"رات کا کھانا سب نے مل کر کھایا۔۔
شائستہ نے شفی کی پسند کی ہر چیز بنائی تھی۔۔
کھانے سے فارغ ہوکر سب لوگ لاؤنج میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔۔
حور پہلے تو چپ چاپ بیٹھی رہی پھر اٹھ کر باہر چلی گئی۔۔اس کا رخ اپنے کمرے کی طرف تھا۔۔
وہ شفی کی موجودگی میں ایسے ہی فیل کرتی تھی۔۔
مگر شائستہ بیگم اسے زبردستی لے آتی ہر بار۔۔
وہ اس گھر کی ہرجگہ سے واقف تھی۔۔وہ بچپن سے یہاں رہی تھی۔۔
باپ کے انتقال کے بعد اس کی زندگی ماں اور نانا نانی تک محدود تھی۔۔
وہ آہستہ قدموں سے چلتی سیڑھیوں کے قریب گئی۔۔
جیسے ہی اوپر چڑھنے لگی پورے گھرمیں اندھیرا ہوگیا۔۔
شاید لائٹ چلی گئی تھی۔۔اس کے پاؤں وہیں جم گئے۔۔
اسے اندھیرے سے ہمیشہ سے ڈر لگتا تھا۔۔
"پیپر کب سے ہیں؟"پھپھو نے وصی کی طرف دیکھا
"گیٹ پاس نہیں آئے ابھی۔۔" وصی نے کہا
"ابا۔۔میں کہ رہی ہوں وصی کو بھی فوج میں کروا دیں" شائستہ بیگم نے کہا
"ہاں یہ بھی جائے گا فوج میں" ددا نے کہا۔۔
"مجھے کوئی انٹریسٹ نہیں فوج میں شفی گیا ہے نا بہت ہے" وصی نے کہا۔۔
"تجھے بھی جانا ہوگا۔۔فوج سے مسئلہ کیا ہے تجھے؟" ددو نے کہا۔۔
"فوجیوں کی کوئی زندگی ہے۔۔دوسروں کے مطابق زندگی گزارتے ہیں۔۔گھر سے دور رہتے ہیں۔۔بیوی بچے بھی دور رہتے ہیں وہ الگ۔۔" وصی نے کہا
"تو ساتھ لے جانا اپنے بیوی بچے" شفی نے ہنس کر کہا۔۔
"مجھے فوجی بننا ہی نہیں ہے۔۔" وصی نے صاف انکار کیا
"بننا تو تجھے پڑے گابیٹا۔۔میں نہیں تھا کیا؟ تیرا بھائی نہیں ہے کیا؟ اب تجھے بھی جانا ہوگا" ددا نے کہا
"کوئی زبردستی ہےکیا۔۔میری دلچسپی نہیں ہے" وصی نے کہا
"ہاں زبردستی ہے۔۔" ددا نے کہا۔۔
اور تبھی لائٹ چلی گئی۔۔اور اندھیرا چھا گیا۔۔
"دیکھا ددا لائٹ والوں کو بھی آپ کی بات پسند نہیں آئی" اندھیرے میں وصی کی آواز گونجی۔۔
"یہ نہیں سدھرے گا ابا" پھپھو نے کہا۔۔
وصی نے موبائل کی ٹارچ جلائی۔۔
"جنریٹر چلا کر آجا تو۔۔۔" شفی نے کہا۔۔
"تو چلا جا۔۔یہاں سے سیدھا نکل سامنے سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جا اور چلا کر بھاگا بھاگا واپس آ" وصی نے کہا۔۔
"ددا اسے بھیج رہے ہیں آپ فوج میں کام چور ہے اس کا وہاں کام نہیں" فی طنز کرتا کھڑا ہوا۔۔
"میں خود کہ رہا ہوں نہیں بھیجو" وصی نے کہا۔۔
"جانا تو پڑے گا" ددا نے شرارت سے کہا اور جہاں وصی تپا وہاں سب کی ہنسی بھی نکلی۔۔
