پرکشش نوجوان تھا کردار کے لحاظ سے وہ خاصہ مظبوط تھا حالناکہ وہ تقریباً تین سال تعلیم کے سلسلے میں باہر کے ملک رہا تھا طبیعت میں شوخ پنا کوٹ کوٹ کر بڑھا تھا دوستوں کی محفل میں ایسی باتیں کر جاتا کہ لوگ کئ دنوں تک اس بات کو یاد کر ہنستے رہتے ابھی اسکو واپس آے ایک مہینہ ہی ہوا تھا والد صاحب کی ایک کپروں کی مل تھی وہ سارہ دن ادھر حساب کتاب میں مصروف رہتے تھے ماہل کی شامیں اکثر ہوٹلوں میں ہی گزرتی تھیں ایسی ہی ایک شام کو وہ ماریہ سے متعارف ہوا تھا ماہل کے دل میں اس کے لیے بس اتنا تھا کہ چلو ٹائم پاس ہو جایا کرے گا اس سے آگے اس نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کیوں کے اسکی تربیت ہی ایسی کی گئ تھی مگر اسکو ایک بات ماریہ کی بہت کھٹکھتی تھی کہ وہ اپبے بارے میں کبھ کچھ کھل کر نہیں بتاتی تھی جب بھی وہ اس سے اسکے ماضی کے بارے میں پوچھتا تو وہ ٹال دیتی ماہل کے اندر جاسوسی کے جراثیم بھی بدرجہ اتم موجود تھے وہ بھی اسکے ایک دوست کے مرہون منت تھے جو کہ باہر ملک کرمنالوجی کی تعلیم لے رہا تھا چونکہ ماہل اور اسکے اس دوست کے ہوٹل میں کمرے ایک ساتھ تھے اس لیے کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کے کمرے میں چلے آتے اور گھینٹوں باتیں کرتے وہ اس سے زیادہ تر اسی طرح کی باتیں کرتا ماریہ کو دیکھ کر ماہل کو ہلکہ شبہ سا ہوا تھا مگت بھر اسپر ایک دن خبط سوار ہوا اسنے کمرے تک ماریہ کا تعاقب کیا پھر اسنے کان لگا کر اندر کی آوازیں سننیں شروع کیں اندر سے ایک نوجوان کے بولنے کی آوزیں آ رہی تھیں وہ بہت غصہ میں کہ رہا تھا اج مجھے اپنے مشن کے اہم ساتھی اپنے ہاتھوں مارنے پڑے مایل کے کان کھڑے ہو گۓ تھے اسکے ذہن میں حیال آیا کیا پتا یہ کیی سیکڑت ایجنٹ ہو پھر ماہل نے بہت کوشش کی کے وہ کچھ اپنے بارے میں اگل دے مگر بے سود مگر آج ماریہ نے خود کہا تھا کہ کہ وہ کل خود اپنے بارے میں سچ سچ بتاے گی جبکہ ماہل کے ذہن میں تھا کہ اگر اسنے کل بھی نہ بتایا تو وہ اسکو تین چار اکھٹے پیگ پلا دے گا جس سے اس کا ذہن آوٹ ہو جاے گا اور وہ اس سے سب کچھ اگلوا لے گا ماہل جیسا بھی تھا مگر یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوی اسکے ملک میں غلیظ ارادوں سے داخل ہو اس کا خیال تھا کہ اگر کوی اہم بات معلوم ہو گئ تو وہ پولیس کے بجاے سر رحمان کے بیٹے عمران کو بتا دے گا کیوں کے اسکے خیال میں عمران ہی وہ بندہ تھا جو کچھ کر سکے گا پولیس تو الٹا اس کے سر ہو جاے گی ماہل کو کل کے دن کا بیچینی سے انتظار تھا
