وجئے کی شادی کے سارے مراحل بخیر و خوبی طے ہو گئے۔ اس نے کنگنا کے ساتھ اپنی نئی دنیا بسا لی۔ کمار اور چندریکا اپنے جہان میں خوش تھے۔ ابتداء میں وجئے کا والدین سے ربط ضبط بہت زیادہ تھا جو وقت کے ساتھ کم ہوتا چلا گیا۔ کنگنا مڈویسٹ میں بور ہونے لگی تو اس نے ایک مقامی اسکول گلزارِ اطفال (کنڈر گارٹن) میں ملازمت کر لی۔ یہ ہلکی پھلکی مصروفیت تھی۔ وجئے کو چونکہ دفتر جانے کیلئے صبح جلدی نکلنا پڑتا تھا اس لئے وہ اس کے جانے کے بعد کام پر جاتی تھی اور شام میں وجئے کو گھر آنے میں اس قدر تاخیر ہو جاتی تھی کہ جب وہ واپس آتا تو کنگنا کھانا بنانے کے بعد ٹی وی دیکھ رہی ہوتی۔ چھٹی کے دن وہ لوگ ایک ساتھ مڈویسٹ اسٹیشن آتے کنگنا وہاں سے میکے چلی جاتی اور وجئے چندریکا کے پاس آ جاتا۔
تین سال کا عرصہ دیکھتے دیکھتے ہوا ہو گیا۔ کنگنا نے ایک چاند سے بیٹے کو جنم دیا جس کا نام کشور رکھا گیا۔ کشور کا ناک نقشہ بالکل کمار کی مانند تھا۔ وجئے چونکہ اپنی ماں چندریکا کی فوٹو کاپی تھا اس لئے کشور اور وجئے ایک دوسرے سے بہت مختلف لگتے تھے۔ گولڈ کئیر کلینک کھنہ صاحب کے گھر سے قریب تھا۔ چندریکا کا خیال تھا کہ کنگنا دوا خانے سے نکل کر میکے جائے گی پھر بھی اس نے پوچھ لیا۔
بیٹی اس دوا خانے میں آپ کب تک رہو گی؟
ڈاکٹر کی رائے ہے دو روز بعد مجھے گھر جانے کی اجازت مل جائے گی۔
اچھا تو پھر تم یہاں سنٹرل لندن میں کب تک رہو گی؟
سینٹرل لندن میں کیوں؟
اچھا تو تم اپنے اس نونہال کے ساتھ کہاں رہو گی؟
میں یہاں سے سیدھے مڈویسٹ کے اپنے مکان میں جاؤں گی۔
مڈویسٹ؟ لیکن وہاں تم اکیلے کیسے رہو گی؟ اس بچے کے ساتھ تمہیں پریشانی ہو سکتی ہے؟ اس حالت میں تمہارا اور بچے کا خیال کون رکھے گا؟
کنگنا ہنس کر بولی ممی آپ نے میرے اور اس بچے کے بارے میں سوچا لیکن مجھے تو اس کے باپ کے بارے میں بھی سوچنا پڑتا ہے۔
وجئے؟ وجئے کو کیا پریشانی ہے؟
وہ در اصل میرے والد کے گھر میں نہیں رہنا چاہتے۔ اب آپ ہی سوچئے کوئی انسان اکیلے مڈویسٹ میں کیسے رہ سکتا ہے۔ صبح تڑکے نکلنا اور رات ڈھلے پہنچنا اپنے آپ میں ایک تھکا دینے والا کام ہے۔ اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یہاں سے سیدھے مڈویسٹ جاؤں گی اور پھر جیسے بھی ممکن ہو ہم گزارہ کر لیں گے۔
چندریکا اس جواب سے لاجواب ہو گئی۔ اس نے کہا ٹھیک ہے بیٹی جیسا بھی آپ لوگ مناسب سمجھیں حالانکہ اس مسئلہ کا آسان حل یہ تھا کہ جب تک کنگنا اپنے میکے میں رہتی وجئے اپنے والدین کے پاس چلا آتا لیکن چندریکا اسے پیش کرنے کی جرأت نہ کر سکی۔ وہ آگے بڑھنے سے قبل کمار کے ساتھ اس بابت مشورہ کرنا چاہتی تھی۔
دوا خانے سے واپس ہوتے ہوئے اس نے کمار سے کہا یہ کنگنا بھی آپ کی مانند تھوڑی سی پاگل ہے۔
کمار بولا کیا میرے بارے تمہاری رائے بدل گئی ہے؟
