’’ سائے کا سفر‘‘ میری کہانیوں کا پہلا مجموعہ ہے جو بظاہر ترتیب و تزئین کا اشاعتی جامہ پہنے ہوئے ہے لیکن اس کا لباس کہیں کہیں تار تار بھی ہے۔ کہیں کسی منزل پر اس کا دل ڈوب بھی جاتا ہے او ر کبھی زندگی کے ایک متحرک لمحے کے لیے وہ جی بھی اٹھتا ہے۔ گویا وہ موت اور زیست کے درمیان کی ایک ایسی کڑی ہے جو کسی معجزے کا انتظار کیے بغیر کرب، بے چینی، اضطراب اور تنہائی کی سلگتی ہوئی بھٹی میں آپ ہی آپ جل رہا ہے۔ اسے آگ میں تپ کر کندن بننے کی خواہش بھی نہیں ہے کیونکہ خواہشوں کا حصار کبھی کا مسمار ہو چکا ہے او ر روشن آسمان کے تلے لکھی جانے والی اجلی تحریریں آج روحِ عصر کے لق و دق صحرا میں اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھونڈ رہی ہیں۔
پیچ در پیچ دائروں میں گھری ہوئی زندگی کی بے بصر آنکھیں، شکست و ریخت، فنا و بقا، اداسی اور مسرت، ناکامی اور نصرت کے المیہ کرداروں کے ذریعے اپنی راہ آپ تلاش کر رہی ہیں۔
’’ سائے کا سفر‘‘ کی بیشتر کہانیوں کے کردار اسی معاشرے کی پیداوار ہیں جس میں آپ ہم سانس لے رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ زندگی لمحہ بہ لمحہ تیزی سے بدلتی جا رہی ہے۔ مادی زندگی کی ترقیوں نے جن قباحتوں او ر خوبصورتیوں کو جنم دیا ہے او ر افسانہ نگار جن مشاہدات اور تجربات سے دوچار ہوا ہے، یہ کہانیاں ان ہی کی تفسیر ہیں۔ خارجی عوامل اور محرکات کی تبدیلی کا عکس ان کہانیوں کے طرزِ اظہار اور تکنیک میں دیکھا جاسکتا ہے۔
مختصر کہانی میں جہاں حد بندی ہے وہاں گیرائی بھی ہے۔ وحدتِ تاثر، ایمائیت، رمزیت، کردار نگاری اور فنی گرفت کے آڑے ٹیڑھے نقش بہاری، عبدالصمد، ٹیوٹر، کارٹونسٹ، پروفیسر اکرام، حرامی، بیدل صاحب اور اسی قبیل کی دوسری کہانیوں میں ڈھونڈھے جاسکتے ہیں۔
پچھلے دو ایک برسوں میں میں نے جو کہانیاں لکھی ہیں ان کا رنگ و آہنگ پچھلی کہانیوں سے مختلف ہے، یہ کہانیاں جہاں نئے عہد کی مزاج شناس ہیں او ر جدید حسیت کی ترجمانی کرتی ہیں وہیں اظہار و فن کے امکانات کی تلاش میں چند قدم آگے بڑھی ہیں اس لیے ان کہانیوں کو کتاب میں الگ جگہ دی گئی ہے۔ تخلیق کے اس تسلسل اور دیگر عوامل کے پس منظر میں ’’ سائے کا سفر‘‘ کی کہانیاں شاید کہیں بار پا سکیں۔
میرے اس مجموعے کی آخری چند کہانیوں کے بے ربط کردار ایک ایسی بس کے مسافر ہیں جو مختلف راستوں، ٹیلوں، جنگلوں سے ہوتے ہوئے ایک ایسی سڑک پر تیزی سے رواں دواں ہیں جس کا سینہ لہولہان ہے، جن کی خونچکاں انگلیوں میں بس کے ٹکٹ کے بجائے گم کردہ شخصیت کے بے نام سائے کا دھندلا سا نقش ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں بیشتر کہانیاں میں نے اپنی پسند کو ملحوظ رکھتے ہوئے شامل کی ہیں، اس توقع کے ساتھ کہ یہ کہانیاں آپ کے ذوق کی تسکین کا سامان بھی بن سکیں گی۔
میں جناب میر اعظم علی (پبلشر ) کا ممنون ہوں جن کی خاص توجہ اور دلچسپی کی وجہ سے یہ کتاب جلد منظرِ عام پر آ سکی۔ کہانیوں کی تلاش اور اس منتشر شیرازے کی فراہمی میں میرے چند عزیز دوستوں شہریار، اقبال متین اور شاذ تمکنت نے جو زحمت اٹھائی میں اس کو فراموش نہیں کر سکتا۔ کتاب کا سرورق نوجوان شاعر اور افسانہ نگار صادق نے بنایا ہے، اس سے کتاب کی جاذبیت اور خوبصورتی میں اضافہ ہوا ہے۔
ناشکر گزاری ہو گی اگر اس موقع پر میں اپنے عزیز دوست شاذ تمکنت اور مغنی تبسم کو فراموش کر جاؤں جو کتاب کی اشاعت کے صحیح معنیٰ میں محرک بنے او ر قدم قدم پر تعاونِ عمل کا ثبوت دیا۔
عوض سعید
596۔ معظم پورہ، ملے پلی،
حیدرآباد۔ ( آندھرا پردیش )