دوسرے دن قاضی شہر کے دفتر میں جاتے ہوئے نازنین بولی ان عربوں کے پاس کوئی کام تو ہوتا نہیں ہے بلاوجہ اس ذرا سے کام پر دنیا بھر کا وقت ضائع کرتے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں ہندوستان ہی اچھا ہے کہ جہاں یہ سب جھٹ پٹ ہو جاتا ہے۔
ناظم نے کہا ایسا نہیں ہے نازنین ہمارے یہاں لوگ شادی سے قبل بے شمار وقت ضائع کرتے ہیں یہاں جھٹ منگنی پٹ شادی ہو جاتی ہے۔ ہمارے یہاں جھٹ پٹ نکاح ٹوٹ جاتا ہے مگر یہ لوگ اس مرحلے میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے ہیں بات ایک ہی ہے کوئی پہلے تو بعد میں سنجیدہ ہوتا ہے۔
نازنین نے کہا پہلے والی بات تو سمجھ میں آتی ہے ایک رشتہ قائم کرنے سے قبل سوچ سمجھ لینا چاہیے لیکن توڑنے سے پہلے یہ سوچ بچار سمجھ میں نہیں آتا۔
ان کا خیال ہے کہ رشتہ نہیں ہوتا تو کوئی ذمہ داری بھی نہیں ہوتی لیکن جب لوگ ایک رشتے میں بندھ جائیں۔ ان کے درمیان جذباتی وہ روحانی وابستگی ہو جائے تو پھر انسان کو سوچ سمجھ کر کوئی فیصلہ کرنا پڑتا ہے۔
اچھا یہ جذباتی اور روحانی وابستگی کیا ہوتی ہے؟
میں بھی نہیں جانتا لیکن سنتا ہوں زن و شو کے درمیان ہو جاتی ہے۔
مجھے تو یہ کوئی نفسیاتی مرض لگتا ہے۔
کون جانے؟ ؟ ؟ ہو سکتا ہے۔
قاضی کے شاندار دفتر نے نازنین اور ناظم پر ہیبت طاری کر دی۔ قاضی کے کئی نائب مختلف زبانیں بولتے تھے اور حسبِ ضرورت ترجمہ بھی کرتے تھے۔
قاضی صاحب نے ناظم سے تنہائی میں دریافت کیا۔ آپ کیوں طلاق دینا چاہتے ہو؟
مجھے اس میں کوئی رغبت نہیں محسوس ہوتی۔
تو کیا تم اس سے نفرت کرتے ہو۔
جی نہیں ایسا نہیں ہے
یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ روز ساتھ رہتے رہتے رغبت پیدا ہو جائے۔
میرا خیال ہے کہ رغبت تو نہیں پیدا ہو گئی ہاں نفرت ضرور پیدا ہو جائے گی۔ اس لیے میں اس مرحلے سے قبل ہی اپنا راستہ بدل دینا چاہتا ہوں۔
اس کے معنی ہیں کہ تم نہ اپنی زوجہ سے نفرت کرتے ہو نہ آگے چل کر نفرت کرنا چاہتے ہو؟
جی ہاں چونکہ وہ میرے والد کا انتخاب ہے، اس سے نفرت کرنا میرے نزدیک ان کی توہین ہے۔
اس کے بعد ناظم کو کمرے ساے باہر بھیج کر نازنین کو بلوایا گیا۔ قاضی صاحب اس سے مخاطب ہوئے۔ آپ ناظم سے علیٰحدہ ہونا چاہتی ہیں۔
جی ہاں
اس کی کوئی خاص وجہ؟
اس کے اندر نہ میری طلب اور نہ اس کے نزدیک میری وقعت ہے۔
تو آپ اس کے بعد کیا کریں گی؟
میں اس کا گھر بساوں گی جو میری قدر و قیمت جانتا ہو اور مجھ سے محبت کرتا ہو۔
اچھا تو آپ کسی اور سے محبت کرتی ہیں؟
جی نہیں شادی سے پہلے کرتی تھی۔
تو کیا وہ آپ سے نکاح کر لے گا؟
میں نہیں جانتی شادی کے بعد میں نے اس سے رابطہ نہیں کیا۔
ایسا کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
آپ کیسا سوال کر رہے ہیں قاضی صاحب؟ میں ناظم کے نکاح میں ہوتے ہوئے یہ گناہ عظیم کیسے کر سکتی ہوں؟
لیکن اس نئی صورتحال میں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انکار کر دے؟
جی ہاں اس کا امکان تو ہے لیکن یہی تو محبت کا امتحان ہے اگر وہ اس میں ناکام ہو جائے تو میری محبت کا حقدار نہیں ہو سکتا۔ میں اس کو بھول جاؤں گی۔
اب جبکہ آپ نے الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اس شخص سے اس بابت یقین دہانی حاصل کرنا کیوں ضروری نہیں سمجھتیں؟
