دروازے پر ہارن کا شور سن کر چوکیدار باہر آیا۔ ڈرائیور نے سوچا شاید اس دوا خانہ کی قسمت پھر سے کھل گئی ہے اسے وہ دن یاد آنے لگے جب ڈاکٹر سوژالی ہوا کرتے تھے بڑی گہما گہمی ہوتی تھی اور پھر وہ ہیبت ناک کہانی جس نے ان سے ان کی زندگی چھین لی۔ چوکیدر نے دروازہ کھول کر سلام کیا۔
انتخاب عالم نے اشارے سے جواب دیا اور کہا میرا نام ڈاکٹر انتخاب عالم ہے میرا اس دوا خانے میں تقرر ہوا ہے اس لئے کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں؟
کیوں نہیں صاحب کیوں نہیں یہ کہہ کر چوکیدار چلا گیا ڈرائیور نے سامان گاڑی میں سے اتارا اور اپنے پچاس روپئے لے کر رفو چکر ہو گیا۔
چوکیدار اوپر سے چابیوں کا گچھا لے کر آ رہا تھا۔ سب سے پہلے صدر دروازہ چرمراتا ہوا کھلا اور اندر سے بساند اور دوائیوں کی بدبو کا جھونکا باہر آیا۔ انتخاب عالم کے لئے یہ نہایت ناخوشگوار تجربہ تھا اسے چوکیدار پر غصہ آیا لیکن بزرگی کا لحاظ کر کے وہ غصہ پی گیا بس یہ پوچھنے پر اکتفا کیا کہ آپ کا نام کیا ہے؟
جی بہارالاسلام۔
بڑا اچھا نام ہے اسلام کی بہار لیکن یہاں تو ہر طرف خزاں کا عالم ہے۔
بہارالاسلام نے نہایت ادب سے جواب دیا۔ جی ہاں ڈاکٹر صاحب آپ بجا فرماتے ہیں جس طرح مالی کے بغیر باغ خزاں رسیدہ ہو جاتا ہے اسی طرح ڈاکٹر کے بغیر دوا خانہ اجڑ جاتا ہے۔ اب چونکہ آپ تشریف لاچکے ہیں اس لئے مجھے یقین ہے کہ جلد ہی بہار لوٹ آئے گی۔
انتخاب عالم کے لئے بوڑھے چوکیدار کی زبان و بیان اور شائستگی باعث حیرت تھی وہ بولا چا چا آپ کی زبان ماشاء اللہ بہت ہی شستہ اور صاف ہے۔
شکریہ جناب بنگلہ دیش جب مشرقی پاکستان کہلاتا تھا اس وقت میں مترجم تھا اس لئے کہ مغربی پاکستان سے آنے والے احکامات کا اردو سے بنگلہ میں ترجمہ اور مشرق سے جانے والی درخواستوں کا بنگلہ سے اردو میں ترجمہ ہوا کرتا تھا۔ اب وہ محکمہ بند ہو گیا ہے۔
کیا بنگلہ دیش کے بن جانے سے درخواستوں اور احکامات کا رواج ختم ہو گیا
جی نہیں۔ ایسی بات نہیں درخواستیں اور التجائیں جوں کی توں برقرار ہیں احکامات بھی اسی طرح صادر ہوتے ہیں صرف زبان بدل گئی۔
اس تبدیلی کی وجہ؟
آقا اور ان کی زبان بدل گئی۔ درخواست آقاؤں کی زبان میں لکھی جاتی ہیں اور احکام بھی وہ اپنی زبان میں صادر فرماتے ہیں۔
تو کیا اس کے علاوہ کچھ نہیں بدلا؟
جی نہیں صاحب باقی سب کچھ وہی ہے۔ جبر واستحصال نہیں بدلا۔ ہاں اس کو کرنے والے ہاتھ یقیناً بدل گئے۔
اور اس کا شکار ہونے والے لوگ؟ انتخاب نے سوال کیا
ظلم کوسہنے والے نہ تو بدلے ہیں اور نہ بدلیں گے۔ بہارالاسلام کے لب و لہجے میں پہاڑوں کا کرب و الم سمایا ہوا تھا۔
انتخاب بولا بابا آپ نے بڑی اونچی بات کہی۔
نہیں نہیں بیٹے یہ تجربہ کی بات ہے تین نسلیں دیکھ چکا ہوں اور چوتھی دیکھنے والا ہوں اس سال مجھے سبکدوش ہونا ہے۔
اچھا!!!
جی ہاں جب انسان سٹھیا جاتا ہے تو سرکار اسے ملازمت سے ریٹائر کر دیتی ہے۔ انتخاب عالم بہارالاسلام کی گفتگو اور زبان سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ بہار نے پوچھا بیٹے تم تو چہرے سے پنجابی لگتے ہو؟
جی ہاں بابا میرے والد بھی سرکاری ملازم تھے۔ ان کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا۔ ڈھاکہ میں تبادلہ ہوا تو یہاں شادی کر لی اور یہیں کے ہو رہے۔ وہ اسی طرح بنگلہ بولتے ہیں جیسے آپ اردو بولتے ہیں۔
اور تم؟
ہم۰۰۰۰ ہم نہ تو اردو ہی صحیح بولتے ہیں اور نہ بنگلہ ٹھیک سے بول پاتے ہیں ہماری حالت آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی سی ہو گئی ہے۔
نہیں بیٹے ایسی بات نہیں بلکہ ایک تہائی تیتر اور ایک تہائی بٹیر ۰۰۰۰
لیکن باقی ایک تہائی؟ انتخاب نے پوچھا
اور ایک تہائی طوطا۔
یہ طوطا درمیان میں کہاں سے آ گیا؟
لندن سے ۰۰۰ وہ انگریزی میں اپنے آپ کو مٹھو میاں بولتا رہتا ہے۔
بہارالاسلام کی اس تمثیل پر انتخاب عالم کو ہنسی آ گئی وہ بولا بابا اس دوا خانہ کی حالت کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ شاید بہار کے آنے سے قبل ہی مجھ پر رخصت ہو جانے کی نوبت آ جائے گی۔
نہیں بیٹے ایسی بات نہیں اس سے پہلے کئی مرتبہ اس مقام پر ڈاکٹروں کی تقرری ہوئی لیکن وہ آ مد سے قبل ہی منسوخ ہو گئی۔ ہماری صاف صفائی سب اکارت چلی گئی اس لئے اعتماد ہی اٹھ گیا۔ ہم نے طے کر لیا کہ ہے جب تک ڈاکٹر صاحب انہیں جاتے ہم اس کو ٹھیک ٹھاک نہیں کریں گے لیکن اب آپ آ ہی چکے ہیں تو کل شام تک سب کچھ بدل جائے گا۔
جی بہت خوب لیکن کیا آج رات مجھے ڈاک بنگلہ میں قیام کرنا ہو گا؟
نہیں اس کی ضرورت نہیں میں نے اپنے گھر میں ایک کمرہ تیار کر دیا ہے آپ مناسب سمجھیں تو وہیں ٹھہر جائیں اور اگر آپ کو پسند نہ آئے تو بے شک ڈاک بنگلہ تک سواری کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔
بہت خوب چلئے کمرے میں چلتے ہیں۔ بابا کے پیچھے انتخاب عالم عمارت کے عقب کی جانب آیا زینہ سے چڑھ کر جب وہ اوپر پہونچا تو ایک نہایت خوبصورت صحن اور اس کے پیچھے ایک نفیس لکڑی کا دروازہ سب کچھ بالکل صاف ستھرا اور تر و تازہ۔
کمرے میں آنے کے بعد جب انتخاب نے کھڑکی کو کھولا تو حیران رہ گیا۔ ایک ٹیلہ پر بنی اس عمارت کا یہ کمرہ وادی کی جانب کچھ ایسے کھلتا تھا گویا انسان کھائی کی تہہ میں جھانک رہا ہو۔ کمرے کے پیچھے کی بالکنی میں انتخاب عالم ایک منٹ کیا کھڑا رہا کہ دن بھر کی تھکن دور ہو گئی پہاڑوں کی ٹھنڈی ہوائیں پھیپھڑوں سے نکل کر رگ و پے میں سرایت کر گئیں جسم کا ایک ایک رواں فطرت کی تازگی سے جھوم اٹھا زبان نے بے ساختہ کہا سبحان اللہ۔
الحمد للہ! جناب شاید اب آپ کو ڈاک بنگلہ کی ضرورت نہیں ہے۔
جی نہیں۔ بابا میں تو سمجھتا تھا کہ سارا بنگلہ دیش ایک چٹیل میدان ہے جس میں شمالی ہندوستان کی ہر ندی رینگتی ہوئی داخل ہوتی ہے اور سمندر سے اپنا سر ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہے لیکن یہ پہاڑ یہ وادیاں بے مثال ہیں لاجواب ہیں۔
جی ہاں بیٹے یہ قدرت کا کرشمہ ہے اس نے جہاں چاہا پہاڑوں کو کھڑا کر دیا اور جسے چاہا چٹیل میدان بنا دیا۔ خالق کائنات کے سامنے یہ زمین ایک تختۂ مشق کی مانند ہے۔ وہ اس پر جو چاہتا ہے، جیسا چاہتا ہے سجادیتا ہے۔ کائنات کا ہر ذرہ اس کے صدائے ’’کن‘‘ کا منتظر ہے اور بے چوں چرا ہر حکم کی تعمیل میں لگا ہوا ہے۔
جی ہاں بابا آپ سچ کہتے ہیں اس منظر کے آگے ساری منظر نگاری ہیچ ہے۔ وہ سب اس کی بھونڈی عکاسی ہے اور یہ حقیقت ہے! زندہ اور تابندہ حقیقت۔
بیٹے تم تو ڈاکٹر سے زیادہ شاعر معلوم ہوتے ہو۔
انتخاب بولا کیا ڈاکٹر انسان نہیں ہوتا؟
ہوتا ہے ضرور ہوتا ہے
اچھا اور شاعر؟
اس کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔
بہار الاسلام کی اس ظرافت نے ماحول کو زعفران زار کر دیا۔ وہ بولا بیٹے اب آپ آرام کرو ہماری ملاقات ان شاء اللہ صبح ہو گی۔ شب بخیر خدا حافظ۔
فی امان اللہ۔
٭٭٭