عمران آج ہی ہسپتال سے ڈسچارج ہوا تھا دھماکے میں اسے کافی زخم آے تھے دھماکے کی ذد میں تنویر جولیا اور عمران ہی آے تھے خاور نعمانی بچ گۓ تھے جب انہوں نے یہ صوتحال دیکھی تو عمران اور دونوں کو گاڑیوں میں ڈال کر فوراً ہسپتال پہنچ گۓ بعد میں اس جگ سے پولیس کو بہت سے انسانی اعضا ملے ظاہر ہے یہ انہی کے تھے جو کہ میٹنگ میں شرکت کے لیے آے تھے تنویر اور جولیا کی حالت بھی کافی سنمبھل چکی تھی ان دونوں کو عمران سے زیادہ چوٹیں آیں تھیں عمران اپنے فلیٹ میں بیٹھا سلیمان سے خدمت گاری کروا رہا تھا اب اس کے پاس کوی کلیو نہیں تھا جس کی بنا پر وہ اس گروہ کے سرغنا کو پکڑ سکتا
او سلیمان او سلیمان زرا ایک چاۓ تو لے آ
عمران نے ہانک لگای
او ہاں سلیمان چاے میں تھوری سے زہر بھی ملا دینا تاکہ دوبارہ چاے پینے کی نوبت نہ آے
سلیمان کی جھجھلای ہوی آواز کچن میں سے سنای دی
اوے سلیمان کے بچے میں نے تیرا کیا بگاڑ لیا جو تو میری موت کا خواہاں ہے
عمران کے لہجے میں غصہ تھا
بس آپ نے میرا کیا بگاڑنا وہ تو میری ہی قسمت پھوٹی تھی جو آپ کے ساتھ اس فلیٹ میں آگیا آخاہ کیا موجیں تھیں کوٹھی کی ہر روز اماں بھی کا شفقت بھرا ہاتھ پھرواتا تھا سر پر
سلیمان غمذدہ سا منہ بناے کمرے میں داخل ہوا اسکے ہاتھ میں چاۓ کی پیالی تھی
اچھا تو ایسا کیا کر جب بھی تیرا دل کرے اپنے سر پر ہاتھ پھیروانے کو تو میرے پاس آجایا کر ایسا شفقت بھرا ہاتھ پھیروں گا نا کہ تو ساری ذندگی بس سر پر ہاتھ پھیرتا رہ جاے گا اور ساری ذندگی یہی سوچتے گزر جاے گی کہ مالک نے یہ میرے ساتھ کیسا ہاتھ کر دیا
عمران نے چاے کی پیالی پکڑتے ک
ہوے کہا
اس سے پہلے کی سلیمان کچھ کہتا باہر ڈور بیل بجی
او سلیمان دیکھنا زرا کس کے ہاتھ میں خارش ہو رہی ہے
سلیمان پاوں پٹختا ہوا دروازے کی طرف بڑھا تھوری دیر بعد وہ ایک دس یارہ سالہ لڑکے کا ہاتھ پکڑے عمران کے سامنے کھڑا تھا
جی جناب میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں عمران نے بچے کو اوپر سے نیچے تک بغور دیکھتے ہوے بولا کپروں سے بچہ کسی متوسطہ گھرانے کا لگ رہا
انکل وہ نہ
ارے ارے خدا کا کچھ خوف کرو میں تمہیں کہاں سے انکل لگتا ہوں ابھی تو میں معصوم سا کنوارہ ہوں
عمران نے ایسی مسمی صورت بنای کہ سلیمان کو بے ساختہ ہمسی آگئ عمران نے اسکو گھور کر دیکھا
بھای جان ! وہ میں نہ گھر کا سودا لینے جا رہا تھا کہ مجھے ایک آدمی نے کہا کہ یہ سامنے والے فلیٹ میں جاو اور یہ خط انکے اندر والے کو دے دو اسنے مجھے اتنے سے کام کے پانچ سر روپے دیے
