البرٹ کی وسیع و عریض کوٹھی میں چونکہ صرف دو عورتیں تھیں اس لئے چمیلی اور سوژان کے درمیان بہت جلددوستی ہو گئی۔ سوژان فارغ اوقات میں چمیلی کو اپنے پاس بلا لیتی اور دونوں سہیلیاں ایک دوسرے کے ساتھ ایک ملی جلی زبان میں گفتگو کرتی رہتیں۔ یہ ایک ایسی زبان تھی جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ اس میں انگریزی، بنگالی، تگالو، اردو اور کبھی کبھار عربی کے الفاظ بھی استعمال ہو جاتے تھے۔ اور پھر آواز کا اتار چڑھاؤ۔ چہرے کے تاثرات۔ انداز گفتگو، لب و لہجہ، اشارے کنائے یہ سب مل جل کر اپنا کام کر جاتے۔
ان کو ترسیل سے غرض تھی جس میں وہ کامیاب تھیں۔ زباندانی کی بے شمار غلطیوں، اوٹ پٹانگ تلفظ، ناقص صرف ونحوجیسے بے شمار عیوب کی انہیں مطلق پرواہ نہیں تھی۔ ان کے تسکین و اطمینان کا راز مقصد کو وسائل پر ترجیح دینے میں پوشیدہ تھا۔
ایک روز سوژان نے چمیلی سے پوچھا یہ بتاؤ کہ بنگلہ دیش میں بیاہ کس طرح سے ہوتا ہے۔ اسی طرح کہ جیسے یہاں ابو ظبی میں ہوتا ہے۔
چمیلی بولی آپ مذاق کرتی ہیں۔ وہ ایک غریب ملک ہے۔ وہاں تو کسی کروڑ پتی کی بھی شادی اس قدر شاندار طریقے سے نہیں ہوتی ہو گی۔ میرا مطلب ہے مختلف انواع کی دعوتوں سے ہے۔ امیر کبیر لوگ ایک آد ھ بڑی دعوت ضرور کرتے ہیں جس میں سارا گاؤں شریک ہو جاتا ہے۔
سارا گاؤں؟
جی ہاں دعوت عام ہوتی ہے ہر آدمی اپنے خاندان کے ساتھ اس میں جانا باعث سعادت سمجھتا ہے اور میزبان کے لئے بھی ان سب کا آنا فخروانبساط کا سبب ہوتا ہے۔
یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔
سوژان بولی یہاں دعوتیں تو کئی ہوتی ہیں لیکن وہی چند مہمان بار بار ایک دوسرے سے ملتے رہتے ہیں۔
وہ تو ہے کہیں دعوت کی کثرت اور مہمانوں کی قلت تو کہیں مہمان کثیر تعداد میں ہیں تو دعوتیں کم خیر ایک ہی بات ہے۔
سوژان نے کہا میں دعوت کے حوالے سے نہیں پوچھ رہی تھی میرا مطلب ہے کہ رشتہ کیسے طے ہوتا ہے؟ کون طے کرتا ہے؟ ہونے والے دولہا دلہن ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے بھی ہیں یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔
میں سمجھ گئی۔ وہاں عام طور سے ماں باپ کی جانب سے ابتدا ہوتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ والدین اپنی اولاد کی شادی کے لئے بچوں سے زیادہ فکر مند ہوتے ہیں۔
سوژان نے حیرت سے کہا۔ اچھا؟
جی ہاں خاص طور پر لڑکی کے والدین۔ عام طور سے لڑکے کے والدین رشتہ بھیجتے ہیں اور لڑکی والے اس پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ تمام سرگرمیاں کسی مشترکہ شناسا کی مدد سے انجام پذیر ہوتی ہیں تاکہ تفصیل طلب کرنا آسان ہو اور انکار کرنا مشکل نہ ہو۔
