ناظم کا معمول تھا کہ وہ صبح فجر کی نماز کے بعد چہل قدمی کے لیے نکل جاتا اور ایک گھنٹہ بعد آتا۔ ابتداء میں نازنین صبح دیر تک سوتی تھی تو اسے اس معمول کا علم ہی نہیں ہوا۔ ملازمت کے لیے جب اس نے جلدی اٹھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ یہ صاحب فجر کے بہانے جو جاتے ہیں تو ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد ہی لوٹتے ہیں۔ ایک دن رات میں کھانے کی میز پر اس نے سوال کیا آپ بعد فجر خاصہ طویل وظیفہ پڑھتے ہیں؟
ناظم بولا یہ آپ سے کس نے کہہ دیا بیگم۔ سچ تو یہ ہے کہ سب سے پہلے مسجد سے باہر نکلنے والوں میں سے میں ایک ہوتا ہوں۔
اچھا لیکن گھر پہنچنے والوں میں تو شاید سب سے آخری لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا ہو گا۔
جی ہاں ممکن ہے یہ صورتحال ہو اس لیے کہ بہت سے لوگوں کو علی الصبح کام پر جانا ہوتا ہے اور کچھ واپس آ کر سو جاتے ہیں۔ مجھے دفتر جانے کی کوئی جلدی نہیں ہوتی اور آپ تو جانتی ہیں کہ رات کو جلدی سو جاتا ہوں اس لیے بعد فجرسونے کی حاجت نہیں ہوتی۔
میں آپ کے عادات و معمولات سے پوری طرح واقف ہوں اس لیے جواب میں نہ الجھائیں بلکہ یہ بتائیں کہ واپسی میں تاخیر کیوں ہوتی ہے؟
ناظم کا ما تھا ٹھنکا وہ بولا چلو اچھا ہوا جو نازنین نے اس پر شک تو کیا۔ اس سوال کا سیدھا جواب دینے کے بجائے اس نے بات کو ٹالتے ہوئے کہا میں صبح کہاں جاتا ہوں؟ کس سے ملتا ہوں؟ اور کیا کرتا ہوں؟ یہ جاننے کے لیے آپ کو میرے ساتھ چلنا پڑے گا؟
خیر آپ نہیں بتانا چاہتے تو کوئی بات نہیں جب مجھے جاننا ہو گا تو میں خود آپ کے ساتھ چل پڑوں گی۔
ناظم نے دیکھا کہ اس کا یہ حربہ ناکام ہو رہا تو مزید شک پیدا کرنے کے لیے بولا کہیں دیر نہ ہو جائے؟
کیا مطلب؟
یہی کہ نیک کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
میں نے تو سنا ہے کہ جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے۔
نماز کو جانے میں جو میں جلدی کرتا ہوں تو کیا وہ کوئی شیطانی عمل ہے؟
مجھے آپ کے جلد جانے پر نہیں بلکہ تاخیر سے لوٹنے پر تشویش ہے۔
تو کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس میں کوئی شیطانی فتنہ کارفرما ہے؟
یہ میں کیسے کہہ سکتی ہوں۔ آپ نے بتایا نہیں اور میں نے دیکھا نہیں۔
خیر وقت کے ساتھ سب پتہ چل جائے گا۔ شب بخیر۔ یہ مرحلہ بھی بغیر کسی تلخی کے طے ہو گیا جس پر دونوں کو افسوس تھا۔
سردیوں کا زمانہ تھا۔ نماز کافی تاخیر سے ہوتی تھی اور موسم بھی نہایت خوشگوار ہوتا تھا۔ ایک روز نماز کو جاتے ہوئے ناظم نے دیکھا کہ نازنین صبح صبح ٹیلیویژن پر ورزش کی مشق دیکھ رہی ہے۔ وہ بولا کیا آپ میرے ساتھ چہل قدمی پر چلنا پسند کریں گی؟
نازنین اس سوال پر چونک پڑی اور بولی تو کیا آپ کو میں ابھی سے موٹی لگنے لگی ہوں؟
یہ تو میں نے نہیں کہا۔
تو پھر آپ نے یہ کیوں کہا؟
اس لیے کہ چہل قدمی صحت کیلئے مفید ہے اور آپ ویسے بھی ورزش دیکھ رہی ہیں۔
تو کیا ورزش دیکھنا جرم ہے؟