بچہ نے ایک الفافہ جیب سے نکال کر عمران کی طرف بڑھا دیا عمران نے الفافہ پکڑ لیا اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا
اچھا ٹھیک ہے پیارے بچے یہ لو میری طرف سے بھی تھورے پیسے رکھ لو
عمران نے جیب میں سے پیسے نکالتے ہوے کہا
پہلے تو بچہ جھجھکایا پھر اسنے پیسے لے لیے بچہ کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آ گئ پھر وہ بڑبڑایا
آج تو بہت پیسے ہوں گۓ ہیں میں منی کے لیے آج ایک اچھی سی گڑیا بھی لے جاوں گا اور کچھ دودھ بھی لے جاوں
عمران نے اسکی بڑبڑاہٹ آسانی سے سن لی وہ جھٹ سے اٹھا اور بچہ کو گلے لگا لیا جبکہ سلیمان کی آنکھیں بھی نم ہو گیں پھر بچے کو رخصت کرنے کے بعد عمران الفافی کھولنے لگا
دھیان سے کہیں اس کے اندر بم ہی نہ ہو
سلیمان چلایا
ارے پگلے دشمنوں کو مجھ جیسے نکارہ پر بم ضائع کرنی کی کیا ضرورت بس وہ میرے ہاتھ میں کسی دوشیزہ کا ہاتھ دیں اسکے بعد واقعی تیرے مالک کی روح آسمان کی طرف پرواز کر جانی ہے
الفافہ کے اندر دے ایک ٹایپ شدہ کاغذ نکلا جس پر ایک تحریر درج تھی
تمہارہ بہت چرچا سنا تھا عمران اس لیے سوچا کہ تم سے دودو ہاتھ کر ہی لیے جایں اس بار مجھے ایک مشن پر تمہارے ملک آنا پڑا جو کہ مجھے تمہارے دشمن ملک نے سونپا تھا اب تم خوب جانتے ہو کے تمہارہ سب سے بڑا دشمن ملک کون ہے پر مجھے اس سے کیا سروکار مجھے تو بس پیسے سے سروکار ہے اور ہاں مجھے امید ہے کہ تمہیں اس ناکامی سے کافی سبق مل چکا ہوگا مجھے پکڑنا اتنا آسان نہیں ہے ویسے بھی میں تھورے دنوں میں اور کارکن اکھٹے کر لوں گا ان بیس کی میری نظروں میں کوی وقعت نہیں جو کہ دھماکے میں خلاک ہوے کیوں کے وہ تمہارے ہی ملک کے نوجوان تھے اور ہاں تم سوچ رہے ہو گے کہ مجھے اس کا کیسے پتا چل گیا کہ میں اس جگہ پر چھاپا مارنے والا ہوں تو سنو پیارے اگر تم اس نوجوان کے کالر پر آوازیں سسنے اولا آلا لگا سکتے ہو تو میں کیوں نہیں لگا سکتا پیارے میں تمہیں اور تمہاری نام نہاد سیکڑت سروس کو چیلنج کرتا ہوں مجھے پکڑ کے دکھاو اور ہاں کل کے اخبار میں بھی میرا چیلنج آے گا اور جب تم مجھے نہیں پکڑ سکو گے تو دنیا میں تمہاری اور تمہاری سیکڑٹ سروس کا خوب مذاق اڑے گا ٹا ٹا ٹا ٹا
مارکو
عمران نے خط پڑھ کے جیب میں رکھ لیا بات واقعی پریشانی کی تھی کیوں کہ ابھی اسکے پاس مارکو کے خلاف کوی کلیو نہیں تھا