چندریکا کو اس جواب کی توقع نہیں تھی وہ بولی جی نہیں یہ تو میری پرانی رائے ہے۔ میں نے کبھی بھی آپ کو عقلمند نہیں مانا۔
مجھے پتہ ہے لیکن پہلے تم مجھے بہت بڑا پاگل کہتی تھیں اس بار غالباً کنگنا کی رعایت میں چھوٹا کر دیا۔
بھئی بال کی کھال نکالنے سے کیا فائدہ پاگل تو پاگل ہوتا ہے چھوٹا کیا اور بڑا کیا اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
خیر تم مجھے کنگنا کے پاگل پن کے بارے میں بتا رہی تھیں۔
جی ہاں آپ بات کو کہیں اور لے گئے اس میں میرا کیا قصور؟
ہاں بھاگوان سارا قصور میرا ہے اب اپنی بات بتاؤ۔
وہ ایسا ہے کہ کنگنا دوا خانے سے نکل کر مڈویسٹ اپنے گھر جانا چاہتی ہے۔
اچھا تو اس میں کیا غلط ہے؟ تم یہ تو نہیں چاہتیں کہ وہ دوا خانے سے سیدھے تمہارے گھر آ دھمکے۔
چندریکا بولی اس میں کیا حرج ہے۔ اس گھر پر جیسے وجئے کا حق ہے اسی طرح کنگنا بھی وہاں رہنے کی حقدار ہے۔ آپ کو اس پر اعتراض ہے کیا؟
میں کون ہوتا ہوں ساس بہو کے درمیان دخل دینے والا۔ آپ لوگوں کی جو مرضی ہو وہ کرو۔ میرا کیا؟
یہ ہوئی نا سمجھداری کی بات کہ آپ ہمارے درمیان دخل اندازی نہیں کر سکتے لیکن وہ ہمارے گھر نہیں آنا چاہتی۔
یہ تو تم مجھے بت اچکی ہو کہ وہ مڈویسٹ میں اپنے گھر جانا چاہتی ہے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟
پریشانی کیوں نہیں ہے۔ آپ کیا جانیں خواتین کے مسائل؟ یہ پہلا بچہ ہے۔ اس بیچاری کو بچہ سنبھالنے کا تجربہ نہیں ہے۔ اس کے پاس کوئی بزرگ تو درکنا ایسا ساتھی بھی نہیں ہے جو ہاتھ بٹا سکے۔ میرے خیال میں تو اسے اپنے میکے چلے جانا چاہئے تھا۔ وہاں اس کی ماں کے علاوہ نوکر چا کر بھی ہیں۔
ہاں ہاں تو کس نے منع کر دیا اسے اپنے میکے جانے سے۔
تمہارے بیٹے وجئے نے۔
کمار نے حیرت سے کہا وجئے نے؟ میں نہیں مانتا۔
کیوں نہیں مانتے؟ وجئے ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟
بھئی وجئے اس لئے ایسا نہیں کر سکتا کہ وہ میری طرح سنگدل نہیں ہے۔
آپ کی یہ بات بھی درست ہے میرا بیٹا آپ کی طرح پتھر دل ہو بھی کیسے سکتا ہے؟ خیر وجئے نے منع تو نہیں کیا مگر وجئے کی زحمت کے خیال نے کنگنا کو روک دیا۔ وجئے چونکہ اپنی سسرال میں رہنا نہیں چاہتا اس لئے مجبوراً کنگنا کو مڈویسٹ جانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔
بھئی وجئے اگر اپنی سسرال نہیں جانا چاہتا تو اپنے میکے بھی تو آ سکتا ہے؟ اسے کس نے منع کیا ہے؟
میکہ؟ مردوں کا بھی کہیں میکہ ہوتا ہے؟
کیوں نہیں ہوتا یہ مساواتِ مردو زن کا دور ہے۔ اگر خواتین کی سسرال کے ساتھ ساتھ میکہ بھی ہوتا ہے تو مردوں کا کیوں نہیں ہو سکتا؟
فالتو بحث تو کوئی آپ سے سیکھے۔ میرا خیال ہے کہ آپ وجئے سے کہیں کہ وہ عارضی طور پر ہمارے یہاں منتقل ہو جائے اور کنگنا کو اپنے میکے روانہ کر دے۔
