اس گفت و شنید کے بعد نازنین اور ناظم بے حد خوش تھے دونوں کوا پنی منزل سامنے نظر آ رہی تھی۔ درمیان کی ساری رکاوٹیں دور ہو چکی تھیں بس ایک مقدس سفر درمیان میں تھا۔ سعی اور طواف کے دوران دونوں کی زبان و دل پر ایک ہی دعا تھی کہ یہاں سے واپسی کے بعد والے منصوبے میں کوئی رخنہ نہ آئے۔
عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد معلم نے بتایا کہ اگلے دن صبح ۸ بجے ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ایک بس زیارت مکہ کے لیے روانہ ہو گی۔ جن خواتین و حضرات کو دلچسپی ہو وہ اس مقدس سفر میں شامل ہو جائیں۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ساتھ چلنے کا عندیہ دے دیا۔
اس مختصر سے سفر کا آغاز غار حرا سے ہوا۔ بس نیچے ٹھہر گئی اور معلم کے نائب نے اعلان کیا جن لوگوں کو اوپر چلنے میں دلچسپی ہو میرے ساتھ چلیں اور جنہیں رکنا ہو بس میں انتظار کریں۔ ناظم نے نازنین کی جانب دیکھا۔ اس میں ہمت نہیں تھی اس لیے اکیلے اتر کر چل پڑا۔ وہ اس مقام کو دیکھنا چاہتا تھا جہاں نبی کریمؐ کو رسالت کی بشارت دی گئی تھی۔ جہاں پہلی بار ان کی ملاقات روح الامین سے ہوئی تھی اور اللہ کے نام سے نورِ ہدایت کے نزول کا آغاز ہوا تھا۔
غارِ حرا کے اندر سے جب وہ باہر آیا تو نازنین کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔ اس نے سوال کیا آپ نے تو منع کر دیا تھا؟
جی ہاں لیکن نائب معلم نے جب بس میں بتایا کہ ہماری ماں بی بی خدیجہؓ ۵۵ سال کی عمر نبی کریمؐ کے پاس ان کے لیے ستو اور پانی لے کر جایا کرتی تھیں تو یہ سن کر مجھے بہت شرم آئی اور میں بھی آ گئی۔
ناظم بولا بہت خوب چلو میرے ساتھ اس پر نور وادی میں چلو جہاں سے پھوٹنے والا ہدایت کا سرچشمہ قیامت تک خشک نہیں ہو گا۔
واپسی میں نازنین نے پوچھا لیکن زم زم تو کہیں نظر نہیں آیا۔
زم زم یہاں کہاں۔ وہ صفا اور مروہ کے درمیان ہے۔
لیکن آپ تو کہہ رہے کہ قیامت خشک نہ ہونے والا چشمہ۰۰۰۰
او ہو میں پانی کا نہیں ہدایت کے چشمے کی بات کر رہا تھا۔
اس کے بعد معلم ان لوگوں کو مکہ مکرمہ کے مختلف تاریخی مقامات دکھلاتا رہا اور آخر میں اعلان کیا کہ آج بہت تاخیر ہو گئی اس لیے ہم لوگ منیٰ، عرفات اور جبل نور نہیں جا سکیں گے۔ کل صبح ۸ بجے وہاں کے لیے روانگی ہے لیکن یاد رہے کل شام ہم سب کو لوٹ کر جدہ جانا ہے تاکہ دبئی کی فلائیٹ لے سکیں۔ نازنین اور ناظم نے پھر ایک بار ایک دوسرے کو دیکھا اور تائید کر دی۔
منیٰ کا میدان ویران و سنسان تھا۔ حاجیوں کے خیمے اپنے مکینوں کی منتظر تھیں۔ عرفات کا میدان میدانِ محشر کا منظر پیش کر رہا تھا اور وہاں سے گذر کر ان کی بس جبل نور پہنچ گئی۔ سارے مسافر اتر گئے اور خراماں خراماں جبل نور کی سیڑھیوں پر چلنے لگے۔
جبل نور کے دو بڑے پتھروں پر بیٹھ کر وہ دونوں خلاء میں دیکھ رہے تھے۔ نازنین اپنے تابناک ماضی کو دیکھ رہی تھی جہاں ہر طرف نور ہی نور تھا اور ناظم اپنے تاریک مستقبل کو دیکھ رہا تھا جہاں ہر سوتاریکی ہی تاریکی تھی۔ یہ عجب احساس تھا جو ان دونوں پر از خود طاری ہو گیا تھا۔
اس دوران معلم خود بھی اوپر پہنچ گیا اب وہ اس پہاڑ کے متعلق مصدقہ اور غیر مصدقہ روایات سنارہا تھا۔ بس کے سارے مسافراس کی بات کو غور سے سن رہے تھے۔ جب اس نے یہ کہا کہ راوی کہتا ہے جنت میں ایک دوسرے سے بچھڑنے کے بعد بابا آدمؑ اور مائی حوّا کی ملاقات دنیا میں اسی مقام پر ہوئی تھی تو ناظم چونک پڑا۔