مارکو جو کہتا تھا وہ کر دیکھاتا تھا مارکو جس ملک میں پایا جاتا اس ملک میں خوف کی لہر دور جاتی عمران نے اور کوٹ پہنا اور فلیٹ سے باہر نکل گیا وہ سوچ رہا تھا کسی ہوٹل میں کھانا کھانے کے بعد چاے کی چسکیاں لیتے ہوے اس معاملے کے بارے سوچے گاماہل کے چہرے سے پریشانی ٹپک رہی تھی وہ ہوٹل مانٹو میں بیٹھا ماریہ کا انتظار کر رہا تھا مگر ماریہ کا دور دور تک پتا نہیں تھا اچانک اسکے چہرے پر اطمینان کی لہر دور گئ اسے ماری سیڑیوں سے نیچی اترتی دکھای دی تھوری دیر بعد وہ ماہل کے سمنے بیٹھی اس سے گپ شپ لگا رہی تھی مگرماہل کو ان باتوں سے بلکل دلچسپی نہ تھی اسے تو بس یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ لڑکی اسکے ملک میں کس لیے آی ہے اسکا مقصد سیروتفریح کے علاوہ کچھ اور تو نہیں
کیا بات ہے آج تم کچھ بیچین بیچین سے لگ رہے
ماریہ مسکرا کر بولی
کچھ نہیں بس ویسے ہی ماہل نے زبردستی مسکراتے ہوے کہا پھر اسنے ویٹر کو اشارہ کیا ویٹر تیر کی طرح سیدھا انکی طرف آیا
یس سر
وہ مودبانہ لہجے میں بولا
ایک وہسکی کی بوتل اور دو گلاس لے آو
یس سر
پیارے تم تو کہتے تھے تم پیتے نہیں اب یہ سب !کیا مقصد ہے اسکا
پر ماہل نے اسکا کوی جواب نہیں دیا اسکے چہرے پر ایک پراسرار مسکڑاہٹ رینگ رہی تھی تھوری دیر بعد ماہل وہسکی گلاس میں انڈیل رہا تھا اسنے دونوں گلاس بھر لیے ایک گلاس اسنے ماریہ کی طرف سرکایا ماریہ نے گلاس ہونٹوں سے لگایا اور کسی پیاسے کی طرح ایک سانس میں پورا گلاس خالی کر دیا ماہل نے دوسرا گلاس بھی اس کی طرف بڑھا دیا ماریہ نے اسے گھورا پھر بغیر کچھ کہے گلاس اٹھایا اور منہ سے لگا آدھا گلاس پی کر اسنے باقی آدھا میز پر رکھ دیا اب وہ نشے میں آوٹ ہو چکی تھی ماہل کو اسی وقت کا انتظار تھا وہ بولا
وہ تم مجھے کل کہ رہی تھی کہ تم مجھے اپنے بارے میں بتاو گی
ہاں ہاں کیوں نہیں میں نے تہیہ کر لیا ہے تمہیں سب کچھ بتادوں گی پھر اسکے بعد ماریہ بولتی چلی گی ماہل ساری کہانی بغور سن رہا تھا ماریہ کو کوی ہوش نہیں تھی بس وہ وہ جھوم جھوم کر ساری تفصیل بتا ترہی تھی دفعتاً ماہل بولا
مجھے یہ بتاو کہ مارکو نے کبھی تمہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ کس مشن پر یہاں آیا ہے
نہیں اسنے مجھ سے اس بارے میں کوی بات نہیں کہ ہاں البتہ وہ مجھے ایک دفعہ ایک بوٹ میں بیٹھا کر ایک جزیرے پر لے گیا تھا میری آنکھوں پر پٹی باندھی گئ تھی اسنے مجھے وہاں لے جاکر پورا جزیرہ دکھایا تھا اور کہا تھا کہ یہ ہمارہ ہیڈ کواٹر ہے
آہم
ماہل سوچ رہا تھا یہ کوی بہت بڑا معاملہ لگتا ہے اب اسکو عمران کو انفارم کرنا ہی پڑے گا
چلو ٹھیک آو میں تمہیں تمہارے کمرے تک چھور آتا ہوں تمہاری حالت بہت خراب ہو رہی ہے