دیکھنا تو جرم نہیں ہے لیکن ورزش کرنے سے انسان صحت مند ہوتا ہے دیکھنے سے نہیں۔
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ نازنین منہ بگاڑ کر بولی
یہی کہ اچھی صحت کے لیے ورزش کا نظارہ کافی نہیں ہے۔
تو کیا آپ کو میری صحت پر شبہ ہے۔ میں آپ کو بیمار تو نہیں لگتی؟
اگر آپ نہیں اٹھنا چاہتیں تو کوئی بات نہیں بار بار بات کا بتنگڑ بنانے سے کیا فائدہ؟
اچھا تو آپ کا مطلب ہے کہ میں کاہل ہوں؟
ناظم پریشان ہونے لگا تھا کہ یہ آج اس کو کیا ہو گیا ہے وہ زچ ہو کر بولا جی نہیں آپ میرا مطلب نہیں سمجھیں۔
ہاں ہاں مجھے پتہ ہے کہ میں ناسمجھ ہوں اسی لیے آپ کے گلے پڑ گئی اگر سمجھدار ہوتی تو ایسی غلطی نہیں کرتی۔
دیکھو بیگم میں نے یہ نہیں کہا۔ آپ اپنے الفاظ میرے منہ میں کیوں ٹھونس رہی ہیں بلکہ غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔
اچھا تو میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ نازنین روہانسی ہو کر بولی کیا اب یہی سننا رہ گیا تھا۔
آپ بلا وجہ صبح صبح بات کو طول دے کر الجھتی چلی جا رہی ہیں
اچھا تو آپ نے مجھے جھگڑالو بھی بنا دیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آج کون کون سے الزامات سے نوازی جاؤں گی؟
یہ سن کر ناظم کا موڈ پوری طرح چوپٹ ہو گیا اور وہ بیزار ہو کر بولا اس سے تو بہتر ہے کہ میں بھی چہل قدمی کیلئے نہ جاؤں۔
نازنین اٹھلا کر بولی اب پتہ چلا آپ کو جانا نہیں تھا میرا بہانہ مل گیا۔
اچھا اچھا بابا میں تنہا چلا جاتا ہوں
وہ تو مجھے معلوم تھا آپ مجھے کہیں بھی اپنے ساتھ لے کر نہیں جانا چاہتے اکیلے عیش کرنا چاہتے ہیں؟ نہ جانے کیوں میرے والدین نے آپ کے گلے باندھ دیا؟
یہ سوال آپ مجھ سے کیوں پوچھ رہی ہیں؟
جی ہاں جس کی قسمت ہی پھوٹی ہو وہ کس کے آگے ہاتھ پھیلائے؟
اللہ کے آگے۔۔ ۔۔ ۔ چلو میرے ساتھ اقامت ہو چکی ہو گی۔
نماز کے لیے؟ میں مسجد میں جا کر نماز پڑھوں گی؟ آپ کا دماغ تو درست ہے؟
اس میں دماغ کی کیا بات۔ تم تو جانتی ہو کہ ہمارے گھر کے قریب کی بڑی مسجد میں خواتین کے لیے اہتمام ہے؟
مجھے پتہ ہے لیکن یہ جمعہ کا وقت تھوڑی نا ہے؟
جمعہ ہو یا فجر وہاں تو ہر نماز میں خواتین موجود ہوتی ہیں۔
اچھا تو وہ خواتین نماز کے بعد چہل قدمی بھی کرتی ہوں گی؟
کیوں نہیں جن کو اپنی صحت کا خیال ہوتا ہے وہ ٹیلیویژن پر پروگرام دیکھنے پر اکتفاء نہیں کرتے۔
اب آپ کی تاخیر کا سبب میری سمجھ میں آ گیا۔ جائیے ورنہ امام صاحب سلام پھیر دیں گے۔
ناظم بولا جی ہاں آج میں کس مصیبت میں پھنس گیا اور لاحول ولاقوۃ الآ باللہ پڑھتا ہوا بھاگا۔
نازنین نے ہنس کر کہا میں تو سنا تھا شیطان لاحول سن بھاگتا ہے
ناظم جوتا پہنتے ہوئے بولالیکن لاحول پڑھ کر نہیں بھاگتا۔
اس روز ناظم چہل قدمی کرتے ہوئے سوچ رہا تھا آج بات بنتے بنتے بگڑ گئی یعنی اگر اور بڑھتی تو ممکن ہے طلاق تک پہنچ جاتی لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور اسی پر نازنین کو بھی افسوس تھا کہ اس کے اس قدر اکسانے کے باوجود یہ برف سلِ نہیں پگھلی۔ اس کے باوجود وہ دونوں پر امید تھے بہت جلد وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے اور کامیابی ان کے قدم چومے گی۔
