رضوان اور چمیلی باغ کے ایک طرف بیٹھ کر سمندر کی ہواؤں سے لطف اندوز ہونے لگے رضوان نے کہا چلو یہ مرغی کھاتے ہیں ورنہ ٹھنڈی ہو جائے گی تو مزہ نہیں آئے گا۔ چمیلی نے کہا ہاں اور اگر یہ کوکا کولا گرم ہو جائے گا تو اس کا بھی مزہ ختم ہو جائے گا۔
رضوان بولا عجیب بات ہے ایک کا مزہ ٹھنڈا ہونے سے خراب ہوتا ہے تو دوسرے کا گرم ہو جانے سے مگر یہ دونوں ٹھنڈی اور گرم چیزیں ایک دوسرے کے مزہ دو بالا کرتی ہیں۔
قدرت کا یہ انوکھا نظام ہے متضاد صفات کی مطابقت کا یہ کیا خوب انتظام ہے۔ چمیلی نے مرغی کھاتے ہوئے پوچھا آپ نے مجھے غضنفر سے پہلی ملاقات کے بارے میں تو بتایا تھا لیکن بات ادھوری رہ گئی تھی آخر یہاں بیلجیم کے سفارتخانے میں آپ دونوں ایک ساتھ کیسے ہو گئے؟
ہوا یوں کہ جب ہمارا ہوٹل بند ہو گیا تو ہمارے ارباب نے مجھے بلا کر کہا اب میں تمہیں اپنے یہاں ملازمت پر نہیں رکھ سکتا۔ تم واپس چلے جاؤ میں تمہارا ٹکٹ بنا دیتا ہوں یہ سنتے یہ میرے پیر کے نیچے سے زمین کھسک گئی۔ گاؤں کی زمین اور سلطانہ کے گہنے گروی رکھ کر ویزہ خریدا گیا تھا اور ابھی یہ قرض ادا بھی نہیں ہوا تھا کہ واپس جانے کی باری آ گئی ایسی صورتحال میں حواس باختہ ہو کر میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے ایک بنگلہ دیشی ویٹر سے پوچھا جو میری طرح بے روزگار ہو چکا تھا کہ اب وہ کیا کرے گا؟ کیا وہ بھی واپس چلا جائے گا؟ اس نے نہایت بے پرواہی سے کہا کہ وہ واپس نہیں جائے گا۔ اس ملازمت سے پہلے وہ یہاں گاڑیاں دھونے کا کام کرتا تھا اب دو بارہ وہی کرنے لگے گا۔
آمدنی کے لحاظ سے ہوٹل کی نوکری اور گاڑیوں کا دھونا یکساں ہی ہے لیکن ہوٹل میں ٹھاٹ باٹ زیادہ ہوتی ہے بے یقینی کم ہوتی ہے اس لئے وہ ہوٹل میں آیا تھا۔ اب پھر سے اپنے پرانے دھندے میں لگ جانا کیا مشکل ہے؟
میں نے اس سے پوچھا کہ کیا وہ مجھے بھی گاڑی دھونا سکھائے گا؟
وہ بولا تم تو مذاق کرتے ہو یہ کوئی کھانا بنانے جیسا مشکل کام تھوڑے ہی ہے جو سیکھنا پڑے۔
دوسرے دن صبح وہ مجھے اپنے ساتھ لے گیا اور دن بھر مجھ سے گاڑیاں دھلواتا رہا۔ اس طرح میں ایک تربیت یافتہ کار دھونے والا بن گیا اس کے ساتھ میں نے لوگوں سے منہ لٹکا کر پوچھنا بھی سیکھ لیا اور خود کفیل ہو گیا۔
تو پھر کیا تمہاری اس کفیل سے ملاقات نہیں ہوئی؟
میرا بطاقہ (شناختی کارڈ) اسی کے پاس تھا ایک ہفتہ بعد میں اس سے ملنے گیا تو اس نے پھر پوچھا کہ کب جانا چاہتے ہو؟
میں نے بتایا کہ میں جانا نہیں چاہتا۔
وہ بولا کوئی دوسرا کام مل گیا؟
میں بولا کام تو نہیں ملا لیکن میں گاڑی دھو کر گذارا کر رہا ہوں اور یہ کام ٹھیک ٹھاک ہے اس میں کوئی مشکل نہیں ہے آمدنی بھی مناسب ہے۔
ارباب مسکرایا اس نے کہا بہت تیز آدمی ہو لیکن کیا تم جانتے ہو کہ اس طرح کام کرنا یہاں غیر قانونی ہے۔ تم میری کفالت میں کسی اور کے لئے کام نہیں کر سکتے۔
میں کسی کے لئے کام نہیں کر رہا ہوں میں صرف اپنے لئے کام کر رہا ہوں؟
وہی تو غیر قانونی ہے تم اپنے لئے بھی کام نہیں کر سکتے۔
اپنے لئے بھی نہیں؟ یہ کیسا قانون ہے؟