کمار بولا دیکھو چندریکا تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اب وجئے بچہ نہیں بلکہ بچے کا باپ ہو گیا ہے۔ اس کی ازدواجی زندگی کے فیصلے اب وہ خود کرے گا ۰۰۰۰ہم نہیں۔
کیا آپ کو وجئے کے اپنے پاس آ کر رہنے پر اعتراض ہے؟
جی نہیں وہ بصد شوق آ کر رہے۔ جو کچھ ہمارا ہے وہ اس کا ہے لیکن اس کا فیصلہ وہ خود کرے۔ میں یہ فیصلہ اس پر تھوپ نہیں سکتا۔
میں تم دونوں کو جانتی ہوں بلکہ شاید یہ سارے مردوں کی مشترک صفات ہیں۔ انہیں کوئی سمجھا نہیں سکتا۔
کنگنا تو مرد نہیں ہے اسے سمجھا دو۔
چندریکا منہ بسر کر بولی وہ بیچاری ابلہ ناری کیا کر سکتی ہے؟ جیسی میں ویسی وہ۔
مجھے تم دونوں سے بلکہ ساری خواتین برادری سے ہمدردی ہے۔
لیکن اس زبانی جمع خرچ کا کیا فائدہ۔ سردیوں کا موسم سر پر ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ ایسے میں نہ صرف کشور بلکہ کنگنا بھی بیمار نہ ہو جائے۔ اور اگر خدانخواستہ ایسا ہو جائے تو کیا ہو گا؟
وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔ کمار کندھے اچکا کر بولا
چندریکا بولی میرے پاس اس مسئلے کا ایک اور حل ہے۔
وہ کیا ہمیں بھی تو پتہ چلے؟
میں تین چار ماہ تک ہر روز صبح کنگنا کے پاس جایا کروں گی اور شام میں لوٹ کر آپ کے پاس آ جایا کروں گی۔
تمہارا دماغ درست ہے۔ تمہیں پتہ ہے اپنے گھر سے مڈویسٹ کا فاصلہ اور پھر ہر روز آنا جانا کوئی مذاق ہے کیا؟
ویسے بھی آپ کے دوکان پر چلے جانے کے بعد میں گھر پر کیا کرتی ہوں۔ بیٹھی بیٹھی بور ہو جاتی ہوں۔ جب دل نہیں لگتا تو کچھ دیر ریوتی کے ساتھ گپ لگا لیتی ہوں۔ اب کنگنا کے ساتھ گپ شپ کر لیا کروں گی اور کشور کے ساتھ وقت بھی گذر جائے گا۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن آنا جانا کوئی کھانے کا کام ہے؟
مجھے پتہ ہے صبح مڈویسٹ کی طرف سے آنے والی گاڑیوں میں بھیڑ ہوتی ہے جانے والی خالی ہوتی ہے اور شام جانے والی میں جبکہ میں آ رہی ہوں گی اس لئے وقت تو لگے گا لیکن کوئی خاص دقت نہیں ہو گی۔
کمار نے سپر ڈال دئیے اور کہا تمہاری مرضی۔ میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ ساس بہو کے درمیان ۰۰۰۰۰۰۰
ایک ہی بات بار بار دوہرایا نہ کرو مجھے سب پتہ ہے۔ آپ یہ کرو کہ ایک بار یہ بات وجئے کے ساتھ کر کے دیکھو ہو سکتا ہے اسے ۰۰۰۰۰
کمار بولا اسے کیا اعتراض ہو سکتا ہے وہ تو خوشی سے پاگل ہو جائے گا۔
پھر بھی آپ ایک بار اس سے بات تو کرو۔
کمار نے کہا لو میں ابھی فون ملاتا ہوں۔ ہیلو وجئے کیسے ہو؟
اچھا ہوں پاپا۔ مجھے پتہ چلا آپ لوگ آج بھی دوا خانے آئے تھے۔ در اصل دفتر میں اس قدر کام تھا کہ سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ملی۔ ابھی سیدھے گھر جا رہا ہوں۔ کل کنگنا کے پاس جانے کی کوشش کروں گا۔
