جھمرو نے بلاواسطہ ڈاکٹر انتخاب کی توجہ چمیلی کی طرف مبذول کر دی تو انہوں نے پوچھا چمیلی کا دماغی توازن پیدائش سے بگڑا ہوا ہے یا بعد میں ایسا ہوا؟
جھمرو بولا ڈاکٹر صاحب آپ تو پڑھے لکھے آدمی ہیں اور اس طرح کا سوال کرتے ہیں؟ پیدائشی طور پر کیا کوئی دیوانہ ہو سکتا ہے؟ میری دانست میں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یہ تو دنیا ہے جو اسے دیوانہ بنا دیتی ہے۔
انتخاب عالم کو جھمرو کے آگے اپنی علمی کم مائے گی کا احساس ہوا وہ بولے جھمرو تم نے تو لاکھ پتہ کی بات کہی اب یہ سوال ہے کہ اس بے چاری چمیلی کو کس نے دیوانہ بنا دیا۔
جھمرو بولا یہ ایک طویل داستان ہے۔ لیکن آپ اسے کیوں جاننا چاہتے ہیں؟
انتخاب اس سوال کے لئے تیار نہیں تھا۔ وہ بولا یونہی بس یونہی۔
بلاوجہ؟ جھمرو نے پوچھا کیا دانشمند لوگ کوئی معلومات بلاسبب حاصل کرتے ہیں؟
در اصل میں چمیلی کا علاج کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کے لئے مجھے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ آخر کس سانحہ نے اس کے دماغی توازن کو متاثر کیا ہے۔
جناب ویسے تو یہ ایک طویل داستان ہے! مختصر یہ کہ ایک ڈاکٹر نے اسے پاگل کیا اور دوسرا ڈاکٹر اس کا علاج کرنا چاہتا ہے۔
میرے لیے یہ تفصیل ناگزیر ہے۔
ٹھیک ہے۔ کھانے کے بعد میں آپ کو چمیلی کی کہانی سناؤں گا۔
جھمرو نے بتایا کہ اقوام متحدہ کے تحت دیہی علاقوں میں صحت عامہ کی بہتری کی خاطر چلائے جانے والے ایک پروجکٹ کے تحت چندسال قبل ملیشیا کے ڈاکٹر سوژالی کا دوسال کے لیے اس مطب میں تقرر ہوا۔ اس ڈاکٹر کو چمیلی سے محبت ہو گئی لیکن اس نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ میں نے بہارالاسلام کو مشورہ دیا اگر وہ چاہے تو میں شادی کی بات چلا سکتا ہوں لیکن وہ اپنی بیٹی کو پردیس روانہ کرنے پر راضی نہیں ہوئے اور یہیں ایک مقامی تاجر کے بیٹے سے اس کا نکاح طے کر دیا۔ عین نکاح کے دوران سوژالی نے اس کھڑکی سے کھائی میں کود کر خودکشی کر لی۔ چمیلی اس غم کو برداشت نہ کر سکی اور پاگل ہو گئی۔
انتخاب نے پوچھا موت تو اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ کسی کے مر جانے سے کوئی پاگل تو نہیں ہو جاتا؟
جی ہاں آپ کی بات درست ہے لیکن اس حقیقت کا ادراک صرف ہوشمند لوگ کر سکتے ہیں۔ چمیلی اس سے قبل ہوش گنوا بیٹھی تھی۔
آپ کے خیال میں اس شدید صدمے کی وجہ کیا ہے؟
میرے خیال میں اس کی وجہ یہ ہے کہ چمیلی نے ابھی تک سوژالی کے فراق کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ اب بھی اس کی منتظر ہے۔ شوق وصال اس کی دیوانگی کی بنیادی وجہ ہے۔
اس کا مطلب ہے اگر چمیلی کو یقین دلا دیا جائے کہ اب سوژالی لوٹ کر نہیں آئے گا تو اس کا پاگل پن دور ہو سکتا ہے۔
