا کر دعا دی۔
اچھا میں چلتی ہوں رات کے کھانے کی تیاری کرنی ہے۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے نکل گئی اور وہ دوبارہ کتاب کے مطالعہ کرنے لگے۔
***************************************
مارننگ انکل! وہ سرجھکاۓ تابعداری سے بولا۔
اوہ آؤ جرمنی سے کب آۓ؟؟۔ وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولے۔
جی پچھلے ہفتے اس نے جواب دیا۔
ہممم۔ وہ بولے اور غور سے اس کے چہرے کو دیکھنے لگے جیسے کچھ جاننا چاہتے ہوں۔
میں اور امان پاکستان جارہے ہیں اسی لیےمیں آپ سے ملنے آیا ہوں ۔اس نے اپنے آنے کا جواز بتایا۔
اس کی بات سن کر لیارا سمتھ ایک منٹ کے لیے ساکت ہوگۓ۔کیا کچھ یاد نہ آیا تھا ان کو پاکستان کا نام سن کر کچھ خوبصورت اور بہت سی تلخ باتیں ان کو یاد آئیں جس کا ان کی آنکھوں کی نمی دے رہی تھی۔
ہممم تمہارا سفر کامیاب رہے۔ انہوں نے آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوۓدعا دی۔
اس بات پر اس کے چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ آئ۔
اچھا چلتا ہوں۔اس نے اجازت مانگی۔
گھر کی چابیاں مجھ سے لے لینا وہاں ہمارا اپنا گھر ہے ہوٹل میں مت رکنا۔ انھوں نے کہا
ہممم ۔وہ بےدلی سے سر ہلایا۔
اس کے جانے کی بعد لیارا سمتھ وہ سب سوچنے لگے جن کو وہ پچھلے انیس سال سے بھلانے کی کوشش کررہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی بھی کتنی عجیب ہے پھر اسی جگہ پر لا کھڑا کیا جہاں سے وہ ساری زندگی بھاگتا رہا ہے اب جانے کیا کھیل قسمت جوزف لیارا کے ساتھ کھیلے گی۔
۔۔۔۔
جیسے ہی وہ دونوں گھر میں داخل ہوۓ ان کی نظر لاؤنج میں بیٹھی سمیہ بیگم پر پڑی
اسلام علیکم! علی نے ادب سے سرجھکاکر ان کو سلام کیا۔
وعليكم السلام! انھوں نے شفقت سے اس کے جھکے ہوۓ سر پر ہاتھ پھیرا ۔
نانا جان کدھر ہیں؟؟؟یہاں وہاں نظریں دوڑاتے ہوۓ اس نے سمیہ بیگم سے پوچھا
اچھا یعنی نانا جان سے ملاقات کے لیے آۓ ہو ورنہ وہ بھی نا آتے۔انھوں نے گھور کر کہا
ایسی بات نہیں ہے بس کچھ مصروفیات کی وجہ سے نہیں آسکا ورنہ آپ لوگ تو ہر وقت سوچوں میں رہتے ہیں۔اس نے بات مکمل کرکے آخر میں شرارت سے کہا۔
اچھا چھا جاؤ زیادہ مسکے مت لگاؤ۔انھوں نے بھی اسی ٹون میں جواب دیا۔
ہا ہا ہا۔ وہ ہنستے ہوۓ نانا جان کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
سمیہ بیگم کی نظر علیزے پر پڑی تو بولیں ارے جاؤ تم اب تک کھڑی ہو۔ فریش ہوکر آؤ تب تک میں کھانا لگواتی ہوں۔
جی اماں۔وہ کہہ کر کمرے کی جانب بڑھ گئی۔
***************************************
آہستہ سے دروازہ کھول کر اس نے اندر جھانکا۔نانا جان اپنی کرسی پر بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کررہے تھے۔نانا جان کی پشت دروازے کی طرف تھی۔
وہ دھیرے دھیرے سے قدم اٹھاتا وہ ان کی کرسی کی جانب بڑھا۔وہ جیسے ہی کرسی کے نزدیک پہنچا آواز نے اس کے قدم روک لیے ۔یوں چوروں کی طرح کیوں آرہے ہو برخودار! نانا جان بولے۔
او شٹ! اس نے اپنی گردن سہلاتے ہوۓ دھیرے سے کہا۔
نانا جان نے جیسے ہی راکنگ چیئر کا رخ کیا اس کی شکل دیکھ کر ان کو ہنسی آگئی۔ برخودار تم کیا سمجھے تھے یوں چوروں کی طرح چپکے چپکے آؤ گے اور ہمیں معلوم نہ ہوگا ہمممم؟انھوں نے اسے گھورتے ہوۓ پوچھا۔
ایسا نہیں ہے نانا جان میں تو بس ایسے ہی۔اس نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوۓ کہا۔
ہم سے چلاکی کررہے ہو بچے تم سے زیادہ تم کو جانتا ہوں۔انھوں نے اس کا جھوٹ پکڑتے ہوۓ کہا۔