دیکھیے میرے اس فیصلے میں اور اُس فرد کے فیصلے میں کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ ہاں کہے یا نہ کرے مجھے تو ناظم سے الگ ہونا ہی ہے؟
میں آپ کی دلآزاری نہیں کرنا چاہتا لیکن کیا یہ پوچھ سکتا ہوں کہ اگر وہ انکار کر دے تو آپ کہاں جائیں گی؟
جہاں میرا رزق لکھا ہے وہاں چلی جاؤں گی۔
کیا آپ میکے نہیں جا سکتیں؟
جی نہیں۔ میں اپنے والدین کو غمگین کرنا نہیں چاہتی۔
قاضی صاحب نے کہا۔ میں آپ لوگوں سے اس توقع کے پیش نظر گفتگو کر رہا تھا کہ موقع نکال کرسمجھانے بجھانے کی سعی کروں گالیکن کامیاب نہیں ہو سکا۔ ہمارے ضابطے کے مطابق جو مشترکہ نشست ضروری ہوتی ہے۔ عام طور پر اس کی نوبت کئی ہفتوں کے بعد آتی ہے لیکن وہ آج ہی ہو جائے گی۔ آپ کچھ دیر انتظار کریں اور پھر میں دوبارہ زحمت دوں گا۔
نازنین شکریہ ادا کر کے باہر آ گئی اور وہاں ناظم سامانِ ضیافت سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ نازنین بولی بہت خوب آپ توبہت خوش نظر آ رہے ہیں؟
ناظم بولا یہ اہتمام دار الشریعہ کی جانب سے ہے۔ پہلے تو یہ لوگ صرف ٹھنڈے مشروبات سے میزبانی کر رہے تھے مگر میں نے کہا بھائی کچھ گرم گرم لاؤ مجھے بھوک لگ رہی ہے۔ اس کے بعد یہ انتظام کیا گیا۔
بہت خوب۔ دعوت اڑائی جائے میری نیک خواہشات آپ کے ساتھ ہیں۔
جی نہیں آپ کے لیے بھی ہے۔ جب میں نے پوچھا اتنا سارا کیوں لے آئے ہو تو مجھے بتایا گیا یہ دو لوگوں کے لیے ہے یعنی میرے اور آپ کے لیے۔
اچھا اگر ایسا ہے تو میرے باہر آنے کا انتظار بھی تو کر سکتے تھے؟
جی ہاں پہلے میں نے یہی سوچا تھا لیکن پھر خیال آیا کہ نہ جانے آپ کو قاضی صاحب کو سمجھانے میں کتنا وقت لگے اور یہ سب بھی ہمارے ازدواجی رشتے کی مانند سرد ہو جائے اس لیے شروع کر دیا لیکن آپ تو کمال سرعت سے واپس آ گئیں۔
نازنین نے کاغذ کی طشتری میں سموسا لیتے ہوئے کہا آپ تو جانتے ہیں کہ میں ہر کام بڑی پھرتی سے کرتی ہوں؟ ویسے آپ بھی اس معاملے میں مجھ سے بھی تیز نکلے۔
اچھا خیر اب قاضی صاحب کا کیا حکم ہے؟
قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ وہ اپنے آخری فیصلے سے قبل ہم دونوں کے ساتھ ایک مشترکہ نشست کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن فیصلہ تو ہم لوگ کر ہی چکے ہیں اب اس ناٹک کا کیا فائدہ؟
سوال فائدے کا نہیں ضابطے کا ہے۔ یہ ان کا ضابطہ ہے اس کے بغیر وہ ہم لوگوں کو ضروری کاغذات نہیں دے سکتے؟
لیکن میں یہ سوچ رہا تھا کہ آخر ان کاغذات کی عدم موجودگی سے کیا فرق پڑتا ہے؟
میں نے بھی یہی سوچتی تھی کہ کیا زبانی جمع خرچ کافی نہیں ہے؟
اچھا تو آپ کس نتیجے پر پہنچیں؟
میرا یہ خیال ہے کہ وہ لازمی ہیں۔
کیوں؟
اس لیے کہ اب قانونی طور سے میں آپ کی کفالت میں ہوں۔ ان کاغذات کے بعد میں خود کفیل ہو جاؤں گی۔
جی ہاں ناظم قہقہہ لگا کر بولا خود ۰۰۰۰کفیل ہو جاؤ گی اور جب میں یہاں سے خروج کروں گا تو یہ لوگ مجھ سے نہیں کہیں گے اپنی بیوی کو کیوں چھوڑے جا رہے ہو ان کو بھی ساتھ لیتے جاؤ۔
نازنین اور ناظم بھاری بھرکم ناشتے سے فارغ ہو کر چائے نوش فرما رہے تھے کہ پھر سے قاضی صاحب کا بلاوہ آ گیا۔ دونوں لوگ اندر گئے تو قاضی صاحب نے کہا کہ مجھے خوشی ہے بغیر کسی شکوہ شکایت یا ناچاقی کے آپ لوگوں نے یہ جرأت مندانہ فیصلہ کر لیا۔ لیکن اگر آپ لوگ اجازت دیں تو ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں۔