قانون یہ ہے کہ تم میرے ویزے پر صرف میرے لئے کام کر سکتے ہو۔ الّا یہ کہ میں تمہیں آزاد کر دوں۔ رضوان کو محسوس ہوا گویا ایک زر خرید غلام اپنے آقا سے گلو خلاصی کا خواستگار ہے۔
رضوان بولا ارباب مجھ پر رحم کیجئے میں غریب آدمی ہوں میں واپس جانا نہیں چاہتا آپ میری مدد کریں۔
ارباب کا دل پگھل گیا وہ بولا اچھا بتاؤ کیا چاہتے ہو؟
رضوان بولا یہاں رہ کر اپنی محنت سے رو زی کمانا چاہتا ہوں۔
ارباب پھرمسکرایا اس نے کہا تمہیں اجازت ملے گی تو مجھے کیا ملے گا؟
آپ کو! آپ کو کیا چاہیے؟ آپ کے پاس تو اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔
میں نے تمہیں سوال کرنے کے لئے نہیں کہا بلکہ جواب طلب کیا ہے۔
میرے پاس کیا ہے؟
تمہارے پاس زبان ہے جو بہت تیز چلتی۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ ہے اور جو نہیں ہے یہ میں تم سے زیادہ جانتا ہوں ارباب ڈانٹ کر بولا۔
رضوان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس نے کہا گستاخی معاف سرکار میں غریب آدمی ہوں آپ کو کیا دے سکتا ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں آپ کی گاڑیاں دھو دیا کروں گابس یونہی۔ میں آپ سے اس کا کوئی معاوضہ نہیں لوں گا۔
ارباب بھڑک گیا اس نے کہا میرے پاس تم جیسے دس لوگ ہیں جو میرے ویزے پر یہاں آزاد گھومتے ہیں کماتے کھاتے ہیں اگر وہ سب میری گاڑی دھونے لگے تو اس کا رنگ اڑ جائے گا۔
آپ جو چاہیں لے لیں۔
ہاں یہ سمجھداری کی بات ہے تو دیکھو وہ جو تمہارے ساتھ دوسرا باورچی تھا وہ مجھے ہر ماہ پانچ سو درہم دیتا ہے تم بھی وہی دے کر یہاں عیش کرو۔ لیکن ایک بات یاد رکھناجس ماہ یہ رقم نہیں آئے گی تم واپس جاؤ گے ٹھیک ہے؟
رضوان نے کہا جی سرکار۔ مہربانی سرکار۔ آپ کی بڑی مہربانی۔ رضوان جب واپس لوٹ رہا تھا تو اس کے دماغ میں ارباب کے الفاظ گونج رہے تھے، ’’آزاد گھومتے ہیں ‘‘ ۰۰۰۰۰ ’’جاؤ عیش کرو‘‘ ۰۰۰۰۰ ’’واپس چلے جاؤ گے ‘‘۔
چمیلی سمجھ گئی کہ اس پرائے دیس میں آزادی پانچ سو درہم ماہانہ کرائے پر حاصل کی جاتی ہے تاکہ عیش کیا جا سکے۔ اسی کے ساتھ اس کے دماغ میں یہ سوال آیا کہ آزادی اور عیش کون کرتا ہے غلام یا اس کا ارباب؟ سوال کو اس نے ذہن سے جھٹک دیا اور پوچھا ہر ماہ پندرہ سو درہم کی آمدنی میں سے پانچ سو درہم کا سودا بر انہیں لیکن کیا وہ شخص پورے دس لوگوں سے اسی طرح آزادی کا کرایہ وصول کرتا ہے؟
رضوان نے کہا ہاں وہ بہت اچھا آدمی ہے کبھی کوئی بیمار ہو جائے یا مجبوری ہو تو چھوڑ بھی دیتا ہے۔
ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کو آپ لوگ کیا کہتے ہیں؟
’’کفیل‘‘ جی ہاں اسے سب لوگ کفیل ہی کہتے ہیں حالانکہ جو لوگ اسے کفیل کہتے ہیں وہ ان کی کفالت نہیں کرتا۔ وہ سب تو خود کفیل ہوتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ ساتھ اس کی بھی کفالت کرتے ہیں۔ اپنے خود ساختہ ارباب کے لئے محنت مزدوری کر کے اس کا اور اپنا پیٹ پالتے ہیں۔
اگر ایسی ہی بات ہے تو گویا حقیقت میں کفیل کہلانے حقدار تو آپ جیسے لوگ ہوئے؟ جو اپنی اور دوسروں کی کفالت کرتے ہیں۔
عملاً تو یہی صورتحال ہے لیکن کہنے کو کچھ اور رضوان نے تائید کی۔
کیا دنیا بھر میں آزادی اسی طرح نیلام ہوتی ہے یا کرائے پر دی جاتی ہے۔
