اپنے آپ میں مست وجئے ایک غیر آباد ویران راستے پر محو سفر ہے۔ اپنی منزل سے بے نیاز وہ اپنے بچپن کی سائیکل پر سوار ہے کہ دوران سفراچانک ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ وہ جیسے جیسے آگے بڑھتا جاتا ہے اس کی سائیکل کا پچھلا پہیہ اپنے آپ بڑا ہوتا جاتا ہے لیکن اگلے والے کی جسامت پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا وہ جوں کی توں رہتی ہے۔ سائیکل کے توازن بھی قائم رہتا ہے اور وہ ہوا سے باتیں کرتی رہتی ہے۔ اس بیچ وجئے کو دور ایک بڑی سی عمارت کی دھندلی سی شبیہ نظر آتی ہے۔ وجئے کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی منزل از خود اس کے استقبال میں آن کھڑی ہوئی ہے۔
منزل اور مسافر کا فاصلہ بتدریج کم ہوتا جاتا ہے اور پچھلے پہیے کا قطر بھی اسی لحاظ بڑھتا جاتا ہے۔ قریب آنے پر وجئے کو پتہ چلتا ہے کہ ہے یہ ہوائی اڈہ ہے۔ اس ویرانے میں ہوائی اڈے کی موجودگی وجئے کے تجسس میں اضافہ کر دیتی ہے اور وہ اس کے داخلے کے باب کے سامنے پہنچ جاتا ہے جہاں موجود پہریدار مسافروں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کر کے انہیں اندر جانے کی اجازت دے رہے ہوتے ہیں۔ وہ حیرت سے ان مناظر کو دیکھ رہا ہوتا ہے کہ ایک چوکیدار کی نظر اس پر پڑ جاتی ہے۔ وہ فوراً دوسرے مسافروں کو ایک طرف کر کے وجئے کو سلام کرتا ہے اور اسے خوش آمدید کہتا ہے۔
وہاں موجود کوئی مسافر پہریدار کی اس حرکت پر اعتراض نہیں کرتا۔ وجئے سائیکل سمیت ہوائی اڈے میں داخل ہو جاتا ہے۔ سارے لوگ حیرت سے اس کو اور اس کی بے ڈھب سائیکل کو دیکھتے تو ہیں لیکن نہ کوئی روکتا ہے اور نہ کچھ پوچھتا ہے۔ بورڈنگ کارڈ اور ایمیگریشن وغیرہ کے تکلفات سے بے نیاز وجئے ہوائی جہاز کے اندر جانے والے دروازے کی جانب رواں دواں ہے جہاں سے ایک سرنگ نما راستہ اسے ہوائی جہاز تک لے جاتا ہے۔ جہاز میں موجود ائیر ہوسٹس مسکرا کر اس کا خیرمقدم کرتی ہے۔ اس کی سائیکل کا اگلا پہیہ جہاز کے اندر چلا جاتا ہے لیکن پچھلا والا باہر رہ جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کی جسامت ہوائی جہاز کے دروازے بڑی ہو چکی ہے۔
ائیر ہوسٹس اس سے مؤدبانہ گذارش کرتی ہے جناب عالی آپ سے التماس ہے کہ اپنی سائیکل سے اتر کر پیدل اندر تشریف لائیں۔
وجئے سوال کرتا ہے کیوں؟ یہ نہیں ہو سکتا۔
معزز مہمان یہ سائیکل جہاز کے اندر داخل نہیں ہو سکتی۔ اس کا دوسرا پہیہ ہمارے دروازے سے بڑا ہے۔
وجئے کہتا ہے یہ میرے بچپن کی سائیکل ہے۔ اسی پر چڑھ کر میں نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ اس نے ہر موڑ پر میرا ساتھ دیا ہے۔ یہ میرا سہارا ہے میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔
ائیر ہوسٹس اسے نرمی سے سمجھاتی ہے اس سائیکل کے ساتھ آپ کی جو انسیت و محبت ہے وہ ہمارے لئے قابلِ قدر ہے۔ کاش کہ ہمارے جہاز کا دروازہ ایسا بلند ہوتا کہ آپ اپنی سائیکل سمیت اس میں تشریف لاتے لیکن افسوس کہ یہ نا ممکن ہے۔
اگرایسا ہے تو میرے لئے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ میں سائیکل کو چھوڑوں۔
اچھا تو کیا آپ یونہی درمیان میں کھڑے رہیں گے۔ نہ آگے جائیں گے اور نہ پیچھے۔ آپ کے اس فیصلے سے دیگر مسافر اور اہلکار بھی زحمت میں مبتلا رہیں گے اس لئے ہماری پھر سے درخواست ہے کہ آپ یہ ضد چھوڑ دیں۔
وجئے بولا میں آگے نہ صحیح پیچھے تو جا سکتا ہوں۔ میں اپنی سائیکل کے ساتھ واپس چلا جاتا ہوں۔
اب یہ بھی نا ممکن ہے جناب۔ جس وقت آپ اس سرنگ میں داخل ہوئے تھے اس کا پچھلا پہیہ سرنگ کی چھت کچھ نیچے تھا اس دوران اس کے قطر میں مزید اضافہ ہوا ہے اس لئے اب یہ پچھلے دروازے سے باہر نہیں نکل سکے گا اور آپ جہاز اور ہوائی اڈے کے درمیان لٹکے رہیں گے۔
وجئے کو اب یہ سہانا سفر ایک پر فریب جال لگنے لگتا ہے جس میں وہ بری طرح سے پھنس چکا تھا۔ وہ کہتا ہے عجیب مصیبت ہے۔
ائیر ہوسٹس بولی یہ مصیبت نہیں حقیقت ہے۔ آپ جس راستے سے یہاں پہنچے ہیں وہ آگے ہی آگے جاتا ہے پیچھے نہیں مڑ تا۔ اس بلندی کے سفرکو جاری رکھنے کیلئے سائیکل سے سبکدوشی ناگزیر ہے۔
وجئے کا دماغ ٹھکانے آ گیا وہ بولا اچھا تو آپ لوگ میری اس سائیکل کا کیا کریں گے؟
ہم اس کے پہیے الگ کر کے انہیں سائیکل سمیت نیچے سامان کے ساتھ بحفاظت رکھوا دیں گے تاکہ وقت ضرورت آپ کے کام آ سکے۔ ویسے ہوائی جہاز کے اس سہانے سفر میں آپ کو سائیکل کی ضرورت شاید ہی محسوس ہو۔ اگر کبھی اس کی یاد آئے تو ہم سے کہیے۔ اس خصوصی ہوائی جہاز کے اندر سے ایک راستہ نیچے بنے گودام میں جاتا ہے۔ آپ وہاں جا کر اپنی سائیکل کے درشن کر سکتے ہیں۔ یہ راستہ ایسا تنگ و تاریک ہے کہ اس سے آپ تو آ جا سکتے ہیں لیکن آپ کی سائیکل نہیں آ سکتی۔
حزن و ملال کا پیکر وجئے اپنی چہیتی سائیکل سے اتر کر ہوائی جہاز میں داخل ہو گیا۔ ائیر ہوسٹس نے وہاں موجود اہلکاروں سے کہا۔ اس سائیکل کے پہیے الگ کر دو اور اسے نیچے سامان کے ساتھ رکھ دو۔ ائیرہوسٹس جانتی تھی کہ اب وجئے کا سائیکل سے رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ اب وہ اس سائیکل کی جانب مڑ کر بھی نہیں دیکھے گا پھر بھی حفظ ماتقدم کے طور پر اس نے سائیکل کو پھنکوانے کے بجائے رکھوا دیا تھا۔
جہاز جب ہوا میں محو پرواز ہوا تو وجئے کے ساتھ ایک اور عجیب و غریب معاملہ ہونے لگا۔ اس کی دائیں آنکھ اچانک بڑی ہونے لگی جبکہ بائیں آنکھ بالکل پہلے جیسی تھی۔ اس نے دیکھا اس کا بایاں ہاتھ اچانک لمبا ہونے لگا جبکہ دایاں ہاتھ ویسا ہی تھا۔ وہ گھبرا کر حمام میں گیا تو آئینے میں کیا دیکھتا ہے کہ اس کا بایاں کان بھوپوں کی طرح بڑا ہوا گیا مگر دایاں بالکل پہلے جیسا ہے۔ جب وہ واپس اپنی نشست پر آ رہا تھا تو اس نے محسوس کیا کہ توازن بگڑ رہا ہے۔ دائیں ٹانگ لمبی ہوتی جا رہی ہے اور بائیں جوں کی توں ہے۔