دیکھو بیٹے کام کا کیا ہے کہ وہ تو چلتا ہی رہتا ہے۔ کبھی ختم نہیں ہوتا لیکن انسان کو اپنی دیگر ذمہ داریوں کی جانب بھی توجہ دینی چاہئے۔
جی ہاں پاپا کنگنا بھی یہی کہہ کر مجھے عار دلا رہی تھی دیکھو ممی پاپا کتنی دور سے ہر روز اسپتال آ جاتے ہیں اور تم بہانے بناتے رہتے ہو۔ وہ تو آپ دونوں کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔
احسانمند بیٹی ہے کنگنا خیر تمہاری ممی نے ابھی ابھی ایک نیا فرمان صادر کیا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ میں وہ تمہارے گوش گزار کر دوں۔
وجئے ڈر گیا۔ کہیں ممی نے ان دونوں کو اپنے گھر بلا لیا تو مصیبت ہو جائے گی۔ پہلے تو دو تھے اب تین مہمان کہاں رہیں گے؟ وہ بولا پاپا کیا کہتی ہیں ممی۔ ان کا ہر حکم سر آنکھوں پر۔
بہت خوب اسے کہتے ہیں سعادتمند اولاد خیر۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اگلے چار ماہ تک ہر روز تمہارے گھر آیا جایا کرے گی تاکہ زچہ اور بچہ کا شایانِ شان خیال رکھا جا سکے۔
ہر روز؟ یہ تو بہت مشکل ہے۔
کیوں اس میں تمہیں کیا مشکل ہے؟
مجھے ۰۰۰۰مجھے کیا مشکل ہو سکتی ہے۔ یہ ان کیلئے بڑی زحمت کا سبب ہو سکتا ہے۔ ویسے وہ جب بھی آئیں جائیں یہ ہمارے لئے سعادت ہے۔
ٹھیک ہے بیٹے تو کل ہم لوگ دوا خانے نہیں آئیں گے پرسوں تمہارے گھر پر ملاقات ہو گی۔ تم ایک دن کی چھٹی لے لینا۔
جی ہاں پاپا۔ ضرور پرسوں تو چھٹی لینی ہی پڑے گی۔
فون بند کرنے کے بعد وجئے کا سینہ فخر سے پھول گیا۔ اس کی ساس بھان متی یقیناً بہت ذہین عورت تھی لیکن چندریکا کو اس پر فوقیت حاصل تھی۔ چندریکا کے دردمند دل کے آگے بھان متی کا تیز دماغ ہیچ تھا۔
چندریکا کے مڈویسٹ آنے جانے سلسلہ چل پڑا۔ ایک ہفتہ کے اندر وہ اس قدر عادی ہو گئی تھی کہ اسے محسوس ہی نہ ہوتا تھا کہ کب نکلی اور کب پہنچ گئی۔ وجئے نے اسے انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ ایک نیا اسمارٹ فون دلا دیا تھا۔ وہ راستے بھر کبھی واٹس اپ کی پیغامات پڑھتی رہتی کبھی اس سے موصول ہونے والے ویڈیو دیکھتی رہتی اور کبھی فیس بک کے اوٹ پٹانگ نقش دیوار دیکھنے میں مگن رہتی۔ پتہ ہی نہیں چلتا کہ سفر کب شروع ہوا اور کب ختم ہو گیا؟
کشور تو چندریکا کے ساتھ اس قدر گھل مل گیا تھا کہ کنگنا سے زیادہ اس کی آغوش میں خوش رہتا۔ صبح صبح جیسے ہی اپنی دادی کو دیکھتا مست ہو جاتا اور شام میں جب وہ واپس چلی جاتی تو اداس ہو جاتا تھا۔
وقت کا پہیہ گھوم رہا تھا۔ کنگنا کو اسکول سے ایک ماہ کی چھٹی ملی تھی۔ وہ مدت تمام ہوئی تو اس نے ایک ماہ کی اضافی چھٹی مانگ لی۔ جب وہ مدت بھی پوری ہو گئی تو چندریکا کی مرضی سے اس نے اسکول جانا شروع کر دیا۔ کشور اور چندریکا دن بھر ایک دوسرے میں مگن رہتے شام میں کنگنا کے لوٹنے کے بعد چندریکا اپنے گھر کی راہ لیتی۔ اس دوران ایک دن اچانک چندریکا کی طبیعت خراب ہو گئی۔ صبح سے اس کی طبیعت کچھ بوجھل تھی مگر شام ہوتے ہوتے اس کے سینے میں شدید درد ہونے لگا۔
