بمان کے اِکّا دُکّا مسافر باہر آنے لگے تھے۔ آمد کے باپ پر منتظر غضنفر کو خیال ہوا رضوان الحق نے اس مرتبہ بھی دو مرتبہ چھٹیاں بڑھائی تھیں۔ پہلے تو یہ بات سمجھ میں آتی تھی کہ بیوی آنے نہیں دیتی اب کی بار تو وہ ساتھ آ رہی تھی پھر تاخیر کیوں ہوئی؟ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ سامنے سے رضوان کوسوٹ بوٹ میں آتا دکھائی دیا اور غضنفر حیران رہ گیا۔ رضوان ایئرپورٹ کی ٹرالی ڈھکیلتا ہوا چلا آ رہا تھا اور اس کے پیچھے پیچھے نقاب میں اس کی نئی نویلی دلہن چمیلی تھی، غضنفر آگے بڑھا رضوان سے معانقہ کیا اور الگ ہوا تو آواز آئی سلام بھائی صاحب۔
غضنفر نے جواب دیا وعلیکم السلام بھائی او ہو بھابی معاف کرنا غلطی ہو گیا، آپ کیسا ہے؟ چمیلی خاموش رہی۔
غضنفر بولا یہ آج تم کو کیا ہو گیا رضوان کوٹ پتلون کہاں سے مل گیا؟
رضوان بولا یہ تمہارا بھابی کا پسند ہے۔ اس سے پہلے ہم اپنا پسند کا کپڑا پہن کے آتا تھا ابھی اس کو ساتھ لایا تو اس کا پسند کا خیال رکھنا پڑا۔
ہاں بات در اصل یہ ہے کہ یہ ہمارا شادی کا کوٹ ہے۔ (رضوان نے اس بات کو چھپا دیا کہ یہ کوٹ چمیلی سے نہیں بلکہ رضیہ سے شادی کے وقت سلایا گیا تھا ) ہم تو اس کو بھول گیا تھا کیونکہ کبھی پہننے کا موقع نہیں ملتا تھا لیکن تمہارا بھابی نہیں بھولا سنبھال کر رکھا تھا ابھی آنے لگا تو پیٹی میں سے نکالا اور بولا یہ پہن کر ہماراساتھ چلو۔
او ہو کتنا پرانا کوٹ ہے یہ؟
کافی پرانا کوٹ ہے۔
اچھا تو اتنے سالوں میں تم بالکل نہیں بدلا اب بھی ایسا لگتا ہے جیسا تمہارے ناپ سے آج سلایا ہے۔
رضوان کو احساس ہو وہ بنگلا دیش سے امارات آ چکا ہے اپنا لہجہ بدل کر بولا۔ ہاں غضنفر جو تبدیلی انسانوں کو بدلتی ہیں وہ تبدیلیاں ہمارے آس پاس سے کٹ کر نکل جاتی ہیں اس لئے ہم پر اثر انداز نہیں ہوتیں۔
غضنفر بولا پھر وہی ہماری سمجھ میں نہیں آنے والا بات! خیر چھوڑو جلدی سے گاڑی میں بیٹھو۔ سب لوگ تمہارا انتظار دیکھتا ہے۔ کرشنن سوژان سب لوگ۔
پیچھے سے آواز آئی یہ سوژان کون ہے؟
غضنفر بولا بھابھی فکر مت کرو یہ سوژان ہمارا صاحب البرٹ کا عورت ہے۔
اچھا تو وہ ان کا انتظار کیوں کرتی ہے؟
مطلب ہم لوگ سب لوگ انتظار کرتا ہے۔ ایسا ویسا کوئی بات نہیں ہے۔ غضنفر سمجھ گیا۔ اس کا نام چمیلی ہے لیکن ہے یہ گلاب کا پھول ہے جس کے چاروں طرف کانٹے ہی کانٹے ہیں جو نہ صرف اپنے قریب آنے والے کو چبھتے ہیں بلکہ اس کے قریب رہنے والے رضوان کے پاس پھٹکنے والے کو بھی لگتے ہیں۔
ایئر پوٹ سے گھر آتے ہوئے غضنفر نے پوچھا رضوان ہر بار تو دیر سے آنے کے لئے بھابی کو ذمہ دار ٹھہراتا تھا اس بار تو ان کو اپنے ساتھ لایا ہے پھر بھی لیٹ سے آیا۔ اس کے لئے کون جوابدہ ہے۔ اپنا ذکر سن کر چمیلی بیگم کے کان کھڑے ہو گئے وہ رضوان کے جواب کی جانب متوجہ ہو گئی۔
رضوان نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا اس باربھی وہی ذمہ دار ہے۔
کیا مطلب یہ آنا نہیں چاہتی تھی اور تم کو زبردستی کرنی پڑی؟