ہوائی جہاز کے عملے میں چہ مے گوئیاں ہونے لگی۔ مسافروں کو یقین ہو گیا تھا کہ وجئے آسیب زدہ ہے۔ انہیں اندیشہ لاحق ہو گیا کہ کہیں وجئے کا آسیب ان سے نہ لپٹ جائے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ کسی تاخیر کے بغیر وجئے کو اڑتے جہاز سے نیچے پھینک دیا جائے۔ جیسے ہی وجئے کو ہوا میں اچھالا گیا اس کی آنکھ کھل گئی۔
اس عجیب و غریب خواب نے وجئے کی چولیں ہلا دیں۔ اس کے سر میں شدید درد ہونے لگا۔ بدن ٹوٹ رہا تھا۔ رگ رگ سے ٹیس اٹھ رہی تھی۔ وہ دفتر جانے کی حالت میں نہیں تھا۔ چندریکا نے وجئے کا پسندیدہ ناشتہ اپما تیار کر دیا تھا لیکن وجئے اب بھی تک بستر میں پڑا تھا۔ چندریکا کیلئے یہ حیرت کی بات تھی۔
اس نے باورچی خانے سے چلآ کر پوچھا دفتر نہیں جانا؟ آج چھٹی ہے کیا؟ جواب ندارد، وہ گھبرا گئی۔ دوڑ کر وجئے کے پاس آئی اور پوچھا بیٹے طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟
جی ہاں، سر میں ہلکا سا درد ہے۔
ہلکے سے درد نے میرے لال کی یہ حالت بنا دی؟ تمہاری جھوٹ بولنے کی عادت نہیں گئی۔ مجھے تو لگتا ہے تمہیں بخار ہے۔ کہیں فلو تو نہیں؟ آج کل ہر تیسرا آدمی انفلوئنزا کے بخار کا شکار ہے۔
جی نہیں ممی آپ بہت سوچتی ہیں۔ چلئے میں نہا کر ناشتے کیلئے آتا ہوں۔ کیا بنایا ہے آپ نے؟
بنایا تو اپما تھا لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ تمہاری طبیعت خراب ہے؟ ورنہ میں اڈلی بناتی خیر اس میں کون سا وقت لگتا ہے۔ تم نہا کر آؤ تب تک اڈلی بن جائے گی۔ گرم گرم اڈلی بلکہ میں تو کہتی ہوں ایک دن کی چھٹی لے لو۔ آرام کرو آج ڈاکٹر کو دکھاؤ اور کل دفتر جانا۔ بیماری کو بڑھانا ٹھیک نہیں ہے۔
چندریکا نے وجئے کے دل کی بات کہہ دی تھی پھر بھی اس نے تائید نہیں کی اس لئے کہ ہاں کہنے کے بعد دفتر جانا نا ممکن تھا۔ وہ ناشتے کے بعد فیصلہ کرنا چاہتا تھا کہ دفتر جایا جائے یا نہیں؟ وہ بولا ممی اب اڈلی کی زحمت نہ کریں میں اپما کھا کر دفتر چلا جاؤں گا۔
تم نہ اپما کھاؤ گے اور نہ دفتر جاؤ گے۔ چندریکا نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ تم اڈلی کھاؤ گے اور آرام کرو گے کیا سمجھے؟ کل تک اگر طبیعت سنبھل جائے تو کل ورنہ جب طبیعت ٹھیک ہو گی تب دفتر جاؤ گے۔ تم نے نہیں سنا
تندرستی اگرچہ ہو غالب
تنگدستی میں کیا ملامت ہے