وہ دونوں اپنے تئیں یہ چاہتے تھے کہ معاملہ دبئی کے اندر ہی نمٹ جائے اور لکھنو جانے کی نوبت نہ آئے اس لیے کہ وہاں جانا خود اپنے اختیارات کو سلب کر لینے کے مترادف تھا۔
ایک دن رات کھانا کھاتے ہوئے ان وہ ٹیلی ویژن پر ایک سیریل دیکھ رہے تھے جس میں ہیرو کہتا ہے کہ میں نے سنا ہے لوگ شادی کر کے بہت خوش و خرم ہو جاتے ہیں۔ ا س مکالمے کے بعد نازنین نے ٹیلی ویژن کا آواز بند کر دیا اور ناظم سے پوچھا کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں؟
ناظم ہنس کر بولا اتفاق سے زیادہ؟
کیا مطلب؟
اتفاق پلس سمجھ لو اس لیے کہ میں نے دیکھا بھی ہے۔
او ہو اب سمجھی! اچھا کہاں دیکھا ہے آپ نے؟
آئینے میں اور کہاں؟
نازنین کو جواب سے مایوسی ہوئی۔ اچھا تو آپ شادی سے بہت خوش ہیں۔
جی ہاں کیوں نہیں؟ اس میں کیا شک ہے؟ ؟ ؟
نازنین نے حیرت سے سوال کیا۔ کیا میں اس کی وجہ جان سکتی ہوں؟
یہ تو اظہر من الشمس حقیقت ہے کہ انسان کو جب کچھ مل جائے تو وہ خوش ہو جاتا ہے۔
اچھا تو آپ کو اس نکاح سے ایسا کیا مل گیا۔ آپ کے پاس تو پہلے سے ہی اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔
جی ہاں لیکن آپ کہاں تھیں۔ اب آپ کے ملنے کی خوشی ہے۔
نازنین نے سوچا کہ عجیب احمق آدمی ہے لیکن یہ کہنے بجائے سوال کر دیا تو کیا سارے ہی لوگ شادی کے بعد خوش ہوتے ہیں؟
یہ ضروری نہیں ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ کچھ لوگ غمگین بھی ہوتے ہیں؟
جی ہاں کیوں نہیں؟ اب کس کو کیا ملا یہ مقدر کی بات ہے۔
کیا میں غمگین ہونے وجہ دریافت کر سکتی ہوں؟
سبب تو اس کا بھی وہی ہے؟
میں نہیں سمجھی؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خوشی اور غم کی وجہ ایک ہی ہو؟
بھئی انسان جب کسی شئے کو پانے کے بجائے کچھ گنوا دیتا ہے تو وہ خوش نہیں افسردہ ہو جاتا ہے۔
لیکن شادی کے بعد ہر کسی کو اس کا زوج مل جاتا ہے ایسے میں افسردگی چہ معنیٰ دارد؟
دیکھو نازنین انسان بنیادی طور پر تاجر ہے اور وہ ہمیشہ کھونے اور پانے کا حساب کتاب کرتا ہے۔
میں نہیں سمجھی؟
اچھا آپ یہ تو جانتی ہی ہیں کہ انسان کو کچھ پانے کیلئے کچھ گنوانا بھی پڑتا ہے؟
اس سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے یہ تو فطرت کا آفاقی ضابطہ ہے لیکن خوشی اور غم سے اس کا کیا تعلق؟
بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر اس کھونے اور پانے کے سودے میں پائی جانے والی شئے کی قدر و قیمت کم ہو تو وہ غمزدہ ہو جاتا ہے ورنہ خوش رہتا ہے۔
میں اب بھی نہیں سمجھی کہ قدر و قیمت کون طے کرتا ہے؟
ہرانسان خود طے کرتا ہے؟ اسی لیے ایک چیز کی قیمت ایک فرد کے نزدیک مختلف ہوتی ہے اور دوسرے کے لیے الگ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
کیوں نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ کوئی کسی کو پانے کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دیتا ہے اور کوئی پھوٹی کوڑی تک خرچ نہیں کرتا؟