دونوں نے ناگواری کے ساتھ بیزاری سے کہا فرمائیے۔
قاضی صاحب ناظم سے مخاطب ہو کر بولے میری گزارش یہ ہے کہ آپ انہیں تین کے بجائے صرف ایک طلاق دیں۔
ایک کیوں؟ ہم لوگوں نے علیٰحدگی کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔
مجھے پتہ ہے لیکن اس ایک طلاق کے بعد بھی آپ لوگوں میں علیٰحدگی تو بہر حال ہو جائے گی۔
لیکن اس کا کیا فائدہ؟ یہ نازنین کا سوال تھا۔
فائدے کئی ہیں۔ اول تو قرآنی طریقہ ہے اس لیے آپ لوگوں کو شریعت پر عمل کرنے کا ثواب ملے گا اور۰۰۰۰۰۰۰
اور کیا قاضی صاحب۔ ناظم نے سوال کیا۔
اور یہ کہ اگر آگے چل کر آپ لوگوں کا ارادہ بدلے تو دوبارہ ساتھ ہو جانے کا موقع رہے گا ورنہ تو ہمیشہ کی جدائی ہو جائے گی۔ آپ لوگ پھر کبھی نہیں مل سکیں گے۔
ناظم کو جبل نور کی گفتگو یاد آ گئی۔ اس نے استفہامیہ انداز میں نازنین کی جانب دیکھا کہ شاید اس نے قاضی صاحب کو بتا دیا ہو۔ نازنین نے کہا لیکن ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ناظم نے پوچھا قاضی صاحب غالباً شریعت کا یہ فیصلہ دنیا کی حد تک ہے۔
جی ہاں۔ شریعت کے سارے فیصلے دنیا کی حد تک ہوتے ہیں۔ ان اجر و ثواب آخرت میں ملتا ہے۔
تب تو ٹھیک ہے۔ قاضی صاحب کی سمجھ میں یہ سوال نہیں آیا لیکن انہوں نے وضاحت چاہنا ضروری نہیں سمجھا۔ نائب قاضی نے ایک فائل اٹھائی جس میں دو کاغذات تھے۔ انہوں نے پہلے کو پھاڑ کر کوڑے دان کی نذر کیا اور دوسرے پر دونوں کے دستخط لینے کے بعد اس کی دو نقول بنوائیں۔ ایک اپنے پاس رکھی اور ایک ایک دونوں تھما دیں۔
نازنین نے قاضی صاحب کا شکریہ ادا کیا اور اصلی کاغذ لے کر باہر نکل گئی۔ ناظم کے قاضی صاحب سے مصافحہ کرنے بعد اپنی نقل اٹھائی۔ اسے اپنے بیگ میں رکھا اور باہر آیا تو نازنین جا چکی تھی۔ اطمینان کا سانس لے کر ناظم نے بھی لفٹ کا بٹن دبا دیا۔ وہ جانتا تھا کہ اب یہ لفٹ نازنین کو الوداع کر کے ہی لوٹے گی۔ ناظم یہی چاہتا تھا اور نازنین بھی۔
غضنفر نے جریدہ بند کر کے کہا ہش تیری؟ یہ کیا ہو گیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ دیکھ کر پاس بیٹھے پٹھان نے کہا آپ روتی ہے۔ پٹھان ہو کر آپ روتی ہے۔
غضنفر نے سوچا یہ نیا آیا ہے مذکر اور مونث کا فرق نہیں جانتا اس لیے اسی کے انداز میں گفتگو کرنے لگا۔ وہ بولا ہم پٹھان ہے جنگ کے میدان میں نہیں روتی مگر یہ کہانی پڑھے گی تو تم بھی روئے گی۔
ہم صرف اخبار پڑھتی ہے قصہ کہانی نہیں پڑھتی یہ تو ہم اپنے مالک کے لیے لایا جو قطر سے آ رہا ہے۔ وہ پنجابی ہے اور اس کا دیوانہ ہے۔ وہ پڑھتے ہوئے کبھی ہنستا ہے تو کبھی روتا ہے۔ ہم کو تو پاگل لگتا ہے۔
ہم کوتو تم بھی پاگل لگتا ہے لیکن یہ بتاؤ وہ بنگلہ دیش کا جہاز کا کوئی خبر بتایا کہ نہیں؟
اس نوجوان نے مذاق میں کہا۔ ارے بھائی اس کو تو آدھا گھنٹہ ہو گیا تمہارا مالک باہر تم کو گالی نکال رہا ہو گا۔
لیکن غضنفر نے اس کو سمجھ لیا اور ہمارا مالک نہیں دوست آ رہا ہے۔
پٹھان نوجوان ہنس کر بولا اچھا تب تو وہ تم کو گالی بھی دے گا اور مارے گا بھی۔ جاؤ بھاگو جلدی سے۔
غضنفر چلتے ہوئے ہنس کر بولا وہ پٹھان نہیں بنگالی ہے۔
٭٭٭