وجئے کومحسوس ہوا کہ اس کی ماں کچھ غلط پڑھ رہی ہے لیکن چونکہ اصلاح اس کے بس کا روگ نہیں تھا اس لئے وہ حمام میں چلا گیا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ دفتر جائے یا نہ جائے جسم کہہ رہا تھا آرام کرنا چاہئے اور دل دفتر جانے کیلئے بے چین تھا۔ اس لیے کہ ذمہ داری کا بوجھ اگر سر پر ہو تو آرام بھی حرام ہو جاتا ہے۔ وجئے کے واپس آنے تک سامبر کی سوندھی سوندھی خوشبو کمرے میں پھیل گئی تھی اور گرائنڈر زور شور کے ساتھ کھوپرے کی چٹنی پیس رہا تھا۔ وجئے کے آگے ناشتہ لگا کر چندریکا نے کمار سنگے کو فون لگا دیا۔
اجی سنتے ہو؟ تمہارا اکلوتا بیٹا یہاں بخار میں تڑپ رہا ہے اور تمہیں اس کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔
تڑپ رہا ہے؟ ابھی صبح میں تو میں نے دیکھا تھا وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ اس ایک گھنٹے میں کون سی قیامت آ گئی؟ کیا وہ دفتر نہیں گیا؟
میں نے بہت سارے سنگدل لوگ دیکھے ہیں آپ جیسا باپ نہیں دیکھا۔ آپ کو اس کے دفتر کی پڑی ہے اور جیسا مالک ویسا گھوڑا وہ بھی دفتر جانے کیلئے پریشان ہے لیکن میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ آج وہ دفتر نہیں جا سکتا اور کان کھول کرسنو میں تم سے کیا کہہ رہی ہوں؟
ہاں ہاں جلدی بکو ورنہ کان تو کھلے رہیں گے مگر فون بند ہو جائے گا۔ یہ گاہکوں کا وقت ہے جلدی بولو۔
اچھا تو تمہارے یہ گاہک مجھ سے اور میرے بیٹے سے زیادہ اہم ہیں کیوں؟ چندریکا فون پر رونے لگی۔ تمہارے لئے ہم سب بے کار کی چیزیں ہیں بس وہی سبزی ترکاری اور دھندہ بیوپار۔ میں تو تنگ آ گئی ہوں اس گورکھ دھندے سے۔
اری بھاگوان تم غصے میں بھول گئیں کہ کیا کہہ رہی تھیں۔ اب فون بند کروں یا۰۰۰۰۰۰۰
تمہاری کیا مجال کے فون بند کرو؟ میں اسے توڑ کر پھینک دوں گی۔
اگر ایسا ہے تو زہے نصیب میری جان چھوٹ جائے گی اس لئے کہ فی الحال تم وہی فون توڑ سکتی ہو جو تمہارے ہاتھ میں ہے۔ نہ نو من فون ہو گا اور نہ چندریکا گائے گی۔
میں اس فون کو نہیں بلکہ تمہاری دوکان میں آ کر تمہارا فون اور سر دونوں پھوڑ دوں گی کیا سمجھے؟
سمجھ گیا بھاگوان سمجھ گیا اب بول بھی دو کہ کان کھول کر میں کیا سنوں۔ کس لئے تم نے فون کرنے کی زحمت گوارہ کی تھی؟
وجئے کو اپنے والدین کی نوک جھونک پر رشک آ رہا تھا۔ اس کے ذہن میں ایک سوال آیا شادی کے تیس سال بعد بھی یہ جس طرح کی خوشگوار زندگی گزار رہیں کیا وہ کنگنا کے ساتھ تین سال بھی اس طرح گزار سکے گا؟ شاید نہیں اس لئے کہ کنگنا بہت معقولیت پسند مزاج کی حامل تھی اس کے نزدیک ہمیشہ دو اور دو چار ہوا کرتا تھا جس پر اختلاف ممکن نہیں تھا لیکن چندریکا اور کمار میں سے ایک دو اور دو کو پانچ تو دوسرا تین کہتا تھا۔ ان کے باہمی اختلافات نہ کبھی ختم ہوتے اور نہ زندگی کی چاشنی میں کوئی کمی آتی تھی۔ اس نے سوچا معروضیت کی بہتات بھی زندگی کو سپاٹ اور بے مزہ کر دیتی ہے۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ آپ فوراً دوکان بند کر کے گھر چلے آئیں۔