شفی موبائل ہاتھ میں لیے باہر نکلا۔۔وہ اپنی دھن میں موبائل میں نظریں گاڑے سیڑھیوں کی طرف بڑھا۔۔
ارادہ ٹارچ جلانے کا تھا۔۔
گپ اندھیرے میں حور کو پنے پیچھے آہٹ محسوس ہوئی۔۔
اور اس کے پسینے چھوٹنے لگے۔۔
وہ جیسے ہی پلٹی کسی سے زوردار ٹکراؤ ہوا۔۔
اس نے یک دم ڈر کر آنکھیں بند کے۔۔
شفی نے موبائل کی لائٹ آن کر کے اس کے چہرے پر ماری۔۔
سامنے اسے حور کا چہرہ دکھائی دیا۔۔
جو لائٹ پڑنے سے اوربھی چمک رہا تھا۔۔
صاف شفاف رنگت اور بھی کھل گئی تھی۔۔
حور نے چہرے کے سامنے ہاتھ اڑاتے ہوئے لائٹ کی روشنی کو آنکھوں پر پڑنے سے روکا۔۔
شفی جو اسے یک ٹک دیکھ رہا تھا۔۔
فوراً بھوکھلا کر پیچھے ہٹا
"سوری" شفی نے کہا۔۔
اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھتا اوپر چلا گیا۔۔
وہ اپنے بیڈ روم میں لیٹا چھت کو گھر رہا تھا۔۔
(وہ بچی نہیں رہی اب خیر سے کالج میں آگئی)
ددو کا جملہ اس کے کانوں سے ٹکرایا۔۔
اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا لائٹ میں کھلتا چہرہ بار بار آرہا تھا۔۔
اس نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی تھی۔۔
یہی سوچ کر اگنور کرتا کہ وہ بچی ہے۔۔
"میں کیوں سوچ رہا ہوں اس کے بارے میں؟" وہ خود کلامی کرنے لگا
"وہ بچی ہے۔۔اور میں۔۔۔میرے ساتھ جوڑ نہیں اس کا" اس نے دل میں سوچا
"تا نہیں یہ بات ددا اور ددو کب سمجھیں گے" اس نے افسردگی سے کہا۔۔
"کتنی معصوم ہے۔۔بڑو کے آگے سر جھکائے ہر فیصلہ مان لیتی ہے۔۔یہاں تک کہ مجھے بھی قبول کرلیا جو عمر میں اس سے اتنا بڑا ہے" وہ سوچنے لگا۔۔
وہ خیالات کو جھٹکتا سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔
وہ دو دن سے حور کا کھانا پینا اٹھنا بیٹھنا نوٹس کر رہا تھا۔۔
وہ واقع اسے کہیں سے بچی نہیں لگی۔۔
وہ اب بڑی ہوچکی تھی۔۔
قد کی تو وہ ویسے ہی لمبی تھی۔۔
اور اوپر سے اب جوانی کی سرحدوں کو چھوتی رعنائیاں۔۔
شفی نے واقع اس پر توجہ نہیں دی تھی۔۔
مگر اب ناچاہتے ہوئے بھی وہ اس کی طرف کھچتا چلا جا رہا تھا۔۔
مگر ان دو دنوں میں حور نے کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اس میں۔۔اسے تھی بھی نہیں۔۔
کیونکہ وہ جانتی تھی شفی کو وہ پسند نہیں اور یہ رشتہ بس بڑوں کا فیصلہ ہے۔۔
وہ اپنی ہی دھن میں لان میں بیٹھی کسی سوچ میں گم تھی۔۔
کہ کسی کی آواز اس کے کانوں میں پڑی
"حورین" وہ اپنا پورا نام سن کر چونکی۔۔
اس نے پلٹ کر دیکھا۔۔
"یہاں کیا کر رہی ہو؟" شفی کرسی کھسکاکر بیٹھا۔۔