پھر ماہل اسکو اسکے کمرے تک چھوڑ آیا تھا کمرے تک چھور کے آنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ کمرے کا نمبر معلوم ہو جاے پھر وہ نیچے اتر کر ہال میں آگیا ابھی وہ اپنی میز پر بیٹھا ہی تھا کہ نوجوان اسکے ٹیبل کے پاس آکر کھڑا ہوگیا ماہل نے منہ اٹھا کر اسکی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا اسکو ایسے دیکھنے لگا جیسے اسکو نوجوان کی یہاں آنے کی ایک فیصد امیف نہ ہو وہ نوجوان کے استقبال کے لے کھڑا ہوگیا
عمران کی گاڑی ہوٹل مانٹو کی طرف رواں دواں تھی اسنے سوچا کہ پہلے ہوٹل مانٹو میں جاکر کھنا کھایا جاے پھر کوی لائحہ عمل تیار کیا جاے گاڑی پارکنگ کر کے وہ ہوٹل کے ہال میں داخل ہوا ہال میں اتنا رش نہیں تھا عمران ایک ٹیبل پر جا کہ بیٹھ گیا ایک ویٹر کو اشارہ کیا وہ تیر کی طرح میز کی طرف آیا یس سر مگر عمران کچھ نی بولا اسکا چہرہ یکدم غمگین ہو گیا یس سر اس بار ویٹر کی آواز کافی اونچی تھی عمران ایسے اوچھلا جیسے اسکو کسی بچھو نے کاٹ لیا ہو ویٹر بھی بوکھلا گیا ہال میں بیٹھے ہوے کئ لوگوں کے چہروں پو مسکراہٹ دوڑ گئ ارے اتنا اونچا بولنے کی کیا ضرورت ہے خدا کا خوف کرو تمہارے پاس ہی تو بیٹھا تم نے تو مجھے ایسے مخاطب کیا جیسے میں کوہ قاف کی کسی اونچی چوٹی پر براجمان ہوں اور میرے کانوں میں تمہاری آواز نہ پہنچ رہی ہو عمران کی زبان چل پڑی سر آپ آرڈر دیں ویٹر جھنجھلایا اچانک عمران کی نظریں ہوٹل کے دروازے کے طرف اٹھ گیں دروازے سے ماہل اندر داخل ہو رہا تھا ماہل عمران کا بہت اچھا دوست تھا
کسی تقریب میں وہ عمران کی مزاخیہ باتیں سن کر اس سے بہے متاثر ہوا تھا ماہل تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اسکے ساتھ والی میز پر بیٹھ گیا اسنے عمران کو نہیں دیکھا تھا عمران نے جلدی سے ویٹر کو آرڈر دیا اور دوبارہ ماہل کی طرف متوجہ ہو گیا عمران نے سوچا ماہل سے گپ شپ کرنی چاہے ابھی وہ اٹھنے ہی لگا تھا کہ اچانک ماہل کی میز پر ایک لڑکی آکر بیٹھ گی چہرے کے خدوخال اور نقوش مصری لڑکیوں سے ملتے تھے ماہل نے بھی اسے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا جس سے معلوم ہوتا تھا کہ ماہل اس لڑکی کو اچھی طرح جانتا ہے پھر وہ باتیں کرنے لگے ان کی آوازیں عمران تک باسانی پہنچ رہیں تھیں ویسے عمران کو حیرت ہو رہی تھی کہ ماہل کو تو لڑکیوں سے بلکل بھی دلچسپی نہ تھی مگت یہاں تو معاملہ ہی الٹ تھا عمران نے ایسے سر ہلایا جیسے کچھ سمجھ نہ پارہا ہو عمران ماہل کو ایسے آنکھیں پھار پھار کر دیکھنے لگا جب ماہل نے ویٹر سے ایک بوتل وہسکی کی منگوای عمران نے حیرت سے سر پر ہاتھ پھیرا کیوں کہ ماہل کو تو وہسکی