دوکان کیوں بند کروں۔ میرے علاوہ اور ملازم بھی تو یہاں کام کرتے ہیں۔ میں راجن کو بلاتا ہوں اور اس کے آنے کے بعد گھر آ جاتا ہوں۔
آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں راجن گھر پر ہے تو میں اسے فوراً دوکان پر روانہ کر دیتی ہوں آپ وہاں سے نکلیں۔
کمار قہقہہ لگا کر بولا میڈم آپ میری مالکن ضرور ہیں لیکن راجن میرا سوامی یعنی مالک ہے اس لئے آپ کا حکم مجھ پر تو چل سکتا ہے لیکن اس پر نہیں۔
مجھے نہ پڑھاؤ۔ مجھے سب پتہ ہے میں یہ بات راجن کی مالکن ریوتی سے کہوں گی کیا سمجھے؟
ٹھیک ہے لیکن ایک بات بولوں اب اپنا وجئے چھوٹا بچہ نہیں ہے۔ ہم کب تک اس کو سنبھالتے رہیں گے۔
کیا مطلب؟ وہ میرا لاڈلا بیٹا جیسے پہلے تھا اب بھی ہے۔
ہاں بابا جانتا ہوں اور میں نے کب تمہیں اس کو لاڈ پیار کرنے سے منع کیا ہے۔
ابھی ابھی تو منع کر رہے تھے اور ابھی بدل گئے
جی نہیں میں تو صرف یہ کہہ رہا تھا کہ کوئی اچھی سی بہو لے آؤ تاکہ تمہاری بھی جان چھوٹے اور۰۰۰۰۰۰۰۰
آپ کی جان تو پہلے ہی چھوٹی ہوئی ہے۔ میں تو کہتی ہوں اگر اولاد کے ساتھ یہی سلوک کرنا تھا تو ۰۰۰۰۰۰۰چندریکا پھر سے رونے لگی۔
کمار بولا اری بھاگوان تم کام کی بات کو چھوڑ کر فالتو الفاظ پکڑ لیتی ہو۔
ہاں اگر میں ایسا کرتی بھی ہوں تو اس میں آپ کا قصور ہے۔ آپ کام کی بات کے ساتھ فالتو بات کیوں کہتے ہیں۔ اب بھلا مجھ جیسی سیدھی سادی عورت ان میں فرق کرے بھی تو کیسے کرے؟
جی ہاں ساری غلطی میری ہی ہے لیکن میں بہو لانے کے بارے میں کہہ رہا تھا۔
چندریکا کا چہرہ کھل گیا وہ بولی آپ کے منہ میں گھی شکر لیکن بہو لائیں گے کہاں؟ ہمارے گھر ان لوگوں کیلئے جگہ کہاں ہے؟ اور پھر میرے وجئے کیلئے راج دلاری کسی سڑک کے کنارے تو کھڑی نہیں نہ مل جائے گی۔
کمار ہنس کر بولا تو کیا تم اس کیلئے کوئی سوئمبر رچاؤ گی؟
کیا سوئمبر آپ تو سارے سنسکار بھول گئے۔ کیا آپ نہیں جانتے کہ سوئمبر دولہے کیلئے نہیں بلکہ دلہن کیلئے رچایا جاتا ہے۔
ارے بھاگوان یہ پرانے وقتوں کی باتیں ہیں۔ یہ کل یگ ہے اور تم لندن میں رہتی ہو یہاں کون جانتا ہے کہ رامائن اور مہابھارت میں کیا لکھا ہے۔ میں تو کہتا تو اگر تم نے اپنے وجئے کے لیے سوئمبر کا اعلان کر دیا تو راون کی قسم قطار لگ جائے گی۔
راون کی قسم تم رام اور راون کا فرق بھی بھول گئے کیا؟
دیکھو ہم لوگ سری لنکا کے رہنے والے ہیں۔ ہمارا ہیرو تو لنکا دھیش راون ہے۔ ہم اس کی قسم کیوں کھائیں جس نے اپنے دست راست ہنومان کی مدد سے لنکا جلا دی تھی۔
چندریکا پھنس گئی تھی وہ بولی مجھے سب پتہ ہے میں آپ سے زیادہ دھرم کا گیان میں رکھتی ہوں آپ فوراً دوکان سے گھر آئیں میں راجن کو بھجواتی ہوں۔
٭٭٭