اس نے کمار کو فون کر کے کہا میرے راجکمار کیسے ہو؟
کمار نے ایک طویل عرصے کے بعد یہ لقب سنا تھا۔ جب ان دونوں کی نئی نئی شادی ہوئی تھی تو کبھی کبھی کبھار کمار کو چھیڑنے کیلئے چندریکا یہ کہا کرتی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب وہ لندن نہیں آئے تھے۔ برطانیہ میں آنے کے ۲۸ سال بعد پہلی مرتبہ چندریکا کے منہ سے یہ سن کر وہ چونک پڑا۔ وہ بولا کیوں چندریکا خیریت تو ہے؟ آج اچانک تم نے مجھے ۰۰۰۰۰۰۰۰
جی ہاں۔ میں نے سب سے پہلے تمہیں یہی کہہ کر پکارا تھا اور اب شاید میرا آخری وقت آ گیا۔ آپ جلد از جلد میرے پاس آ جائیں۔
وجئے کہاں ہے؟ کیا کنگنا وہاں نہیں ہے؟
جی نہیں یہاں میرے پاس صرف کشور ہے ۰۰۰۰ میرا پوتا کشور اب آپ سوالات میں اپنا وقت ضائع نہ کریں ورنہ ممکن ہے میں آپ کا آخری دیدار نہ کر سکوں؟ اسی کے ساتھ فون بند ہو گیا۔
کمار کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ چندریکا نے اس طرح کی گفتگو پہلے کبھی نہیں کی تھی۔ اس کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا۔ ایسا لگتا تھا گویا اس نے تقدیر کا لکھا پڑھ لیا ہے۔
کمار نے اپنے آپ کو سنبھالا راجن سے اجازت لے کر گھر آیا اور نکلنے سے پہلے سوچا شاید کے وہاں رک جانا پڑے اس لئے ایک جوڑا کپڑا ساتھ لے لیا۔ دروازہ بند کرتے ہوئے اسے خیال آیا کہ ممکن ہے وجئے اپنی ماں کے ساتھ آئے اس لئے اس نے بستر کو درست کیا اور اس پر صاف چادر ڈال دی۔ تکیہ درست کیا اور باہر نکل آیا۔ اتفاق سے اسی وقت سنجے اندر داخل ہو رہا تھا۔
سنجے نے پوچھا انکل خیریت تو ہے آپ کچھ پریشان لگ رہے ہیں؟
ہاں بیٹے تمہاری آنٹی کی طبیعت کچھ خراب ہو گئی ہے۔
اچھا؟ کہاں ہیں آنٹی؟
وہ تو مڈویسٹ میں وجئے کے گھر پر ہے۔
اچھا تو آپ مڈویسٹ جا رہے ہیں؟
جی ہاں بیٹے وہیں جا رہا ہوں۔
او ہو اس وقت تو ٹرین میں خاصی بھیڑ بھاڑ ہو گی۔ آپ دو منٹ رکیے میں آپ کو اپنی گاڑی میں لئے چلتا ہوں۔
کمار بولا شکریہ بیٹے لیکن مجھے جلدی ہے۔
میں ابھی آیا۔ چند منٹ کے اندر وہ دونوں مڈویسٹ کی جانب رواں دواں تھے۔
کمار نے فون کر کے خیریت معلوم کی اور بتایا کہ وہ بہت جلد سنجے کے ساتھ گاڑی میں اس کے پاس پہنچ جائے گا۔
چندریکا نے بتایا وہ لیٹی ہوئی ہے۔ وجئے آ چکا ہے اور ٹی وی دیکھ رہا ہے کنگنا بازار لینے گئی ہے۔ وہ جلد ہی آ جائے گی۔ آپ نیچے پہنچ کر ہارن بجائیں میں آ جاؤں گی۔
سنجے نے ایک بار چندریکا کے بارے میں پوچھا اور پھر فون پر لگ گیا۔ اس کو نہ جانے کتنے فون آتے جاتے تھے کہ اپنے پاس بیٹھے کسی شخص سے بات کرنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا لیکن فون کے ساتھ ساتھ گاڑی کا پہیہ بھی تیزی سے گھوم رہا تھا اور کمار ہر پل اپنی منزل سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا۔