معلم نے آگے کہا اسی لیے اس کو مقام وصل بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں جو لوگ ساتھ رہنے کی دعا کرتے ہیں وہ کبھی نہیں بچھڑتے۔ یہ کہہ کر معلم نے بہ آوازِ بلند دعا کرنے کے لیے ہاتھ اٹھا دیئے۔
سارے لوگوں کے ہاتھ اٹھے ہوئے تھے اور زبان پر آمین کا ورد جاری تھی لیکن چار ہاتھ اپنی جگہ شل ہو چکے اور تھے اور دو زبانیں بے حس حرکت تھیں۔ نازنین اور ناظم نے ایک دوسرے کی اس کیفیت کو دیکھا تو انہیں یک گونہ سکون ہوا۔ وہ دونوں اپنی جگہ سے اٹھے اور کچھ دور ایک چٹان پر جا کر بیٹھ گئے۔
نازنین بولی یہ معلم غلط کہتا ہے۔ ہمارے لئے تو یہ مقام فراق ہے۔
ناظم نے تائید میں کہا آپ درست کہتی ہیں۔ ہم لوگ یہاں دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔
لیکن یہ پہاڑ تو گواہی دیتے ہیں کہ بچھڑنے والے ایک دن ایک دوسرے سے مل بھی سکتے ہیں۔
جی ہاں لیکن انہیں ملنے کیلئے بچھڑنا بھی تو پڑتا ہے۔
نازنین نے لرزتے لبوں سے سوال کیا تو کیا ہم لوگ بھی ایک دوسرے سے کبھی مل سکیں گے؟
ہو سکتا ہے لیکن یہ نہ بھولو کہ آسمان پر بچھڑنے والوں کو ملنے کیلئے زمین پر آنا پڑا تھا۔
تو کیا ہمیں ایک دوسرے سے ملنے کیلئے آسمان پر جانا پڑے گا؟
معلم کی دعا آخری مرحلے میں تھی اس نے درمیان میں رک کر اعلان کیا اس ٹیلے پر کی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ اس باران دونوں نے بھی ہاتھ اٹھا دئیے۔ وہ دونوں الگ الگ ایک ہی دعا کر رہے تھے۔ کسی اور جہان میں ایک دوسرے ملنے کی دعا۔ کوہِ وصال سے وہ قابل رشک فراق کے لعل و گہر لے کر لوٹ رہے تھے۔
دیگر زائرین کے ساتھ جب وہ بس میں واپس آ کر بیٹھ گئے تو ناظم نے کہا نازنین اس موقع پر مجھے اپنے پسندیدہ شاعر محسن نقوی کی ایک نظم یاد آتی ہے۔
نازنین بولی میں اس نظم کو سننا چاہتی ہوں
ناظم نہایت مدھم آواز گنگنانے لگا کہ جسے ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں سن سکتا تھا۔ شاید منکر نکیر بھی نہیں ؎
آؤ وعدہ کریں
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
دیدۂ دل کی بے انت شاہی میں ہم
زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم
اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو
فکر کے مو قلم سے تراشی ہوئی
اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو
اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو،
اپنی تقدیر کو
یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم
جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی
بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں
پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے
جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم
آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم
پھر ارادہ کریں۔
نظم ختم ہوئی تو نازنین کی پلکیں پرنم تھیں اور پھر دونوں کرسی سے ٹیک لگا کر سوگئے۔ اس کے بعد جب معلم کے نائب نے جگایا تو بس ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ کہہ رہا تھا ابھی آپ لوگوں کے پاس صرف دو گھنٹے ہیں اس کے بعد ہم لوگ کھانا کھا کر ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہو جائیں گے۔
ناظم نے لفٹ میں کمرے کی جانب جاتے ہوئے نازنین مجھے یقین ہے کہ آپ کو یاد ہو گا کل صبح ہمیں قاضی شہر کے دفتر میں جانا ہے۔
نازنین مسکرا کر بولی جی ہاں ۱۱ بجے کا وقت میں کیسے بھول سکتی ہوں۔
٭٭٭