حور نے یک دم نظریں جھکائی۔۔
اس کی موجودگی اسے بوکھلانے پرمجبورکر رہی تھی۔۔
اس کا دل کیا وہ اٹھ کر بھاگ جائے۔۔
"حورین میں تم سے بات کر رہا ہوں" اس نے جتایا۔۔
"جی۔۔میں نہیں۔۔میں نے منع کیا تھا۔۔۔" اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔۔
اور فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"کس کو؟ کیا کہ رہی ہو؟" وہ الجھا۔۔
مگر بنا کوئی جواب دیے جانے لگی۔۔
کہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔۔
حورکی گھبراہٹ میں اور اضافہ ہوا۔۔
"حورین۔۔مجھے پسند نہیں کوئی بنا جواب دیے میرے سامنے سے چلا جائے" شفی نے روب دار لہجے میں کہا۔۔
"میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔" اس کی آواز بھر آئی۔۔
وہ دوسرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑوانے لگی۔۔
مگر شفی کی گرفت مضبوط تھی۔۔
جب وہ نہیں چھڑوا پائی تو رونے لگی۔۔
"حورین کیا ہوا؟" وہ گھبرا کر اس کے سامنے آیا۔۔
"پلیز میرا ہاتھ چھوڑ دیں۔۔" وہ روتے ہوئے منت کرنے لگی۔۔
شفی نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔
اور بنا کچھ کہے سوچے تیزی سے اندر کی جانب بھاگی۔۔
وہ ناسمجھی سے اسے جاتا دیکھ رہا تھا۔۔اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسے رئیکٹ کیوں کر کر رہی تھی۔۔
وصی اپنی دھن میں ڈرائیو کر رہا تھا کہ فون بجنے لگا۔۔
اس نےموبائل اٹھایا۔۔
شان کالنگ اسکرین پر جگمگا رہا تھا۔۔
اس نے کال رسیو کی۔۔
"ہاں بول" وصی نے کہا۔۔
"ابے گیٹ پاس آگئے کب لینے جائے گا؟" شان کی آواز ابھری
"تو لے آیا؟"
"نہیں۔۔کل چلتے ہیں دونوں" شان نے کہا
"ہاں ٹھیک ہے" وصی نے کہا۔۔
تبھی گاڑی کے سامنے ایک لڑکی اس نے جلدی سے بریک لگایا۔۔
اس نے فون بند کیا اور تیزی سے دروازہ کھول کر باہر نکلا۔۔
"اندھی ہو کیا دکھائی نہیں دیتا؟" وصی آتے ہی اس پر چڑھ گیا۔۔
"اندھی میں نہیں تم ہو۔۔۔جب گاڑی چلانی نہیں آتی تو کس الو کے پٹھے نے تمہیں گاڑی دی؟" وہ بھی تن کر بولی۔۔
"او مس زبان سمبھال کر بات کرو۔۔غلطی آپ کی ہے" وصی نے کہا
"اوہ۔۔میرا اتنا نقصان کردیا اور غلطی میری ہے" اس نے زمین کی طرف اشارہ کیا۔۔جہاں ایک نہایت ہی خوبصورتی سے بنا گھر ٹوٹا ہوا تھا۔۔
اس کے ٹوٹے کانچ کے ٹکڑے یہاں وہاں پڑے تھے۔۔
وصی نے نیچے زمین پر نظر ڈالی۔۔
"ہاں تو آپ کی غلطی تھی بیچ سڑک پر آپ یہ ماڈل پکڑے گھومیں گی تو ٹوٹے گا ہی" وصی نے ناگواری سے کہا