جی ہاں ڈاکٹر صاحب چمیلی کا علاج تو یہی ہے لیکن یہ کیسے کیا جائے؟ میں نہیں جانتا؟ شاید کوئی نہیں جانتا؟ کوئی نہیں؟ ؟ جھمرو کے ہر لفظ سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔
انتخاب عالم نے ڈھارس بندھاتے ہوئے کہا جھمرو چاچا سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی اس کا علاج نہیں جانتا لیکن کوشش کروں گا۔
جھمرو خوش ہو کر بولا۔ ہمت مرداں مدد خدا۔ میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔ اگر میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بلا توقف یاد فرمائیے۔ کواڑ کی آڑ میں بہارالاسلام اس گفتگو کو سن رہے تھے۔ ان کے دل میں اپنی بیٹی کے حوالے امید کا چراغ روشن ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انتخاب عالم نے ماہرین نفسیات کی کتابوں میں اپنے آپ کو غرق کر دیا اور چمیلی جیسے مریضوں کے متعلق معلومات حاصل کرنے لگا لیکن اسے کوئی کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ایک روز یونہی سوچتے سوچتے اس کے ذہن میں ایک منفرد خیال آیا اور اس نے ایک ایسا تجربہ کرنے کا فیصلہ کیا جس کا ذکر کسی کتاب میں موجود نہیں تھا۔
انتخاب نے اپنے تجربے کی ابتداء اس غلط مفروضے سے کی جس میں چمیلی گرفتار تھی۔ اس نے جھمرو اور بہارالاسلام کی مدد سے ہو بہو سوژالی کا ایک پتلا بنایا اور اس کے اندر مائک اور اسپیکر نصب کر دیا تاکہ وہ چمیلی کی آواز سن سکے اور چمیلی بھی اس کی بات کو سماعت کر سکے۔ اس کے بعد بڑی حکمت سے وادی کے سامنے سوژالی کے پتلے کو چمیلی کے روبرو کر دیا گیا۔
پاگل چمیلی کے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو گئیں اور وہ اپنے محبوب کے مجازی وصال کی نعمت سے مالا مال ہو گئی۔ اس کا نصف پاگل پن دور ہو گیا۔ اب اس پتلے کو چمیلی کی آنکھوں کے سامنے کھائی میں ڈھکیل کر چمیلی کو یقین دلا دیا گیا سوژالی کبھی لوٹ کر نہ آنے کے لیے جا چکا ہے۔ اس طرح صدمے کے اس دوسرے جھٹکے نے چمیلی کا دماغ درست کر دیا اور اس نے از خود دیوانگی سے فرزانگی کی دہلیز پر قدم رکھ دیا۔
چمیلی کے کامیاب علاج سے بہارالاسلام کی زندگی میں بہار لوٹ آئی۔ وہ خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا لیکن اسی کے ساتھ ایک نیا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ چمیلی جب تک دیوانگی کی حالت میں تھی اس کی شادی کا خیال تک بہارالاسلام یا کسی اور کے ذہن میں نہیں آتا تھا لیکن دھیرے دھیرے یہ فکر بہارالاسلام کی زندگی کو خزاں رسیدہ کرنے لگی۔ اپنے بڑھاپے اور چمیلی کی ڈھلتی جوانی کا شدید احساس ان کے لیے سوہانِ جان بن گیا۔
بہارالاسلام چاہتے تھے کہ سبکدوشی سے قبل چمیلی کے ہاتھ پیلے ہو جائیں لیکن بندربن کے توہم پرست لوگ شکوک و شبہات کا شکار ہو چکے تھے۔ وہ سوچتے تھے کہ چمیلی آسیب زدہ ہے اس پر کسی جن کا سایہ ہے۔ اسی اندیشے کے باعث کوئی رشتہ نہ آتا تھا۔