اس سے پہلے کہ کنگنا واپس آتی گاڑی کا ہارن بجا۔ سنجے کی گاڑی کا ہارن چندریکا پہچانتی تھی۔ وہ اپنے بستر سے اٹھی اور کشور کی جانب مڑ کر دیکھا۔ کشور بھی اس کو کنکھیوں میں دیکھ رہا تھا۔ چندریکا نے خلاف عادت اس کی پیشانی پر بوسہ دیا تو وہ ہوا میں ہاتھ مارنے لگا اس کے گلے سے کلکاریاں نکل رہی تھیں۔ کشور کی مسکراہٹ نے چندریکا کا نصف درد کم کر دیا۔ وہ کمرے سے باہر آئی اور دیکھا وجئے ٹی وی پر تمل ٹائے گرس سے متعلق نشر ہونے والی ایک دستاویزی فلم میں کھویا ہوا ہے۔ چندریکا نے دروازے کے پاس سے کہا بیٹے تمہارے پاپا آ گئے ہیں میں جا رہی ہوں۔
وجئے نے اس کی جانب دیکھے بغیر کہا ٹھیک ہے ممی۔
نحیف و کمزور چندریکا کو دیوار کے سہارے گھر سے باہر آتے ہوئے کمار نے دیکھا۔ اس کے ساتھ نہ وجئے تھا اور نہ کنگنا تھی۔ اس نے سنجے کی جانب مڑ کر دیکھا تو فون پر لگا ہوا تھا۔ کمار کا دل ڈوبنے لگا۔ اس نے چندریکا کو سہارا دینے کیلئے گاڑی کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی مگر اس کے ہاتھ شل ہو چکے تھے۔ اس نے اپنے پیروں کو جنبش دی تو وہ اپنی جگہ منجمد تھے۔ چندریکا دور سے اپنے کمار دیکھ رہی تھی۔ کمار کی آنکھیں پتھرا رہی تھیں۔ وہ دور سے سہی اپنے راج کمار کا آخری دیدار کر رہی تھی۔
کنگنا جس وقت یہ منظر بیان کیا تینوں کے آنکھیں نم تھیں۔
ثناء نے ماحول بدلنے کی خاطر سوال کیا اچھا تو کشور کہاں ہے؟ اس کو تم لوگ اپنے ساتھ کیوں نہیں لائے؟
کنگنا بولی وہ کیا ہے کہ میری ماں نے اس کو اپنے پاس یہ کہہ کر رکھ لیا کہ تم دو بچوں کو ایک ساتھ نہیں سنبھال سکتیں؟
سوژان نے پوچھا دو؟ دوسرا کہاں سے آ گیا؟
عقب سے وجئے کی آواز آئی دوسرا یہ ہے بھابی۔ یہ ماں بیٹی مجھے کشور سے ننھا بچہ سمجھتی ہیں۔
جیکب بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم لوگوں نے یہ کیا روتی صورت بنا رکھی ہے۔
رابرٹ نے کہا یہ سوچ رہی ہیں کہ ہمارے ہاتھ کوئی مچھلی نہیں لگی۔ ہم لوگ بے نیل مرام لوٹے ہیں۔
سوژان بولی اگر ایسا بھی ہے تو کیا مشکل؟ کراؤن پلازہ کا مطعم جو ابھی بند نہیں ہوا ہے۔
ثناء بولی جی نہیں مجھے تو یقین ہے کہ جیکب کے ہوتے آپ لوگ خالی ہاتھ نہیں لوٹ سکتے۔
سوژان نے تائید کرتے ہوئے کہا ویسے البرٹ بھی کم تجربہ کار نہیں ہے بحیرہ اوقیانوس سے لے کر خلیج چین تک ہر جگہ کے شکار کا تجربہ رکھتے ہیں۔
اس نوک جھونک سے بے نیاز کنگنا اپنے تصور کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ اپنے من کی آنکھوں سے چندریکا اور کمار سنگے کا دیدار کر رہی تھی۔
کنگنا سوچ رہی کہ کاش:
وہ اس روز بازار نہیں جاتی!
سنجے فون پر مصروف نہ ہوتا!!
وجئے ٹیلیویژن کے بجائے چندریکا کی جانب متوجہ ہوتا!!!
٭٭٭