اور شراب جیسی چیزوں سے بیحد نفرت تھی اتنی دیر میں ویٹر عمران کی میز پر کھانا سرو کر چکا تھا اب عمران آپستہ آہستہ کھانا کھا رہا تھا مگر عمران کے کان بدستور انکی طرف لگے ہوے تھے لڑکی وہسکی پی کر آوٹ ہو چکی تھں دفعتاً ماہل نے لڑکی سے کچھ پوچھا پھڑ لڑکی بولتی چلی گئ جیسے جیاے عمران ساری باتیں سنتا رہا اسکی مسرت میں اضافہ ہوتا رہا قدرت نے اتفاقاً اسکو اس معاملے ایک کلیو مہیا کیا تھا ماہل اسکو کمرے تک چھورنے گیا عمران کو ماہل کی ذہانت پر رشک آرہا تھا کہ کیسے اسنے لڑکی کو وہسکی پلا کر اس سے ساری معلومات حاصل کر لیں تھیں عمران نے کھانا ختم کر کے ویٹر سے بل منگوایا اور ماہل کے نیچے آنے کا انتظار کرنے لگا تھوری دیر بعد ماہل نیچے آتا دکھای دیا عمران نے بل کی پے کی اور ماہل کی میز کی طرف لپکا ماہل بھی اسے دیکھ کر حیران رہ گیا اسنے اٹھ کر معانقہ کیا پھر دونوں میز پر بیٹھ گۓ اچھا ہوا عمران صاحب آپ مجھے یہیں مل گۓ کچھ ضروری باتیں آپ کو بتانی تھی ماہل کے چہرے پر جوش کے آثار تھے مجھے سب کچھ پتا چلا گیا ہے میں نے تمہاری ساری باتی، سن لیں ہیں مجھے تم پر فخر ہے کہ کیسے تم نے اسکو وہسکی پلا کر اس سے معلومات اگلوا لیں عمران کے منہ سے اپنی تعرید سن کر ماہل کے چہرہ خوشی لال ہو گیا ارے تم اتنے لال پیلے کیوں ہو رہے ہو وہ کوی اور تھا جو تمہاری ممبسوسا لے بھاگا تھا میں تو انتہای شریف سا نوجوان ہوں عمران نے بوکھلانے کی ایکٹنگ کی ماہل کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گی ارے عمران صاحب کیسی باتیں کرتیں ہیں اگر آپ میری ممبسوسا بھی لے بھاگیں تو میں آپ کو کچھ نہیں کہوں گا ارے آرام سے بولا جولیا یہیں کہیں کان لگاے ہماری باتیں سن رہی ہو گی اسنے سن لیا نا کہ میں کسی کی ممبسوسا لے بھاگنے کے چکر میں ہوں تو اسنے میرا حشر نشر کر دینا عمران نے خوفزدہ ہو کر ادھر ادھر دیکھا اچھا ٹھیک ہے تمہارہ بہت شکریہ کہ تم نے مجھے ایک قیمتی کلیو فراہم کیا باقی باتیں بعد میں ہو گیں اچانک عمران سنجیدہ لہجے میں بولا ماہل نے اثبات میں سر ہلا یا اور عمران سے ہاتھ ملا کر ہوٹل کے بیرونی دروازے کی طرف بڑھ گیآ عمران بھی ہوٹل سے باہر نکلا اور گاڑی میں بیٹھ کر واچ ٹرانسمیٹر پر فریکونسی سیٹ کرنے لگا تھوری دیر بعد وہ بیلک زیرو کا حکم دے رہا تھا صفدر کو کہو کہ مانٹو ہوٹل کے کمرہ نمبر 86 کی نگرانی کرے اور مسلسل رپورٹ دیتا رہے یس سر اور اینڈ آل عمران نے گاڑی سٹارٹ کی اور پارکنگ سے باہر نکالنے لگا اسکا چلتا منہ اسکے منیہ میں چیونگم ہونے کا اعلان کر رہا تھا