"مطلب اپنی غلطی تو ماننی نہیں ہے آپ نے" اس نے غصہ سے کہا
"ہاں ٹھیک اس سب کا کتنا نقصان ہوا ہے بتا دو۔" وصی نے جان چھڑانے کے لیے والٹ نکالا۔۔
"پیسے نہیں چاہیے مجھے۔۔" اس نے بے رخی سے کہا۔۔
"تو پھر؟" اس نے حیرت سے پوچھا۔۔
"یہ۔۔۔گاڑی کا شیشہ توڑنا ہے مجھے" اس نے چبا کر کہا
"کیا؟ " اس کو جھٹکا لگا
"ہاں۔۔جب تک میں یہ ہیں توڑوں گی مجھے سکون نہیں آئے گا" اس نے سنجیدگی سے کہا
"تم پاگل ہوگئی ہو" وہ کہتا گاڑی کی طرف بڑھا۔۔
"نور پاگل ہوگئی چل یہاں سے" تبھی نومی پہنچا وہاں۔۔
اور اسے لے جانے لگا۔۔
"ہاں لے کر جاؤ اسے یہ پاگل ہے۔۔" وصی کہتا دروازہ کھول۔کر اندر بیٹھا اور گاڑی اسٹارٹ کی۔۔
لیکن جانے وہ کتنی دیر اس کو بکتی رہی۔۔
"مما گھر چلیں؟" حور نے کمرے میں آتے ہی کہا
"گھر یہ بھی گھر ہی ہے حور۔۔" شائستہ بیگم نے کہا
"مما میرا دل نہیں لگ رہا" اس نے افسردگی سے کہا
"کیوں بیٹا؟" انہوں نے اسے پیار کرتے خود سے لگایا۔۔
"مما ایک بات کہوں؟" اس نے ان کے کاندھے پر سر رکھتے ہوئے کہا
"جی بیٹا کہو"
"مجھے شفی سے شادی نہیں کرنی۔۔آپ نانا ابا کو منع کردیں" حور نے کہا
"کیوں۔۔شفی میں کیا برائی ہے؟"
"کوئی برائی نہیں بس مجھے وہ اچھے نہیں لگتے"
"بیٹا یہ رشتہ بھائی بھابھی نے مانگا تھا۔۔۔تمہارے پاپا کی بھی یہی خواہش تھی۔۔اور شفی بہت اچھا لڑکا ہے بیٹا ایک بار سوچ کر تو دیکھو اس کے بارے میں" شائستہ بیگم نے سمجھایا۔۔
"مما پاپا اتنی جلدی کیوں چلے گئے؟" اس نے اداسی سے کہا
"بیٹا شاید ان کی زندگی ہی اتنی تھی۔۔"
"اچھاچلو اب چائے بناتے ہیں دونوں مل کر۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے۔۔ " انہوں نے مسکرا کر کہا
وہ اس کا دل بہلانا چاہتی تھی۔۔
وہ کچن میں جب آیا تو سامنے حور کچن میں کچھ بنانے میں مصروف تھی۔۔
وہ لمحہ بھر اس کی پشت کو گھورتا رہا جہاں سلکی کمر تک آتے بار لہرا رہے تھے۔۔
وہ قدم چلتے فریج کی طرف گیا۔۔اور پانی کی بوتل نکالنے لگا۔۔
حور نے یک دم اس کی طرف دیکھا۔۔
شفی کو دیکھتے ہی اس کے چہرے پر گھبراہٹ نمودار ہوئی۔۔
وہ نظریں جھکائے کھڑی تھی۔۔
شفی اسے کی حالت دیکھ مسکرایا۔۔۔
اس نے جلدی سے چولہا کم کیا اور کھانا ڈھک کر باہر نکلنے لگی کہ شفی کی آواز پر رکی۔۔
"حورین" شفی نے پکارا۔۔
وہ وہیں کھڑی رہی مگرپلٹی نہیں۔۔۔
"تم مجھ سے بھاگ کیوں رہی ہو؟ مجھے بات کرنی ہے تم سے" اس نے قریب آکر کہا
مگر وہ اسی طرف کھڑی گھبرا رہی تھی۔۔