نہیں یار ایسی بات نہیں یہ آنا تو چاہتی تھی لیکن اس کا رشتے داروں سے دل ہی نہیں بھر تا۔ وہ لوگ تو اس طرح دعوتیں دے رہے تھے کہ گویا اب یہ واپس ہی نہیں آنے والی۔ چمیلی بیگم کو رضوان کی بات اچھی نہیں لگی لیکن اس نے غصہ کا کڑوا گھونٹ پی لیا۔
غضنفر بولا یار یہ بتا تیری شادی کو کتنے سال ہو گئے ہیں۔
یہی کوئی دس سال(چمیلی کا جی چاہا کہہ دے اس کی دس سال پرانی بیوی اب بھی بنگلہ دیش ہی میں ہے لیکن وہ خاموش رہی)۔
اتنے سال گذرنے کے باوجود بھابی کا میکہ ان سے نہیں چھوٹتا؟
یار کیا بتاؤں یہ عورتیں ہمیشہ اپنی ماؤں کے بارے میں اور بیٹیوں کے بارے میں سوچتی رہتی ہیں اگر نہیں سوچتیں تو ہمارے بارے میں؟ یہ سنتے ہی چمیلی کا پارہ چڑھ گیا اب اس سے خاموش رہنا مشکل ہوا جا رہا تھا۔
اتنے میں غضنفر بولا خیر اب یہاں تو نہ میکہ ہے اور نہ سسرال سب اپنے آپ ٹھیک ہو جائے گا؟
کیا ٹھیک ہو جائے گا؟ چمیلی بیچ میں بول پڑی۔ یہ تو کہہ رہے تھے کہ آپ سمجھدار آدمی ہیں لیکن آپ کی باتوں سے تو یہ نہیں لگتا ہم اگر اپنے والدین کے بارے میں سوچتی ہیں یا اپنی اولاد کے بارے میں سوچتی ہیں تو کوئی پاپ ہے کیا؟ شادی ہو گئی تو کیا سب بھول جائیں احسان فراموش بن جائیں آپ لوگوں کی طرح کٹھور بن جائیں جو اپنے والدین کے بارے میں نہیں سوچتے اور نہ اپنے بچوں کی فکر کرتے ہیں۔
غضنفر چمیلی کو جواب سن کر ہکا بکا رہ گیا۔ پارہ چنار میں تو یہ ممکن نہیں تھا کہ مردوں کے درمیان کوئی عورت زبان کھولے لیکن یہ عورت پارہ چنار سے نہیں چٹا گانگ سے آ رہی تھی اور ساری دنیا کی عورتیں بہر حال یکساں نہیں ہوتیں۔
اپنی بیوی کا جواب سن کر رضوان جھینپ سا گیا تھا۔ وہ بولا بھائی غضنفر اپنی بھابی کی بات کا برا نہیں ماننا یہ زبان کی تیز ضرور ہے لیکن دل کی بہت اچھی ہے۔
غضنفر بولا رضوان تمہاری بات صحیح ہے دل کی باتیں تو تم ہی جانتے ہو ہم تو صرف زبان کی باتیں ہی سنتے ہیں لیکن بھابی میں نے سنا ہے کہ آپ لوگ اپنے والدین کی جس قدر خدمت کرتی ہیں ویسی ہی خدمت کرنے کی اجازت اپنے شوہر کو نہیں دیتیں۔ اگر وہ اپنے والدین کی خدمت کرتے ہیں تو ناراض ہو جاتی ہیں کیا یہ درست ہے؟
چمیلی بولی نہیں بھائی صاحب ہم اپنے والدین کی خدمت کیلئے اپنے شوہر کو زحمت نہیں دیتیں لیکن یہ ہم پر اپنے والدین کی خدمت کو لازم قرار دیتے ہیں اسی لئے جھگڑا ہو جاتا ہے۔
غضنفر سمجھ گیا یہ وہی حجت بنگال ہے جس کے آگے وہ ہمیشہ ہار جاتا ہے اس لئے اس نے ہتھیار ڈال دیئے اور بولا ہاں بھابی آپ سچ کہتی ہیں اگر مجھ سے کوئی گستاخی ہوئی ہو تو معافی چاہتا ہوں۔
نہیں بھائی تم سے کیا ناراضگی اس پردیس میں ایک تم ہی تو ہو جس کے بارے میں یہ مجھے بتاتے رہتے ہیں تم میرے بھائی بھی ہو اور دیور بھی۔ غضنفر کوا یسامحسوس ہوا اپنی چھوٹی بہن دلشاد سے بات کر رہا ہے۔ دیکھتے دیکھتے گھر آ گیا۔
کرشنن دروازے پر موجود تھا تینوں نے مل کر پلک جھپکتے سارا سامان کمرے میں پہونچا دیا۔ چمیلی کے آنے کی خوشی میں غضنفر اور کرشنن نے مل کر گھر کی خوب صفائی کی تھی اور اپنی حد تک سجاسنوار دیا تھا۔ اس کوٹھی میں چند ماہ قبل سوژان آئی تھی اور اب ملازمین کے کوارٹر میں چمیلی آ گئی۔ سب لوگ بیحد خوش تھے ایسا لگتا تھا جیسے یہ مختصر سی بے رنگ کائنات رنگین ہو گئی ہے۔ بے پرواہ لوگ بھی اچانک اپنا اور دوسروں کا خیال کرنے لگے ہیں۔ چمیلی کی آمد سے رونق آ گئی تھی۔ سامان رکھ کر جاتے ہوئے غضنفر نے رضوان سے کہا سفر تھکا دیتا ہے اس لیے نماز میں بھی سہولت اب آپ لوگ آرام کرو۔ میں شام کے وقت آپ دونوں کو کارنش لے کر جاؤں گا۔