اچھا خیر یہ بتاؤ ماں کیسی ہے تمہاری؟؟ انھوں نے پوچھا
جی ﷲ کا کرم ہے۔اس نے جواب دیا۔
اسے بولو مجھ سے ملنے آۓ کچھ ضروری بات کرنی ہے ہممم۔وہ بولے
جی۔وہ ان کے چہرے کے تاثرات جاننے سےقاصر تھا۔
****************************************
کون سی دشمنی نکالی ہے تو نے مجھ سے یہ بتا ۔ وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے ایسی دہائیاں دے رہا تھا جیسے ناجانے کون سی آفت آگئی ہو۔
اور وہ بےنیازی سے کافی پی رہا تھا
میں نے آخر بگاڑا گیا ہے تیرا جو تو میرے ساتھ یہ کیا۔اس نے روہانی صورت بنا کر کہا تو اِسے ہنسی آگئی جس کا وہ آدھے گھنٹے سے گلا دبانے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔
ہوا کچھ یوں تھا امان نے لیارا سمتھ کو فون کیا اور پیسے مانگے اس بات سے بےخبر کہ جوزف ان سے مل کر آرہا ہے۔جب لیارا سمتھ نے ملاقات کے لیۓ کہا تو امان نے بہانہ بنایا کہ وہ اور جوزف جرمنی میں ہیں۔لیکن جب اسے ان سے انکی اور جوزف کی ملاقات کا معلوم ہوا تو وہ شرمندہ ہوا لیارا سمتھ نے اس کی اچھی خاصی کلاس لی اور اس کا جیب خرچ بھی بند کردیا۔
تیری وجہ سے میرا جیب خرچ بند ہوا ہے تومیں تجھ سے پیسے خرچ کرواؤں گا ۔ آخر میں تنگ آکر اس نے اس بےنیاز شخص سے کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
آخر تجھے کیا پرابلم ہے ان سے ملاقات کرنے میں وہ تیرے ڈیڈ ہیں۔جوزف نے اسے گھورتے ہوۓ کہا۔
یار مجھے ان سے کیا پرابلم ہوگی جب بھی ان سے ملنے جاؤ وہ بزنس سنبھالنے کا کہتے ہیں اور وہی لمبا چوڑا لیکچر افففف میں تو تنگ آگیا ہوں ابھی میں ابھی گریجویشن سے فارغ ہوا ہوں ابھی تو میرے سیر سپاٹے کرنے کے دن ہیں۔امان نے شوخ لہجے میں کہا۔
آپ کو گریجویٹ ہوۓ پورے چھ مہینے ہوچکے ہیں اور چھ مہینے سے آپ سیر سپاٹے ہی کررہے ہیں۔۔جوزف نے ایک نظر اسے دیکھتے ہوۓ طنز کیا۔
ہم کل انکل سے ملنے جارہے ہیں مجھے کوئ بہانا نہیں چاہیئے ۔ اس نے سخت لہجے میں امان کو دیکھتے ہوۓ کہا۔
ٹھیک ہے باس۔امان نے گہرا سانس لیتے ہوۓ کہا۔
******************************************
میں کون ہوں؟؟میری پہچان کیا ہے؟؟ میرا خدا کون ہے؟مجھے پیدا کرنے والا کون ہے؟؟میں کس کو پکاروں؟؟ پچھلے انیس سالوں سے وہ ہمیشہ اس چرچ کےباہر کھڑا ہوکر یہی سوچتا تھا لیکن وہ کبھی اندر نہیں گیا۔
son what are u doing here??come inside.
اس آواز نے اس کی سوچوں کے تسلسل کو توڑا اس نے آواز کا تعاقب کیا تو اس کی نظر ایک ادھیڑ عمر کے آدمی پر پڑی جس کے چہرے پر جھریاں اس کی عمر کو واضح کررہی تھی اس نے سفید رنگ کا گاؤن پہن رکھا تھا اور اس کے گلے میں لٹکا کراس اس کی شناخت کو واضح کرہا تھا۔وہ اس چرچ کا پادری تھا
Father can i ask question if u dont mind?
اس نے بے ساختہ پوچھا۔
Sure! Why not.
انہوں نے کہا۔
who is Jesus??
اس کے سوال نے انہیں ایک منٹ کے لیے حیران کردیا پھر اس کے چہرے کو غور سے دیکھنے لگے جیسے کچھ جاننے کی کوشش کررہے ہوں مگر اس کاچہرہ بے تاثر تھا۔
Son of God. A true Messiah.
ایک گہرا سانس لیتے ہوۓ وہ بولے اور اندر کی جانب بڑھ گئے اور وہ پیچھے ان کے لفظوں پر غور کرنے لگا ۔اچانک اس کے کندھے پر ایک زوردار دھپ پڑی ۔
چلیں۔مارنے والے نے کہا
ہممم اس نے سر ہاں میں ہلاتے ہوۓ کہا۔
وہ دونوں اپنی منزل کی جانب روانہ ہوگۓ۔
مگر وہ نہیں جانتے کہ جہاں وہ روانہ ہوۓ ہیں وہ منزل ہے یا پھر صرف ایک فریب۔
کھیل قسمت کے بھی کتنے عجب ہیں
انساں کو فقیر سے بادشاہ بنادیتے ہیں
**********************