اس دوران پردیس کی تنہا زندگی سے بیزار رضوان الحق ایک نئے ارادے اور تیاری کے ساتھ ابو ظبی سے گھر آیا۔ اس نے بڑی محنت سے البرٹ کو ویزا مہیا کرنے کیلئے تیار کر لیا تھا۔ وہ اپنی زوجہ کو ساتھ لے کر جانا چاہتا تھا لیکن اولاد کی محبت میں گرفتار رضیہ کسی صورت تیار نہ ہوئی۔ اس کے خیال میں بچے اپنی زندگی کے نازک ترین دور سے گذر رہے تھے اور اس موقع پر ان کو دوسروں کے حوالے کر کے بدیس چلے جانے سے تعلیم و تربیت متاثر ہو سکتی تھی۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو تباہ ہونے سے بچانے کی خاطر وہ بنگلا دیش میں رہنے کو ترجیح دیتی تھی۔
رضوان الحق نے بالآخر مجبور ہو کر رضیہ کی مرضی کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے اور دل ہی دل میں نکاح ثانی کا ارادہ کر لیا تاکہ ابو ظبیہ میں اپنی ازدواجی زندگی بحال کر سکے۔ یہ درمیان کا راستہ تھا جس پر عمل درآمد کے لیے اس نے برسوں بعد اپنے آبائی گاوں کا سفر کیا جہاں اس کی ملاقات جھمرو سے ہو گئی۔
رضوان الحق جس وقت جھمرو کے خیمہ میں پہنچا وہاں جم غفیر تھا۔ لوگ جھمرو سے طرح طرح کے اوٹ پٹانگ سوالات کر رہے تھے۔ وہ بھی چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گیا۔
ایک شخص پوچھ رہا تھا جھمرو کیا بات ہے کہ تم کبھی گاوں کا نام نہیں بتاتے۔ آخر کیوں؟
تم میرے گاوں کا نام جان کر کیا کرو گے؟ تمہیں وہاں جانا تو ہے نہیں؟ اس لیے جس گلی میں جانا نہ ہو تو اس کا پتہ کیوں پوچھنا؟
پھر وہی گول مول بات۔ ٹھیک ہے ہمیں نہیں جانا لیکن تم خود کیوں نہیں جاتے؟
اس لیے کہ اول تو میں وہاں جا نہیں سکتا اور چلا بھی گیا تو لوٹ کر آ نہیں سکتا۔ تم لوگ مجھ سے چھٹکارہ پانا چاہتے ہو کیا؟
یہ کیسی باتیں کر رہے ہو جھمرو؟ ہمارے بازار کی رونق تو تمہیں سے ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ تم کہیں کھو جاؤ۔
ایک اور شخص بولا تم کہیں جاؤ نہ جاؤ مگر چھپاؤ تو نہیں۔
تیسرے نے کہا دیکھو جھمرو آج تو تمہیں بتانا ہی ہو گا۔ بہت ہو گئی یہ راز داری۔
کئی آوازیں جی ہاں یہ صحیح کہہ رہا ہے آج یہ جانے بغیر ہم بازار اٹھنے نہیں دیں گے۔ ہم دھرنا دے کر بیٹھ جائیں گے۔
پہلی مرتبہ جھمرو کے لیے جان چھڑانا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ بولا بھائی سچ تو یہ ہے کہ مجھے ڈر لگتا ہے۔
ڈر؟ کس کا ڈر؟ کیسا ڈر؟ ؟
مجھے ۹۶۹ کا ڈر لگتا ہے۔
یہ ۹۶۹ کون ہے؟
تم نے جیمس بانڈ کا نام سنا ہے ۰۰۷۔ یہ اس کا دادا ہے۔
دادا ہے۔ تو ۰۰۷ کا باپ کون ہے؟
باپ ہے ۷۸۶۔ اس لیے کہ افغانستان میں ۷۸۶ کے آگے ۰۰۷ کی دال نہیں گلی اور وہ ناکام و نامراد ہو گیا لیکن یہ ۹۶۹ تو اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔
آپ ۹۶۹ سے ڈرا تو رہے ہیں لیکن اس کے بارے میں کچھ بتا نہیں رہے۔