اچھا اگر ایسا ہے تو اپ کے نزدیک میری کیا وقعت ہے؟ پہلی بار نازنین نے براہ راست سوال کر دیا تھا۔
وہی پھوٹی کوڑی والی۔
ایسا کیوں ہے؟
اس لیے بناکسی محنت کے آپ کو میری جھولی میں ڈال دیا گیا ہے۔
کیا کسی کی حیثیت اس کی خاطر کی جانے والی محنت و مشقت ہی سے طے ہوتی ہے؟
جی نہیں محبت بھی اس کے تعین میں بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔
اچھا تو میری محبت کے خانے میں آپ کیا پاتے ہیں؟
میں اس کو بھی خالی پاتا ہوں۔ اس روز ناظم نے صاف گوئی کے ساتھ اس افسانے کو ایک خوبصورت موڑ دینے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
اگر ہماری ایک دوسرے کے نزدیک کوئی قدر و قیمت نہیں ہے تو پھر کیوں نہ پھر سے اجنبی بن جایا جائے؟ نازنین نے بڑی صفائی سے اپنے دل کیفیت کا اظہار کر دیا۔
میں پھر ایک بار آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔ تو کیا میں یہ سمجھ لوں کہ مجھے اس بابت پیش رفت کی اجازت ہے؟
جی ہاں آپ بصد شوق کاغذات تیار کروا سکتے ہیں تاکہ آگے چل کر کوئی خلط مبحث نہ ہو اور ہماری دوستی کے شیشے میں بال نہ آئے۔
ٹھیک ہے کل میں باہر جا رہا ہوں۔ واپس آ کر قاضی صاحب سے تیار کروا لوں گا۔
اچھا لیکن آپ نے مجھے نہیں بتایا؟
جی ہاں اس کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔
تو کیا اب بھی نہیں بتائیں گے؟
کیوں نہیں میں عمرہ کا ارادہ رکھتا ہوں۔
اچھا کوئی خاص دعا کرنی تھی کیا؟ نازنین نے ہنس کر سوال کیا
ناظم بولا دعا تو خیر یہیں قبول ہو گئی لیکن پھر چونکہ ارادہ کر لیا ہے اس لیے اس کو بدلنے کی جرأت نہیں ہے مجھ میں۔
وجہ؟ ؟ ؟
معاملہ اللہ میاں سے ہے اور تم تو جانتی ہو اللہ میاں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
کچھ بھی یعنی کیا؟
یہی کہ آپ کا من بدل سکتے ہیں۔ میں نے سنا ہے انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے بیچ ہوتا ہے وہ اس کو جیسا چاہیں بدل دیں۔
لیکن وہ قادرِ مطلق تو آپ کا بھی دل بدل سکتا ہے۔
بدل تو سکتا ہے لیکن بدلے گا نہیں۔
اس یقین کی کیا وجہ ہے؟
یہی کہ اس کا فرمان ہے۔ وہ کسی کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ انسان خود اپنی کو بدلنے کا خواہشمند نہ ہو۔
تو گویا آپ کا ارادہ مصمم ہے۔
یہی سمجھ لو
مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی لیکن یہاں تنہا انتظار کرنے کے بجائے اگر اجازت ہو تو کیوں نہ میں بھی آپ کے ساتھ چلے چلوں؟
اس میں اجازت کیسی یہ تو میرے لیے سعادت ہے۔
اچھا تو کل کس وقت نکلنا ہے؟
صبح ۱۰ بجے کا جہاز ہے میں ٹور کمپنی سے کہتا ہوں کہ اگر جہاز میں کوئی نشست خالی ہو تو آپ کا بھی ٹکٹ بنا دے۔
اور اگر نہ ہو تو؟
تو میرا ٹکٹ بھی منسوخ کر دے۔
اچھا تو میرے سبب آپ کا ارادہ ڈھل مل ہو گیا۔
جی نہیں اس صورت میں ہم دونوں کی نشستیں کسی اور جہاز سے مختص ہو جائیں گی۔
نازنین خوش ہو کر بولی زہے نصیب۔
٭٭٭