دوپٹے کا کونہ انگلی پر لپیٹتی، نظریں جھکائے۔۔شفی کو وہ کسی معصوم بچی سے کم نہیں لگی۔۔
شفی اسے دیکھ رہا تھا۔۔
"تم مجھے پسند نہیں کرتی؟" اس نے سنجیدگی سے کہا
"جی۔۔" اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا پھر یک دم ہی جھکا گئی۔۔
"وہ۔۔۔مم۔۔مجھے۔۔مما بلا رہی۔۔ہیں" وہ کہتی تیزی سے کچن سے نکل گئی۔۔
اور شفی مسکرا دیا۔۔
کوثر بیگم کچن سے پانی کی بوتل نکا کر اپنے کمرے کی طرف بڑھنے ہی والی تھی کہ رات کے اس پہر بھی اس کے کمرے کی لائٹ آن دیکھی تو رک گئی۔۔
کوثر بیگم چونکی۔۔اور اس کے کمرے کی جانب بڑھ گئی
انہوں نے کمرے کا دروازہ کھولا تو سامنے ہی وہ کتاب پڑھنے میں مصروف تھی۔۔
"پھر سے ناول پڑھ رہی ہے نور؟" انہوں نے تلخ لہجے میں کہا
"نہیں مما کل پیپر ہے" نور نے کہا
"ارے واہ آج تو میری بیٹی ناول کے بجائے پیپر کی تیاری کر رہی ہے" وہ خوش ہوئی
"اب ایسی بھی بات نہیں مما میں ہر وقت تو نہیں پڑھتی ناول" اس نے سادگی سے کہا
"یہی اچھی بات ہے تمہارے لیے۔۔ناول کا پیچھا چھوڑو۔۔اب تم بڑی ہوگئی۔۔کل کو تمہیں سسرال بھی جانا ہے کیا وہاں بھی ناول ہی پڑھتی رہو گی؟" انہوں نے سنجیدگی سے کہا
"میں شادی ہی ایسے بندے سے کروں گی جو ناول پڑھتا ہو" اس نے ایک دم کہا
"پھر تو تم بیٹھی ہی رہو۔۔کیونکہ ہر کوئی پاگل نہیں ہوتا تمہاری طرح" انہوں نے کہا۔۔
"اب تم پڑھائی کرو اور جلدی سوجانا۔۔" وہ کہتی باہر نکل گئی۔۔
اور وہ پھر سےکتابوں میں گم ہونے کی کوشش کرنے لگی۔۔
وہ گہری نیند سورہاتھا جب الارم زور زور سےبجنے لگا۔۔
اس نے ہاتھ بڑھا کر الارم بند کیا۔۔
پھر وال کلاک کو دیکھا۔۔
اور اس کی نیند غائب ہوگئی۔۔
"اوہ مائی گوڈ آج تو پیپر ہے" وہ کہتا اٹھ بیٹھا۔۔
اور جلدی سے اٹھ کر وارڈ روب کی جانب بڑھا۔۔
کپڑے اٹھا کر واش روم میں گھسا۔۔
تھوڑی ہی دیر میں بال خشک کرتا باہر نکلا۔۔تو بے دھیانی میں کسی سے ٹکراؤ ہوا۔۔
اس نے ایک دم سے نظر اٹھاکر دیکھا۔۔
سامنے بڑی بڑی آنکھیں لیے حور اسے دیکھ رہی تھی۔۔
وہ اسے دیکھ چونکا۔۔
"تم یہاں؟"
"وہ۔۔میں۔۔آپ کو اٹھانے آئی تھی۔۔نانوبلا رہی ہیں۔۔" اس نے نظریں چراتے ہوئے کہا
"اتنی صبح کیوں بلا رہی ہیں؟" وہ ڈریسنگ سے سامنے کھڑا بال بنانے لگا۔۔
"وہ آپ کا پیپر ہے۔۔اور آپ اٹھے نہیں تھے اس لیے" اس نے یک دم جواب دیا۔۔
"مگر میں تو اٹھا ہوا ہوں۔۔۔" اس نے مسکرا کر کہا۔۔
"ہاں۔۔جی" وہ کہتی کمرے سے باہر جانے لگی۔۔
