دوا خانے کے کھل جانے کا علم بہارالاسلام کو تو ہو گیالیکن اس کی خبر عوام الناس تک پہنچنا ضروری تھی اور اس کے لیے سب سے آسان ذریعہ جھمرو تھا اس لیے بہار کی آنکھیں بازار کے دن جھمرو کو تلاش کر رہی تھیں۔ جھمرو اس علاقے کا ایک ایسا فرد تھا کہ جسے سب جانتے تھے اور اس سے ملنا چاہتے تھے۔ اس کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا اور باتیں بہت کرتا ہے۔ ویسے بھی زیادہ باتیں کرنے والے لوگ کام کم ہی کرتے ہیں۔ جب بہارالاسلام کی نظر جھمرو پر پڑی تو وہ اپنے گدھوں کے درمیان کسی کے ساتھ محو گفتگو تھا اور کہہ رہا تھا اس کا کام ہی باتیں کرنا ہے۔
مخاطب نے پوچھا انسان کام کرتا ہے تو اس کے عوض اجرت ملتی ہے باتوں کی اجرت کون دیتا ہے؟
جھمرو نے بر جستہ جواب دیا یہ تو خالص تاجرانہ سوچ ہے کہ انسان وہی کرے جس کی اسے اجرت ملے۔ کوئی ایسا کام کا نہ کرے جس میں بظاہر فائدہ نہ ہو۔
ہاں تو اس میں برا کیا ہے؟
جھمرو بولا ویسے تو کچھ نہیں لیکن پھر بھی برا یہ ہے کہ اس ناپ تول کے باوجود لوگ اپنا نقصان تو کرتے ہی ہیں۔ بھئی کون ایسا تاجر ہے جس کا کبھی نہ کبھی خسارہ نہیں ہوتا۔ اس کا حساب کتاب یقینی فائدے کی ضمانت نہیں دے سکتا۔ تجارت خطرات کا کھیل ہے۔
اچھا تو کیا تاجروں کو حساب کتاب بند کر دینا چاہئے؟
جھمرو بولا بھئی میرا تو یہی خیال ہے کہ انسان کو سودو زیاں کے چکر سے آزاد ہو کر بلکہ اوپر اٹھ کر سوچنا چاہئے۔
بہارالاسلام اس کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک جھمرو نے اسے دیکھ لیا وہ بولا ارے بہار چاچا آپ ادھر دھوپ میں کیوں کھڑے ہیں۔ ادھر آئیے دیکھئے کتنا اچھا سایہ ہے۔ کیسی اچھی ہوا ہے۔ میرے گدھے تک اس نے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اس نے اونگھتے ہوئے گدھوں کی جانب اشارہ کیا۔
بہارالاسلام بولا جھمرو تم نے تو مجھے بھی دیدہ دانستہ گدھوں کی صف میں کھڑا کر دیا۔
جھمرو بولا ابھی کیا نہیں ہے کوشش کر رہا ہوں۔ تینوں لوگ ہنس دیئے جھمرو نے اینٹوں کے چولھے پر رکھی کیتلی میں سے چائے پیالی میں ڈالی اور بہار الاسلام کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا آج اس خزاں رسیدہ چمن میں بہار کا جھونکا کیسے؟ بہار الاسلام کو جھمرو کی لایعنی باتوں سے الجھن ہوتی تھی اس لئے وہ ہمیشہ کنی کاٹ لیتا تھا لیکن اس روز خود چل کر آیا تھا۔ اس لئے جھمرو نے طنز کیا۔
بہارالاسلام چٹکی لیتے ہوئے بولا بس یونہی سوچا گدھوں کے ساتھ میں بھی تمہاری صحبت کا فیض حاصل کروں۔
جھمرو نے وہاں موجود دوسرے شخص کی جانب اشارہ کر کے کہا اب کی بار آپ نے میرے اس معزز مہمان کو گدھوں کی صف میں پہونچا دیا۔
بہار الاسلام جھینپ کر بولا چھوڑو فضول باتیں میں ایک کام کی بات کرنے کے لئے تمہارے پاس آیا ہوں۔
کام کی بات؟ کون سی کام کی بات؟
بات یہ ہے کہ ہمارے دوا خانے میں نئے ڈاکٹر کا تقرر ہوا ہے اور ڈاکٹر صاحب کل رات تشریف لا چکے ہیں اس بات کی اطلاع آس پاس کے تمام گاؤں والوں کو ہو جانا چاہئے تاکہ وہ ان سے استفادہ کر سکیں۔
ہو جائے گی لیکن ایک بات بتاؤ؟
وہ کیا؟
یہ تمہارے ڈاکٹر صاحب صرف انسانوں کا علاج کرتے یا جانوروں کا بھی؟
جھمرو دیکھو ہر وقت مذاق کرنا ٹھیک نہیں ہے؟
تو کیا میں مذاق کر رہا ہوں؟ میں آپ سے نہایت سنجیدہ سوال کر رہا ہوں؟ میرا ایک گدھا بیمار چل رہا ہے۔ اب اگر میں تم سے پوچھے بغیر اسے لے آؤں اور وہ علاج کرنے سے انکار کر دیں تو اسے بلاوجہ بیماری کی حالت میں اسپتال تک جانے کی زحمت ہو جائے گی۔
دیکھو جھمرو ہماری انہیں حرکتوں سے ڈاکٹر یہاں سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر ہمیں بھاگ بھاگ کر مریضوں کے ساتھ نیچے میدانی علاقے میں جانا پڑتا ہے۔
جھمرو بولا دیکھئے بہار بھائی آپ چاہتے ہیں کہ میں لوگوں کو ڈاکٹر کے آنے کی اطلاع دوں۔ اب اگر کسی نے مجھ سے یہ سوال کر لیا تو میں کیا جواب دوں گا جھمرو نے معصومیت سے سوال دوہرایا۔
لیکن اس سے پہلے کہ بہار جواب دیتے جھمرو کے سامنے بیٹھا ہوا شخص بول پڑا اچھا جھمرو یہ بتاؤ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ تمہارا گدھا بیمار ہے؟
جھمرو بولا یار یہ تو گدھوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کا ایک ساتھی بیمار ہے۔ میں تو ماشاء اللہ انسان ہوں؟
اچھا؟ بہار الاسلام نے حیرت سے سوال کیا
اس شخص نے پھر پوچھا ویسے کیا ہو گیا ہے تمہارے گدھے کو؟
جھمرو بولا تم تو ایسے پوچھ رہے ہو جیسے تم ہی اس کا علاج کرنے والے ہو؟ خیر میرے گدھے کو زکام ہو گیا ہے؟
زکام بہارنے کہا۔ گدھوں کو بھی زکام ہوتا ہے وہ تو صرف انسانوں کو ہوتا ہے؟
کیوں گدھوں کو کیوں نہیں ہوتا؟
اس لئے کہ گدھے نہ ٹھنڈا برف کا پانی پیتے ہیں اور نہ ایر کنڈیشن کی مصنوعی ٹھنڈک میں رہتے ہیں۔ انہیں زکام کیسے ہو سکتا ہے؟
او ہو آپ تو گدھوں کے ماہر نکلے بہار بھائی۔
بہار الاسلام نے کہا میں گدھوں کے بارے میں نہیں انسانوں کے بارے میں بتلا رہا تھا۔
جھمرو بولا جی ہاں ایسے انسانوں کے بارے میں جن میں گدھوں سے بھی کم عقل ہوتی ہے۔
بہار الاسلام کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ یہ شخص شام تک اسے اپنی باتوں میں الجھائے رکھے گا۔ اسے تو کوئی کام ہے نہیں بس باتیں بنانا ہی اس کا کام ہے۔ وہ بولا اچھا جھمرو تو میں چلتا ہوں آس پاس کے تمام گاؤں والوں کو پتہ چل جانا چاہئے۔
جھمرو بولا ٹھیک ہے آئندہ ہفتہ اس دن تک سب کو پتہ چل جائے گا۔
جس طرح کا ہفتہ واری بازار اس روز بندربن میں لگا ہوا تھا اسی طرح کا بازار الگ الگ دنوں میں مختلف گاؤں میں لگتا تھا اور خانہ بدوش دوکاندار ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں چل پڑتے تھے اس طرح ہفتہ میں ایک دن وہ اپنے گھر بھی پہونچ جاتے تھے۔