تو وہ بے چارے جن کی شادی ہونے والی ہوتی کیا محض تماشائی بنے رہتے ہیں؟
نہیں ایسا بھی نہیں والدین فیصلہ کرنے سے قبل اپنے بچوں کی رائے معلوم کر لیتے ہیں۔ تصویر وغیرہ ایک دوسرے کو دکھلا دیتے ہیں کبھی کبھار کسی محفل میں وہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے ہیں۔
کیا مطلب؟ وہ نکاح سے قبل ایک دوسرے سے ملاقات نہیں کرتے ایک ساتھ گھومتے ٹہلتے نہیں؟ یہ تو عجیب بات ہے۔
جی ہاں آپ کے لئے یہ بات عجیب و غریب ہو سکتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں شادی سے قبل یا اس کے بغیر اجنبی مرد و خواتین کا ایک دوسرے سے ملنا جلنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔
تو گویا دو بالکل اجنبی لوگوں کا بیاہ رچا دیا جاتا ہے؟
ویسے اگر شادی رشتہ داری میں طے ہوتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو جانتے ہیں لیکن رشتہ طے ہو جانے کے بعد پھر ان کا ملنا جلنا بند ہو جاتا ہے۔
سوژان بولی مجھے تو یہ سب الٹا پلٹا لگتا ہے۔
جی ہاں سوژان انسان اگر آئینہ میں اپنے آپ کو بھی دیکھے تو عکس برعکس دکھائی دیتا ہے۔ دایاں ہاتھ بائیں جانب اور بایاں ہاتھ دائیں جانب۔ یہ مایا جال نظر کا فریب ہے۔ بارہا انسان کو سیدھی چیز الٹی اور الٹی چیزسیدھی دکھائی دیتی ہے۔
سوژان مسکرائی اور بولی چمیلی تم بھی رس گلّے کی طرح گول مول باتیں کرنے لگی ہو۔
اور میٹھی بھی رس گلے کی طرح چمیلی نے جملہ پورا کیا۔
سوژان بولی چھوڑو دنیا داری یہ بتاؤ کہ شادی سے قبل تم رضوان کو جانتی تھی کہ نہیں۔
میں! میں کسی قدر ان سے واقف ہو گئی تھی۔ در اصل یہ ہم دونوں کی پہلی شادی تو تھی نہیں۔ میں بیوہ تھی اور رضوان شادی شدہ۔ اس لئے بڑے احتیاط کے ساتھ نہایت راز داری میں ہمارا نکاح ہوا۔
اچھا ایسا کیوں؟ میں نے سنا ہے اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے؟
جی ہاں درست سنا ہے لیکن دین اسلام نے ہم پر جو پابندیاں لگائی ہیں ان کو ہم نے نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دی اور جو آزادیاں عطا کی ہیں ان کو ہم نے روایات کی بیڑیوں میں جکڑ دیا۔ اس لئے ایک سے زیادہ شادی کو جنوب ایشیائی ممالک میں نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پر بڑا ہنگامہ ہو جاتا ہے۔
کیسا ہنگامہ؟
چمیلی نے جواب دینے کے بجائے سوال کیا فلپائن میں ایسا نہیں ہوتا؟
نہیں، بالکل نہیں!
واقعی؟ کیا ایک سے زائد بیویاں میرا مطلب سوتنیں ایک دوسرے سے نہیں لڑتیں؟
جی نہیں اس میں لڑنے کی کیا بات ہے وہ تو سہیلیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں۔
چمیلی بولی آپ مذاق کر رہی ہیں۔
میں بھلا کیوں مذاق کروں؟ میں تمہیں ابو ظبی میں کئی ایسی فلپینی خواتین سے ملوا سکتی ہوں جن کے شوہر مشترک ہیں ان کا آپس میں کوئی جھگڑا نہیں۔
بھئی یہ تو عجیب بات ہے۔
سوژان بولی عجیب نہیں مختلف۔
چمیلی نے تائید کی۔ جی ہاں آپ کی بات درست ہے۔
ویسے یہ ایک قسم کی مجبوری ہے یہاں فلپینی مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد زیادہ ہے نیز گھروں کا کرایہ اتنا ہے کہ کئی گھر عام انسان رکھ نہیں سکتا اور تم تو جانتی ہو کہ ہمارا طرزِ زندگی تنخواہیں کم اور خرچ زیادہ ہے۔
چمیلی بولی جی ہاں جی ہاں آپ بجا فرماتی ہیں۔
اوروں کی چھوڑو اور اپنی سناو یہ بتلاؤ کہ اب تمہاری سوتن رضیہ کا کیا حال ہے؟ اس کا دماغ درست ہوا یا نہیں؟
ایسا نہیں کہتے۔ اگر اس کی جگہ میں ہوتی تو شروع میں میرا بھی وہی حال ہوتا لیکن اب رضیہ خوشحال ہے۔ ہمارے درمیان بہنوں جیسا رشتہ قائم ہو گیا ہے۔
او ہو اتنا عظیم انقلاب کیسے برپا ہو گیا؟
بس یونہی۔
لیکن کیا تم نے کبھی رضیہ سے یہ معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی؟
ایک مرتبہ جب وہ اچھے موڈ میں تھی تو فون پر میں نے یہ سوال کیا تھا؟
تو وہ کیا بولی؟
رضیہ کا جواب بڑا آسان تھا وہ بولی چمیلی جب میں نے اپنے آپ کو رضوان کی جگہ رکھ کر سوچا تو میری سمجھ میں اس کا مسئلہ آ گیا اور جب تمہاری جگہ رکھ کر سوچا تو میرے دل میں تمہارے لئے ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے
میں نہیں سمجھی؟ سوژان نے سوال کیا
میں بھی نہیں سمجھ پائی تھی لیکن خود اس نے بتایا چونکہ اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر وہ ابو ظبی میں رضوان کا خیال کرنے سے قاصر ہے۔ تو گویا میں اس کام کو یہاں کر رہی ہوں یعنی ہاتھ بٹا رہی ہوں۔
اچھا تو اس جواب کو سن کر تمہیں کیسا لگا؟
میں بتا نہیں سکتی کہ مجھے کس قدر خوشی ہوئی۔ میرے دل میں ایک احساس جرم تھا جو یکلخت کافور ہو گیا۔ میں دل کی گہرائیوں سے رضیہ کا احترام کرنے لگی۔ میں نے اس کی تمام سخت و سست باتوں کو یکسر فراموش کر دیا۔ میں نے سوچا کہ جن حالات سے رضیہ گذری ہے اگر میں گذرتی تو کیا ہوتا؟ میرے دل نے گواہی دی کہ میں بھی وہی سب کرتی جو اس نے کیا۔ مجھے اس کا رویہ نہایت معقول نظر آیا۔
اس معمولی سی بات کو سمجھنے میں تمہیں اتنا وقت کیوں لگا؟
میری غلطی یہ تھی کہ میں اس کے مسائل کو اپنی نظرسے دیکھ رہی تھی اور سمجھ نہیں پا رہی تھی لیکن جب میں نے اس کی نگاہوں سے دیکھا تو ساری بات نہایت آسانی سے سمجھ میں آ گئی اور اس کے بعد جب میں نے رضیہ کی کشادہ دلی دیکھی تو اس پر فریفتہ ہو گئی۔ اب وہ میری بڑی بہن ہے میں بازار میں کوئی اچھی سی چیز دیکھتی ہوں تو رضیہ کیلئے تحفہ کے طور پر خرید لیتی ہوں۔
لیکن تمہیں اس کی پسند یا ناپسند کا علم کیسے ہوتا ہے؟
میرے ساتھ رضیہ نہیں ہے مگر رضوان تو ہے جو اس کی ہر پسند و ناپسند سے واقف ہے۔ میں رضوان سے پتہ لگا کر رضیہ کے پسندیدہ تحفے تحائف آنے جانے والے سے بھجوا دیتی ہوں اور وہ بھی میرے لئے کچھ نہ کچھ روانہ کرتی رہتی ہے۔ اس لین دین نے ہماری محبت میں اضافہ کر دیا ہے۔
درمیان میں سوژان نے جماہی لی تو چمیلی بولی آپ بور ہو رہی ہیں؟
نہیں ایسی بات نہیں وہ در اصل چار بجنے والے ہیں اور تم تو جانتی ہی ہو؟
جی ہاں باتوں باتوں میں بھول ہی گئی تھی۔ میں آپ کے لئے چائے لے کر آتی ہوں اور باورچی خانے کی جانب چل پڑی سوژان نے ٹیلی ویژن چلا دیا اور چینل گردانی کرنے لگی۔ ڈسکوری چینل پر خفجی ریفائنری کے متعلق ایک ڈاکیومینٹری نشر ہو رہی تھی انٹرویو لینے والا ایک افسر سے وجہ تسمیہ دریافت کر رہا تھا۔ اس پلانٹ کا نام جوائنٹ آپریشن کیوں رکھا گیا؟
افسر نے کہا اس کی اپنی تاریخ ہے تیل کا ایک کنواں سعودی عرب اور کویت کی سرحد پر واقع ہے کسی زمانے میں اس پر دونوں ممالک نے بیک وقت اپنا دعویٰ پیش کر دیا اور بہت بڑا تنازع کھڑاہو گیا۔ بڑے بڑے سیاسی اور جنگی مبصرین طرح طرح کی پیش گوئیاں کرنے لگے۔ کچھ ماہرین نے رائے دی کہ متعلقہ ممالک اپنی سرحدوں سے ترچھے سوراخ کر کے اس کنویں سے زیادہ سے زیادہ تیل نکال سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا ہوبھی جائے تب بھی تنازع ختم نہ ہوتا تھا۔
ایک دوست نما دشمن ملک نے دھمکی دی ہے کہ اگر یہ دوسرے کو دے دیا جائے تو وہ خاموش نہیں بیٹھے گا۔ کسی نے افواہ اڑائی کہ ایک ملک کے لوگ کنواں گنوا دینے کی صورت میں اس میں آگ لگانے سے بھی پس و پیش نہیں کریں گے گویا جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی رہیں۔ اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے رہے ٹیلی ویژن کے ذریعہ فضائی آلودگی کا اہتمام ہوتا رہا اور مسئلہ حل ہونے بجائے دن بدن الجھتا رہا۔ اس لئے کہ کنوئیں سے تیل نکالنے کے بعد اسے قابل استعمال بنانے کے لئے اتنی بڑی ریفائنری درکار تھی لیکن تیل کے کنویں میں آگ لگانے کی خاطر صرف ایک تیلی کافی ہوتی ہے۔
یہ خبریں جس وقت گرم تھیں اچانک دونوں ملک کے سربراہان کی ایک اجلاس ہوا اور اس کے اعلامیہ نے ساری دنیا کو چونکا دیا۔ اعلان یہ تھا کہ سرحد کے اس علاقے میں ایک مشترکہ ریفائنری قائم کی جائے گی اور اس سے نکلنے والے تیل کو دونوں ممالک آپس میں تقسیم کر لیں گے۔ اس فیصلے کے بعد آپس کا تنازع اشتراک میں بدل گیا۔ ٹی وی کے اسکرین پر خفجی ریفائنری سے نکلنے والے تیل سے دونوں ممالک کو ہونے والے فائدے کے اعداد و شمار دکھلائے جا رہے تھے اور چمیلی چائے کی کشتی میز پر رکھ رہی تھی۔ سوژان خفجی کے بجائے رضوان نیز سعودی عرب اور کویت کی جگہ رضیہ سلطانہ اور چمیلی کو رکھ کر چائے نوش فرما رہی تھی۔
اس گفتگو میں نہ جانے کیسے مرکزی حیثیت چمیلی کے بجائے رضیہ کو حاصل ہو گئی تھی۔ اس دوران سوژان نے رضیہ سلطانہ کے بارے میں تو بہت ساری معلومات حاصل کر لی تھی مگر چمیلی کی بابت مکمل تاریکی میں تھی۔ وہ بولی رضیہ کو چھوڑو اس سے میرا کیا لینا دینا؟ اپنے بارے میں بتاؤ۔ میں اپنی سہیلی چمیلی کی بابت جاننا چاہتی ہوں۔
میرے بارے میں آپ جان کر کیا کریں گی؟ میری زندگی ایک عام لڑکی کی مانند گذر رہی تھی کہ اس میں سوژالی نام کا ایک زلزلہ آ گیا اور پھر سب کچھ بدل گیا۔ سوژالی کے بغیر میری داستانِ حیات نامکمل ہے۔
سوژالی؟ یہ کون ہے؟ اس کا ذکر تو تم نے کبھی نہیں کیا اور ویسے بھی یہ ہمارے علاقے کا نام ہے۔ مشرق بعید کے ممالک ملیشیا اور انڈونیشیا میں یہ بہت عام ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں سوژالی کے بارے میں بھی جاننا چاہتی ہوں بشرطیکہ تمہیں اعتراض نہ ہو ورنہ کوئی بات نہیں۔
چمیلی بولی نہیں سوژان اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے؟ میری زندگی کے اس باب سے خود رضوان بھی واقف نہیں ہے لیکن چونکہ اب تم میری بہن ہو اس لئے میں اس راز میں تمہیں ضرور شریک کروں گی۔
سوژان کی آنکھوں میں تارے چمکنے لگے اس نے زبان سے کچھ نہ کہا ایک ٹک چمیلی کو دیکھتی رہی۔
چمیلی عجیب و غریب تذبذب کا شکار دیر تک دور خلاؤں میں گم ہو گئی پھر اپنی جگہ سے کسی بت کی طرح اٹھی ایک بے جان مجسمہ کی مانند بھاری قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب چل پڑی۔ سوژان بھی خاموشی کے ساتھ اس کے پیچھے رواں دواں تھی۔ چمیلی نے صندوق کھول کر اس میں سے ایک ریشم کی خوبصورت سی تھیلی نکالی اور تھیلی میں ہاتھ ڈال کر ایک ڈائری برآمد کی۔ یہ تھیلی تازہ چمیلی کے پھولوں سے بھری ہوئی تھی۔ چمیلی نے اس ڈائری کو اپنے آنکھ کا بوسہ دیا۔ اور واپس مڑی تو سامنے سوژان نے آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کیا اور واپس لوٹ گئی الفاظ کے پرندے دور فضاؤں میں معدوم ہو چکے تھے زبانیں گنگ تھیں اس کے باوجود ساری کائنات میں سوژالی سوژالی کی صدائیں گونج رہی تھیں۔
چمیلی کے ہونٹ کانپ رہے تھے سوژان کی پلکیں نمناک تھیں۔ چمیلی کے پھول بکھرے ہوئے تھے سارا ماحول معطر تھا۔ یہ پھول اپنی شاخ سے جدا ہو جانے کے باوجود کس قدر تر و تازہ تھے۔ ایسے تو وہ اپنی شاخوں پر بھی نہ تھے۔ یہ حقیقت تھی یا احساس تھا۔ چمیلی کے لئے حقیقت اور سوژان کے لئے احساس نیز ساری دنیا کے لئے ایک گمان! فقط۔ وہم و گمان۔
چمیلی نے سوژان کو جو ڈائری دی تھی وہ در اصل ڈاکٹر انتخاب عالم کی جزوی آپ بیتی تھی۔ یہ ڈاکٹر عالم کی زندگی کا وہ باب تھا جو آنند بن میں کھلا اور وہیں بند ہو گیا۔ چمیلی کی شادی کے موقع پر یہ انتخاب کا تحفہ تھا جس کا آغاز ایک دلچسپ رودادِ سفر سے ہوتا تھا۔
٭٭٭