رضوان نے کہا شاید میں نے سنا ہے امریکہ میں بھی یہی ہوتا ہے وہاں آزادی کی پیشگی قیمت ارباب انفرادی طور پر تو نہیں لیکن حکومت یک مشت وصول کر لیتی ہے اور پاسپورٹ کی پیشانی پر مختلف قسم کی مہروں میں سے حسب حیثیت مہرچسپاں کر دی جاتی ہے کسی کو سرخ کارڈ تو کسی کیلئے ہرا کارڈ فراہم کر دیا جاتا ہے اور جب کسی کی وفاداری یقین کے درجات میں داخل ہو جائے تو اسے شہریت کے تمغہ سے نواز دیا جاتا ہے لیکن یہ سب غلامی کے نت نئی شکلیں ہیں جن سے انسان اپنے آپ کو بہلاتا رہتا ہے۔
مرغی اور کوکا کولا دونوں ختم ہو چکے تھے چمیلی نے ڈبہ اور کین ایک جانب حقارت سے پھینک دیا تو رضوان بولا اری بے وقوف یہ کیا کرتی ہے؟
کیوں اسے واپس کرنا پڑتا ہے کیا؟
نہیں یہ بنگلہ دیش نہیں ہے کہ جدھر چاہا کچرا پھینک دیا۔ میں اسے کچرے کے ڈبے میں ڈال کر آتا ہوں۔
چمیلی سوچنے لگی کس قدر پابندیاں ہیں؟ یہاں کچرا تک اپنی مرضی سے پھینکنے کی آزادی نہیں ہے حالانکہ اس کا کرایہ بھی وصول کیا جاتا ہے۔
رضوان واپس آیا تو چمیلی نے پوچھا۔ اچھا ایک بات بتاؤ تم نے وہ آزادی چھوڑ کر بیلجیم سفارتخانے کی غلامی کیوں اختیار کر لی؟
سچ بتاؤں رضوان نے پوچھا۔
نہیں تو کیا اب تک سب جھوٹ موٹ بول رہے تھے۔
نہیں تم یقین نہیں کرو گی؟
کروں گی اگر سچ ہو گا تو ضرور یقین کروں گی؟
تمہاری خاطر!! گاڑی دھونے کے دھندے میں آمدنی آگے چل کر بڑھ سکتی تھی کیونکہ گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا پارکنگ ملنا دشوار ہوتا جا رہا تھا لیکن اس پیشہ میں تمہیں یہاں بلا نا نا ممکن تھا۔
کیوں؟ اگر آمدنی زیادہ ہو تو بلانے میں کیا مشکل؟
یہاں گھروں کا کرایہ بہت زیادہ ہے ہم ایک کمرے میں آٹھ لوگ رہتے تھے ایسے میں تمہیں کیسے بلاتا اور کہاں رکھتا؟ اس لئے سوچا اگرچہ سفارت خانے میں تنخواہ کم بھی ہو تب بھی گھر مل جائے گا فیملی ویزا مل جائے گا۔ دو روٹی کم کھائیں گے لیکن ساتھ ساتھ مل کر کھائیں گے۔ چمیلی کے ساتھ چمیلی کی خوشبو کے ساتھ۰۰۰۰۰ کیا خیال ہے؟
رضوان تم سے دیس چھوٹ گیا لیکن شاعری نہیں چھوٹی؟ چمیلی نے ہنستے ہوئے کہا
رضوان بولا شاعری تو کب کی چھوٹ گئی تھی لیکن اب واپس آ گئی ہے میرے ساتھ بیٹھی ہے مسکرا رہی ہے دونوں ہنسنے لگے۔
سورج ڈھل چکا تھا رضوان نے غضنفر کو فون لگایا اور اس مقام کی جانب چل پڑا جہاں غضنفر نے اسے چھوڑا تھا نہ جانے کیوں سفر کا اختتام وہیں ہوتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔ شاید اس لئے کہ یہ دنیا گول ہے آدمی چل پھر کر وہیں پہونچ جاتا ہے جہاں سے چلتا ہے لیکن اگر اس سفر میں کوئی ہمسفر مل جائے توسب کچھ سہانا ہو جاتا ہے۔ جیسے رضوان اور چمیلی کا گھرسنسار۔
چمیلی کی خاطر کارنش کی سیر خوابوں کا سفر تھا واپس آنے کے بعد وہ کافی تھک چکی تھی اس لئے فوراً نیند کی آغوش میں کھو گئی لیکن رضوان کی آنکھوں سے نیند غائب تھی۔ طبعی طور پر وہ چمیلی کے قریب تھا لیکن روحانی سطح پر اپنے بستر سے ہزاروں میل دور بنگلہ دیش میں رضیہ کے ساتھ تھا۔ نہ جانے رضیہ اچانک یہاں کیسے پہنچ جاتی تھی؟ اور آس پاس منڈلاتی رہتی تھی۔
٭٭٭