تم لوگوں کا مسئلہ یہ کہ تم بس مجھ جیسے لوگوں کی بکواس سنتے رہتے ہوئے۔ تھوڑا بہت وقت پڑھنے لکھنے پر بھی خرچ کیا کرو۔
کیا بات کرتے ہو جھمرو ہم لوگ تو دن بھر واٹس ایپ اور ٹوئیٹر دیکھتے، پڑھتے رہتے ہیں۔ وقتاً فوقتاً فیس بک دیکھ لیتے ہیں۔
ارے اس کچرے سے کیا ہو گا۔ کبھی ٹائم میگزین دیکھا ہے تم نے؟
یہ نام تو ہم نے کبھی نہیں سنا۔
ویسے دیکھا تو میں نے بھی نہیں ہے لیکن بانگلہ پتریکا میں اس کے بارے میں پڑھا تھا۔
کیا پڑھا تھا؟ مختلف لوگوں نے بیک زبان سوال کیا۔
یہی کہ ۲۰ جون ۲۰۱۳ کے شمارے میں ٹائم کے سرِ ورق پر اس بدھ بھکشو کی بال منڈوائے، گیروے رنگ کے ان سلے کپڑے میں تصویر شائع ہوئی تھی اور انٹرویو بھی چھپا تھا۔
اچھا؟ کیا کہا تھا۔ اس بدبخت نے؟ ؟
اس نے کہا تھا ’’آپ میں محبت اور شفقت کوٹ کوٹ کر بھری ہو پھر بھی آپ ایک پاگل کتے کے ساتھ نہیں سوسکتے۔ اگر ہم کمزور ہو گئے تو ہماری زمین تک مسلمان ہو جائے گی‘‘
آپ نے اس کا نام نہیں بتایا جھمرو۔
اس کمبخت کا نام آشن وراتھ ہے۔ یہی شخص برما کی بدھ قومی تحریک ۹۶۹ کا سربراہ ہے۔ اس تحریک کا مقصد برما میں مسلمانوں کی آبادی کو بڑھنے سے روکنا ہے۔
یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اس نے اپنی تحریک کا نمبر ۹۶۹ کیوں رکھا؟ کیا آپ یہ راز فاش کریں گے؟
دیکھو دوستو یہ ستم ظریفی ہے کہ دنیا بھر میں امن کا پیغام دینے والے گوتم بدھ کے نام پر یہ دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ ۹کا ہندسہ ان نو صفات کی جانب اشارہ کرتا ہے جو مہاتما بدھ سے منسوب ہیں، ۶کا ہندسہ بدھ دھرم کے چھ اصول ہیں اور پھر ۹ کا ہندسہ بدھا سنگھا یعنی بدھ بھکشوؤں کے اوصاف بیان کرتا ہے۔ ان احمقوں کے خیال میں ۹ سب سے طاقتور عدد ہے اور اس میں ۶ملا دینے سے پورا دائرہ بن جانے کے سبب زبردست قوت والا بن جاتا ہے۔
لیکن مسلمانوں نے اس کا کیا بگاڑا؟
برما کے مسلمان اتنے کمزور ہیں کہ وہ اگر چاہیں بھی تو کسی کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ یہ تو برما کے فوجی حکمرانوں کے ایماء پر قائم کردہ ایک دہشت گرد گروہ ہے۔ سرکاری پشت پناہی میں یہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے اور عوام کو حکومت کا ہمنوا بناتا ہے۔
اقتدار کے لیے مسلمانوں کی مخالفت سمجھ میں نہیں آئی جبکہ وہ حکومت کے دعویدار بھی نہیں ہیں؟
بھئی عوام کو ڈرانے، دھمکانے اور بہلانے کے یہ ہتھکنڈے ہیں۔ ۱۹۹۷ میں جب نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی کوششوں سے جمہوریت نے برما میں قدم رکھا تو بدھ دہشت گردوں نے مسلمانوں کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے ہمارے گاوں منگ ڈاو پر حملہ کر دیا اور مجھے اپنا آبائی وطن چھوڑ کر یہاں بنگلا دیش میں ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔
جھمرو کے خیمہ میں بیٹھا ایک پڑھا لکھا شخص بولا لیکن اب تو میانمار میں جمہوریت اور آنگ سانگ سوچی کی حکومت آ گئی ہے۔ اب تو آپ وطن لوٹ سکتے ہیں؟
نہیں اب آنگ سانگ سوچی بھی دہشت گردوں کی ہمنوا بن گئی ہے؟ وہ ان کو ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
ضمیر کی قیدی اور امن کی دیوی کو یہ کیا ہو گیا؟
یہ در اصل جمہوریت اور اقتدار کا بخار ہے۔
کئی آوازیں ابھریں ’بات سمجھ میں نہیں آئی‘۔
اتنا بھی نہیں سمجھتے تو میری مجلس میں نہ آیا کرو۔ بھئی سوچی نے سوچا کہ اگر وہ مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائے گی تو اس کے رائے دہندگان ناراض ہو جائیں گے اور جمہوریت کی دیوی اسے اقتدار سے محروم کر دے گی۔ اس لیے وہ مظلوم مسلمانوں کے بجائے ظالم بودھوں کی ہمنوا بن گئی۔
ایک اور سوال آیا یہ جمہوریت کی دیوی حق کا ساتھ کیوں نہیں دیتی؟
جھمرو بولا در اصل اس دیوی کا دیوتا یعنی معیار حق اکثریت ہے۔ وہ بلا شرط اپنے معبود کے آگے سجدہ ریز رہتی ہے۔
یہ بلا شرط کیا ہے؟
یہی کہ اکثریت ظالم ہو یا مظلوم یہ اس کی پشت پناہی کرتی ہے اور اتفاق سے میرا تعلق مظلوم اقلیت سے ہے۔
خیمہ میں موجود سارے لوگ سوگوار ہو گئے لیکن جھمرو کا قہقہہ گونجا کیا تم اب بھی چاہتے ہو کہ میں اپنے گاوں چلا جاؤں؟
سارے لوگ نہ نہ کہتے ہوئے اپنی اپنی جگہ سے اٹھے اور بازار میں منتشر ہو گئے۔ مجمع چھٹ گیا تو جھمرو کی نظر رضوان پر پڑی۔ ایک عرصے کے بعد ملاقات ہوئی تھی اس لیے دونوں بہت خوش ہوئے۔ رضوان نے بلا تمہید اپنے دل کی بات جھمرو کے سامنے رکھی تو اس نے بتایا کہ چمیلی سے اچھی لڑکی اسے دوسرے نکاح کے لیے نہیں ملے گا۔ جھمرو نے از خود پیشکش کر دی کہ اس کی مرضی ہو تو وہ بہار الاسلام سے بات کر سکتا ہے۔ رضوان نے اپنی رضامندی ظاہر کر دی اور جھمرو نے بہارالاسلام اور چمیلی کو راضی کر لیا۔
رضوان اور چمیلی کے نکاح ثانی کی رسم ایک پر وقار خاموشی کے ساتھ ادا کی گئی اس لئے کہ رضیہ کی جانب سے ہنگامہ کا خطرہ تھا۔ اس تقریب میں وکالت کی ذمہ داری جھمرو کے سپرد کی گئی اور گواہ انتخاب عالم کو بنایا گیا۔ گنے چنے مہمانوں کی مختصر سی محفل میں نکاح پڑھایا گیا اور حاضرینِ محفل نے نو بیاہتا جوڑے کو تحفے تحائف سے نوازہ۔ اس موقع پر انتخاب عالم نے اپنی نابغہ روزگار ڈائری چمیلی کو تحفہ میں دی سوژان کو چمیلی کی داستانِ حیات میں ایک نئے ٹیلی ویژن ڈرامہ کا انوکھا اور منفرد مرکزی موضوع مل گیا۔
٭٭٭
ضابطے اور ہی مصداق پہ رکھے ہوئے ہیں
آج کل صدق و صفا طاق پہ رکھے ہوئے ہیں
جانے کب سلسلۂ خیر و خبر کا ہو ظہور
دھیان ہم انفس و آفاق پہ رکھے ہوئے ہیں
(گلزار بخاری)
ہاتھ کی پانچ انگلیاں
مختلف ہونے کے باوجود
ایک دوسرے سے
منسلک بھی ہوتی ہیں
اس ناول گھر سنسار کے چھے حصے
منفرد تو ہیں ہی مکمل بھی ہیں
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید