انتخاب نے ویڈیو چلائی تو پتہ چلا کہ یہ روہنگیائی مسلمانوں پر بنائی گئی ایک دستاویزی فلم ہے جس میں کمال مہارت سے ان کے تابناک ماضی اور کربناک حال کی عکاسی کی گئی ہے۔
فلم کی ابتداء برما کے سابق وزیر اعظم تھائی سین کے اس اعلان سے ہوتی ہے ’’روہنگیاں مسلمان ہمارے باشندے نہیں بلکہ غیر ملکی ہیں۔ ان پر ہماری کوئی ذمہ داری نہیں ہے اور اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کوئی دوسرا ملک انہیں قبول کر لے یا اقوام متحدہ ان کی دیکھ بھال کرے ‘‘۔ اس کے بعد پردے پر ایک درگاہ نمودار ہوتی ہے پس منظر سے آواز گونجتی ہے۔ مونگ ڈاو پہاڑی کی چوٹی پر واقع یہ ہمارے جد ّامجد محمد ابن الحنفیہ کی مقدس مزار ہے۔ خانوادۂ حضرتِ علیؓ کے اس چشم و چراغ نے ۶۸۰ میں یہاں قدم رنجا فرمایا تھا۔ ان کی آمد کے بعد جستہ جستہ مسلمان ائیر وادی ندی کی ترائی میں آباد ہوتے چلے گئے۔ یہ قوم پرست برمی جس سلطنتِ بگان پر فخر جتاتے ہیں اس کا قیام تو ۱۰۵۵ کے اندر عمل میں آیا جبکہ اس علاقہ میں مسلمانوں کی بڑی بڑی بستیاں نویں صدی سے آباد ہیں۔
اس تمہید کے بعد کیمرہ ایک قدیم محل کے اندر کا منظر پیش کرتا ہے اور آواز آتی ہے یہ راجہ انوار تھا کا محل ہے جس نے اپنے شہزادے ساولو کی تعلیم و تربیت کیلئے ایک عرب استاذ کا تقرر کیا۔ اس کے بعد شہزادہ ساولو ایک بچے کے ساتھ تعلیم حاصل کرتا نظر آتا ہے جسے وہ ’اے استاد کے بیٹے رحمٰن خان‘ کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ تعلیم کے بعد دونوں کی مشترک رضائی ماں انہیں کھانا کھلاتی ہے۔
اس کے بعد والے منظر میں تخت نشین ساؤلو، باگو کے جاگیر دار رحمٰن خان کے ساتھ شطرنج کھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ چند چالوں کے بعد رحمٰن خان بازی جیت کر تالیاں بجانے لگتا ہے اور ساؤلو غیض و غضب کے عالم میں رحمٰن کو للکارتا ہے کہ اگر بازو میں دم ہے تو اپنے صوبہ باگو سمیت اعلانِ بغاوت کر کے دو دو ہاتھ کر لے۔ رحمٰن یہ چیلنج قبول کر کے محل سے باہر نکل جاتا ہے۔
اس کے بعد میدان جنگ کے مناظر پردے پر آتے ہیں جن ایک طرف ساؤلو کا لشکرِ جرار اور اس کے مدمقابل رحمٰن خان کی فوج ہے۔ گھمسان کا رن پڑتا ہے کچھ دیر بعد ساولو اپنی فوج کے ساتھ میدانِ جنگ سے فرار ہوتا ہوا نظر آتا ہے لیکن بہت جلد گرفتار ہو کر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ رحمٰن خان فتح کا پرچم لہراتا ہوا لوٹ رہا ہے کہ ساولو کا ایک تیر انداز اس کو ہلاک کر دیتا ہے۔ ساولو اور رحمٰن خان کی لاشوں کے پیچھے سے باگان سلطنت کا بادشاہ کیانزیٹا نمودار ہوتا ہے۔ اس کی فوج میں ہندوستانی فوجی شامل ہیں اور دربار میں مسلمان شاہی مشیر اور فوجی سپہ سالار اہم ذمہ داریوں پر فائز دکھائے جاتے ہیں۔
اس کے بعد مون قبیلہ کے زمانے کی منظر کشی ہوتی ہے۔ راجہ تھاٹون (۱۰۵۰ء کا زمانہ) میں مسلمانوں اور بودھوں کے درمیان تلخی کے مناظر پیش ہوتے ہیں۔ وہ اپنے شیش محل کی تعمیر میں مسلمانوں سے بے گار لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ تھانون کی مخالفت کرنے والے۔ بیطوی کے دو بیٹوں کا بندھوا مزدور کے طور پر محل کی تعمیر سے انکار کے نتیجے میں سولی پر چڑھا نے کا دلدوز منظر بھی انتخاب عالم کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔ فلم بینی کے دوران وہ فلمساز کی غیر جانبداری و مہارت کا گرویدہ ہو رہا تھا۔
آگے چل کر برمی بودھوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان۱۴۳۰ میں استوار ہونے والے دوستانہ تعلقات نے انتخاب کو بہت متاثر کرتے ہیں۔ بنگال کے سلطان جلال الدین شاہ کا محل اور اس میں ۲۴ سالوں تک برمی بادشاہ راجہ نارامیخلا کی جلا وطنی کی زندگی اس کے دلوں کو چھو لیتی ہے۔ نارامیخلا کا پھر سے اقتدار سنبھالنا اور مسلمانوں کو خودمختاری دینا نیزٹکسالی سکوں ّ میں ایک جانب برمی تو دوسری طرف فارسی میں لکھا جانا بھی انتخاب کے لیے ایک حیرت انگیز انکشاف بن جاتا ہے۔
نارا میخلا کے بعد تاریخ ایک خطرناک موڑ لیتی ہے۔ اس کے وارثین احسان فراموشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ۱۴۳۳ میں رامو اور چٹا گانگ پر قبضہ کر لیتے ہیں جو۱۶۶۶ تک جاری رہتا ہے۔ یہ دستاویزی فلم ۱۵۵۹ میں راجہ بائیٹناگ کے اسلام مخالف رویہ سترہویں صدی میں شاہجہاں کے منجھلے بیٹے شاہ شجاع کا راجہ سندا تھدامہ کے ذریعہ خیرمقدم اور شجاع کی بیٹی سے شادی کی پیشکش کے مسترد کیے جانے پر جنگ و قتل عام اور مظالم کی تصویر کشی بھی کرتی ہے۔
برما پر انگریزوں کا قبضہ، جنگ عظیم میں جاپانیوں کی فوج کشی اور۱۹۴۸ میں برما کی آزادی کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو بھی فلم میں نمائندگی دی جاتی ہے۔ جنگ عظیم سے قبل جنرل اونگ سان کی قیادت میں اینٹی فاشسٹ پیوپلس فریڈم پارٹی (اے ایف پی ایف ایل)کے ذریعہ آزادی کی جد و جہد اور برما مسلم کانگریس (بی ایم سی)کی اس میں شمولیت کو بھی دکھایا جاتا ہے۔ بی ایم سی کا صدر منتخب ہونے کے بعد دسمبر ۱۹۴۵ میں یو رزاق کا اپنی جماعت کو اے ایف پی ایف ایل میں ضم کر دینے والے مناظر نے انتخاب عالم کو سوگوار کر دیتے ہیں مگر فوجی بغاوت کے بعد جنرل اونگ سان سمیت یو رزاق کی پھانسی کے اندوہناک مناظر دیکھ کر انتخاب کی پلکیں نم ہو جاتی ہیں۔
اس ویڈیو کے اختتامی حصے میں جنرل یو نو کے بودھ مت کو قومی مذہب قرار دینے کے بعد شروع ہونے والے مظالم نیز ۱۹۷۸ میں قومی رائے شماری سے قبل آپریشن ڈراگن کنگ کے نام سے روہنگیا مسلمانوں کو اس ہراساں اور ہجرت پر مجبور کیے جانے کو تفصیل سے فلمایا گیا تھا۔ فلم کا خاتمہ اقوام متحدہ میں پاس ہونے والی قرار دادوں اور روہنگیائی رہنما محمد نور کے اس بیان پر ہوتا ہے کہ وہ برمی نہیں بلکہ آزاد ریاست اراکان کے باشندے ہیں۔ روہنگیا نسل کا تعلق برما سے نہیں اراکان سے ہے۔ برما کے لوگ ان کی سر زمین پر غیرملکی ہیں۔ انہوں نے اراکان پر جارحیت کے سہارے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور اس کا حل ان کی آزادی میں ہے۔ انتخاب عالم اس بات پر شرمندہ ہو جاتا ہے کہ پڑھا لکھا ہونے باوجود وہ اپنے پڑوسی ملک میں رہنے والے ایمانی بھائیوں کے سنگین مسائل سے پوری طرح غافل رہا۔ وہ روہنگیائی مسلمانوں کے لیے خون کے آنسو بہاتے ہوئے نہ جانے کب محوِ خواب ہو گیا۔
صبح دم انتخاب نے اپنے بغل والے بستر پر کیشو کے علاوہ کسی اور کو لیٹا ہوا پایا۔ اس نے سوچا مادھو آ گیا ہو گا تو کیشو نے اسے اپنے بستر پرسلادیا۔ انتخاب کی نگاہ میں کیشو کا احترام بڑھ گیا۔ نہا دھو کر جب وہ کاونٹر پر پہنچا تو کیشو وہاں موجود بنچ پر پیر سمیٹے گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ انتخاب اسے جگا کر بولا معاف کرنا میرے باعث تمہیں زحمت ہوئی میں معذرت چاہتا ہوں۔
نہیں صاحب اس کی کیا ضرورت ویسے وہ آپ کا ہم نشین میرا بھائی نہیں نارائن صاحب ہیں۔ ہمارے مستقل گاہک ہیں وقتاً فوقتاً آتے رہتے ہیں۔ جب کوئی کمرہ خالی نہیں ہوتا ہے تو میں انہیں اپنے بستر پر سلادیتا ہوں۔
اپنے بستر پر اور تم رات بھر نہیں سوتے؟
صاحب ہماری تو رات میں ڈیوٹی ہوتی ہے۔ یہ تو سرائے ہے۔ یہاں پر لوگوں کے آنے جانے کا سلسلہ لگا رہتا ہے۔ میں وہیں کرسی پر بیٹھا بیٹھا اونگھ لیتا ہوں۔ جب تھک جاتا ہوں تو بنچ پر لیٹ جاتا ہوں۔
اس بیچ دوسرا گاہک بھی تیار ہو کر آ گیا کیشو بولا صاحب آپ دونوں کو بس اڈے جانا ہے۔ رکشا میں ساتھ جائیں مشترک کمر مشترک سواری۔ خدا حافظ۔
دونوں نے سو سو روپئے کا ایک ایک نوٹ کیشو کو تھمایا اور باہر آ گئے کیشو انہیں رکشا تک چھوڑنے کے لئے آیاسامان رکھ کر الوداع کیا۔ راستہ میں انتخاب بولا کیشو کتنا اچھا آدمی ہے؟ خود کو تکلیف میں ڈال کر ہمیں آرام پہنچایا۔
نارائن نے حیرت سے کہا تکلیف کیسی تکلیف؟
ہم لوگ اس کے اور اس کے بھائی کے بستر پر سوئے کیا یہ اس کی احسانمندی نہیں ہے؟
احسان کیسا احسان؟ ہم کوئی مفت میں تھوڑے ہی سوئے۔ سوسو روپئے دیئے ہم نے۔ دو لوگوں سے ایک کمرے کا کرایہ دو سو روپئے مل گیا اور کیا چاہئے؟
وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ ہمیں منع کر کے خود بھی تو آرام سے سو سکتا تھا؟
کیسی بات کرتے ہیں صاحب، نارائن بولا ہم سے دوسو روپئے کما کر وہ کرسی پر آرام سے سویا ہو گا۔ نیند کا کیا ہے بسترپر ہو یا کرسی پر اور ویسے بھی رات بھر کرسی پر بیٹھنا اس کی ڈیوٹی ہے۔ اور اب وہ دن بھر آرام سے سوئے گا۔
لیکن رات کی نیند تو رات کی ہوتی ہے اس کا دن سے کیا تقابل؟
آپ کی یہ بات ٹھیک ہے لیکن ہو سکتا ہے وہ نصف شب کسی اور کمرے میں جا کر سو گیا ہو۔ ہمیں کیا پتہ؟ اور پھر اسے منع کرنے والا کون ہے؟ وہی اس لاج کا چپراسی اور وہی منیجر بلکہ مالک بھی سمجھ لو۔
رکشا بس اڈے کے سامنے کھڑا تھا ساتھ والے مسافرنے میٹر سے نصف رقم انتخاب کے ہاتھ پر رکھی اور یہ جا وہ جاہو گیا۔ انتخاب نے اس میں اپنا حصہ جو ڑا اور کہا کیسا احسان فراموش انسان ہے؟ حالانکہ ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
٭٭٭