غضنفر کے چلے جانے کے بعد چمیلی نے پوچھا یہ کہاں لے جانے کی بات کر رہا تھا؟
رضوان بولا کارنش۔
کارنش؟ یہ کارنش کیا ہوتا ہے۔؟ ایک پرا نا سوال پھر نیا ہو گیا۔
وہی ساحل، سمندر کا ساحل۔
اچھا سمندر کا ساحل وہی پانی وہی ریت جو ہمارے چٹاگانگ میں ہوتی ہے۔
رضوان بولا ہاں پانی تو وہی ہے لیکن یہاں پانی کے کنارے ریت نہیں پتھ رہوتے ہیں۔
کیا سمندر کے کنارے ریت نہیں ہوتی تو پھر کہاں ہوتی ہے؟
جہاں ہمارے یہاں پتھر ہوتے ہیں۔
کیا مطلب؟
ہمارے یہاں سمندر سے دور میدانوں میں پہاڑ ہوتے ہیں پتھر ہوتے ہیں۔ یہاں میدانوں میں ریت ہوتی ہے۔
لیکن ہمیں تو پڑھایا گیا تھا کہ سمندر چٹانوں کو پیس کر ریت بناتا ہے۔
جی ہاں صحیح پڑھایا گیا تھا لیکن کیا یہ نہیں پڑھا سمندر اپنا ساحل بدلتا ہے؟ ہو سکتا ہے آج جہاں صحرا ہو پہلے کبھی وہاں سمندر رہا ہو اور آج جہاں سمندر ہو پہلے وہاں پہاڑ رہے ہوں کون جانے؟
لیکن میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ سمندر اور ساحل ہمیشہ ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ رضوان نے تائید کی جی ہاں جیسے میں اور تم۔
ابو ظبی کے کارنش کی طرح تم میری ساحل ہوں۔
چمیلی بولی اور تم میرے سمندرہو۔
لیکن بنگلہ دیش؟ جہاں تمہارا میکہ ہے؟ رضوان نے چھیڑا۔
وہ صحرا ہے۔ چمیلی نے ہنستے ہوئے جواب دیا لق و دق صحرا۔ رضوان خوش ہو گیا۔
شام میں رضوان اور چمیلی تیار ہو کر غضنفر کی گاڑی میں بیٹھ گئے۔ غضنفر نے راستہ میں گاڑی رو کی تو رضوان بولا ارے بھائی یہ کیا تم بیچ میں ہی اتار دو گے ہم دونوں کو؟
غضنفر بولا نہیں ذرا صبر کرو میں آتا ہوں۔ یہ کہہ کر چلا گیا۔ اور کے ایف سی سے ان دونوں کے لئے تلی ہوئی مرغی اور کوکا کولا لے آیا۔
چمیلی نے کہا ارے بھائی صاحب اس کی کیا ضرورت تھی ہمیں تو ابھی بھوک بھی نہیں لگی اور سمندر کے ساحل پر تو۔۔ ۔۔
رضوان نے ٹوکا خاموش رہو یہ چٹاگانگ کا ساحل نہیں ہے یہاں سمندر کے کنارے بھیل پوری، چاٹ اور گنڈیریاں بیچنے والے نہیں پائے جاتے۔ چمیلی جھینپ گئی۔
غضنفر نے کہا۔ یار اس طرح کی ڈانٹ ڈپٹ ٹھیک نہیں ہے وہ بے چاری پہلی بار جا رہی ہے۔ نہیں جانتی کہ یہاں کیا ہے کیا نہیں ہے؟
میں جانتا ہوں کہ وہ نہیں جانتی لیکن وہ نہیں جانتی کہ وہ واقعی نہیں جانتی۔
پیچھے سے آواز آئی نہیں میں بھی جانتی ہوں کہ میں نہیں جانتی۔
اگر واقعی نہیں جانتی تو خاموش بیٹھی رہو کیا سمجھیں؟ رضوان نے رعب ڈالنے کے انداز میں کہا چمیلی خاموش ہو گئی کارنش پہونچ کر ایک سنسان مقام پر جہاں زیادہ تر خاندان مختلف گروہوں میں بیٹھے ہوئے تھے غضنفر نے انہیں اتار دیا اور کہا کہ رضوان آپ لوگوں کو جب واپس جانا ہو گا مجھے فون کر دینا میں یہیں سے واپس لے جاؤں گا۔
ارے بھائی صاحب آپ اس میں سے کچھ کھا کر تو جائیے۔
نہیں بھا بی مجھے ابھی بھوک نہیں ہے یہ کہہ کر غضنفر چلا گیا۔
٭٭٭