جھمرو کا نہ گاؤں تھا اور نہ گھر اس کے تو بس اپنے گدھے تھے جن پر وہ دوکان والوں کے خیمے اور ان کا سامان لاد کر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں محوِ گردش رہتا تھا۔ دوکاندار دن بھر کاروبار کرتے جھمرو اپنے گدھوں کو چارہ ڈالتا اور ان کے ساتھ آرام کرتا۔ وقت گذاری کے لئے لوگوں سے باتیں کرتا رہتا۔ کام کی بات بے کام کی بات دن کے وقت اس کا یہی مشغلہ تھا۔ لوگ جس خبر کو پھیلانا چاہتے تھے اس تک پہونچا دیتے اور اس کے توسط سے تمام صحیح اور غلط خبریں گاؤں گاؤں پھیل جاتی تھیں۔ قدیم زمانے سے ذرائع ابلاغ کا یہ نہایت کارگر وسیلہ ہنوز رائج تھا۔
جھمرو اپنے سچ کو دلچسپ بنانے کے لئے اس میں جھوٹ ملا دیتا تھا اور اپنے جھوٹ پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کی خاطر اس میں سچ کی آمیزش کر دیتا تھا گویا اعتماد اور دلچسپی کے درمیان بندھی رسی پر توازن قائم کر کے چلتے رہنے کے فن میں اسے مہارت حاصل تھی یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ لوگوں میں گھرا رہتا تھا۔ ویسے جھمرو کو اگر کسی خبروں کے چینل پر موقع مل جاتا تو وہ اچھے اچھے اینکرس کے کان کاٹ لیتا۔
لوگ یہ سمجھتے تھے کہ جھمرو بازار میں کوئی کام نہیں کرتا لیکن یہ نہیں جانتے تھے کہ بازار کا یہ خانہ بدوش نظام اسی کے دم سے قائم ہے۔ وہی اسے جماتا تھا، وہی اسے اکھاڑتا تھا اور وہی اسے اپنے گدھوں کی مدد سے گاوں گاوں منتقل کرتا تھا۔ عوام بازار میں صرف خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھتے تھے اور چونکہ انہیں جھمرو کچھ خریدتا ہوا دکھائی دیتا اور نہ کچھ بیچتا ہوا تو وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو جاتے تھے کہ یہ نکھٹو شخص کوئی کام نہیں کرتا، صرف باتیں کرتا ہے۔
بازار سے لوٹتے ہوئے بہارالاسلام نے دیکھا جھمرو چائے کی دوکان پر بیٹھا لوگوں کو محظوظ کر رہا ہے وہ بھی آ کر ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ جھمرو لوگوں کو بتلا رہا تھا اس گاؤں میں ایک نہایت قابل ڈاکٹر آ گیا ہے۔ اس نے فلاں فلاں مشہور یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی ہے وہ یہاں آنے سے پہلے فلاں فلاں معروف اسپتال میں کام کر چکا ہے وہ فلاں فلاں بیماریوں کا ماہر ہے وغیرہ وغیرہ بہارالاسلام نے سوچا یہ شخص تو ڈاکٹر انتخاب عالم کے بارے میں وہ سب جانتا ہے جو وہ خود نہیں جانتے۔
اپنی تقریر کے دوران اچانک جھمرو کی نظر بہارالاسلام پر پڑی اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا دیکھئے صاحبو اس بیچ ہمارے درمیان دوا خانے کے منیجر بہارالاسلام بھی تشریف لا چکے ہیں میں نے خاص طور پر انہیں یہاں بلوایا ہے تاکہ وہ میری باتوں کی تصدیق کریں اور اور آپ کو مزید معلومات فراہم کریں۔
بہارالاسلام ہکا بکا یہ منظر دیکھ رہا تھا کہ جھمرو نے اپنی بات آگے بڑھائی بہار بھائی آپ کھڑے ہو جائیں تاکہ لوگ آپ کو پہچان سکیں اور آپ سے استفادہ، میرا مطلب سوال کر سکیں۔ بہار سمجھ گئے یہ انہیں اپنے گناہ میں شریک کر کے خود اپنا دامن جھٹک رہا ہے۔ وہ بولے فی الحال میں جلدی میں ہوں آپ تفصیلات معلوم کرنے کیلئے دوا خانے آ جائیں۔
جھمرو نے تالیوں کے ساتھ بہار کا شکریہ ادا کرتے ہوے کہا یہ بہت مصروف آدمی ہیں آپ لوگ ان سے دوا خانے میں ضرور ملیں مجمع چھٹنے لگا جھمرو کی بات ختم ہو گئی۔ کچھ دیر بعد تنہائی میں بہارالاسلام نے پوچھا جھمرو تم یہ سب کس کے بارے میں بتلا رہے تھے۔
جھمرو بولا تمہارے ڈاکٹر کے بارے میں۔
ان تفصیلات کا علم تمہیں کیسے ہو گیا؟
ایسے ہی ہو گیا؟
کیا مطلب؟
مطلب کہ بس یونہی۔ دیکھو تم تو یہی چاہتے ہو لوگ وہاں علاج کے لئے آئیں۔ اب اس کے لئے لوگوں کو کچھ نہ کچھ تو بتلانا ہی پڑے گا۔ ڈاکٹر کی تعلیم کے بارے میں یونیورسٹی کے بارے میں تجربے کے بارے میں؟
لیکن یہ؟ سب غلط سلط؟
کیا غلط کیا سلط؟ آج کل سب ڈاکٹر ایک ہی طرح کی تعلیم حاصل کرتے ہیں سبھی دارالعلوم ایک سا نصاب پڑھاتے ہیں اور اسپتال تو سب کے سب ایک جیسے ہوتے ہیں۔ اس لیے کیا فرق پڑتا ہے۔
وہ کیسے؟ بہار نے پوچھا
در اصل چونکہ بیمار ایک سے ہوتے ہیں اس لئے اسپتال بھی ایک سے ہوتے ہیں۔
بہارالاسلام نے کہا لیکن جھمرو یہ اچھی بات نہیں ہے غلط باتیں بتلانے کے لئے بھی انسان کو اتنی ہی محنت کرنی پڑتی ہے جتنی کی صحیح بات بتلانے کے لئے پھر کیوں نہ وہ صحیح بات بتلائے۔
جھمرو نے کہا بہار بھائی آپ کی بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔
یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی بات بیک وقت درست بھی ہو اور غلط بھی؟
اظہار کی حد تک یہ بات صحیح ہے کہ محنت یکساں ہوتی ہے لیکن صحیح بات معلوم کرنے کے لئے جو محنت کرنی پڑتی ہے اس کا کیا؟
ہاں تو تھوڑی سی محنت کرنے پر کیا تم دبلے ہو جاؤ گے؟ کیوں نہیں کر لیتے وہ محنت؟
جھمرو بولا ٹھیک ہے آپ کہتے ہیں تو وہ بھی کر لیں گے۔ تو آپ کب ملائیں گے مجھے نئے ڈاکٹر صاحب سے، تاکہ میں ان سے صحیح معلومات حاصل کر سکوں؟
آج ہی آ جاؤ۔ میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور ڈاکٹر صاحب سے بھی مل لینا۔
ٹھیک ہے میں ظہر کی نماز پڑھ کر حاضر ہوتا ہوں
بہارالاسلام نے کہا ٹھیک ہے۔
بہارالاسلام نے ڈاکٹر انتخاب کو جھمرو کے بارے میں آگاہ کر دیا۔ جھمرو کے آتے ہی بہارالاسلام نے انتخاب عالم کے کمرے میں دسترخوان بچھایا کھانا لگا دیا اور خود جانے لگا۔ انتخاب بولا آپ بھی یہیں بیٹھ جائیں۔ بہار اپنی جگہ رک گیا ایسا لگتا تھا جیسے اس کے قدموں میں زنجیر پڑ گئی ہے بلکہ دو قدموں میں دو زنجیریں ایک کاسرا انتخاب کے ہاتھ میں دوسری کا چمیلی کے ہاتھ میں اب نہ وہ آگے جا سکتا تھا اور نہ پیچھے۔
جھمرو بولا ڈاکٹر صاحب یہ ہمارے ساتھ نہیں کھا سکتے۔
کیوں؟
اس لئے کہ یہ چمیلی کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔
کیوں؟
اس لئے کہ وہ ان ہی کے ساتھ کھانا کھاتی ہے۔ ورنہ نہیں کھاتی۔
انتخاب تذبذب میں پڑ گیا اور بولا اچھا بابا آپ جائیں۔ بہارالاسلام نے شکریہ ادا کیا اور چل دیا۔
٭٭٭