"حور۔۔۔بھائی کو بھی اٹھانے چلی جاؤ۔۔وہ بھی لیٹ ہوجاتے ہیں" وصی نے شرارت سے کہا۔۔
اور اس کی بات میں چھپی شرارت کو وہ سمجھ نہیں سکی۔۔
"مگر میں۔۔۔" وہ چونکی
"مزاق کر رہا ہوں۔۔" وصی نے ہنس کر کہا۔۔
اور وہ بنا کوئی جواب دیے کمرے سے نکل گئی۔۔
وہ جب کالج پہنچا تو پیپر شروع ہونے میں بہت کم وقت رہ گیا تھا۔۔۔
اور اسے اپنا بلاک اور سیٹ نمبر ڈھونڈنا تھا۔۔
وہ جلدی سے لسٹ میں اپنا نمبر اور بلاک دیکھ کر سہڑھیاں چڑھنے لگا۔۔
اس کا بلاک اوپر تھا۔۔
وہ جلدی جلدی دیکھتا آگے بڑھ رہا تھا پھر اپنا بلاک دیکھ اندر گھسا اور اپنی سیٹ پرجابیٹھا۔۔
تبھی ایک لڑکی وہاں آئی۔۔
"یہ میرا سیٹ نمبر ہے۔۔۔"
"آپ؟" وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔
"اوہ.۔تم وہی بدتمیز لڑکے ہو نا جس نے میرا" وہ غصہ سے کہتی رکی۔۔
"اور آپ۔۔۔آپ یہاں بھی آگئی؟" وصی نے کہا
"دیکھو پیپر شروع ہونے والا ہے میری سیٹ سے اٹھو" اس نے کہا
"یہ میری سیٹ ہے" وصی نے کہا
"ارے تم تو کوئی بہت ہی بدتمیز ہو؟" اس نے کہا۔۔
اور اپنا گیٹ پاس نکال کر سامنے کیا۔۔
"دیکھو۔.." اس نے کہا۔۔
اور وصی نے جھٹ سے اپنے گیٹ پاس نکال کر دیکھا۔۔
اور دانتوں تلے زبان دبائی۔۔
"کیا ہوا؟" اس نے سینے پر ہاتھ باندھتے ہوئے دیکھا
"وہ کوئی جواب دیے بنا تیزی سے باہر نکل گیا۔۔
"کیوں نا حور اور شفی کی منگنی کی چھوٹی سی رسم کردیں" ددا نے کہا۔۔
اور پاس کھڑے شفی کو جھٹکا لگا۔۔
گر وہ اب ناخوش نہیں تھا۔۔
وہ حور کو ایکسیپٹ کر چکا تھا من ہی من..
مگر وہ اتنی جلدی یہ سب بھی نہیں چاہتا تھا۔۔وہ حور کو تھوڑا اور سمجھنا چاہتا تھا۔۔
"ہاں۔ جیابا ٹھیک کہ رہے ہیں۔۔تھوڑا انجوائے بھی ہوجائے گا۔۔" پھپھو نے کہا
"شفی دوبارہ جب چھٹی آئے گا۔۔تب رکھیں گے" ددو نے کہا۔۔
"ہاں۔۔وصی بھی فارغ ہوجائے گا پیپرز سے" ددا نے کہا
"اتنی جلدی کیا ہے ددا؟" شفی نے پاس بیٹھتے ہوئے کہا
"جلدی کہاں ہے۔۔۔اور صرف منگنی کر رہے ہیں شادی نہیں" ددو نے کہا
"تو منگنی بھی ہوجائے گی آرام سے ابھی حورپڑھ رہی ہے ویسے بھی" شفی نے کہا
"شادی اس کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد ہی ہوگی ابھی بس چھوٹا سا فنکشن" ددا نے کہا۔۔
اور شفی مزید بحث نا کرسکا۔۔
اور اٹھ کر اپنے کمرے میں آیا۔۔
وارڈ روب سے کپڑے نکالے اور چینج کرنےچلا گیا۔۔
تھوڑی دیر وہ فل تیار بلوجنس پر وائیٹ ٹی شرٹ پہنے خود کو آئینے میں دیکھ بال بنانے لگا۔۔
پھر پرفیوم سے خود کو نہلاتا۔۔۔مسکرایا۔۔
پھر جانے کے لیے مڑا۔۔
مگر کچھ سوچ کر ٹیبل سے گھڑی اٹھائی اور پہنی۔۔
پھر دوبارا آئینے ایک جھلک خود کو دیکھا۔۔۔
"واہ مسٹر شفی دارین کیا لگ رہے ہو" اس نے مسکرا کر کہا
اور باہر نکل گیا۔۔
تیزی سے سیڑھیاں اترتا نیچے آیا۔۔
"کہیں جا رہے ہو؟" پھپھو نے پوچھا
"ہاں۔۔وہ میں بس مارکیٹ جا رہا ہوں۔۔" شفی نے کہا۔۔
"اچھا" پھوپھو نے مسکرا کر کہا
"آپ کو یا حورین کو کچھ کام ہو تو چل سکتی ہیں" شفی نے کہا۔۔
مگر دل دل میں وہ دعائیں ہی کر رہا تھا کہ پھپھو نا ہی چلیں بس حورین کو بھیج دیں۔۔
"مجھے تو کوئی کام نہیں۔۔حور کو بھی نہیں ہے" پھپھو نے کہتے ساتھ اس کے ارمانوں پر پانی پھیرا۔۔
"پھپھو" وہ جانے کے لیےمڑی ہی تھی کہ شفی نے پکارا۔۔
"ہاں" وہ پلٹ کر کہنے لگی۔۔
"ہو ۔۔سکتا ہے حور کو کام ہو۔۔" شفی نے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔۔
پھپھو اس کی بات سمجھتے ہوئے مسکرائی۔۔
وہ یک دم شرمندہ ہوا۔۔
"نہیں۔۔۔وہ مجھے لگا شاید۔۔۔" شفی نے کہا
"میں کہتی ہوں اسے چلی جائے گی تمہارے ساتھ" وہ کہتی وہاں سےچلی گئی۔۔
اور شفی خود پر ہنس دیا۔۔
وہ پیپر دے کر باہر نکلا تو۔۔سامنے گھاس پر بیٹھی لڑکی پر اس کی نظر پڑی۔۔
وہ غلطی کا احساس ہوا کہ و بار وہ اسی سے الجھا جب کہ غلطی بھی اسی کی تھی۔۔
وہ چلتا ہوا اس کے قریب گیا۔۔
"کیا ہوا پیپر اچھا نہیں ہوا؟" پاس بیٹھی لڑکی نے کہا
"اچھا ہوا" اس نے کہا
"پھر اداس کیوں ہے؟"
"مجھے کل ماڈل دینا تھا اور میرا ماڈل اس لڑکے نے توڑ دیا اب میں کیا دوں گی؟" اس نے کہا
"تو دوسرا لے آ"
"تجھے پتا بھی ہے کتنا مہنگا تھا وہ۔۔پھر سے کہاں سے پیسے لاؤں؟"
"تو۔۔اب کیا کرے گی؟"
پاس کھڑا وصی ان کی بات سن رہا تھا۔۔
"اگر میں دلوادوں نیا تو؟" وصی نے کہا
"وہ دونوں اسے دیکھ اٹھ کھڑی ہوئی۔۔
"میں کسی کا احسان نہیں لیتی آئی سمجھ؟" اس نے غصہ سے کہا
"لیکن میں تو معافی مانگ رہا ہوں۔۔احسان تھوڑی نا کر رہا ہوں" وصی نے کہا
"مطلب؟"
"میں نے نقصان کیا تھا تو میں بھرو گان۔۔ اگر آپ نہیں لینا چاہتی تو میرے ساتھ چلیں اور دوسرا ویسا ہی ماڈل خرید لیں" وصی نے سادگی سے کہا
"ساتھ۔۔۔؟ اچھا تم بہانا بنا کر ساتھ لے جانا چاہتے ہو؟"
"کیا مطلب؟" وہ چونکا
"ہاں میں نے ناول میں پڑھا تھا وہ فواد محمل کو ایسے بہلا پھسلا کر لے جاتا ہے پھر بیچ دیتا ہے" اس نے کمر پر ہاتھ رکھ اکڑ کر کہا۔۔
"What?"
وصی اس کی بات سن دنگ رہ گیا۔۔